ڈاکٹرادس ددریجا، نیو ایج
اسلام
3 مارچ، 2012
(انگریزی سے ترجمہ‑
سمیع الرحمٰن، نیو ایج اسلام)
یہ 2010 ء میں شائع ایک مضمون
کا حصہ ہے جو یہاں سے ڈاؤن لوڈ کر سکتے ہیں:
http://web.ysu.edu/gen/class_generated_bin/documents/basic_module/SCI_1012.pdf#page=93
خاص طور سے مدنی مدت میں جب اپنی اور دیگر لوگوں کی شناخت کا سوال پیدا ہوا، تب ایسے میں مسلمانوں اور دیگر مذہبی لوگوں کے درمیان
معیاری تعلقات کو سمجھنے کے لئے وحی کے نزول کے ماحول کو سمجھنے کی ضرورت ہے جس میں قرآنی وحی کے نزول اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ
اس کا عملی اظہار ہوا۔ یہ اس لئے ضروری ہے کیونکہ یہ بنیادی طور پر مدینہ
منورہ میں ہوا تھا کہ پیغمبر محمد صلی اللہ
علیہ وسلم کے پیغام اور لہذا مسلم تشخص کو لے کر لوگ زیادہ خود آگاہی والے ہو گئے تھے۔ لیکن یہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور ابتدائی مسلم طبقے کا مدینہ ماڈل تھا کہ بہت سے مسلمانوں نے اسے
کئی معنوں میں دیگر (مذہبی) لوگوں کے ساتھ تعلقات سمیت اس کی تقلید کرنے کے بارے میں غور کیا۔ مزید برآں، قرآنی مواد کا سرسری جائزہ بھی (اور اس وجہ سے، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وراست کا) بنیادی طور پر اس
سیاق و سباق سے منسلک تھا، خاص طور قرآنی مواد کا وہ طول و عرض جس کا مسلمانوں اور
دیگر مذہبی لوگوں کے درمیان تعلقات
کو بیان کرنے والا تھا۔
اسے سمجھنے کی کوشش میں کئی
عام نکات پر غور کرنے کی ضرورت ہے۔ مذہبی
نقطہ نظر سے خود کی اور دیگر لوگوں کی شناخت
کا تصور جیسا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں قرآن اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے
ذریعہ عملی اظہار کی روشنی میں سمجھا گیا
تھا۔
اوّل، پیغمبر محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا پیغام پہلے سے قائم
مذہبی طبقات کے سیاق و سباق میں سامنے آیاان میں اسلام سے پہلے کی بت پرستی
کے علاوہ سب سے زیادہ اہم یہودیت،
عیسائیت، اورحنیفیہ تھا۔ قرآن خود ہی دیگر غیر مسلموں کے تئیں مسلمان طبقے کے رویہ کی
کئی مثالیں بیان کرتا ہے۔
دوسرا، دیگر غیر مسلموں کے بارے
میں قرآنی نقطہ نظر (اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم
کا سلوک) فطرت میں بہت زیادہ سیاق و
سباق والا ہے، اور اس وجہ سے، ممکنہ طور پر دو جذبات والے ہیں۔ اس کے علاوہ مسلم طبقے کے ابتدائی مدت کے دوران کے زیادہ تر حصے میں
، مدینہ میں مذہبی/ اقبالی شناخت کی تشکیل
کے تعلق سے سیاسی اور فقہی/ مذہبی دشمنی کا ماحول اور مسلمانوں کے درمیان
دشمنی کا ماحول ایک طرف رائج تھا اور مشرکین، بڑی تعداد میں یہودی قبائل، عیسائی اور منافقین دوسری طرف غالب تھے۔ ان حالات
کے تحت مسلمانوں کو اپنے نئے قائم مذہبی طبقے کی بقاء کے بارے میں مسلسل فکر تھی۔ یہ تمام
عوامل کوایک ساتھ ملا کر
کہا جا سکتا ہے کہ ان کے سبب اس زمانے
کے مسلمانوں ( ساتھ ہی ساتھ مختلف غیرمسلم
گروپس) نے دیگر مذہبی لوگوں کے تعلق
سے اکثر رجعت پسندانہ رویہ اور ساتھ ہی
ساتھ حریفانہ رخ اختیار کیا۔ مثال کے
طور پر، واٹ نے مسلمانو اور غیر مسلمانوں کے درمیان تعلق کے حالات
اور ان کے پیچھے کے محرکات، خاص طور پر پیغمبر اسلام اور مدینہ کے یہودیوں کے درمیان تعلقات کی وضاحت کی
ہے:
مدینہ میں نبی کریم صلی اللہ
علیہ وسلم کے ابتدائی دو سال کے دوران یہودی ہی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیغمبری کے دعوے اور آپ کے پیروکاروں کے مذہبی
جوش کے سخت مخالف تھے، جن پر بہت زیادہ انحصار
تھا، وہ بہت کم ہو سکتا تھا جب تک کہ یہودی
تنقید کو خاموش یا ناکام نہ کر دیا جاتا..... جہاں تک یہودیوں نے اپنا رویہ تبدیل کر دیا اور سرگرمی سے
دشمن بنے رہنے سے باز رہے انہیں چھیڑا نہیں گیا........
