New Age Islam
Thu Mar 23 2023, 05:22 AM

Urdu Section ( 28 May 2015, NewAgeIslam.Com)

Comment | Comment

Khushhal Khan's influence on Iqbal's thought علامہ اقبال کی فکر پر خوشحال خان کا اثر

 

آفتاب احمد، نیو ایج اسلام

یہ تیری کم نگہی کا قصور ہے ورنہ

افق کے پار بھی ناداں کئی جہاں ہیں ابھی

ذرا کچھ اور بھی قلب و نظر کو وسعت دے

زمینیں کتنی ہیں اور کتنے آسماں ہیں ابھی

سن اور غور سے سن عرش سے بزرگ انساں

خرد کی گرد کے دامن میں کارواں ہیں ابھی

خودی کو کھویا تو پھر جان لے خدا بھی نہیں

خودی کو پایا تو اس ذات سے جدا بھی نہیں

مندرجہ بالا اشعار کو دیکھ کر پہلی نظر میں ایسا محسوس ہوتاہے کہ یہ اشعار اقبال ؔ کے ہیں جنہوں نے فلسفہ ء خودی پیش کیا اور مرد مومن کے لئے شاہین کی علامت کو اردو شاعری میں پیش کرکے عالم اسلام میں ایک فکری انقلاب پیدا کردیاتھا۔ انہوں نے عالمی ادب اور فلسفے کے مطالعے کے بعد یہ نتیجہ اخذ کیاتھا کہ تصوف بالخصوص فلسفہ ء وحدت الوجود مسلمانوں کی قومی زندگی کے لئے سم قاتل ثابت ہوا ہے اور مسلمان عمل سے دور اور گوشہ نشینی دنیا بیزاری اور قنوطیت کے شکار ہوچکے ہیں۔ ان کے قومی اور ملی قویٰ مضمحل ہوچکے ہیں جس کی وجہ سے ان کے اندر سے قومی حمیت اور غیرت ناپیدہوچکی ہے اور وہ اقوام عالم کے دست نگر ہوچکے ہیں ۔ لہٰذا، انہوں نے مسلمانوں میں قومی حمیت و غیرت کی بیداری کے لئے خودی کا فلسفہ وضع کیا اور ایک سچے مرد مومن میں شاہین کی صفات کا ہونا ضروری قراردیا۔انہوں نے اسلامی تصوف کا جو تصور پیش کیا اس میں خودی کو فنا کرنے کے برعکس خودی کو ترقی دینے کی وکالت کی۔ ان کے خیال میں خودی کو اگر فنا کردیاجائے یا پھر اپنی بشریت کی انسان نفی کردے تو پھر عمل کا سوال ہی نہیں اٹھتا اس لئے ان کے نزدیک خودی کو ترقی دینا یعنی انسان کی حیثیت سے اپنے وجود کو اسلامی بنیادوں پر استوارکرناہی عین اسلامی تصوف تھا ۔ ماہرین اقبالیات نے فکر اقبال کے بغور مطالعہ کے بعد یہ خیال ظاہر کیا کہ اقبال نے شعری نظریات کی تشکیل میں رومی، نطشے ، فتشے وغیرہ کے خیالات نے اہم کردار اداکیاہیمگر انہوں نے ایک اور شاعر اور مفکر کا نام یا تو قصداً نہیں لیا یا پھر ان پر انکی نظر نہیں گئی۔ وہ شاعر فلسفی اور صوفی ہیں خوشحال خان خٹک جو اورنگ زیب کے زمانے میں مغلوں کی فوج کے منصب دار بھی تھے اور ایک صاحب اسلوب شاعر بھی ۔ مندرجہ بالا اشعار خوشحال خان خٹک کے پشتو اشعار کا اردو ترجمہ ہیں ۔ ان میں علامہ اقبال کی فکر کا عکس بلکہ یہ کہنا چاہئے کہ اقبال کی شاعری میں خوشحال خان کی فکر کا عکس دکھائی دیتاہے۔ علامہ اشعار کے چند اشعار پیش ہیں جو اسی موضوع یا فلسفہ کو پیش کرتے ہیں جو مندرجہ بالا اشعار میں پیش کئے گئے ہیں۔

