ابو طاہر فیضی
18 فروری، 2013
ہندوستانی تہذیب دنیا کی قدیم ترین تہذیب ہے۔ چینی ، بابلی اور مصری تہذیب کی ہم پلہ ہے لیکن ہندوستانی تہذیب کی ایک خصوصیت یہ بھی ہے کہ یہ ایک ملی جلی تہذیب ہے اور اپنے معاصر تمام تہذیوں سے زیادہ روادار اور قوت برداشت والی ہے۔ اگر چہ خونخوار ی اور درندگی سے کوئی تہذیب خالی نہیں ہے لیکن علم و فلسفہ کی ترقی اور انسانی اقدار کا فروغ ہمیشہ اس ملک میں ہوتا رہا ہے۔ کثرت میں وحدت اس کا امتیاز ہے اور بعد کے ادوار میں ان ہی شخصیتوں کو یاد رکھا گیا جنہوں نے انسانیت کے فروغ اور تحفظ میں نمایاں کردار ادا کیا، برائی کے خاتمے اور ظالم وسرکش فرعون صفت لوگوں کی مزاحمت اور حق کی ترویج میں تن من دھن کی بازی لگائی، یہ الگ مسئلہ ہے کہ رنگ آمیزی ، مبالغہ آرائی اور داستان گوئی نے ان شخصیتوں کو مافوق الفطرت بنا کر اللہ سے کم اور عام انسانوں سے زیادہ درجہ دے کر بھگوان وغیرہ کا خطاب دے دیا گیا۔ مریا دا پرش رام، برائیوں کو مٹانے والے کرشن، عفت و پاکیزگی کی مثال سیتا اور وفاداری اور جانثاری کاپیکر ہنومان اور دانائی و حکمت سے لبریز چانکیہ و دیگر و ہ شخصیات ہیں جن کے کردار کے سحر میں انفار میشن ٹکنالوجی اور صنعتی ترقی کے اس دور میں بھی آج لوگ گرفتار ہیں۔ اگر چہ وقت کی دبیز تاریکی نے ان کی حقیقت اور حیثیت پر گردکی دھند چڑھادی ہے لیکن اچھائیوں سے جذباتی لگاؤ اور برائیوں سے نفرت آج بھی عام ہندوستانیوں کے گھٹیوں میں پڑا ہے۔ ہندوستانی عوام جس طرح اچھے لوگوں کو یادر کھتے ہیں اسی طرح برے لوگوں کو بھی برائی کی مثال بنا کر پیش کرتے ہیں۔ ماقبل تاریخ کے اساطیر ی کردار واقعات کے ساتھ مابعد تاریخ کے دھندلے نقوش بھی موجود ہیں اور مدون تاریخ کے کردار بھی اچھائی اور برائی کے ساتھ ہمادے سامنے درس عبرت بنے ہوئے ہیں۔ اگرچہ اس ملک کا سیاسی فلسفہ مذہب پر منحصر رہا ہے اور وقتاً فوقتاً ظاہر ہونے والی کوششیں بھی اسی طرف اشارہ کرتی ہیں لیکن عام ہندوستانی نے ہمیشہ مذہب کے نام پر دکان چمکانے اور مذہب کا استحصال کرکے حکومت حاصل کرنے والوں کو مسترد کیا ہے۔ آج ریاست گجرات ہندو تو کی تجربہ گاہ بنا ہوا ہے لیکن مذہبی منافرت کا یہ نہ پہلا واقعہ ہے اور نہ آخری ہونے کی کوئی امید نظر آرہی ہے۔ گجرات مختلف تہذیبوں کے سنگم پر واقع ہونے کے سبب پنجاب کی طرح مختلف طالع آزماؤں کی آماجگاہ رہا ہے۔ گجرات میں اسلام کی آمد کے ساتھ ہی شرپسندوں کے حملے شروع ہوگئے تھے ۔ لیکن ہر دور میں انصاف پسند رہے ہیں جنہوں نے ان ظالموں کی کلائی پکڑ کر مروڑی ہے اور مظلوم کو انصاف دلایا ہے۔
اسلام کی اولین تاریخ میں گجرات میں عرب تجار کے ذریعہ اسلام پھیل جانے کے بعد کھمبات میں مسلمانوں نے ایک مسجد تعمیر کرلی اور اس کا ایک امام بھی مقرر کرلیا تھا۔ کچھ دنوں کے بعد ہی شر پسندوں نے مسجد پر حملہ کر کے تقریباً 80 مسلمانوں کو شہید کردیا، مسجد نذر آتش کردی۔ مسجد کے امام کسی طرح جان بچا کر بھاگنے میں کامیاب ہوگیااور گجرات کی راجدھانی نہروالہ میں جاکر فریاد کرنی چاہی، لیکن مذہب کے ٹھیکیدار راجہ کے افسروں نے انہیں راجہ تک پہنچنے نہیں دیا۔ امام نے ایک دن جب راجہ جنگل میں شکار کھیل رہا تھا اس نے دوڑ کر راجہ کے ہاتھی کا راستہ روک لیا او رمسجد کی بربادی اور مسلمانوں کی جانوں کے زیاں کی شکایت کی ۔ یہ سن کر راجہ سدھارتھ جے سنگھ نے امام صاحب کو کسی وزیر کے حوالے کیا اور اس کی عزت و خاطر کا حکم دیا اور دربار واپس ہونے کے بعد پیش کرنے کا حکم دیا۔ شکار سے شہر واپس آنے کے دوران راجہ نے وزیروں کو طلب کر کے اطلاع دی کہ وہ تین دن تک اپنے محل سے باہر نہیں نکلے گا اور کسی سے ملاقات بھی نہیں کرے گا۔ اس دوران وہ راج کاج کی دیکھ بھال کریں۔ وزیروں نے راجہ کو یقین دلایا کہ حکم کی تعمیل ہوگی۔ چنانچہ اسی رات راجہ بھیس بدل کر کھمبات روانہ ہوا۔ اور مسافر کی طرح رات کے اندھیرے میں کھمبات شہر میں داخل ہوا اور گھومتا ہوا بازاروں اور بھیڑ بھاڑ والی جگہوں پر پہنچا ۔ اس نے مقامی لوگوں سے مسجد کی تباہی اورمسلمانوں کے قتل کی باتیں سنیں اور اس نتیجہ پر پہنچا کہ مسلمانوں کے ساتھ واقعی ظلم ہوا ہے ۔ پھر راجہ واپس ہوگیا۔ صبح دربار میں پانی کا ایک مشکیزہ لے کر بر آمد ہوا اور بیٹھ کر اس نے امام کو پیش کرنے کا حکم دیا۔ امام کے آنے پر انہوں نے اپنی درخواست پیش کرنے کے لیے کہا۔ جس وقت خطیب نے شریروں کے ذریعہ مسجد شہید کرنے او رمسلمانوں کے قتل کرنے کی بات کہی تو دربار میں موجوددرباریوں نے اسے جھوٹا ثابت کرنے کی کوشش کی۔ اس پر راجہ نے ایک ملازم کو حکم دیا کہ وہ مشکیزہ اٹھائے اور سب درباریوں کو پانی چکھائے۔ پانی کاذائقہ چکھ کر سب کو معلوم ہوگیا کہ یہ پانی سمندر کا ہے۔ راجہ نے درباریوں کو مخاطب کر کے کہا ‘‘ مذہبی تعصب کو دیکھتے ہوئے مجھے آپ لوگوں پر بھروسہ نہیں رہا تھا اس لیے خو د کھمبات جاکر میں نے اس کی تفتیش کی تو پایا کہ یہ مسلمان سچ کہتا ہے ۔ میں نا انصافی برداشت نہیں کرسکتا ، یہ مسلمان ہماری رعایا ہے اور رعیت کے ساتھ نا انصافی مذہب کے خلاف عمل ہے اس کے ساتھ انصاف کیا جائے گا۔’’ راجہ نے فیصلہ دیا کہ کھمبات کے امراء تفتیش کر کے شر پسندوں کی نشاندہی کر کے سزا دیں اور شاہی خزانے سے مسجد کی تعمیر دوبارہ کی جائے۔ اس کے بعد راجہ نے امام کو بہت قیمتی تحائف پیش کر کے شاہی چتر بھی عطا کیا۔ جس سے گجرات کے اس عظیم انصاف پسند راجہ کے انصاف کا اندازہ کیا جاسکتا ہے۔
یہی اس گنگا جمنی تہذیب کی خصوصیت ہے کہ رعایا پروری اور انصاف میں کبھی مذہب آڑے نہیں آیا اگر چہ بعض نام نہاد مذہنی جنونی جو مذہبی کم اور ابن الوقت زیادہ ہوتے ہیں، مذہبی تناظر میں نا انصافی کر نے کی کوشش کرتے ہیں اور ان پر دلائل کا غلط لبادہ اوڑھانے کی کوشش کرتے ہیں لیکن اس ملک میں ہمیشہ جیت رام مارگ پر چلنے والوں کی ہوئی اورراون کے راہ پر چلنے والے ہمیشہ ذلیل ہوتے رہے ہیں ۔اگر چہ راون کی طرح ان کے پیروکار بھی وقتی طور پر حکومت حاصل کرلیں لیکن ان سے دلی نفرت ہی کیا گیا ہے۔ واقعہ اسی گجرات کا ہے جہاں کے راجہ سدھارتھ جے سنگھ نے انصاف کی اعلیٰ مثال قائم کی، اسی گجرات میں برعکس نام نہنگ زنگی کافور رام بھگت ہونے کے مدعی راون صفت مودی کی حکومت ہے جہا ں لاکھوں مسلم خواتین کو بے آبرو کیا گیا، مذہب کے نام لیواؤں نے ماں کا پیٹ چیر کر بچوں کو ذبح کیا اور مسلمانوں کو ہزاروں سال پہلے کی طرح اچھوت بنا کر رکھنے کی بھرپور کوشش کی گئی لیکن اس ملک کی گنگا جمنی تہذیب کے محافظ آئین کی پاسبان عدالتیں ابھی زندہ ہیں اور راجہ سدھارتھ جے سنگھ کی روح بن کر آج بھی کرسی عدالت پر جلوہ افروز ہوکر انصاف کے تقاضے پورا کرنے میں مصروف ہیں۔ چاہے پہلے مایا کوڈنانی جیسے مجرمین کو سزا دینے کا معاملہ ہو یا تازہ ترین اقلیتی طلبا کو وظائف جاری کرنے کا معاملہ۔اس ملک میں وہی سیاست کا میاب رہے گی جو انصاف کے تقاضے پوری کرکے عوام میں تفریق کے بجائے یکجہتی کے لیے کام میں کرے گی۔ ان ہی اشخاص کولوگ ہزاروں سال بعد بھی اسی احترام اور عزت سے یاد کرتے ہیں اور ان کا نام سن کر دل محبت کے جذبات سے لبریز ہوجاتا ہے ۔ یہی اس ملک کی تقدیر ہے اور یہی مستقبل ، جس کو جتنی جلدی یہ سیاست داں سمجھ لیں اتنا ہی ان کے لیے اچھا ہے۔
18 فروری، 2013 بشکریہ : روز نامہ ہندوستان ایکسپریس ، نئی دہلی
URL:
https://newageislam.com/urdu-section/secularism-india’s-soul-/d/10509