New Age Islam
Tue Jan 14 2025, 12:37 PM

Urdu Section ( 13 Sept 2014, NewAgeIslam.Com)

Comment | Comment

Basic Tenets of Islam According To Some Short Surahs of the Quran قرآن کی مختصرسورتوں میں بنیادی اسلامی پیغامات

 

آفتاب احمد، نیو ایج اسلام

13 ستمبر، 2014

قرآن مجید میں کل 114 سورتیں ہیں جن کو دو درجوں میں رکھا جا سکتاہے۔ طویل سورتیں اور مختصر سورتیں ۔سب سے چھوٹی سورت تین آیتوں پر مبنی ہے اور طویل ترین سورت البقرہ ہے جو 286 آیتوں پر مشتمل ہے۔ طویل سورتوں میں ایک سے زیادہ موضوعات پر خدائی احکام اور معلومات فراہم کی گئی ہیں اور مختصر سورتیں کسی خاص موضوع اور اس سے متعلق باتوں پر مبنی ہیں۔ذیل میں ہم چند مختصر سورتوں کا مطالعہ پیش کرتے ہیں جن میں خدا کی طرف سے نازل کی گئی چند بنیادی اسلامی احکام کو پیش کیاگیا ہے جس سے ایک مثالی اسلامی سماج اور مسلمانی کردار کی تشکیل مقصود ہے۔یہ سورتیں مختصر ضرور ہیں مگر ان میں جو پیغامات پیش کیے گئے ہیں وہ کم اہم نہیں ہیں بلکہ وہ اسلام کے بنیادی پیغامات ہیں اور انہیں نظر انداز کرکے کوئی مسلمان مومن نہیں بن سکتا۔

سورہ المطففین تجارتی لین دین میں بے ایمانی اور بد عنوانی پر قرآنی مؤقف ظاہر کرتی ہے۔ اس سورت میں انسانوں کو لین دین میں فریب اور دھوکہ کرنے سے منع کیا گیاہے اور ایسا کرنے پر درد ناک عذاب کی دھمکی دی گئی ہے۔

’’ناپ اور تول میں کمی کرنے والوں کے لئے خرابی ہے۔جولوگوں سے ناپ اور تول کر لیں تو پورا لیں اور جب ان کو ناپ کر یا تول کردیں تو کم کردیں۔

’’کیا انہیں یہ خبر نہیں ہے کہ وہ اٹھائے جائیں گے؟‘‘

اس آیت میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ نہ صرف یہ لوگ قیامت کے دن خدا کے سامنے اپنے اعمال کے لئے جوابدہ ہونگے بلکہ دنیا میں بھی ان کی اس حرام کی کمائی سے ان کے دل پر سیاہ دھبہ لگادیاجائے گا اور اس کی وجہ سے وہ زندگی بھر ہدایت سے محروم رہیں گے۔

’’نہیں بلکہ اس دھبے نے ان کے دل کوگھیر لیاہے اس چیز سے جو وہ کماتے رہے تھے۔‘‘

لہذا، یہ سیاہ داغ ان کے دلوں میں زندگی بھر سزا کے طور پر رہے گی ۔

ان آیتوں میں ان لوگوں کو خوش خبری سنائی گئی ہے جو لین دین میں ایمانداری برتتے ہیں اور نیک اعمال کرتے ہیں۔ ان کے لئے جنت میں ان کے لئے ہر طرح کی آسائشیں ہونگی۔

قرآن نے ایک پوری آیت صرف تجارت اور ناپ تول میں ایمانداری کی تاکید کرنے کے لئے پیش کی یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ اسلام نہ صرف مذہبی معاملوں میں بلکہ تجارت اور لین دین میں بھی ایمانداری اور خلوص کی تاکید کرتاہے اور بے ایمانی اور بدعنوانی پر جہنم کی آگ کی بشارت دیتاہے چاہے وہ کتنا ہی دیندار اور عبادت گذار کیوں نہ ہو۔

ایک اور مختصر سورت الماعون ہے۔اس سورت میں بھی مہربانی اور ترحم اور غریبوں اور یتیموں کے ساتھ حسن سلوک کی تاکید کی گئی ہے۔

