آفتاب احمد، نیو ایج اسلام
30 اپریل2014
مسلمانوں کے درمیان ایک ایسا گروپ موجود ہے کہ جس کی رائے یہ ہے کہ تصوف اسلام کے ساتھ ہم آہنگ نہیں ہے۔ ان کا ماننا ہے کہ تصوف رہبانیت کی طرح ہے جسے عیسائیوں نے اپنایا۔ لیکن قرآن مجید کی مختلف آیات کے مطالعہ سے ہم اس نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ تصوف قرآن کے بنیادی اصولوں پر مبنی ہے اور یہ اسلام کا ایک حصہ ہے۔
لفظ صوفی کی اصل کی بہت ساری مختلف وضاحتیں ہیں لیکن سب سے زیادہ قابل قبول اصل (اصحاب صفہ) کی اصطلاح معلوم ہوتی ہے۔ عربی میں صفہ کا مطلب کوئی سایہ دار جگہ ہے۔ صفہ مسجد نبوی میں وہ سایہ دار جگہ تھی جہاں بے گھر اور غریب صحابہ قیام کرتے تھے اور دن رات حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت میں وقت گزارا کرتے تھے۔ وہ غریب تھے اور انہوں نے ایک انتہائی زاہدانہ زندگی بسر کی۔ وہ 70 یا 80 کی تعداد میں تھے اور وقت کے ساتھ ساتھ ان کی تعداد میں کمی بیشی ہوتی رہی۔ انہوں نے ایک قناعت پسند اور سادہ زندگی بسر کی۔
مرور زمانہ کے ساتھ ساتھ اس طرح ایک سادہ زندگی گزارنا ان مسلمانوں کا طرز زندگی بن گیا جو پورے پورے دن خدا کی عبادت اور مراقبہ میں مصروف رہا کرتے تھے۔ انہوں نے دنیاوی لذتوں اور زندگی کی آسائشوں کو تج دیا۔ 8ویں صدی میں یہ اسلامی طرز زندگی ایک مکتب کی شکل اختیار کرگئی جس میں مراقبہ، بکثرت ذکر خدا، نماز اور قلت طعام جیسے بعض قوانین اور اصولوں مرتب کئے گئے تھے۔ بنیادی طور پر یہ طرز زندگی کوفہ میں پھلی پھولی اور اس کا نام تصوف قرار پایا۔ سب سے پہلے جس نیک شخص کو صوفی کہا گیا اس کا نام ابو ہاشم الکوفی تھا۔ لوگ اسے صوفی ابو ہاشم الکوفی کہتے تھے۔ ایک اور شخص جسے صوفی کہا گیا وہ ایک شیعہ ماہر کیمیا دان جابر بن حیان تھا۔ اسلامی روحانیت کے ایک مکتب کے طور پر تصوف کی بنیاد کوفہ میں پڑی اور وہیں اسے فروغ بھی حاصل ہوا۔ اور اس کے بعد اویس قرنی، حسن بصری اور عبدالقادر جیلانی جیسے بڑے بڑے اصفیاء پیدا ہوئے۔
جہاں تک قرآن کا تعلق ہے اس میں کم از کم چھ آیات ایسی ہیں جن میں صوفی معمولات کی طرف اشارہ موجود ہے اگرچہ ان میں براہ راست تصوف کا کوئی ذکر نہیں ملتا۔
"اور اپنے پروردگار کو دل ہی دل میں عاجزی اور خوف سے اور پست آواز سے صبح وشام یاد کرتے رہو اور (دیکھنا) غافل نہ ہونا۔ "(الاعراف: 205)
مندرجہ ذیل آیت کا تعلق نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بیعت کا عہد لینے کے لیے آنے والی عورتوں سے ہے جو کہ تصوف میں ایک عمل ہے جس میں شاگرد راپنے وحانی رہنما سے بیعت کا عہد کرتا ہے۔
‘‘اے پیغمبر! جب تمہارے پاس مومن عورتیں اس بات پر بیعت کرنے کو آئیں کہ خدا کے ساتھ نہ شرک کریں گی نہ چوری کریں گی نہ بدکاری کریں گی نہ اپنی اولاد کو قتل کریں گی نہ اپنے ہاتھ پاؤں میں کوئی بہتان باندھ لائیں گی اور نہ نیک کاموں میں تمہاری نافرمانی کریں گی تو ان سے بیعت لے لو اور ان کے لئے خدا سے بخشش مانگو۔ بےشک خدا بخشنے والا مہربان ہے’’۔ ( الممتحنہ : 12)
"اور صبح اور شام اس کی پاکی بیان کرتے رہو۔ ۔"( الاحذاب 42-43)
مندرجہ بالا آیت میں آہستہ اور بلند آواز سے صوفیوں کے وہ ذکر و اذکار مراد ہیں جو وہ صبح و شام کرتے ہیں۔ صوفیاء قناعت پسندی، دنیاوی عیش و آرام کو تجنا اور مکمل طور سے خدا پر انحصار اور اسی پر بھروسہ کرنے جیسے تمام اسلامی اصولوں کی پیروی کرتے ہیں۔
آنے والی آیت میں لفظ ‘‘وسیلہ’’ سے مراد دوبارہ پھر وہی سورہ ممتحنہ کی آیت 12 ہے جہاں اللہ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو ان خواتین کے عہد کو قبول کرنے کی ہدایت دی ہے جو قرب خدا وندی حاصل کرنے کے لیے ‘‘وسیلہ’’ تلاش کرتی ہیں۔ ایک روحانی رہنما شاگرد کو خدا کی قربت کی طرف لے جاتا ہے۔
"اے ایمان والو! خدا سے ڈرتے رہو اور اس کا قرب حاصل کرنے کا ذریعہ تلاش کرتے رہو اور اس کے رستے میں جہاد کرو تاکہ رستگاری پاؤ۔"(المائدہ: 35)
لہٰذا یہ معلوم ہوا کہ قرآن تصوف کو اسلام کی ایک شاخ کے طور منظور کرتا ہے اس لیے کہ صوفیاء اسلامی اصولوں پر عمل کرتے ہیں اور تصوف وسیلہ (پیری-مریدی) کے عمل پر مبنی ہے ۔
آفتاب احمد نیو ایج اسلام کے کالم نگار اور ایک فری لانس صحافی ہیں۔ وہ کچھ عرصے سے قرآن مجید کا مطالعہ کر رہے ہیں۔
URL for English article:
https://newageislam.com/islamic-society/quran-sufism/d/76796
URL for this article: