آفتاب احمد، نیو ایج اسلام
8 جون، 2015
ؒ ؒ لالن فقیر بنگال سے ابھرنے ولے باؤل فرقے کے سب سے بڑے قائد اور صوفی شاعر گذرے ہیں۔ اگرچہ ان کی پیدائش سے قبل ہی باؤل فرقہ ایک آزاد مذہبی و سماجی تحریک کی حیثیت سے شناخت قائم کرچکا تھا ، لالن فقیر نے اس فرقے کو اپنی علمی اور روحانی اور شاعرانہ صلاحیتوں کے بل پر منظم کیا اور اپنی صوفیانہ شاعری جسے عرف عام میں باؤل گیت کہتے ہیں کے ذریعے سے اس فرقے کے پیٖغام اور نظریات کو عام کیا۔ انہوں نے اپنا ایک اکھاڑا یا خانقاہ قائم کی تھی اور ان کے مریدوں اور شاگردوں کی تعداد دس ہزار سے زیادہ تھی۔ اپنی زندگی ہی میں انہوں نے ایک عظیم صوفی شاعر اور ایک روحانی قائد کی حیثیت سے اپنی شناخت قائم کرلی تھی۔انہوں نے ہندوؤوں اور مسلمانوں دونوں فرقوں میں اونچ نیچ ، اشراف اور اجلاف، امیری غریبی اور چھوا چھوت کی تفریق سے بغاوت کرکے ایک آزاد مذہبی فرقے کی بنیاد ڈالی جس میں مذہبی منافرت ، سماجی عدم مساوات ، بے انصافی ، ظلم و استحصال کی کوئی جگہ نہیں تھی۔لالن فقیر نے مذہب اور ذات سے اوپر اٹھ کر انسانیت کی خدمت اور اپنے اندر ہی وجود حقیقی کا عرفان حاصل کرنے کو ہی انسانیت کی معراج اور نجات کا ذریعہ قراردیا۔ اس لئے انہوں نے اپنی مذہبی شناخت پر اس طرح پردہ ڈال دیاکہ محققین آج تک ان کے دھرم یا مذہب سے متعلق کسی حتمی نتیجے پر نہیں پہنچ سکے۔ انکی تاریخ اور مقام پیدائش پر بھی محققین میں اختلاف ہے۔ کچھ کے مطابق وہ مسلمان تھے اور کچھ کا یہ یقین ہے کہ وہ ہندو کائستھ تھے۔ لیکن سبھی اس بات پر متفق ہیں کہ وہ روحانیت اور انسانیت پرستی کے اعلی منصب پر فائز تھے ۔ ان کے گیتوں میں جس طرح ہندو مذہب اور ویدانت کے فلسفے کا گہرا علم موجود ہے اسی طرح اسلامی عقائد و نظریات سے متعلق انکی گہری واقفیت بھی جھلکتی ہے۔لہٰذا ان کے کلام کے ذریعہ سے بھی ایک قاری کو یہ فیصلہ کرنا مشکل ہوجاتاہے کہ وہ ہندو تھے یا مسلمان۔
ایک روایت کے مطابق لالن فقیر کی پیدائش موجودہ بنگلہ دیش کے کشتیا ضلع کے بھانڑارا گرام میں ۱۷۷۴ ء میں ہوئی ۔ ان کے والد کا نام مادھب کاراور والدہ کا نام پدماوتی تھا۔ایک دوسری روایت کے مطابق ان کی پیدائش ۱۷ اکتوبر ۱۷۷۲ ء کو جھینائی دہ ضلع کے ہریش پور گاؤں میں ہوئی ۔ ان کے والد کا نام دریب اللہ دیوان (دبیراللہ دیوان) اور والدہ کا نام آمنہ خاتون تھا۔ان کے دادا کانام غلا م قادر دیوان تھا۔بہرحال، محققین کا کہنا ہے کہ بعد کے زمانے میں بنگلہ دیش کے اسلامی معاشرے میں لالن فقیر کو ایک مسلمان کی حیثیت سے پیش کرنے کی منصوبہ بند مہم شروع ہوئی ۔ ان کے ایک شاگرد ددوّ شاہ کی ایک نظم بھی بعد میں دریافت ہوئی جس میں انہوں نے اپنے پیر ومرشد لالن فقیر کی سوانح بیان کی ہے جس میں انہوں نے لکھا ہے کہ ان کی پیدائش بنگلہ سال اگیارہ سو اناسی میں کارتک کی پہلی تاریخ (۱۷۷۲) میں ہریش پور میں ہوئی ،۔ان کے دادا کا نام غلام قادر دیوان اور والد کا نام دریب اللہ دیوان اور والدہ کا نام آمنہ خاتون تھا۔
