New Age Islam
Tue Mar 21 2023, 04:30 PM

Urdu Section ( 6 Oct 2020, NewAgeIslam.Com)

Comment | Comment

Causes of Political Deprivation of Muslims in Bihar and Their Solution بہار میں مسلمانوں کی سیاسی محرومی کے اسباب اوراُن کا حل


عبدالرحمان

4 اکتوبر ، 2020

بہارمعروف مذہبی اور سماجی مصلحین کی سرزمین ہے جنہوں نے نہ صرف مذہب میں پائی جانے والی شدت پسندی کی اصلاح کی بلکہ سماجی مساوات، سماجی ہم آہنگی اور سماجی انصاف کی بھی وکالت کی۔ یہ وہ کلیدی عوامل ہیں جن سے سما ج میں امن و سکون میسر آتا ہے۔ یہ گوتم بدھ، مہاویر،  چندر گپت موریہ اور سمراٹ اشوک جیسی اہم شخصیات کی سرزمین ہے۔اس کے علاوہ جے پرکاش نارائن، بی پی منڈل اور کرپوری ٹھاکر جیسے مصلحین نے بھی یہیں جنم لیا  ہے۔ انہوں نے مساوات اور استحصال کے خاتمے کے ذریعہ محرومیوں کا خاتمہ کیاا ور سماجی آہنگی پیدا کی۔اس کی وجہ سے یہاں پر ایک مضبوط سماجی انصاف اور ہمدردانہ رویے کا راستہ ہموار ہوا۔ گوتم بدھ کہتے ہیں کہ ’’جب کچھ لوگ صرف اپنے بارے میں سوچنے لگتے ہیں تو دوسرے اس کے بغیر رہ جاتے ہیں۔‘‘ گوتم بدھ کی تعلیمات کی روشنی میں ہم کہہ سکتے ہیں کہ سماجی ہم آہنگی میں ایک ایسی خوبی پنہاں ہے جو ہمیں روحانیت، انصاف پسندی، آزادی اور مساوات، محبت و امن اور اخوت کے راستے کی جانب لے جاتا ہے۔ یہی وہ تعلیمات اور اصول ہیں جو معاشرے میں سماجی انصاف کے قیام کا راستہ ہموار کرتے ہیں۔سمراٹ اشوک کو اس لحاظ سے سماجی آہنگی کا علمبردار کہا جاتا ہے جنہوں نے بدھ ازم کے سائے تلے اپنی سلطنت میں معاشی اور سماجی انصاف کو قائم کرنے کی کوشش کی۔ جے پرکاش نارائن کے مطابق ’’جمہوری سوشلزم ایک سچی جمہوریت ہے۔‘‘  سماجی انصاف کے تصور کو ان کے ذریعہ پیش کئے گئے سوشلزم کے تصور میں  دیکھا جاسکتا ہے۔ بہار میں سماجی انصاف کے سرخیل کرپوری ٹھاکر نے سرکاری ملازمتوں اور تعلیمی اداروں میں او بی سی کیلئے ریزرویشن کا نظام متعارف کرایا اور اوبی سی کیلئے مختلف ذیلی گروپس کی تشکیل کی۔انہوں نے معاشرے میں سماجی انصاف کو عملی طریقوں سے نافذ کرنے کی خواہش کااظہار کیا۔اسی طرح بی پی منڈل کاخواب تھا کہ شودر، اتی  شودر، آدیواسی اور مسلمانوں پر مشتمل سارے بہوجن سماج کا ایک مشترکہ اتحاد ہو جو سماج میں حاشئے پر کردیئے گئے ہیں۔ان کی سفارشات اور بعد میں ان سفارشات پر عمل آوری نے ملک میں تمام مذاہب سے وابستہ’ او بی سیز‘ کو بااختیار بنانے کا راستہ ہموار کیا۔لالو پرساد یادو ، شرد یادو ، نتیش کمار  اور رام ولاس پاسوان  وغیرہ جیسے بہت کئی سیاسی لیڈر ’جے پی‘  تحریک سے نکلے ہیں۔ان سے بہوجن سماج سے وابستہ افراد کو بہت توقع تھی کہ انہیں معاشرتی، معاشی اور سیاسی مساوات کے نتیجے میں سماجی انصاف ملے گا۔ انہیں  امید تھی کہ سیاست اور حکومت میں انہیں مناسب نمائندگی ملے گی۔سماجی انصاف کے نتیجے میں اگرچہ ان میں اقتدار کی منتقلی تو ہوئی لیکن گزرتے وقت کے ساتھ ان میں سے بیشتر لیڈران اعلیٰ ذات کے جاگیردانہ نظام کا شکار ہوگئے۔  اس کے نتیجے میں سماجی انصاف کی گاڑی  پوری طرح سے پٹری سے اُتر گئی۔ آج صورتحال یہ ہے کہ اس سیاسی خلاء پر پوری طرح سے اعلیٰ ذات کے ہندوؤں نے قبضہ کرلیا ہے۔ ان میں برہمن، راجپوت، بھومی ہار اور کائستھ آتے ہیں۔ یہ سیاست میں اپنی بالادستی قائم رکھنے کیلئے فرقہ وارانہ کارڈ کھیلتے ہیں اور اپنا تسلط برقرار رکھنے کیلئے سیاست کو زہر آلود کرتے ہیں۔ اگر بہار اسمبلی میں ان کی آبادی کے تناسب میں  ایس سی اور ایس ٹی کیلئے سیٹیں مخصوص ہیں (۳۹؍ ایس سی کیلئے اور ۲؍ سیٹیں ایس ٹی کیلئے) لیکن  وہ اپنی حقیقی نمائندوں سے محروم ہیں کیونکہ یہاں سے منتخب ہوکر اسمبلی پہنچنے والے کبھی ان کی آواز نہیں بنتےاوران کی ترقی اور ان کیلئے انصاف کا مطالبہ نہیں کرتے۔ہندو اور مسلم او بی سی۲؍ بڑے اور اہم سماجی گروپ ہیں جو حقیقی سیاسی نمائندگی اور اقتدار میں حصہ داری سے محروم ہیں۔ یہ اور بات ہے کہ اوبی سی میں دبدبہ رکھنے والی بعض ذاتیں جیسے یادو، کرمی اور کوئری نے بہار سیاست کے ایک بڑے حصے پر قبضہ کررکھا ہے۔  راشٹریہ جنتا دل (آر جے ڈی)، جنتادل متحدہ (جے ڈی یو) اور راشٹریہ لوک سمتا پارٹی ( آر ایل ایس پی) جن کی قیادت بالترتیب لالو پرساد یادو، نتیش کمار اور اپیندر کشواہا کررہے ہیں۔غیر اعلانیہ طور پر ان کی پارٹیوں میںیادو، کرمی اور کوئری ذات کے لوگوں کو ترجیح دی جاتی ہے۔