ستاروں سے آگے جہاں اور بھی ہیں

ابھی عشق کے امتحاں اور بھی ہیں

تو شاہیں ہے پرواز ہے کام تیرا

تیرے سامنے آسماں اور بھی ہیں

خوشحال خان خٹک موجودہ پاکستان اور افغانستان کے سرحدی علاقے سے تعلق رکھتے تھے۔ان کے اورنگ زیب سے تعلقات خراب ہونے کے بعدکسی سازش یا غلط فہمی کی بنیاد پر اس نے خوش حال خان کو ڈھائی برسوں کے لئے قید کردیاتھا۔ قید سے چھوٹنے کے بعد وہ اورنگ زیب اور مغلوں سے متنفر ہوگیا۔ اس کے والد شہباز خان مغل حکومت سے وابستہ تھے ۔ خوشحال خان کے ساتھ اس توہین آمیز سلوک کی وجہ سے اس کی افغانی غیرت جاگ اٹھی اور اس نے مغلوں سے افغانستان کو آزاد کرانے کے لئے اپنی ساری طاقت صرف کردی ۔اس نے مغل فوج کو کئی معرکوں میں شکست فاش دی ۔ حتی کہ اورنگ زیب اس کی سرکوبی کے لئے خود فوج لیکر اس کے خلاف صف آرا ہوا جس میں خوشحال خان کو شکست ہوئی۔ پھر مغلوں نے افغان قبائل کو مکر اور سیاست کی مدد سے انہیں دولت اور منصب کا لالچ دے کر منتشر کردیا یہاں تک کہ خوشحال خان کا اپنا بیٹا اس کا دشمن ہوگیا۔آخر عمر میں خوشحال خان اپنے ہی لوگوں کی غداری اور بے ضمیری سے بہت ٹوٹ گیا ۔ مغلوں نے اسے بھی رام کرنے کے لئے بہت کچھ لالچ دیا مگر اس کی خودداری اور غیرت متزلزل نہیں ہوئی ۔ اس نے دو اشعار میں وصیت کی کہ اس کی موت کے بعد اس کی لاش کو ایس جگہ دفنایا جائے جہاں مغل فوج کے شہسواروں کی گرد بھی نہ پہنچ سکے۔ یہ مغلوں سے اس کی نفرت کی انتہاتھی۔اس کے اشعارملاحظہ ہوں

مجھے دفن جب میرے ہمدم کریں

وصیت مری ان کو ملحوظ ہو

بنائیں لحد میری ایسی جگہ

مغل شہسواروں سے محفوظ ہو

علامہ اقبال نے اپنے نظریات کی تشکیل میں خوشحال خان کا اثر قبول کیا یہ صرف قیاس نہیں ہے بلکہ خود بالِ جبریل میں اقبال ؔ نے خوشحال خان کی شاعری سے اپنی واقفیت کا اظہار کیاہے۔ انہوں نے خوشحال خان کے افکار کے عنوان سے ایک نظم لکھی ہے جس میں انہوں نے خوشحال کی وصیت کے مضمون کو اردو کے قالب میں ڈھالاہے ۔

قبائل ہوں ملت کی وحدت میں گم

کہ ہو نام افغانیوں کا بلند

محبت مجھے ان جوانوں سے ہے

ستاروں پہ جو ڈالتے ہیں کمند

مغل سے کسی طرح کمتر نہیں

قہستاں کا یہ بچہ ء ارجمند

کہوں تجھ سے اے ہم نشیں دل کی بات

وہ مدفن ہے خوشحال خاں کو پسند

اڑاکر نہ لائے جہاں بادِ کوہ

مغل شہسواروں کی گرد سمند

اقبال نے اس نظم کے حاشئے میں یہ نوٹ لکھاہے۔

’’خوشحال خان پشتو زبان کا مشہور وطن دوست شاعر تھا جس نے افغانستان کو مغلوں سے آزاد کرانے کے لئے سرحد کے افحانی قبائل کی ایک جمعیت قائم کی۔قبائل میں صرف آفریدیوں نے آخر دم تک اس کا ساتھ دیا۔ اس کی قریباً ایک سو نظموں کا انگریزی ترجمہ 1862ء میں لندن میں شائع ہواتھا۔‘‘ (اقبال ، بال جبریل )

دراصل اقبال ہی نے سب سے پہلے اس نظم کے ذریعے سے اور نوٹ لکھ کر بالِ جبریل میں اردو دنیا سے خوشحال خان کو روشناس کرایا۔

یوروپ میں اپنے قیام کے دوران علامہ اقبال نے خوشحال خان خٹک کی نظموں کا انگریزی ترجمہ پڑھا تھا اور اس کے شاعرانہ افکار سے متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکے تھے۔کیونکہ خوشحال بھی کم وبیش انہیں افکار ونظریات کا حامل تھا جو اقبال کے ذہن میں پرورش پارہے تھے ۔ اس نے مغلوں کی غلامی پر آزادی کی زندگی کو ترجیح دی اور عیش و عشرت کی بے مقصد زندگی کے بجائے ایک مقصد ، افغانیوں کو مغلوں کی غلامی سے آزاد کرانے کے لئے ساری زندگی جد وجہد کی۔ وہ اپنے اشعارکے ذریعے سے جہد مسلسل اور عمل پہہم کی تعلیم دیتاہے اور شہباز یا شاہین کی طرح درویشانہ زندگی بسر کرنے کو انسانیت کی معراج سمجھتاہے۔ وہ اپنے بے شمار اشعار میں اپنے ان خیالات کا اظہار کرتاہے جن کی بازگشت ہم بعد کے زمانے میں اقبال کی شاعری میں سن سکتے ہیں۔ان کے چند اشعار ملاحظہ ہوں۔

مرد وہ ہے رہے جو گرم عمل

عیش و آرام کو وہ کیا جانے

عندلیبوں کا یہ تو حصہ ہے

نغمگی باز کی بلا جانے

یہ اشعار بھی ملاحظہ فرمائیں جس میں اس کے افکار روشن ہیں

نہیں محدود یہ میری اڑانیں

جو اک مقصد ہوا پورا تو پھر کیا

ابھی تو کتنے مقصد سامنے ہیں

وطیرہ ہے یہ مردان جری کا

نہیں رکتے وہ منزل پر پہنچ کر

عمل سے ہے عبارت زندگانی

عمل سے ہے وقارزندگانی

خودی کا لفظ ہندوستانی شعرا ء کے یہاں استعمال ہواہے مگر صرف وحدت الوجود کے موضوعات کے پس منظر میں ہی آیاہے ۔ وحدت الوجود کے نظرئیے کے مطابق وجود مطلق صرف ایک ہے اور باقی تمام مظاہر اس کا پرتو ہیں۔ لہٰذا، انسان بھی اسی واجب الوجود کا ایک پرتو ہے ۔وحدت الوجود کا نظریہ اسلام میں ویدانت کے فلسفے سے آیا یہ بات تحقیق سے ثابت ہوچکی ہے گو کہ وحدت الوجود کے حامی علماء و فلاسفہ قرآنی آیات سے اس کی دلیل لاتے ہیں۔ اسی بنا پر اس فلسفہ کی مخالفت کرنے کے باوجود اقبال نے ابن عربی کی مذمت نہیں کی کیونکہ انہوں نے اس کے لئے دلائل قرآن سے پیش کئے تھے۔ اس فلسفے کی رو سے انسان تب تک واجب الوجود کا عرفان حاصل نہیں کرسکتا جب تک کہ وہ اپنی خودی کو نہ مٹادے ۔ ولیؔ سے لیکر سراج اور سودا سے لیکر درد ؔ اور نیازؔ بریلوں تک سارے شعراء خودی کا لفظ اسی خیال کو پیش کرنے کے لئے لاتے ہیں۔ مثال کے طور پر چند اشعار پیش ہیں۔

خودی سے اولاً خالی ہو اے دل

اگر اس شمع روشن کی لگن ہے

ولی دکنی

دیکھا ہے اک نگہ میں حقیقت کے ملک کوں

جب بے خودی کی راہ میں دل نے سفر کیا

ولی ؔ دکنی

روح کو کیوں بے خودی مقصود ہے

عشق بے حد ہے خودی محدود ہے

اکبر الہ آبادی

اے سراج اپنی خودی کو بے خودی میں محو کر

شغل جاری رکھ ہراک دم ہوالرحمن کا

سراج اورنگ آبادی

باہر نہ ہوسکی تو قید خودی سے اپنی

اے عقل بے حقیقت دیکھا شعور تیرا

دوسرے شعراء نے بھی گو لفظ خودی کا استعمال نہیں کیا مگر اسی مضمون کو دوسرے الفاظ میں پیش کیا۔ مثلاً

اے ہوش الوداع کہ ہے بزم بے خودی

اب میں رہا نہ ذوق تماشہ رہامجھے

امرناتھ ساحر

اس طرح اردو کے شعرا ء نے تصوف کے وحدت الوجودی نظرئیے کو نہ صرف اپنایا بلکہ اس کی تبلیغ کی اس صف میں مرزا غالب سب سے آگے ہیں جنہوں نے اپنے اشعار میں وحدت الوجود کو ہرزاوئیے سے اور ہر رنگ میں پیش کیا۔مگر انہوں نے کہیں بھی خودی کا لفظ غالباً استعمال نہیں کیا۔گوپی چند نارنک اس فلسفے سے متعلق اپنی کتاب ’’اردو غزل اور ہندوستانی ذہن و تہذیب ‘‘ میں فرماتے ہیں:

جب خودی زائل ہوجاتی ہے تو ماسوا کا احساس باقی نہیں رہتا اور ہر طرف وحدت مطلق کارفرما ہوتی ہے یعنی موجود و موہوم ، معلوم و نامعلوم، حق کے ماسوا سب معدوم ہوجاتے ہیں ۔ ہندوستانی ذہن کا نقطہ انتہا تسلیم خودی (فنائے نفس) کی یہی کیفیت ہے جہاں موضوع اور معروض کا فرق مٹ جائے۔‘‘

وہ مزید فرماتے ہیں’’غرضیکہ اردو غزل شعور حقیتقت کے بنیادی تجربے کی توجیہہ وحدت وجود، عرفان ذات ، اور تسلیم خودی کی رو سے کرتی ہے۔وہ موجودات کو حقیقی قرار نہیں دیتی اور تلقین کرتی ہے کہ نفس انفرادی موجودات سے وابستہ ہوکر نہ رہ جائے بلکہ عرفان ذات پر توجہ مرکوز کرے اور خودی کو لامحدود نفس کلی سے ہم آہنگ کرکے کائنات کے سوزو ساز سے ہم آہنگی پیداکرے۔‘‘

ماہر غالبیات خلیفہ عبدالحکیم بھی کہتے ہیں ’صوفیہ کی اصطلاح میں خودی نفس کی اس کیفیت کا نام ہے جو محدود کے ساتھ وابستہ ہوجاتی ہے۔اسی طرح ہستی اور خودی جا بجا مترادف استعمال ہوتے ہیں۔علامہ اقبال کے ہاں خودی کی اصطلاح نے دوسرے معنی پہن لئے ہیں۔ وہ روح کی حقیقت کے لئے خودی کا لفظ استعمال کرتے ہیں۔ اسی لئے خودی کی ترقی کو عشق حقیقی کی ترقی قرار دیتے ہیں۔ (افکار غالب ، حالب انسٹی ٹیوٹ)

علامہ اقبال نے خودی سے متعلق جو اشعار کہے ہیں ان میں سے چند پیش ہیں جو خودی کے متعلق ان کے نظریے کے غماز ہیں

خودی ہو زندہ تو ہے فقر بھی شہنشاہی

نہیں ہے سنجر وطغرل سے کم شکوہ فقیر

خودی ہو زندہ تو دریائے بیکراں پایاب

خودی ہو زندہ تو کہسار پر نیان و حریر

۔۔

خودی کی پرورش و تربیت پہ ہے موقوف

کہ مشت خاک میں پیدا ہو آتش ہمہ سوز

۔۔

اے کہ ہے زیر فلک مثل شرر تیری نمود

کون سمجھائے تجھے کیا ہیں مقامات وجود

گر ہنر میں نہیں تعمیر خودی کا جوہر

وائے صورت گری و شاعری و نائے وسرود

یہ ہیں چند اشعار جن سے خودی سے متعلق اقبال کے نظرئیے کی وضاحت ہوجاتی ہے۔ جیسا کہ خلیفہ عبدالحکیم نے فرمایا اقبال کے یہاں خودی کی اصطلاح نے دوسرے معنی پہن لئے ہیں ۔ وہ خودی کو مٹانے کی نہیں بلکہ خودی کی تربیت ، تعمیر و ترقی کو عشق حقیقی کی ترقی اور عرفان الہی کا ذریعہ قرار دیتے ہیں۔

اب خودی سے متعلق خوشحال خان کے اس شعر پہ نظر ڈالتے ہیں جو ہم نے آغا ز ہی میں نقل کیا

خودی کو کھویا تو پھر جان لے خدا بھی نہیں

خودی کو پایا تو اس ذات سے جدا بھی نہیں

یہاں خودی کا وہی مفہوم لیاگیاہے جو بعد میں اقبال نے پیش کیا۔ خوشحال خان متصوفانہ افکار کے حامل تھے مگر اس کے ساتھ ہی ایک شہسوار اور جاں باز سپاہی اور جرنیل بھی تھے ۔ وہ خوددار اور غیرت مند بھی تھے اور دل کی صفائی اور اخلاقی بلندی سے بھی متصف تھے ۔ یہ وہی اوصاف ہیں جو علامہ اقبال کے نزدیک ایک انسان کو مرد مومن بناتے ہیں۔خوشحال خان اپنے شعر میں اردو کے صوفی شعرا ء کی طرح خودی کو مٹادینے کی نہیں بلکہ خودی کو ترقی دینے کی تلقین کرتے ہیں۔ ان کے نزدیک خدا کا عرفان خودی کو کھو کر یا مٹاکر نہیں بلکہ اسے مستحکم کرکے حاصل کیا جاسکتاہے۔

غالباً خوشحال خان نے ہندوستان میں لفظ خودی کا پہلی بار استعمال کیا ۔ ولی ؔ دکنی اردو کے پہلے صاحب دیوان شاعر تھے اور ان کی شاعری میں خودی لفظ آیاہے مگر خودی کو مٹانے کے حوالے سے۔ خوشحال خان ولی دکنی کے پیش رو ہیں۔ خوشحال خان جب اپنی عمر کے آخری مرحلے میں تھے تو ولی دکنی کی پیدائش ہوئی تھی۔خوشحال خان کی وفات ۱۶۸۹ء میں ہوئی جبکہ ولی دکنی کی پیدائش ۱۶۶۷ء میں ہوئی ۔ لہٰذا، یہ کہاجاسکتاہے کہ لفظ خودی کا استعمال برصغیر کی شاعری میں سترہویں صدی میں پہلی بار خوشحال خان نے ہی کیا اور وہ بھی اسی معنی میں جس معنی میں اقبال نے بیسویں صدی میں کیا۔

اقبال نے مرد مومن کا جو تصور قرآن کی روشنی میں پیش کیا وہ بھی ان کے پیش رو مفکرین کے افکار سے متاثر ہے۔ نیاز محمد عاجز اپنے مضمون ’’مثالی انسان سے متعلق خوشحال کا تصور‘‘ میں لکھتے ہیں:

