New Age Islam
Fri Apr 25 2025, 12:02 PM

Urdu Section ( 8 March 2024, NewAgeIslam.Com)

Comment | Comment

African Muslim Majority Countries Gripped By Terrorism and Political Strife مسلم اکثریتی افریقی ممالک میں دہشت گردی اور بدامنی

سہیل ارشد، نیو ایج اسلام

8مارچ،2024

افریقہ دنیا کا غریب ترین اور تعلیمی اور صنتعی طور پر پسماندہ ترین براعظم پے۔ اس براعظم میں اسلام پہلی صدی ہجری میں ہی پہنچ چکا تھا جب عرب کے مسلمان مکہ کے غیر مسلموں کے ظلم سے بچنے کے لئے افریقی شہروں میں پناہ لیتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ افریقہ کے بہت سے ممالک میں مسلمانوں کی اکثریت یے۔ کچھ ممالک میں عیسائیوں اور مسلمانوں کی آبادی یکساں ہے۔

لیکن اس کے ساتھ ہی افریقی ممالک ، خصوصاً وہ افریقی ممالک جہاں مسلمان اکثریت میں ہیں وہاں دو مسائل زیادہ نمایاں ہیں۔ ایک تو سیاسی عدم استحکام اور دوسرا دہشت گردی۔ سوڈان، چاڈ، نائیجیریا ، برکینا فاسو ، مالی وغیرہ میں گزشتہ کئی دہائیوں سے دہشت گردی اور فوجی آمریت کی وجہ سے سیاسی عدم استحکام ہے جس کی وجہ سے ہزاروں لوگ ہلاک ہو چکے ہیں اور لاکھوں بے گھر ہو چکے ہیں۔ گزشتہ فروری میں مغربی افریقہ کے ملک برکینا فاسو کے ایک چرچ میں اتوار کی اجتماعی عبادت کے دوران ایک دہشت گردانہ حملہ ہوا جس میں 15 عیسائی ہلاک اور درجنوں زخمی ہو گئے۔برکینا فاسو میں 2012-2013 سے داعش اور القاعدہ نے دہشت گردانہ سرگرمیاں چلا رکھی ہیں۔ وہ عیسائیوں اور مسلمانوں دونوں کو اپنی دہشت گردانہ نظریات کا نشانہ بناتے ییں۔ برکینا فاسو اور مالی دونوں مسلم اکثریتی ممالک ہیں ۔ برکینا فاسو میں مسلم 63 فی صد ہیں جبکہ مالی میں مسلم آبادی 90 فی صد ہے۔ اس کے باوجود یہ دہشت گرد تنظیمیں یہاں اسلامی خلافت یا شرعی حکومت کے قیام کے نام پر خون خرابہ کرتی ہیں۔ ان جہادیوں نے برکینا فاسو کی ایک تہائی زمین پر قبضہ کررکھا ہے اور وہ عیسائیوں اور مسلمانوں دونوں کو تشدد کا نشانہ بناتے ہیں۔ 2018ء میں جہادیوں نے ایک عیسائی پادری کو اغوا کرلیا تھا۔ اس کا آج تک کوئی اتہ پتہ نہیں ہے ۔ 2021ء میں ان لوگوں نے ایک مسجد کے امام کو اغوا کرلیا۔بعد میں اس کی لاش برآمد ہوئی۔داعش اور القاعدہ تکفیری نظریات میں یقین رکھتے ہیں اور غیر مسلموں کے علاوہ مسلمانوں کے ایک فرقے کو بھی کافر سمجھتے ہیں ۔ اس لئے انہیں ہلاک کردیتے ہیں۔

