New Age Islam
Tue Dec 10 2024, 05:05 AM

Urdu Section ( 2 Aug 2014, NewAgeIslam.Com)

Comment | Comment

Three Examples from the Quran متشابہات اور محکمات کی تین مثالیں

 

آفتاب احمد، نیو ایج اسلام

قرآن کا یہ اعجاز ہے کہ اس نے دنیا میں واقع ہونے والے واقعات یا سائنسی دریافتوں کے بارے میں جو کچھ بھی چھٹی صدی عیسوی میں بیان کردیا وہ بعد کے زمانے میں حقیقت کا روپ لے چکے ہیں اور یہ سلسلہ آج تک جاری ہے۔ بے شمار ایسے واقعات وجود میں آچکی ہیں جنکی پیشینگوئی قرآن میں کردی گئی تھی مگر انسانی عقل اسے قبول نہیں کرپائی تھی اور مفسرین نے انہیں متشابہات سمجھ لیاتھامگر بعد میں رونما ہونے والے واقعات یا سائنسی دریافتوں اور ایجادات نے ان آیات کو متشرح کردیا اور وہ آیات متشابہات سے آیات محکمات میں تبدیل ہوگئیں۔ در اصل آیات متشابہات مستقل سچائی نہیں ہیں بلکہ اضافی ہیں یعنی یہ آیات مستقبل کے حالات و واقعات کے لئے ہیں ۔ جو آیات کل تک متشابہات تھیں وہ آج بدلتے ہوئے دور کے ساتھ متشرح ہوگئی ہیں اور آیات محکمات میں بدل گئی ہیں۔ اسی طرح آج جن آیات کے مفہوم ہماری سمجھ میں نہیں آتے اور اس لئے انہیں ہم متشابہات سمجھتے ہیں وہ آنے والے دور میں سائنسی دریافتوں کی وجہ سے ہم پر واضح ہوجائینگی اور محکمات میں شامل ہوجائیں گی۔اس سلسلے میں ہم قرآن سے کئی مثالیں دے سکتے ہیں۔

ایک مثال تو فرعون کی دی جاسکتی ہے جس کی لاش کو انیسویں صدی میں دریافت کیا گیا۔قرآن میں خدا فرعون سے کہتاہے:

’’اور ہم تمہیں محفوظ کردیں گے تمہارے جسم میں تاکہ تمہارے بعد آنے والے لوگوں کے لئے ایک نشانی ہو۔‘‘(سورہ یونس: 92)

اس آیت کے مطابق خدا نے فرعون کی لاش کو آنے والی نسلوں کی عبرت کے لئے محفوظ کردیا۔جب تک فرعون کی لاش دریافت نہیں ہوئی تھی، مفسرین اس آیت کی ان کے زمانے تک دستیاب معلومات کی بنا پر تشریح کرتے تھے ۔ اورقیاس اور گمان کی بنا پراس کے مفہوم کا اندازہ کرتے تھے کیونکہ اس وقت تک فرعون کی لاش دریافت نہیں ہوئی تھی۔ لہذا، وہ یہ نہیں سمجھ پاتے تھے کہ اس کی لاش کو محفوظ کردینے کا کیا مطلب ہے۔ مگر جب 1881 میں فرعون کی لاش کی دریافت ہوئی تو اس آیت کا صحیح مفہوم سمجھ میں آگیاکہ خدا نے واقعی فرعون کی لاش کو قیامت تک کے لئے عبرت بنادیا اور اسے اس طرح محفوظ کردیا کہ لوگ اسے دیکھ کر عبرت حاصل کریں اور چند دنوں کی طاقت اور دولت پر غرور نہ کریں۔اس کی لاش قاہرہ کے میوزیم میں محفوظ ہے اور لوگ اسے دیکھ کر عبرت حاصل کرتے ہیں اور قرآن کی حقانیت پر ایمان لاتے ہیں۔

چونکہ اللہ نے فراعنہ کی لاشوں کو محفوظ کرنے کا وعدہ کیا تھا اس لئے اس نے مصر کے لوگوں کو لاشوں کو صدیوں تک محفوظ کرنے (ممی کرنے ) کا فن سکھادیا۔ اتنا ہی نہیں ان ممی شدہ لاشوں کو مضبوط قلعوں میں بند کرنے کے لئے انہیں اہرام تعمیر کرنے کا بھی فن عطا کیا۔لہٰذا، اللہ نے اپنی حکمت سے اپنی آیت کو صحیح ثابت کردیا یدبر الامرکا مفہوم بھی سمجھادیا۔فرعون کی لاش آنے والی نسلوں کے لئے محفوظ ہوگئی۔اس طرح فرعون کے متعلق آیت جو متشابہات میں سے سمجھی جاتی تھی وہ ہمارے زمانے میں محکمات میں شامل ہوگئی۔

دوسری مثال ہے حضرت نوح علیہ السلام کی کشتی کی۔خدا نے قرآن میں نوح علیہ السلام کی کشتی کا ذکر کئی مقام پر کیا ہے۔ ان میں سے ایک آیت ہے:

’’اور ہم نے بچادیا اس کواور اس کے کشتی والے ساتھیوں کو اور ہم نے اسے بنایا نشانی دنیاؤں کے لئے۔‘‘(العنکبوت:15)