اس نظم میں ددو شاہ دعوی ٰ کرتے ہیں کہ لالن شاہ نے انہیں اپنے متعلق راز سے پردہ اٹھانے سے منع کیا تھامگر وہ ان کی موت کے بعد اس راز سے پردہ اٹھارہے ہیں ۔ محققین نے اس نظم کی صداقت پر شک کا اظہار کیاہے اور ددو شاہ کے شاعرانہ اسلوب سے اس نظم کو مختلف پایا ہے ۔ اس لئے انہوں نے اس نظم کو یہ کہہ کر رد کردیا کہ یہ ددو شاہ کی نہیں ہوسکتی اور اسے بعد کے زمانے میں لالن کو مسلمان ثابت کرنے کی مہم کا حصہ قراردیا۔
لالن تعلیم یافتہ نہیں تھے مگر انہوں نے ہندوؤں اور مسلمانوں کے صحیفوں کا اتناگہرا علم حاصل کیاتھاکہ اس علاقے کے بڑے بڑے عالم دین ان سے مناظرے میں شکست کھاجاتے تھے۔ ان کے علم کی گہرائی ان کے گیتوں سے بھی ظاہر ہوتی ہے۔
ان کے حالات زندگی بہت دلچسپ بھی ہیں اور عبرت انگیز بھی ۔ان کی زندگی میں پیش آنے والے حالات اور سماج میں پھیلی ہوئی جہالت ، بد عقیدگی، مذہب کے نام پر تنگ ذہنی اور چھوا چھوت کی لعنت نے ان کے اندر باغیانہ خیالات پید ا کئے جو بعد میں انکے نظریات کی تشکیل کا باعث بنے۔ان کے دور حیات میں ہندوستان کا معاشرہ جس سماجی ، سیاسی اور روحانی اضطراب سے گذررہاتھا اس نے ان کے اندر اصلاحی تحریک کے آغازکا جذبہ پیدا کیا۔ جو آگے چلکر ان کے مذہبی اور روحانی فرقے کی تشکیل پر منتج ہوا۔
ان کے اندر فکری اور روحانی تبدیلی کا آغاز ان کے ایک سفر سے ہوا۔ وہ جب تیس برس کی عمر کے تھے تو انہوں نے مرشدآباد یا نودیپ تیرتھ یاترا کی تھی۔ سفر کے دوران انہیں چیچک کا مرض لاحق ہوگیا۔ اس زمانے کی جہالت اور بدعقیدگی کے نتیجے میں ان کے ساتھیوں نے انہیں راستے ہی میں مرنے کے لئے چھوڑدیا۔ بعد میں ملاحوں کے ایک گروہ نے انہیں دریا میں ڈال دیا تا کہ وہ بہہ کر کسی دوسری جگہ چلے جائیں اور ان کا مرض ان کے علاقے میں نہ پھیلے۔ ایک مسلم لڑکی جو ندی میں پانی لینے آئی تھی انہیں ادھ مری حالت میں اپنے گھر لے جاتی ہے اور اس کی دل وجان سے خدمت کرتی ہے۔ اللہ کے فضل سے وہ روبہ صحت ہوجاتے ہیں ۔ اور کچھ دنوں کے بعد اپنے گھر واپس آتے ہیں۔ گھر والے انہیں زندہ پاکر خوش ہوتے ہیں مگر گاؤں کے مکھیا اور ہندو مذہب کے ٹھیکیداروں نے ان کے خلاف یہ فتوی صادر کردیا کہ چونکہ وہ ایک ملیچھ (مسلمان) کے گھر کا کھانا کھاچکے ہیں اس لئے ان کا دھرم نشٹ ہوگیا ہے ۔ لہٰذا، اب وہ ہندوؤں کے گھر یا سماج میں نہیں رہ سکتے۔وہ سما ج اور احباب کے اس توہین آمیز سلوک سے دلبرداشتہ ہوکر ہمیشہ کے لئے گھر سے نکل پڑتے ہیں اور ایک مسلمان صوفی سراج سائیں کی شاگردی اختیار کرلیتے ہیں۔ اس واقعے سے دھرم ، سماج ، صحیفوں اور رسوم ورواج کی عقیدت ان کے دل سے نکل جاتی ہے اور وہ سراج سائیں کی روحانی سرپرستی میں راہ سلوک پر نکل پڑتے ہیں۔لالن اپنے باؤل گیتوں میں بارہا سراج سائیں سے متعلق اپنی عقید ت کا اظہار کرتے ہیں۔