او بی سی میں نچلی ترتیب میں آنے والے  ذات جیسے ملاح ، بین، لوہار،  تیلی، بڑھئی،تراہا،کمہار اورنونیا وغیرہ سے وابستہ لوگ بہار کی سیاست میں حاشئے پر ہیں۔ ریاست میں سب سے برا حال مسلمانوں کا ہے۔  سیاست میں ان کی نمائندگی  فرقہ واریت کی نذر ہوگئی ہے ، جو ریاست کیلئے خطرے کی گھنٹی  ہے۔  ۲۰۱۱ء کی مردم شماری کے مطابق بہار میں مسلمانوں کی آبادی ۱۷ء۵۵؍ ملین تھی جو کل آبادی کا ۱۶ء۶۷؍ فیصد ہے۔مطلب یہ کہ بہار میں مسلمان دوسری سب سے بڑی اکثریت اور  ریاست کی سب سے بڑی اقلیت ہیں۔ ۱۹۵۲ء سے جب بہار میں پہلی اسمبلی الیکشن کاانعقاد ہوا،تب سے آج  تک وہاں پر کبھی بھی مسلمانوں کو ان کی آبادی کے تناسب  میں سیاسی نمائندگی نہیں ملی۔   وہ  وہاں پرسب سے زیادہ سیاسی محرومی کا شکا ر رہے ہیں۔

