ابو صالح /سید خالد
3مئی، 2017
ہر وہ خاتون جو اپنے شوہر سے یکطرفہ طور پر علیحدگی اختیا رکرلے ، اس کی زندگی اجیرن ہوجاتی ہے۔ ان کو اپنے سسرال او رمائیکے دونوں جگہ چیلنجوں او رکاوٹوں کا سامنا رہتا ہے ۔
آر ایس ایس سے ملحق راشٹروادی مسلم مہلا سنگھ گزشتہ جون میں ایک درخواست کے ساتھ سپریم کورٹ آف انڈیا سے رجوع ہوا تھا کہ ’ مسلم پرسنل لا‘ کی تدوین کریں، خاص طور پر بعض شرعی طریقوں جیسے کثرت ازدواج اور طلاق ثلاثہ ( ایک ہی نشست میں قطعی طلاق) کو ختم کردیں۔ اکتوبر میں عدالت نے ان مسائل پر حکومت ہند کی رائے اور سفارش طلب کی۔ حکومت نے جواب دیا کہ مسلم کمیونٹی میں گزشتہ 65برسوں کے دوران اصلاحات کے فقدان نے مسلم خواتین کو سماجی اور اس کے ساتھ معاشی دونوں طرح سے نہایت کمزوربنا دیا اس کے لگ بھگ فوری بعد 24اکتوبر 2016کو وزیر اعظم نریندر مودی نے نام نہاد ’ نظام تین طلاق‘ پر عمل در آمد کو تنقید وں کا نشانہ بنایا۔ اتر پردیش کے بندیل کھنڈ میں ایک ریلی سے خطاب میں انہوں نے کہا تھا : ’’مذہب یا برادری کے نام پر ہماری ماؤں او ربہنوں سے کوئی نا انصافی نہیں ہونی چاہیے ۔
سرسری انداز سے دیکھیں تو یہ ہندوستان کے مسلمانوں کیلئے خوشی کاموقع معلوم ہوتا ہے کہ بی جے پی اور اس کی ثقافتی پہچان آر ایس ایس کا تک مسلم خواتین کی حالتوں کو بہتر بنانے کا ارادہ ہے، جس سے ایسا تاثر بھی ملتا ہے کہ یقیناًکسی دن مسلم مردوں کے لئے بھی کچھ اچھا ہوگا۔ تاہم جب حقائق اور اعداد و شمار پر نظر ڈالی گئی تو ہماری خوشی ہوا ہوگئی ۔ ہندوستان کی مردم شماری 2011کا ڈاٹا استعمال کرتے ہوئے کچھ تحقیقی جائزہ لیا گیا ۔ اس تجزیہ سے حسب ذیل سوالات ابھرتے ہیں: کیاہندوستان میں مسلم خواتین کی حالت اتنی دگر گوں ہے جیسا کہ مودی حکومت ،آر ایس ایس اور دیگر محاذی تنظیمیں دعویٰ کررہے ہیں ؟ کیا مسلم خواتین سماجی اور معاشی طور پر ’’نہایت کمزور‘‘ ہیں، جیسا کہ حکومت کے حلف نامہ برائے سپریم کورٹ میں بیان کیا گیاہے؟ اور ان کی صورتحال ہندو، عیسائی اور دیگر مذہبی برادریوں سے تعلق رکھنے والی ان کی بہنوں کے مقابل کیسی ہے؟ چونکہ کچھ بھی قابل بھروسہ مواد بطور ثبوت پیش نہیں کیا گیا۔۔ نہ حکومتیں حلف نامہ میں اور نا ہی وزیر اعظم کی تقریر میں ۔۔ اس لئے یہ جائزہ لینامفید ہے کہ مردم شماری کا ڈاٹا ہمیں بتاتا ہے۔ ہم نے مردم شماری 2011میں مذہبی برادری او رجنس کے اعتبار سے شادی کے موقف سے متعلق مواد کا تجزیہ کرتے ہوئے حقیقت حال جاننے اور ثابت کرنے کی کوشش کی ہے۔ ہماری تحقیقی کا بنیادی نتیجہ یہ ہے کہ ہندوستانی مسلم خواتین کی صورتحال دیگر مذہبی گروپوں کی خواتین سے کہیں بہتر ہے۔
مثال کے طور پر شادی کے بندھن میں موجود خواتین کا تناسب سب سے زیادہ مسلمانوں (%87.8) ہے، جس کے بعدہندوؤں (%86.2) ، عیسائیوں (%83.7) اور دیگر مذہبی اقلیتوں (%85.8) کا نمبر ہے۔ بیوہ خواتین کا تناسب سب سے کم مسلمانوں (%11.1) میں ہے جس کے مقابل ہندو (%12.9) ، عیسائی (% 14.6 ) اور دیگرمذہبی اقلیتیں (%13.3) زیادہ بیوائیں رکھتے ہیں۔ عین ممکن ہے کہ بیوہ کے نکاح کا کلچر مسلم خواتین کو دیگر مذہبی برادریوں کی خواتین کے مقابل زیادہ بہتر خاندانی تحفظ فراہم کرتا ہے۔
