ادس ددریجا
حال ہی میں نے ایک 'ای جریدے[http://www.intramuslimdialogue.org] جو صرف بین مسلم مکالمے (www.intramuslimdialogue.org) پر توجہ مرکوز کرنے کے مقصد سے شروع کیا ہے اس پر پہلا رد عمل جو موصول ہو ا وہ یہ تھا ، کہ کیا میں ,غیر پیش گوئی کے طور پر, یہ شامل کر سکتا ہوں، ‘ کیا اس طرح کی چیز ممکن ہے’
اس سوال نے بین مسلم مکالمے پر جریدہ قائم کرنے کے فیصلے پر زیادہ منظم طریقے سے غور کرنے (اور دفاع) کے لئے میری حوصلہ افزائی کی۔
بنیادی سوال ’ کیا بین مسلم مکالمہ ممکن ہے ’ ؟ موجودہ حالات میں ایسے لوگوں کے بارے میں کہنا بھت مشکل جو خود کو مسلمان مانتے ہیں اور اسلامی روایت سے تعلق رکھنے والا مانتے ہیں تاہم آپ ان دونوں کی وضاحت کریں۔
مسلم اکثریت والی دنیا کے کئی حصوں اور خاص طور سے مشرق وسطی، شمالی افریقہ اور جنوبی ایشیاء میں 'فرقہ وارانہ' یا مذہب سے متاثر / جائز تشدد اور ایک مسلمان طبقے کی طرف سے دوسرے مسلمان طبقے پر جاری جبر کے متعدد واقعات، جس کے نتیجے میں بڑی تعداد میں لوگوں نے اپنی زندگی گنوائی‑ شکوک و شبہات کا جواز اور امید کی کمی اس رد عمل میں ظاہر ہوئی جو مجھے جریدے کے ایڈیٹر کی حیثیت سے موصول ہوا۔
تاہم، میرے مطابق یہ سنگین تصویر ہمیں بہترکام کے لئے کوشش کرنے سے باز رکھنے والی نہیں ہونی چاہیے۔ دوسرے طرح سے دیکھا جائے تو ، متبادل صورتحال بہت سے مسلمانوں کے لئے آج اخلاقی اور مذہبی / فقہی بنیادوں دونوں پر قابل قبول نہیں ہے۔
کم سے کم اصولی اعتبار سے حال کے دنوں میں مختلف مذہبی روایات (بین مذہبی) اور نا قابل تخفیف مذہبی کثیریت کو تسلیم کرنے کے درمیان گفت و شنید کا ایک طویل راستہ طے کر چکی ہے۔ میں اسے ایک ایسے شخص کے طور پر کہہ رہا ہوں جو کہ بین العقائد مکالمے (زیادہ تر ابراہیمی مذاہب کے درمیان) میں بنیادی سطح پر فعال رہا ہو اور ساتھ ہی ساتھ جس شخص کی اس موضوع میں ایک علمی دلچسپی بھی رہی ہے۔
لیکن ایک ہی مذہب کی روایتوں کے درمیان خاص طور پر مسلمانوں کے درمیان بات چیت بین مذاہب مکالمے کی رفتار جیسی نہیں رہی ہے۔ کیوں؟ یہ ایک دلچسپ سوال ہے جس کے جواب کے لئے سنجیدہ علمی تحقیق کی ضرورت ہے اور جو یقیناً اس مختصر مضمون کے دائرے کے باہر ہے۔ میرے خیال میں، مسلم اکثریت والے ممالک کو درپیش سماجی، سیاسی اور اقتصادی چیلنجز کے باوجود، کم از کم کچھ حد تک بین مذہبی مکالمے میں شامل ہونے کی ناکامی کی جڑیں موجود ہیں۔ مجھے یقین ہے کی موجودہ وقت میں اس مضمون کو مکمل اور بہترطور پر قدردانی کے لئے اس کے ارد گرد ابتدائی لیکن بالکل ضروری علمی مکالمے کی تشکیل ضروری ہے اور احترام اور وقار کے اصولوں کی بنیاد پر مسلم تجربہ کے وسیع تنوع کا اعتراف ضروری ہے۔ اس طرح جریدے کا خیال ذہن نشیں ہوا۔
میرا یہ بھی ماننا ہے کہ اب وسیع پیمانے پر نیک نییت اور خواہش مند لوگ ہیں جو باہمی احترام، وقار اور اختلافات کے جشن اور تشدد کے تمام اقسام کو ترک کرنے کو حقیقت بنانے کی بنیادوں پر بین مسلم مکالمے کے لئے تیار ہیں!