۱۹۵۲ء سے ۲۰۱۵ء تک بہار اسمبلی کیلئے ۱۵؍ انتخابات ہوچکے ہیں۔ ان۷۰؍ برسوں کے دوران ہونےو الے ۱۵؍ انتخابات میں ریاست کے۴۵۹۳؍ اراکین اسمبلی کاا نتخاب عمل میں آیا جن میں مسلمانوں کی تعداد  ۳۳۴؍ رہی ہے یعنی  صرف ۷ء۲۷؍ فیصد۔ان کی آبادی کے لحاظ سے اگر جائزہ لیا جائے تو یہ تعدادکم از کم ۶۳۳؍ ہونی چاہئے تھی۔اس طرح انہیں ۲۹۹؍ اراکین اسمبلی یعنی ۴۷ء۲۴؍ فیصد محرومی کا سامنا کرنا پڑا۔ اس لحاظ سے دیکھا جائے تو ریاست بہار میں سیاسی طور پر مسلمان سب سے زیادہ محرومی کا شکار رہے ہیں۔ دوسری ریاستوں کے برخلاف بشمول آسام، اترپردیش اور مغربی بنگال یہاں  پر مسلمانوں کی نمائندگی کافی کم رہی ہے جو گزشتہ ۷۰؍ برسوں میں ۱۷؍ سے  ۲۹؍  کے درمیان رہی ہے۔ ۱۹۶۷ء اور ۲۰۰۵ء  کے اسمبلی انتخابات میں یہاں پر صرف ۱۷؍ مسلم ایم ایل ایز ہی منتخب ہوسکے تھے جبکہ ۱۹۸۵ء اور ۲۰۰۰ء کےانتخابات میں سب سے زیادہ تعداد ۲۹؍ رہی ہے۔  ۱۹۵۲ء اور ۱۹۵۷ء کے انتخابات کا اگر جائزہ لیا جائے تو یہ بات سامنے آتی ہے کہ مسلم نمائندگی پر کانگریس کی اجارہ داری تھی لیکن ۱۹۶۲ء سے سیاسی حالات میں تبدیلی آنے لگی تھی۔ ۱۹۷۷ء کے اسمبلی انتخابات میں ۲۴؍ مسلم اراکین منتخب ہوئے تھے جن میں سے ۱۳؍ کا تعلق جنتا پارٹی سے تھا جبکہ۸؍ کانگریس کے ٹکٹ پر منتخب ہوئے تھے۔ ۸۵۔۱۹۸۰ء میں ملک کے دیگر حصوں کی طرح بہار میں بھی کانگریس کی واپسی ہوئی۔ سیاسی طور پر اس دور کو مسلمانوں کی بہتر نمائندگی کیلئے بھی یاد کیا  جاتا ہے۔ اس کا اثر بہار میں بھی نظر آیا جب ۱۹۸۵ء کے اسمبلی الیکشن میں ماضی کے مقابلے  بڑی تعداد میں منتخب ہوئے۔ مذکورہ الیکشن میں ۲۹؍ مسلم ایم ایل ایز کامیاب ہوئے تھے۔۱۹۹۰ء کے بعد بہار میں جنتادل کی تشکیل کے بعد مسلمانوں کی زیادہ نمائندگی  اسی پارٹی سے رہی۔