’’بہت سے فلاسفہ نے مثالی انسان سے متعلق اپنے تصورات پیش کئے ہیں۔اس سلسلے میں الجبلّی کا مکمل انسان، اقبال کا مرد مومن اور نطشے کا سپر مین بہت مشہور ہیں۔‘‘

وہ مزید لکھتے ہیں:

’’الجبلیّ نے اپنی کتاب ’’مکمل انسان ‘‘ میں مکمل انسان کا تصور پیش کیا۔ا س نے اپنا تصور قرآنی تعلیمات کی روشنی میں پیش کیا۔یہی وجہ ہے کہ چند صفات کی روشنی میں اس کا مکمل انسان اقبال کے مرد مومن سے بہت حد تک مشابہ ہے۔پھر بھی اس کی (مکمل انسان ) کی شبیہ اتنی واضح نہیں ہے جتنی کہ اقبال کے مرد مومن کی۔خوشحال خان خٹک بھی ان فلاسفہ میں سے ہیں جنہوں نے ایک مثالی انسان کا تصور پیش کیا جسے وہ اپنی اصطلاح میں ننگ یال کہتے ہیں۔‘‘

ننگ (خودداری و وقار) جس میں ہو وہ خوشحال کے نزدیک ننگ یال ہے اور خوشحال کاننگ یال بھی قرآنی تعلیمات سے مزین ہے۔پشتو ادیب اجمل خان خٹک اقبال اور خوش حال کے مرد مومن اور شاہین کے متعلق کہتے ہیں۔

’’خوشحال خان نے پہلی بار مکمل انسان اور خودی کا تصور پیش کیا اور اپنے مثالی انسان کے لئے شاہین کی علامت استعمال کی۔ایسا معلوم ہوتاہے کہ علامہ اقبال نے یہ تصورات ان (خوشحال خان ) سے مستعار لئے اور انہیں جدید اردو شاعری میں پیش کیا۔‘‘

خوشحال خان خٹک موجودہ پاکستان اور افغانستان کے سرحدی علاقے میں پیداہوئے ۔ پہاڑی علاقے سے تعلق رکھنے کے ناطے انہوں نے شاہین یا باز کو بہت قریب سے دیکھا تھا۔ وہ ان کے خصائل اورطرز زندگی سے اچھی طرح واقف تھے۔ وہ باز یا شاہین سے اتنے متاثر تھے کہ انہوں نے ایک پوری کتاب ہی پشتو زبان میں ’’بازنامہ ‘‘ کے نام سے تصنیف کی جو نظم کی ہئیت میں ہے۔ اس کتاب میں انہوں نے باز کی زندگی، عادات واطوار، غذا وغیرہ سے متعلق تفصیلی جانکاری دی ۔خوشحال خان کے والد کا نام شہباز خان تھا اور خوشحال خان نے اپنے ایک بیٹے کا نام بھی باز ؔ خان رکھا تھا۔ اس سے باز یا شاہین سے ان کی ذہنی قربت کا انداز ہ لگایاجاسکتاہے۔ان کی شاعری میں باز، شہباز اور شاہین کا ذکر بار بار آیاہے ۔چند اشعار کے تراجم ملاحظہ ہوں۔