مالی بھی برکینا فاسو کی سرحد سے لگا ایک مسلم اکثریتی ملک ہے جہاں مسلم آبادی 90 فی صد ہے لیکن یہاں بھی عوام کو سکون حاصل نہیں ہے۔ یہاں بھی داعش اور القاعدہ سرگرم ہیں اور مسلمانوں اور عیسائیوں کے خلاف دہشت گردانہ کارروائیاں انجام دیتے ہیں۔ نتیجے میں فرانس اور امریکہ کو یہاں مسلمانوں کے خلاف فوجی کارروائی کرنے کا موقع ملتا ہے۔ برکینا فاسو کے سیاسی حالات کا مطالعہ کرنے پر یہ معلوم ہوتا ہے کہ برکینا فاسو کے فوجی لیڈران داعش اور القاعدہ کو اپنے سیاسی مقاصد کے لئے استعمال کرتے ہیں۔ 2022ء کے مارچ میں فوجی کیپٹن دمیبا نے کیپٹن مارک کبورے کو اس بنا پر اقتدار سے ہٹایا کہ وہ ملک سے دہشت گردی کا خاتمہ کرنے میں ناکام رہے۔ اس کے چھ ماہ کے بعد ہی ستمبر 2022ء میں کیپٹن دمیبا کو بھی کیپٹین تراورے نے اسی بنا پر ہٹا دیا کہ وہ بھی دہشت گردی کو ختم کرنے میں ناکام رہے۔ لیکن کیپٹن تراورے بھی دہشت گردی پر لگام لگانے میں ناکام ہیں۔ اس لئے ہو سکتا ہے کہ پھر کوئی تختہ پلٹ ہو اور کوئی دوسرا فوجی لیڈر کیپٹن تراورے کو ہٹاکر حکومت پر قبضہ کرلے۔ ایسا لگتا ہے کہ فوجی ڈکٹیٹر ہی القاعدہ اور داعش کو دہشت گردانہ سرگرمیاں جاری رکھنے کا اشارہ کرتے ہیں تاکہ وہ اپنے سیاسی مقصد کو حاصل کرسکیں۔ یہی وجہ ہے کہ ملک میں دہشت گردی ختم ہونے کی بجائے پھل پھول رہی ہے۔ مشرق وسطی میں داعش کا خاتمہ ہونے کے بعد القاعدہ اور داعش کے جنگجوؤں نے برکینا فاسو اور مالی میں پناہ لی اور اس کے بعد سے افریقی ممالک میں دہشت گردی کے واقعات میں مزید اضافہ ہو گیا ۔۔ ان دہشت گرد گروہوں نے عوامی حمایت حاصل کرنے کے لئے خلافت اور شرعی حکومت کے قیام کے لئے جہاد کرنے کا دعوی کیا اور اس بنا پر انتہا پسند مسلمانوں کے ایک طبقے نے ان تنظیموں کی حمایت کی جبکہ مشرق وسطی میں داعش کی درندگی سے دنیا واقف ہو چکی تھی۔

برکینا فاسو میں دہشت گردی اور انارکی کی دوسری وجہ فوجی حکومت کی طرف سے مسلح ملیشیا کا استعمال بھی ہے۔ فوجی حکومت نے ان مسلح ملیشیاؤں کا استعمال دہشت گردی کو روکنے کے لئے کیا ہے اور اس طرح مسلح گروہوں کو جواز عطا کیا ہے۔ ان مسلح گروہوں پر عوام کے ساتھ ظلم وزیادتی کرنے اور حقوق انسانی کی خلاف ورزی کے الزامات ہیں۔۔

نائجیریا بھی مغربی افریقہ کا ایک مسلم اکثریتی ملک ہے جہاں مسلمانوں اور عیسائیوں کی آبادی برابر ہے۔یہاں 2010ء سے بوکو حرام نامی دہشت گرد تنظیم نے عوام کا جینا حرام کر رکھا یے۔بوکو حرام کا معنی ہے جدید تعلیم حرام۔۔یہ گروہ جدید تعلیم کو اسلام مخالف تعلیم سمجھتا ہے اس لئے جدید اور سائنسی تعلیم کی مخالفت کرتا ہے ۔ اس تنظیم کے افراد اسکولوں پر حملہ کرکے طلبہ اور طالبات کو اغوا کرلیتے ہیں ۔ بعض اوقات وہ تاوان لیکر انہیں چھوڑدیتے ہیں اور غیر مسلم طلبہ اورطالبات کو جبرا مسلمان بناتے ہیں۔ جو مخالفت کرتے ہیں اسے قتل کردیتے ہیں۔ اس گروہ نے اسکولوں پر حملہ اور اغوا کی درجنوں وارداتیں انجام دی ہیں۔اس گروہ کے تشدد کے نتیجے میں 41 ہزار سے زائد افراد ہلاک اور لاکھوں بے گھر ہوچکے ہیں۔ بہرحال 2020ء سے اس گروہ کی طاقت میں کمی آئی ہے اور 40 ہزار لڑاکوں نے حکومت کے آگے ہتھیار ڈالے ہیں ۔ لیکن دوسری طرف 2021ء سے یہاں داعش کی طاقت میں اضافہ ہوا ہے۔

نائیگر بھی ایک چھوٹا سا مغربی افریقی ملک ہے یہاں کی 99 فی صد آبادی مسلم ہے ۔۔ یہاں دہشت گردی تونہیں ہے لیکن فوجی حکومت ہے اور1960ء میں آزادی ملنے کے بعد اب تک پانچ بار تختہ پلٹ ہو چکا ہے اوریہاں آج بھی فوجی حکومت ہے۔آخری بار یہاں 2023ء میں تختہ پلٹ ہوا۔سیاسی عدم استحکام کی وجہ سے یہاں معاشی اور صنعتی ترقی نہیں ہوسکی۔