’’ بھلا تم نے اس شخص کو دیکھا جو روز جزا کو جھٹلاتاہے۔یہ وہی ہے جو یتیم کو دھکے دیتاہے اور فقیر کو کھانا کھلانے کے لئے لوگوں کو ترغیب نہیں دیتا۔ ‘‘

اس سورت میں دو غیر اسلامی اعمال کے ارتکاب پر جہنم کی آگ کی بشارت دی گئی ہے۔

1)غریبوں کو کھلانے کی تاکید نہ کرنے پر، اور

2) یتیم کو دھتکارنے پر

قرآن ان لوگوں پر لعنت بھیجتاہے جو غریبوں اور مسکینوں کو کھلانے کی تاکید نہیں کرتے ۔ یہ آیت معنی خیز ہے۔ آیت میں غریبوں کو کھلانے کی تاکید کرنے پر زور دیا گیا ہے۔ یعنی نہ صرف مسلمان غریبوں اور مسکینوں کو کھانا کھلائے بلکہ دوسروں کو بھی ایسا کرنے کی ترغیب دے تاکہ اسلامی معاشرے میں مسکینوں کو کھانا کھلاناایک رواج بن جائے ہر مسلمان کے دروازے پر مسکین کھانا کھاتے دیکھے جائیں۔لہذا، غریبوں کو کھانانہ کھلانا تو گناہ ہے ہی، اس کی تاکید نہ کرنا بھی خدا کے نزدیک گناہ ہے۔مگر اس کے برعکس میں غریبوں کو کھلانا تو ایک عام بات نہیں ہے ۔ ہاں ، مذہبی جلسوں کا انعقاد عام بات ہے جہاں بڑے بڑے علماء کرام رات رات بھر تقریریں کرتے ہیں اور دعوت طعام سے لطف اندوز ہوتے ہیں اور نذرانے کے طور پر بڑی رقم جیب میں بھر کر واپس ہوتے ہیں جبکہ محلے کے غریب و مسکین بھوکے پیٹ سوتے ہیں۔

خدا ان پر بھی اپنا قہر نازل کرتاہے جو یتیموں کو دھتکارتے ہیں یا ان کے ساتھ بے رحمی کا سلوک کرتے ہیں یا ان کا حق مارتے ہیں۔قرآن اسی سورت میں کہتاہے کہ ایسے لوگوں کی عبادتیں اور نمازیں محض دکھاواہیں کیونکہ وہ خدا کے بندوں پر رحم نہیں کھاتے اور صرف رسمی اعمال کو ہی عبادت سمجھتے ہیں۔ایسے لوگ معاشرے کے تئیں اپنی ذمے داریوں کو نہیں سمجھتے ۔قرآن کے نزدیک تقوی اور انسان کی خدمت الگ الگ چیزیں نہیں ہیں بلکہ دونوں ایک دوسرے سے جڑی ہوئی ہیں۔ایک کے بغیر دوسری ادھوری ہے۔ایک مسلم تب تک سچا مومن نہیں بن سکتا جب تک وہ معاشرے کے مجبور و معذور افر اد کی تکلیفوں اور پریشانیوں سے لا تعلق رہتاہے یا پھر ان کے ساتھ ظلم و زیادتی کرتاہے۔

سورہ ہمزہ بھی اسلام کے ایک بنیادی اصول کو بیان کرتاہے۔ اس میں ان لوگوں کو تنبیہہ کی گئی ہے جو دولت جمع کرتے ہیں اور اسے گن گن کر سنبھال کر رکھتے ہیں۔ وہ لوگ دولت کے زعم میں دوسروں کا تمسخر اڑاتے ہیں اور انہیں اپنے سے کم تر سمجھتے ہیں۔قرآن کہتاہے:

’’ ہرطعن آمیز اشارتیں کرنے والے چغل خور کے لئے خرابی ہے۔جو مال جمع کرتا اور اس کو گن گن کر رکھتاہے۔ ‘‘