قرآن نے خود اس کی تصدیق
کی ہے۔ دیگر لوگوں کے قول کے متعلق صحیفوں کا سیاق و سباق پر اس انحصار پر وارڈین برگ
نے دعوے سے کہا کہ"موجودہ مذہبی طبقات
کے ساتھ نئے اسلامی مذہبی تحریک کے مکالمات پر غور کرتے ہوئے ہم سماجی اور سیاسی عوامل کی اہمیت پر حیران ہیں
"۔ اسی طرح فریڈ مین زور دیتے ہیں کہ جن دیگر طبقات کا مسلمانوں کو سامنا کرنا پڑا، ان کے تئین مسلمانوں کا رویہ اس تاریخی تناظر کے سبب بنا جس میں ان کا آپس
میں سامنا ہوا اور ساتھ ہی کافی حد تک متعلقہ
غیر مسلم روایت کے سبب تشکیل پایا تھا"۔
سیاسی سماجی عوامل کے علاوہ،
مذہبی خیالات بھی اہم تھے، کیونکہ اسلامی مذہبی شناخت کی بتدریج ترقی اور مضبوطی
پے چیدگی سے دیگر لوگوں کی مذہبی شناخت
حاص طور سے یہودیوں اور عیسائیوں کی شناخت سے
منسلک تھی۔ مذہبی شناخت کے تسلسل اور قرآن میں دیگر عقائد کے ساتھ یکسانیت
کے پہلوؤں کے ظہور مسلم تشخص کی جدت
اور امتیازیت سے ملی جلی ہے"۔ اس طرح
قرآنی ماحول میں مذہبی پہلوؤں اور دیگر مذہبی
طبقات کے درمیان گفت و شنید نے مسلمانوں
کے مذہبی / اقبالی تشخص کی تعمیر میں مدد کی اور اس کی تعمیر میں بہت اہم کردار ادا
کیا۔
ڈونر (Donner) پیغمبر حضرت محمد صلی
اللہ علیہ وسلم اور قرآن کے اقبالیہ انفرادیت کے مطالعے کے دوران
یہ مشاہدہ کرتا ہے کہ اسلام کے آغاز اور اسلامی صحیفے میں مومنوں کی جماعت کا تصور آزادانہ طور
پر اقبالیہ شناخت (confessional
identity) پر
قائم کیا گیا تھا۔ اور یہ کہ صرف پہلی صدی
ہجری کے اواخر تک ہی (محمد صلی اللہ علیہ وسلم
کی امت کی تشکیل کی ایک پوری نسل کے بعد )
مومنوں کی جماعت کی رکنیت کو خود ہی اقبالیہ
شناخت کی حیثیت سے دیکھا جانے لگا جب بعد میں
مذہبی اصطلاح کی تشکیل کے استعمال کےمطابق
، مسلمان یا ایمان والا ہونے کامطلب یہ تھا کہ وہ مثال کے طور پر عیسائی یا یہودی نہیں تھا۔
کسی اور جگہ وہ لکھتے ہیں:
جیسا کہ قرآن میں استعمال
کیا گیا ہے، اس وقت اسلام اور مسلمان دونوں کو اپنی مخصوصیت سے متعلق اعتراف کا احسا س نہیں تھا جسے اب ہم "اسلام" اور "مسلم" کے ساتھ
منسلک کرتے ہیں، ان کا مطلب وسیع تر اور مزید
لوگوں کو شامل کرنے والا تھا اور کبھی کبھی اس کا اطلاق کچھ عیسائیوں
اور یہودیوں پر ہوتا تھا ....