اگر گزشتہ۳؍ انتخابات کا جائزہ لیا جائے توہم دیکھیں گے کہ ۲۰۰۰ء میں ریاست کی تقسیم یعنی جھارکھنڈ کی تشکیل کے بعد ۲۰۰۵ء کے الیکشن میں سب سے کم یعنی صرف۱۶؍ مسلم امیدوار (۶ء۵۸؍ فیصد)ہی کامیاب ہوپائے تھے۔ آزادی کے بعد ریاست میں مسلمانوں کی یہ سب سے کم نمائندگی رہی ہے۔۲۰۰۹ء کے ضمنی الیکشن میں کانگریس کے ٹکٹ پر محبوب علی قیصر کامیاب ہوئے تو یہ تعداد ۱۷؍ ہوگئی ،اس طرح مسلمانوں کی نمائندگی کا تناسب ۷؍ فیصد ہوگیا۔ ریاست میں مسلمانوں کی آبادی کے لحاظ سے دیکھا جائے تو یہ تعداد ۴۰؍ ہونی چاہئے تھی ۔ مطلب یہ کہ مسلمانوں کو ۲۳؍ اراکین اسمبلی یعنی ۵۷ء۵۰؍ فیصد کی محرومی کا سامنا رہا۔ان ۱۷؍ اراکین اسمبلی کا تعلق ۷؍ سیاسی جماعتوں سے رہا۔ آرجے ڈی اور کانگریس نے متحدہ طور پر ۴۶؍ امیدوار میدان میں اتارے تھے جن میں سے ۹؍ کامیاب ہوئے تھے جن میں سے ۴؍ آر جے ڈی کے اور ۵؍ کانگریس کے تھے۔ ایل جے پی نے ۴۷؍ مسلم امیدواروں کو ٹکٹ دیا تھا جن میں سے صرف ایک کامیاب ہوا تھا۔ جنتا دل متحدہ نے ۹؍ امیدوار میدان میں اتارے جن میں سے ۴؍ کامیاب ہوئے تھے۔ اسی طرح سی پی آئی (ایم ایل)، این سی پی اور آزاد امیدوار کے طور پر ایک ایک کامیاب ہوئے تھے۔ایک دلچسپ اور اہم بات یہ ہے کہ ۲۰۰۵ء کے اسمبلی الیکشن میں ۴۲؍ مسلم امیدوار دوسری پوزیشن پر تھے اور یہ سب بہت معمولی ووٹوں کے فرق سے ہارے تھے۔ان میں سے کئی ایک تو ایسے تھے جو ہزار ووٹوں  سے بھی کم فرق  سے ہارے تھے۔ اس کی وجہ آر جے ڈی کے تئیں اینٹی ان کم بینسی یعنی اقتدار کے تئیں ناراضگی کا معاملہ تھا۔ دوسری وجہ یہ تھی کہ آر جے ڈی نے بڑی تعداد میں مسلمانوں کو ٹکٹ دیا تھا جبکہ جے ڈی یو نے بہت کم مسلم امیدوار میدان میں اتارے تھے، اس کی وجہ سے مسلمانوں کی نمائندگی کافی کم رہی۔ تیسرا سبب یہ تھا کہ مسلم ووٹ آر جے ڈی اور جے ڈی یو میں تقسیم ہوگئے تھے، حالانکہ جے ڈی یو اور بی جے پی نے مشترکہ الیکشن لڑا تھا۔

۲۰۱۰ء  میں ۱۹؍ مسلم امیدوار کامیاب ہوئے تھے۔ان میں سے سب سے زیادہ یعنی ۷؍ اراکین کا تعلق جنتادل متحدہ سے تھا جبکہ ۶؍ اراکین راشٹریہ جنتادل  کے ٹکٹ پر منتخب ہوئے تھے۔ اسی طرح کانگریس سے ۳؍، ایل جے پی سے ۲؍ اور ایک امیدوار بی جے پی کے ٹکٹ پر جیتا تھا۔ کانگریس کے ۴؍ ایم ایل ایز میں سے۳؍ مسلم  تھے اسی طرح ایل جے پی  کے ۳؍ میں سے ۲؍ مسلم تھے۔گزشتہ اسمبلی کی طرح اس مرتبہ بھی ۳۶؍ مسلم امیدوار دوسری پوزیشن پر تھے اوران میں سے بھی زیادہ تر کی بہت معمولی ووٹوں کے فرق سے ہار ہوئی تھی۔ کانگریس سب سے زیادہ یعنی ۴۶؍ مسلم امیدوار میدان میں اتاری تھی جبکہ آ ر جے ڈی نے ۲۶؍ مسلم امیدواروں کو ٹکٹ دیا تھا۔ جے ڈی یو نے ۱۴؍، ایل جے پی نے ۱۰؍ اور بی جے پی نے ایک مسلم امیدوار کو ٹکٹ دیا تھا۔اس مرتبہ مسلم ووٹ آر جے ڈی، جے ڈی یو، کانگریس اور ایل جے پی میں بری طرح تقسیم ہوئے تھے۔ نتیش کمار کی طرف مسلم ووٹوں کے کھسکنے کی ایک بڑی وجہ ان کی حکومت کے ذریعہ بھاگل پور فساد کو دوبارہ کھولنے  اور معاملے کی سماعت کیلئے تیزترین عدالتوں کے قیام کااعلان تھا۔