سورہ العٰدیٰت میں بھی اسی موضوع سے بحث کی گئی ہے۔ یعنی دولت جمع کرنے کے خلاف تنبیہ کی گئی ہے مگر اس کے ساتھ اس سورہ میں نا شکری پر بھی تنبیہہ کی گئی ہے ۔ اکثر لوگ دولت پر اتراتے ہیں اور خدا کا شکر نہیں بجالاتے۔قارون کی طرح وہ بھی یہ سمجھنے لگتے ہیں کہ انہوں نے جو بھی دولت کمائی ہے وہ صرف اپنی صلاحیتوں اور اپنے دماغ سے کمائی ہیں اس لئے وہ اس دولت پر خدا کا شکر ادا نہیں کرتے ۔ نتیجے میں وہ خدا کے قہر کے سزاوار ٹھہرتے ہیں اور دنیا اور آخرت دونوں جگہ تباہی ان کے ہاتھ آتی ہے جیسا کہ قارون کے ساتھ ہوا۔اللہ نے اس کے گھر کو اور اسے زمین میں دھنسادیا۔

’’کہ انسان اپنے رب کا احسان نا شناس ہے اور وہ اس سے آگاہ بھی ہے ۔ وہ تو مال سے سخت محبت کرنے والاہے۔‘‘(العدیت)

سورہ العصر بھی قرآن کی مختصر ترین آیتوں میں سے ایک ہے۔

’’عصر کی قسم کہ انسان خسارے میں ہے مگر وہ لوگ جو ایمان لائے اور نیک عمل کرتے رہے اور آپس میں حق بات کی تلقین اور صبر کی تاکید کرتے رہے۔‘‘(العصر)

اس میں چاربینادی اسلامی احکام کا بیان ہے۔وہ چار بنیادی احکام ہیں ، توحید، نیک عمل ، حق کی پیروی اورصبرو تحمل ۔قرآن میں ان چار بنیادی اصولوں کی تاکید کے لئے ایک پوری سورت نازل کی گئی جس سے ان کی اہمیت کا اندازہ ہوتاہے۔ آج ہمارے معاشرے میں اخلاقی بگاڑ، جھوٹ اور عدم برداشت و عدم تحمل وبائی شکل اختیار کر چکاہے جو قرآن کی تعلیمات کی خلاف ورزی کا نتیجہ ہے۔عدم برداشت اور صبر کے فقدان کی وجہ سے معاشرے میں تشدد اور انتشار پھیل گیاہے اور جھوٹ ، بے ایمانی اور بدعنوانی رواج پاگئی ہے۔

اسی طرح سورہ التکاثر میں مادی آسائشوں اور دولت کے حصول میں مقابلہ آرائی یا کمپٹیشن کے خلاف مسلمانوں کو تنبیہ کی گئی ہے کیوں کہ مادیت پرستی انسان کو حیوان میں تبدیل کردیتی ہے جس کی وجہ سے انسان دوسرے انسانوں سے حیوانوں کی طرح سے پیش آتاہے یا ان کے جذبات اور احساسات کو کئی اہمیت نہیں دیتا۔ اس کا مقصد صرف اپنے مفادات کی حفاظت اور فروغ ہوتاہے۔ اس عمل میں وہ نہ صرف معاشرے کو بلکہ پوری انسانیت کو ناقابل تلافی نقصان پہنچاتاہے اور آخر میں اپنی دنیا اور عاقبت دونوں خراب کرتاہے ۔

’’تم کو بہتا ت کی طلب نے غافل کردیا۔یہاں تک کہ تم نے قبریں جا دیکھیں۔‘‘(التکاثر)

اس طرح منقولہ بالا سورتیں حالانکہ مختصر ہیں مگر مجموعی طور پر وہ اسلام کی اصل تعلیمات کا نچوڑ پیش کرتی ہیں تاکہ مسلمانوں کے ذہن نشیں ہوجائیں اور وہ ان پر عمل پیراہوکرایک صالح معاشرے کی تشکیل کریں۔اور ایک صالح معاشرے کی تشلیل کے لئے ضروری ہے کہ مسلمان دوسرے انسانوں کے ساتھ رحم ، مہربانی ، ایثار، خلوص اور تحمل و تدبر کا سلوک کریں۔اگر مسلمان ان تعلیمات پر صحیح معنوں میں عمل کریں تو ان میں مومنانہ صفات پیدا ہونگی۔

URL:

https://newageislam.com/urdu-section/basic-tenets-islam-according-some/d/99042

 

Loading..

Loading..