مرے افکار ہر دم بن کے شہباز

مسرت کے لئے ہیں محو پرواز

ایک معرکے میں جب اس کی فوج مغل فوج کو شکست دیتی ہے تو وہ کہہ اٹھتاہے

پھر مری قوم کے جوانوں نے

اپنے ہاتھوں کو کرلیا ہے سرخ

جیسے شاہین صید سے اپنے

تیز پنجوں کو سرخ کرتاہے

جب اورنگ زیب لشکر لیکر اس کے خلاف لاہور پہنچ جاتاہے تو اس موقع پر خوشحال کہتاہے

زاغ اور شہباز کا ہے معرکہ

کل بہیں گی رن میں خوں کی ندیاں

زاغ شہبازوں سے کھائیں گے شکست

محو حیرت ہونگے سب خوشحال خان

وہ اپنے متعلق کہتاہے

میں اک شاہیں ہوں کوہستان روہ کا

اڑانیں میری لاحاصل نہیں ہیں

میں اپنے صید پر جھپٹوں گا جسدم

اچک لوں گا اسے شہباز بن کر

اڑوں گا اور اوپر اور اوپر

جھپٹتا اور اڑتا ہی رہونگا

اقبال نے بھی اپنی نظم شاہین میں کہاتھا

لپٹنا جھپٹنا پلٹ کر جھپٹنا

لہو گرم رکھنے کا ہے اک بہانہ

خوشحال اپنے عشقیہ خیالات کے اظہار کے لئے بھی با ز اور شہباز کا استعمال کرتاہے

چھوڑ دیتاہو اگر شہباز اپنے صید کو

چھوڑ دوں گا میں بھی اے خوشحال اس محبوب کو

بوسہ بازی اس بت مہ وش سے درپردہ رہے

چھپ کے ہی کھاتاہے اپنے صید کو شہباز بھی

۔۔

تیرے آجانے سے یوں شاد نظر آتاہوں

جیسے بھاگا ہوا شہباز مرالوٹ آیا

باز ہے آنکھ تری پلکیں ہیں پنجے اس کے

دل کو زخمی کیا اس باز نے اور تڑپایا

۔۔

عقل کی کونجیں ، صبر کی قازیں

کتنی سبک رفتار ہیں لیکن

تیری نگاہوں کے شاہیں سے

ان کے جگر افگار ہیں لیکن

۔۔

شاہین سے متعلق اقبال ؔ کے مشہور اشعار پیش ہیں

بیاباں کی خلوت خوش آتی ہے مجھکو

ازل سے ہے فطرت مری راہبانہ

پرندوں کی دنیا کا درویش ہوں میں

کہ شاہیں بناتانہیں آشیانہ

۔

نہیں تیرا نشیمن قصر سلطانی کے گنبد پر

تو شاہیں ہے بسیرا کر پہاڑوں کی چٹانوں پر

خوشحال خان مرد مومن (ننگ یال) میں جو اوصاف دیکھنے کا متمنی ہے وہ ہیں فقر ، صفائے قلب خودداری . گرمی ء عمل وغیرہ۔

انکی نگاہیں بلند ان کے عزائم جوں

غیرت و ہمت سے وہ سیتے ہیں سینے کے چاک

بات جو منہ سے کہیں کرکے دکھاتے ہیں وہ

مومنوں کے منہ بھی پاک ، مومنوں کے دل بھی پاک

۔۔

مومن وہ ہے کہ خوف خدا سے ہو دل گداز

مومن وہ ہے کہ جس کا یقیں استوار ہو

۔۔

قلب درویش سے اس کوکوئی نسبت ہی نہیں

جام ہوکہ وہ آئینہ ء اسکندر ہو

پادشہ چیز بھلا کیاہے فقیروں کے حضور

خود بخود جھکتاہے وہ خوا ہ فلک کا سر ہو

مختصر یہ کہ علامہ اقبال نے جہاں اپنے شعری نظریات کی تشکیل میں یوروپی ، عربی اور عجمی مفکرین، شعرااور صوفیہ سے اثر قبول کیا وہیں انہوں نے عظیم پشتوْ شاعر و مفکر خوشحال خان کی فکر سے بھی استفادہ کیا۔ حالانکہ اقبال ؔ کے فکری ماخذ پر کافی کچھ تحقیق ہوچکی ہے مگر اقبال ؔ اور خوشحال ؔ کی ذہنی و فکری ہم آہنگی پر ابھی بہت کام ہونا باقی ہے ۔

(خوشحال خان کے اشعار کے اردو تراجم فارغ بخاری اور رضاہمدانی کی کتاب ’’خوشحال خان کے افکار‘‘ سے ماخوذ)

URL:  https://newageislam.com/urdu-section/khushhal-khan-influence-iqbal-thought/d/103216

 

Loading..

Loading..