باؤل مذہبی فرقہ اٹھارہویں صدی عیسوی میں لالن فقیر کی پیدائش سے قبل ہی وجود میں آچکا تھا ۔ اس زمانے میں یہ علاقہ انگریزوں کے ماتحتجاگیرداروں کے ذریعہ معاشی استحصال کی وجہ سے وہاں کے عوام عموماً اور کسان طبقہ خصوصاً بدترین معاشی اور مالی بحران سے گزررہاتھا۔دوسری طرف دونوں مذاہب کے پیروکاروں میں برہمن شودر، اشراف ااور ازلاف کی گہری تفریق نے سماج کے نچلے طبقے میں ایک روحانی اضطراب پیدا کررکھاتھا ۔ دونوں مذاہب کے نچلے طبقے کے لوگوں کو سماج میں ذلت آمیز سلوک کا سامنا کرنا پڑتاتھا۔ ایسے دور میں ایک پٹھان صوفی کریم شاہ اس علاقے میں آئے اور انہوں نے اس علاقے کے قبائلیوں کو منظم کرنا شروع کیا۔کریم شاہ کو ہی باؤ ل فرقے کا بانی مانا جاتاہے ۔ وہ ایک دوسرے فرقے پاگل پنتھی صوفی ۔بھکتی فرقے کے بنیاد گزار کہے جاتے ہیں مگر یہ درست نہیں ہے۔ میری تحقیق کے مطابق پاگل پنتھی در اصل ناتھ پنتھ کی بار ہ شاخوں میں سے ایک شاخ ہے ۔ یہ شاخیں ہندوستان میں پھیلی ہوئی ہیں اور ان کا مرکز گورکھپور ہے۔ ناتھ پنتھ کے بانی مچھندرناتھ ہیں مگر اس فرقے کو منظم کرنے ا ورنظریاتی سطح پر فروغ دینے میں گورکھناتھ نے اہم کردار اداکیا اس لئے گورکھ ناتھ کو ناتھ پنتھ کا بانی اور قائد اعظم کہاجاتاہے۔ یہ لوگ شیو کو خدا کا اوتار مان کر پرستش کرتے ہیں مگر زبردست روحانی قوتوں کے مالک ہوتے ہیں۔اسی ناتھ پنتھ کی ایک شاخ پاگل پنتھ کے صوفی سنت کریم شاہ تھے۔ انہوں نے اس علاقے کے جاہل عوام میں مذہبی نظریات کی اشاعت کی اور انہیں زمینداروں او ر انگریزوں کے استحصال کے خلاف بھی منظم کیا۔انہوں نے ذات پات ، چھوا چھوت ، اونچ نیچ اور مذہبی تفریق کو ختم کیااور سب کے ساتھ مساوات اور احترام کا درس دیا جس کی وجہ سے اس علاقے کے نچلے طبقے کے دونوں فرقے کے عوام ان کے پاگل پنتھی فرقے میں داخل ہونے لگے اور علاقے کی ایک مذہبی اور سیاسی طاقت بن گئے ۔
۱۸۱۳ء میں کریم شاہ کے انتقال کے وقت لالن فقیر ۳۹ برس کے تھے اور کریم شاہ کی فکر سے متاثر تھے۔ انہوں نے باؤل فرقے کو فکر ی طور پر منظم کیا اور اسے ایک مذہبی تحریک کی شکل میں فروغ دیا۔کریم شاہ کے زمانے میں ہی پاگل پنتھی فرقے کو باؤل فرقہ بھی کہا جانے لگاتھا اور اس میں ناتھ پنتھ کے ساتھ دوسرے مذاہب بشمول اسلام کے مساوات ، وحدانیت وغیرہ کے نظریات کا امتزاج ہونے لگا۔بودھ سہجیا اور ویشنو سہجیا اور ویدانت کے فلسفے بھی اس میں شامل ہوگئے ۔ ان مذاہب کے اعمال اور نظریات مل کر باؤل فرقے کی شکل میں بنگال میں پھیلنے لگے۔ بھکتی تحریک اور اسلامی تصوف کے امتزاج سے روحانی ریاضت کے ذریعہ ہستی مطلق کا عرفان حاصل کرنا اس فرقے کا مذہب ٹھہرا۔اس فرقے میں ہندو مسلم تمام فرقے کے لوگ شامل ہوسکتے تھے۔ اسلامی تصوف کی نہج پر باؤل فرقہ بھی پیری مریدی کا رواج ہے۔ چونکہ باؤل فرقے کا کوئی تحریری دستاویز نہیں ہے اس لئے اس میں پیر و مرشد کو مرکزی اہمیت حامل ہے ، مرشد یا گرو ہی مرید یا شسیہ کی معرفت کی راہ میں رہنمائی کرتاہے اور اسے فرقے کے پوشیدہ علوم اور رازوں سے واقف کراتاہے۔ اس فر قے میں ہندو مرشد کا مرید مسلمان اور مسلمان گرو کا شاگرد ہندو ہوسکتاہے۔ ان کے یہاں جنس کو تقدیس حاصل ہے اور جنس کو عرفان کا وسیلہ سمجھاجاتاہے۔ ویشنو سہیجیا فرقے کے زیر اثر اس میں عورت اور مرد کے جنسی اختلاط میں روحانی تسکین حاصل کی جاتی ہے ۔ اس لئے باؤل میں عورت کو اہم مقام حاصل ہے۔ باؤل تنہا ریاضت نہیں کرسکتا اس کے لئے اسے ایک سادھن سنگنی (ریاضت کی شریک ) کی ضرورت ہوتی ہے۔ روایتی معاشرے میں جہاں عورت غلام اور قیدی ہے وہیں باؤل سماج میں عورت آزاد اور خودمختار ہے ۔ان کے یہاں شادی یا بچے پیداکرنا ممنوع ہے ۔ جنسی اعمال کے لئے ان کے یہاں پوشید ہ اصول اور قاعدے ہیں جن کا اظہار وہ نہیں کرتے کیونکہ اس سے عوام میں ان کے متعلق غلط فہمیاں پیدا ہوسکتی ہیں۔ وہ آپس میں گفتگو کے دوران مخصوص اصطلاحوں کا استعمال کرتے ہیں۔ان اصول اور نظریات کا اظہاران کے گیتوں میں ملتاہے ۔
لالن فقیر کے گیتوں میں باؤل کے نظریات اور فلسفے کا بیان ملتاہے۔باؤل گیتوں کے کئی موضوعات ہیں ۔ علم ہستی مطلق ۔ علم مرشد، علم جسم ، علم انسان،علم خودی ۔باؤل کے گیتوں میں ان تمام موضوعات پر گیت ملتے ہیں۔ انہوں نے تقریباً ڈھائی ہزار گیت لکھے ۔وہ خود بھی باؤل گیتوں کے اچھے گلوکار تھے اور باؤل گیتوں کے سروں کا اچھا علم رکھتے تھے۔محققین یہ بھی کہتے ہیں کہ باؤل گیت سب سے پہلے لالن فقیر نے لکھے حالانکہ لفظ باؤل بنگلہ ہندی اور اردو ادب میں پاگل، مجذوب اوردیوانہ کے معنوں میں کافی پہلے سے مستعمل ہے۔بابا فرید کے صوفیانہ کلام میں جابجا لفظ باؤل ملتاہے۔لالن نے اپنی موسیقارانہ فنکاری اور نظریاتی علم کے امتزاج سے ایک آزاد گھرانے کی تعمیر کی اسی لئے انہیں باؤل فلسفے ، ریاضت اور اخلاقیات کا سب سے بڑا ترجمان کہاجاتاہے۔
رابندر ناتھ ٹیگور اور لالن فقیر