یقیناً یہ خیر سگالی پہلے سے ہی موجود تھی ۔ تاہم جہاں تک میری معلومات کا تعلق ہے عظیم تر مسلم مکالمے پر بات چیت زیادہ تر یا تو تعلیمی اور تجارتی جریدوں کی علمی بحث میں پائی جاتی تھی جن تک بہت کم غیر علمی طبقے کی پہنچ تھی یا عارضی طور پر افراد نے کوشش کی تھی۔
لہذا، اس علمی جریدے تک رسائی سب کی ہوگی اوررائے، تجزیہ اور تبصرہ پر ہم خیال لوگوں کا سیکشن ہوگا جو صرف وہ لوگ جو تعلیمی ہم چشمہ کے سخت معیار پر پورا اترنے کے طریقہ کار کا جائزہ لینے والے ہیں اورجو تعلیمی کاوشوں کے لئے بہت اہم کے لئے ہی نہیں ہوگا بلکہ سب کے لئے ہوگا۔
کسی کو یہ یاد دلانے کی ضرورت نہیں ہے کہ عالمی مسلم طبقہ نسل، زبان، ثقافت، مذہبی فرقوں اور مذہبی صحیفوںکی تشریح میں بہت متنوع ہے۔ لہذا بین مسلم مکالمے کی دعوت کسی بھی ایک تشریح کی حکمرانی یا قدامت پسندی کے نفاز پر زور دینے کے لئے نہیں ہے۔ اس کے برعکس بین مسلم مکالمے کی دعوت قطعی طور پر مسلمانوں کےمختلف مکتب فکرکے درمیان بات چیت کو ہموار کرنا ہے اور ان کے درمیان باہمی احترام اور وقار کی آفاقی اقدار پر مبنی بہتر سمجھ کو پیدا کرنے کی ضرورت کی بنیاد پر کیا جاتا ہے۔
یقینی طور پر بین مذہبی اختلافات اور مسائل، برا بھلا کہنے اور مختلف قسم کے تشددکے سمیت، صرف اسلامی روایت تک ہی محدود نہیںہے۔ دیگر مذہبی روایات میں بین مذہبی مکالمے کی پیش رفت اورمذہب سے متاثر شدہ تشدد، بدسلوکی اور بیان بازی کی رو ک تھام ہمیں بھی امید دیتی ہے اور ہماری حوصلہ افزائی کرتی ہے کہ مسلمان کی حیثیت سے ہم بھی ایسا کر پانے کے قابل ہیں۔
تاہم، مستقبل میں کیا ہو گا اس کا انحصار بڑی حد تک اس بات پر ہے کہ ہم کس طرح بین مسلم مکالمے کے تصور کو عملی جامہ پھناتے ہیں۔
---
بین مسلم مکالمے کا یہ جریدہ ہم چشم اور غیر ہم چشم افراد سے مضامین، رائے، جائزے، تجزیہ، فوری مطالعہ اور تبصروں کو طلب کرتا ہے۔ برائے مہربانی مینیجنگ ایڈیٹر adisduderija@hotmail.com پر اپنے تعاون ارسال فرمائیں۔
ڈاکٹر ادس ددریجا میلبورن یونیورسٹی کے شعبہ اسلامک اسٹڈیز میں ریسرچ ایسوسی ایٹ ہیں۔
URL for English article:
http://www.newageislam.com/debating-islam/intra-muslim-dialogue-–-is-it-possible?/d/3628
URL for this article:
https://newageislam.com/urdu-section/dialogue-among-muslim-communities-–/d/6672