اس آیت میں خدا کہتاہے کہ اس نے کشتی کو آنے والی نسلوں کے لئے نشانی بنادیا تاکہ وہ اس سے عبرت حاصل کریں۔ اس آیت کو بھی گذشتہ صدی تک مفسرین قرآن نے متشابہات میں شامل رکھا تھا۔ ان کی رائے میں اس آیت کا مفہوم یہ ہے کہ آج ہم جو کشتیاں دیکھتے اور استعمال کرتے ہیں وہ دراصل نوح علیہ السلام کی کشتی ہی کی طرز پر ہیں گویا اللہ نے نوح علیہ السلام کی کشتی کو آنے والی نسلوں کے لئے محفوظ کردیاہے۔ ظاہر ہے آیت کو اصل مفہوم یہ نہیں تھا۔مگر جب 2007میں ترکی اور ہانگ کانگ کی ایک ماہرین آثار قدیمہ کی ٹیم نے ترکی کی برف پوش پہاڑیوں کی کھدائی کرکے نوح علیہ السلام کی اصل کشتی کو برآمد کرلیا تو اس آیت کا مفہوم ہم پر پوری طرح واضح ہوگیا کہ خدا نے نوح علیہ السلام کی کشتی کو محفوظ کرنے کا جو وعدہ کیا تھااس میں علامتیت نہیں تھی بلکہ وہ عدہ حقیقی تھا ۔ اللہ نے برف پوش پہاڑیوں میں اسے اس لئے چھپادیا تھا تاکہ برف میں وہ خراب نہیں ہوگی اور صدیوں تک محفوظ رہے گی۔

تیسری مثال حال ہی میں رونما ہونے والی سائنسی دریافت ہے۔اس سال مارچ میں سائنسی رسالے نیچر جرنل میں زمین کی سطح سے 400میل نیچے پائے جانے والے پتھر کا ذکر کیا گیا تھا جس کو ringwoodite کہتے ہیں۔ سائنسدانوں نے اس پتھر پر تحقیق کی تو پتہ چلاکہ اس میں پانی کے مسالمے ٹھوس شکل میں موجود ہیں جو ایک خاص درجہ حرارت میں پگھلنے پر پانی میں تبدیل ہوجاتے ہیں۔ اس دریافت کے بعد سائنسداں زمین کے اندرونی حصے یعنی 400میل اندر کی بناوٹ اور پتھروں کی نوعیت کے متعلق تحقیق اور تجربے کرنے میں محو ہوگئے اور آخر انہیں یہ معلوم ہوا کہ زمین کے اندرونی حصے میں جو چٹان کی شکل کی پرتیں ہیں وہ دراصل چٹان نہیں ہیں بلکہ معدنی پانی کا ذخیرہ ہے جسے اللہ نے پتھروں کی شکل میں زمین کے اندر محفوظ کردیاہے۔ اب تک سائنس میں یہی پڑھایا جاتاتھا کہ پانی کی تین شکلیں ہیں ۔۔۔ برف ، بھاپ اور پانی مگر اس دریافت سے اب پانی کی چار شکلیں ہوگئی ہیں جن میں چوتھی شکل پتھریا چٹان ہے۔سائنس دانوں کی تحقیق کے مطابق زمین کے اندر آبی چٹانوں کا صرف ایک فی صد بھی پگھل کر پانی کی شکل اختیار کرلے تواس سے نکلنے والے پانی کی مقدار سطح زمین پر موجود سمندروں کے پانی سے تین گنا زیادہ پانی پیداہوگا۔ اس طرح خدا نے انسانوں کے لئے سطح زمین اور زیر زمین پانی کا اتنا بڑا ذخیرہ رکھ دیاہے کہ قیامت تک اسے پانی کی کمی محسوس نہیں ہوگی۔

اب آئیے اس سلسلے میں قرآن میں موجود آیت کا مطالعہ کریں۔ سورہ بقرہ کی آیت ہے:

’’اور بے شک پتھر ایسے بھی ہیں جن سے ابلتے ہیں دریااور بے شک ان میں ایسے بھی ہیں جو پھٹ جاتے ہیں اور ان سے نکلتاہے پانی اور بے شک ان میں ایسے بھی ہیں جو گرپڑتے ہیں اللہ کے ڈر سے۔‘‘(74)

یہ آیت بھی اوپر نقل کی گئی آیتوں کی طرح مشکل تھیں کیونکہ اب تک پتھروں کے پھٹنے اور ان سے پانی نکلنے کی سائنسی توضیح نہیں دستیاب ہوئی تھی اور مفسرین بھی اس آیت کی تفسیر کے وقت قیاس اور گمان سے کام لیتے تھے اور اس آیت کی کوئی عقلی دلیل پیش کرنے سے قاصرتھے۔لیکن نارتھ ویسٹرن یونیورسٹی اور میکسیکو یونیورسٹی امریکہ کے سائنسداں اسٹیو جیکب سن اوربرانڈن شومانٹ کی اس تحقیق نے قرآن کی اس آیت کے مفہوم کو سائنسی نقطہ نظر سے بھی ثابت کردیاہے اوریہ آیت بھی متشابہات میں سے نہیں رہ گئی ہے۔

قرآن میں ایسی بے شمار آیتیں ہیں جو سائنسی حقائق کو پیش کرتی ہیں اور ان میں سے بیشتر سائنسی دریافتوں اور ایجادات کا پیش خیمہ ثابت ہوئی ہیں مگر اس مضمون میں ان تین حقائق کا ذکر کیا گیا۔قرآن میں جن مزید حقائق کا ذکر کیاگیاہے وہ مستقبل قریب و بعید میں دنیا کے سامنے واضح شکل میں آجائیں گی کیونکہ قرآن خدا کا کلام ہے جس کے کسی بھی بیان میں ذرہ برابر شک و شبہ کی گنجائش نہیں ہے۔ذلک الکتاب لاریب فیہ ۔

URL:

https://newageislam.com/urdu-section/three-examples-quran-/d/98381

Loading..

Loading..