رابندر ناتھ ٹیگور لالن فقیر کے گیتوں اور ان کے افکار سے بہت متاثرتھے۔ لالن فقیر کا علاقہ رابندرناتھ کے گھرانے کی جاگیر میں پڑتاتھا اس لئے اکثر و بیشتر انہیں جاگیر کی دیکھ بھال کے لئے وہاں جانا پڑتاتھا۔ اسی دوران وہ باؤل فقیروں کے رابطے میں آئے اور ان کے گیتوں اور ان کے افکار کی گہرائی اور سادگی سے بہت متاثر ہوئے۔ وہ ان کے ساتھ گھنٹوں بیٹھ کر گفتگو کرتے ۔ باؤل گیتوں کے راگ اور سروں نے رابندرناتھ کو مسحور کرلیا۔لہٰذا، ان کے گیتوں پر بھی باؤل افکار کی جھلک دکھائی دتی ہے۔انہوں نے اپنے مشہور ناول گورا میں لالن فقیر کے مشہور گیت کھانچار بھیتر اوچن پاکھی کے دو ابتدائی مصرعے استعمال کئے ہیں۔انہوں نے اپنے رسالے پرباسی میں لالن کے بیس گیتوں کو پیش کیاتھا۔ دراصل لالن فقیر کو گمنامی سے نکال کر ادبی دنیا میں متعارف کرانے کا سہرا رابندرناتھ ٹیگور کے سرجاتاہے۔ وہ لالن کے شاگردوں سے لالن کے ۲۹۸ گیتوں کی ایک بیاض بھی حاصل کرنے میں کامیاب ہوئے جو آج شانتی نکیتن کے میوزیم میں محفوظ ہے۔باؤل گیتوں میں انسان اور انسانیت کے متعلق جو رودارانہ رویہ منعکس ہواہے اس نے رابندرناتھ کو بے حد متاثر کیا۔لالن کہتے ہیں۔
ذات و مذہب کی باتیں حسب نسب پر افتخار گھر گھر میں
لالن کہے اگر ہاتھ آجاتا ذات و مذہب کو جلا کر راکھ کردیتا
لہٰذا، لالن فقیر بنگال میں احتجاجی فکر کے سب سے بڑے علمبردار تسلیم کئے جاتے ہیں۔ ان کے گیتوں میں سماجی ناہمواری اور مذہبی تفاخر پر طنز ملتاہے اور ظلم، استحصال اور ناانصافی کے خلاف احتجاج کی آواز بلند ہوتی ہے۔لالن فقیر کا انتقال ۱۸۹۰ ء میں ۱۱۶ برس کی عمر میں ہوا۔ ان کا مزار بنگلہ دیش کے کشتیا میں واقع ہے جہاں ہرسال میلہ لگتاہے ۔ لالن فقیر بنگلہ دیش کی ادبی و ثقافتی دنیا میں ایک تاریخ ساز شخصیت کی حیثیت سے جانے جاتے ہیں ۔ا نہوں نے بنگلہ ادب اور ثقافت پر اپنے انمٹ نقوش چھوڑے ہیں۔
لالن فقیر کے دوگیت
(1) الف ، لام اور میم میں
قرآن نے تمام تفسیر لکھ دی ہے
الف سے اللہ جی ، میم کے معنی نبی (محمد)
لام کے ہوتے ہیں دو معانی
ایک معنی شریعت میں مقبول
دوسرا معنی معرفت میں
درمیان میں ہے لام
اور ہیں دائیں بائیں
الف اور میم
جس طرح ہوتے ہیں درخت ، انکور اور بیج
یہ ہے ایک راز
جو بعید از فہم ہے
اشارے میں تحریر قرآن کی ہی تفسیر
غور کر جسم کے اندر ہی
تبھی لالن تو پالے گا اس کی حقیقت
ٹیڑھے میڑھے رستے میں نہ بھٹکتا رہ
۔۔
(2) ماں مجھے اور مت مار
میں تیرے پاؤں پڑتاہوں
اب کبھی مکھن چوری نہیں کروں گاماں
ماں تونے آج مکھن چرانے پرمجھے
باندھ کر اتنا مارا
چھوٹی سے بات سے یہ بھید کھل گیا
تیرے دل میں ذرا بھی رحم نہیں ہے
بچے کو جب کوئی دوسرا مارتاہے
تو وہ روکر ماں سے کہتاہے
مگرجب خود ماں ہی بے درد ہو
تو بچے کا درد کون سمجھے
ماں اب تو میرے بندھے ہوئے ہاتھ کھول دے
میری آنکھیں ڈھونڈتی ہیں
کسی دوسرے کی ماں کو پکاروں گا
تیرے گھر میں اب نہین رہوں گا
جو ماں بیٹے کا درد نہ سمجھے
اس ماں کی زندگی بے کارہے
لالن بنتی کرکے کہتاہے
اور درد کی شدت سے روتاہے۔
URL: https://newageislam.com/urdu-section/great-sufi-baul-samrat-lalan/d/103385