۲۰۱۵ء کے اسمبلی الیکشن میں  آر جے ڈی، جے ڈی یو اور کانگریس کے درمیان عظیم اتحاد کا قیام عمل میں آیا تھا۔نتیش کمار کی قیادت میں تشکیل پانے والے اس اتحاد نے زبردست کامیابی حاصل کی تھی۔اس کا فائدہ مسلمانوں کو بھی ہوا۔ اس کے ۲۴؍ نمائندے کامیاب ہوئے تھے جو مجموعی امیدواروں کا ۹ء۸۸؍ فیصد تھے۔مسلم امیدواروں کی کامیابی اطمینان بخش ضرور تھی لیکن اس مرتبہ بھی اوسط سے  ۱۷؍ کم تھے۔ان ۲۴؍ ایم ایل ایز میں سے ۱۲؍ کا تعلق آ ر جے ڈی سے تھا جبکہ ۶؍ کانگریس کے، ۵؍ جے ڈی یو سے اور ایک کا تعلق سی پی آئی (ایم ایل) سے تھا۔اس مرتبہ ۱۶؍ مسلم امیدوار دوسری پوزیشن پر تھے۔۲۰۱۵ء کے الیکشن میں سیکولر رائے دہندگان کے سامنے تذبذب جیسی کیفیت نہیں تھی کیونکہ ساری سیکولر پارٹیاں متحد تھیں لیکن بعد میں کوئی ٹھوس وجہ بتائے بغیر نتیش کمار نے اپنی وفاداریاں بی جے پی کے ساتھ کرلیں جس کی وجہ سے سیکولر رائے دہندگان خود کو ٹھگا ہوا محسوس کرنے لگے۔

بہار میں مسلمانوں کی سیاسی محرومی کی مختلف وجوہات ہیں۔ان میں ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ اہم سیاسی جماعتیں مسلم امیدواروں کو ان کی آبادی کے تناسب سے ٹکٹ نہیں دیتی ہیں۔برسوں سے کانگریس بہار میں مسلمانوں کو ۹؍ سے ۱۰؍ فیصد تک ہی ٹکٹ دیتی رہی ہے۔مضمون نگار ۱۹۷۷ء کے بیچ مہاراشٹر کیڈر کے آئی پی ایس افسر ہیں جنہوں نے قومی شہریت ترمیمی ایکٹ کے خلاف بطور احتجاج اپنے عہدے سے استعفیٰ دے دیا تھا۔انہوں نے کئی کتابیں بھی تصنیف کی ہیں۔

4 اکتوبر ، 2020 بشکریہ: انقلاب، نئی دہلی

URL: https://www.newageislam.com/urdu-section/causes-political-deprivation-muslims-bihar/d/123060


New Age IslamIslam OnlineIslamic WebsiteAfrican Muslim NewsArab World NewsSouth Asia NewsIndian Muslim NewsWorld Muslim NewsWomen in IslamIslamic FeminismArab WomenWomen In ArabIslamophobia in AmericaMuslim Women in WestIslam Women and Feminism


Loading..

Loading..