ڈونر اس دلیل کی حمایت میں
قابل قدر شواہد پیش کرتاہے کے قرآن کے مطابق (بعض) یہودی اور عیسائی بھی مسلمانوں
(جو خود کو خدا کے حوالے کرتے ہیں) کے علاوہ مومنوں کے زمرے میں آئیں گے۔
فریڈمین اس کی تصدیق کرتے
ہیں کہ اسلامی قانونی روایت میں
بعض ثبوت موجود ہیں، جو اشارہ دیتے
ہیں کہ ابتدائی زمانے میں جب مسلم طبقے کی
حدود واضح طور پر طے نہیں تھی ، تب یہودی اور
عیسائی مسلم طبقہ کا حصہ تصور کئے جاتے تھے۔
مسلمانوں کے مذہبی وجود کے
ارتقاء کی تاریخی حیثیت کے متعلق ایک اور اہم رحجان پیغمبر اسلام اور ان کی ابتدائی سماج کی بتدریج مگر روز
افروں خود شناسی تھا ۔ جہاں حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی
کے ابتدائی سال میں مشترکہ اقدار کی تلاش کی سعی اور فریقوں کے مابین خلیج کو پاٹنے کی کوشش ملتی ہے وہیں بعد کے مرحلے میں خصوصی شناخت کی تشکیل پر زور دیا
گیا تاکہ ایک (مسلمان ) کو دوسروں سے بنیادی
طور پر پہچان کی جا جاسکے’’۔
مرلے کہتا ہے کہ جہاں تکثریت
اسلام کی لازمی بنیاد تھی ، خارجیت بعد کے دور کا اضافہ تھی ۔ نزول وحی کے بعد کی صدیوں میں
، اصل تکثیر ی جذبہ کو جس نے دستور مدینہ ( Constitution
of Madina) کی
بنیاد ڈالی، سیاست سے مغلوب طبقوں نے غصب کرلیا جنگجوئی او رعلاقائی توسیع پسندی کو جائز ثابت کرنے کے لئے
قرآن کی خارجی تفسیر پیش کرتے تھے ’’۔ اسی طرح محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں
باز نطینیوں کے متعلق مسلم نقطہ نظر کے تناظر پر لکھتے ہوئے شبول اس کی مشاہدے کی تائید کرتا ہے کہ مسلمانوں کا
رویہ ہمدردی اور اخوت جو قرآنی آیتوں میں منعکس ہے ، سے باز نطینی فوجی طاقت کے رعب او راندیشے ، باز نطینی
دولت او رعیش و عشرت سے نفرت اور حتمی طور
پر کھلی مخالفت او ر طول جنگوں کے اندیشے میں تبدیل ہوگئی ۔
یہود ونصاریٰ کو اسلام نے
اہل کتاب کا درجہ دیا ہے اور انہیں محفوظ اقلیتوں
(ذمیّ) کا درجہ عطا کیا ہے۔
اس سوال سے جڑا ہوا نکتہ جس
کا تجزیہ یہاں مقصود ہے وہ حنیف /ملت ابراہیم
کا قرآنی تصور ہے ۔ قرآن کے مطابق یہ تصور ایک حقیقی خدا میں عقیدے پر مبنی قدیمی مذہب کا تصور کہلا سکتا ہے جو ملّت ابراہیم
قرار پایا جسے آفاقی نظام عقیدہ تصور کیا جاتا ہے اور جس کا حتمی ارتقائی مرحلہ مسلم
اور مذہبی ‘دیگر’ کے تئیں حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا رویہ تھا ۔ بہر
حال یہ واضح نہیں ہے کہ آیا پیغمبر اسلام خود تاریخی اسلام کو زمین پر قدیمی مذہب
حنیفیہ کی ایک ممکن شکل یا واحد شکل کی حیثیت
سے پیش کرتے تھے ۔
اخیر میں ، مذہبی دیگر کے
تئیں اسلامی نقطہ نظر قرآن او رسنت کی ایک خاص ترجمانی کی رہین ہے ۔ یہ نظریہ اس یقین پر مبنی ہے کہ قرآن مذہبی ‘دیگر’ کے بارے میں تجرباتی علم
کا مبنع ہے جس کا اطلاق آفاقی اور تاریخی طور پر اور بلا لحاظ تناظر ہوتا ہے
۔( دوسرے اقتبا س کے حصہ کااحتتام ) یہ بات
ذہن میں رکھنی ضروری ہے کہ یہ معذرت خواہانہ
رویہّ صرف بین المذاہب مکالمے کے موضوع تک ہی محدود نہیں ہے بلکہ اسلام میں عورت کے
کردار اور مقام کے سوال پر بھی خصوصی طور سے نمایا ہے۔
----------
ڈاکٹر ادس ددریجا میلبورن یونیورسٹی کے شعبہ اسلامک اسٹڈیز میں ریسرچ
ایسوسی ایٹ ہیں اور وہ نیو ایج اسلام کے لئے باقاعدہ کالم لکھتے ہیں۔
URL
for English article: https://newageislam.com/interfaith-dialogue/the-relationship-between-muslim-religious/d/6781
URL
for this article: https://newageislam.com/urdu-section/relations-between-muslim-others-/d/8615