مرکزی افریقی ملک ب چاڈ ھی بدامنی اور دہشت گردی سے نبردآزما ہے۔ یہاں کی مسلم آبادی 55 فی صد اور عیسائی آبادی 41فی صد ہے۔

سوڈان میں بھی گزشتہ تین دہائیوں سے فوجی آمریت ہے اور فوجی ڈکٹیٹروں کی رقابت کی وجہ سے یہاں خانہ جنگی جیسی صورت حال ہے۔ عمرالبشیر نے یہاں تیس برسوں تک حکومت کی اور عوامی تحریکوں کو دبانے کے لئے تین سے چار لاکھ لوگوں کو قتل کیا۔2019ء میں عمر البشیر کو حکومت سے دستبردار ہونا پڑا۔وہ جیل میں ہیں۔ لیکن اس کے بعد سے سوڈان میں خانہ جنگی ہے۔ فوج اور نیم عسکعی فورس کے درمیان اقتدار کی جنگ میں وہاں کے عوام پس رہے ہیں ۔ لاکھوں لوگ بے گھر ہوچکے ہیں اور لاکھوں ہلاک ہو چکے ہءں۔

افریقی ممالک کی سیاسی صورت حال کے اس مختصر سے جائزے سے یہ حقیقت روشن ہوتی ہے کہ مسلم ممالک میں اسلامی خلافت اور شریعت کے قیام کے نا پر کچھ دہشت گرد تنظیموں نے تباہی پھیلائی اور مسلمانوں کو ہلاک کیا۔مسلمانوں کے ایک سادہ لوح طبقے نے ان دہشت گرد تنظیموں کی حمایت کی جبکہ ان تنظیموں نے تکفیری نظریات کی بنیاد پرنہ صرف عیسائیوں کو قتل کیابلکہ مسلمانوں کو بھی قتل کیا۔انہیں گھروں کو چھوڑ کر ہجرت کرنے پر مجبور کیا ۔اس قتل عام ، خانہ جنگی اور سیاسی عدم استحکام کی وجہ سے مسلمانوں کی تعلیمی معاشی اور صنعتی ترقی بری طرح متاثر ہوئی اور وہ بھوک ، بے روزگاری اور فاقہ کشی کے شکار ہو گئے۔وہ اپنے ہی ملک میں بے گھر ہو گئے۔

ان افریقی ممالک کا دوسرا سب سے سنگین مسئلہ فوجی آمریت کا ہے۔ زیادہ تر افریقی مسلم ممالک میں فوجی حکومت قائم یے اور فوجی ڈکٹیٹر اقتدار پر قبضہ کرنے کے لئے ایک دوسرے سے برسر پیکار رہتے ہیں۔ان ممالک میں وقتاًفوقتا ً تختہ پلٹ ہوتا رہتا ہے جس کے نتیجے میں خون خرابہ اور عوامی ہلاکت ہوتی ہے۔سیاسی عدم استحکام کی وجہ سے صنعتی اور معاشی ترقی بری طرح متاثر ہوتی ہے۔اس برح ایک طرف اسلامی خلافت کے علم بردار خون خرابہ کرتے ہیں تو دوسری طرف فوجی ڈکٹیٹر اقتدر کے لئے خون خرابہ کرتے ہیں۔درمیاں میں بے بس عوام پستے رہتے ہیں ۔

جدید تعلیم سے دوری اور جمہوری طرز فکر کے فقدان نے مجموعی طور پر افریقی مسلمانوں کو تعلیمی اور معاشی پسماندگی کے گڑھے میں دھکیل دیا ہے۔ افریقی مسلمانوں کی اس حالت کی ذمہ دار داعش ، القاعدہ اوربوکو حرام جیسی دہشت گرد اور تعلیم مخالف تنظیمیں ہیں جنہوں نے مسلمانوں کو گمراہ کیا ۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ افریقی مسلم ممالک میں جمہوریت کو فروغ دیا جائے اور مسلمانوں میں جدید تعلیم اور سائنسی طرز فکر کی اشاعت کی جائے۔ اس کے لئے عالمی سطح پر اقدامات کئے جائیں۔ او آئ سی ، عرب لیگ اور دیگر اسلامی تنظیمیں اس مقصد کے حصول کے لئے طویل مدتی لائحی عمل ترتیب دیں۔

---------------

URL: https://newageislam.com/urdu-section/african-muslim-terrorism-political-countries/d/131871

New Age IslamIslam OnlineIslamic WebsiteAfrican Muslim NewsArab World NewsSouth Asia NewsIndian Muslim NewsWorld Muslim NewsWomen in IslamIslamic FeminismArab WomenWomen In ArabIslamophobia in AmericaMuslim Women in WestIslam Women and Feminism


Loading..

Loading..