علیحدہ شدہ اور چھوڑی ہوئی خواتین کا تناسب بھی مسلمانوں (%0.67) میں اقل ترین ہے جس کے مقابل ہندوؤں میں(% 0.69)، عیسائیوں میں (%1.19)اور دیگر مذہبی اقلیتوں میں(% 0.68) ہے۔ مردم شماری کے یہی ڈاٹا سے ظاہر ہوتا ہے کہ مطلقہ خواتین کا تناسب مسلمانوں میں 0.49%اور عیسائیوں میں% 0.47ہے ۔ ان کے مقابل دیگر مذہبی اقلیتوں میں% 0.33او رہندوؤں میں % 0.22ہے۔ ہندوؤں میں طلاق لینے کا عمل روایتی طور پر ناپید ہے۔ شادی کے مرحلے سے گزرنے والی 340ملین خواتین میں سے 9.1لاکھ مطلقہ ہیں اور ان میں سے 2.1لاکھ مسلم ہیں ۔ طلاق کا عمل قرآن مقدس میں واضح طور پر بیان کردیا گیا ، جو (ایک نشست میں ) تین طلاق کے خلاف ہے۔ طلاق ثلاثہ مخصوص حالات میں استثنیٰ ہے، ناکہ کوئی قاعدہ۔
طلاق کوئی متلون مزاجی نہیں ۔ مردوں اور خواتین دونوں کو باضابطہ عمل کی تعمیل درکار ہوتی ہے جس میں کم از کم تین ماہ ( یا تین مدتِ حیض ) علیحدگی کے بعد لگتے ہیں جب کہ مصالحت کی کوششیں ناکام ہوجائیں ۔ اس میں دو منطقی پہلو ہیں، سسٹم یقینی بناناچاہتا ہے کہ وہ خاتون حاملہ نہ ہو او راگر وہ حاملہ ہے تو بچہ کی ذمہ داری کو ملحوظ رکھا جائے۔ دیگر وجہ فریقین کو قطعی فیصلہ تک رہنے کی جگہ فراہم کرنا ہے۔ پھر شفاف مصالحت کے لئے ثالثوں کو مقرر کرناچاہئے۔ شوہر کی فیملی سے ایک او ربیوی کی طرف سے دیگر ،اور آخر میں فریقین کو حق حاصل رہتا ہے کہ علیحدگی کی مدت کے دوران روجوع ہوکر اپنی شادی کو قائم رکھیں ۔
اسلام میں طلاق دو طرح سے ہوتی ہے: ایک وہ جو بیوی کی طرف سے شروع کی جاتی ہے جسے ’ خلع‘ کہتے ہیں اوردیگرطلاق شوہر کی طرف سے دی جاتی ہے۔ تین طلاق شوہر کی طرف سے دی جانے والی طلاق کی ایک شکل ہے۔ اگر شوہر طلاق دیتا ہے تو اسے اپنی بیوی کو مہر ادا کرنا پڑتا ہے،جو لازمی ادائیگی ہے جسے نکاح کے وقت دلہا کی طرف سے دلہن کو ادا کیا جاتا یا بعد میں ادا کرنے کا وعدہ کیا جاتا ہے۔ مہر کی صراحت نکاح کے دوران دستخط پانے والے ہر نکاح نامہ میں کی جاتی ہے۔ اگر بیوی خلع چاہے تو اسے اپنے حق مہر سے دستبردار ہوجاناپڑتا ہے، کیونکہ نکاح کی یہ منسوخ خود اس کی طرف سے شروع کردہ ہوتی ہے۔
ہم نے دارالقضاۃ سے وابستہ چار قاضی صاحبان سے مشاورت کی جن کو اسلامی فقہ میں خاصا تجربہ حاصل ہے اور جو شہر حیدر آباد میں خلع یا طلاق کا فیصلہ کرنے کا مجاز ہیں ۔ شادی یا نکاح تو سارے شہر میں پھیلے ہوئے قاضی صاحبان انجام دے سکتے ہیں ۔ لیکن خلع او رطلاق کی یکسوئی صرف یہی چار قاضی صاحبان کرسکتے ہیں ۔ ایک قاضی صاحب سے معلوم ہوا کہ گزشتہ سات برسوں میں ان کو طلاق ثلاثہ کے صرف دومعاملوں کا سامنا ہوا ہے۔ ایک دیگر قاضی صاحب جو گزشتہ 15سال سے خدمات انجام دے رہے ہیں، طلاق کے 160معاملوں کی یکسوئی کئے جن میں سے 130خلع کے معاملے رہے، 21معمول کی طلاق اور صرف 9تین طلاق کے زمرہ والے معاملے ہوئے ۔
چھوڑی ہوئی خواتین کی زبو ں حالی اگر چہ کوئی ٹھوس مواد دستیاب نہیں ، لیکن واقعاتی شہادت سے ظاہر ہوتا ہے کہ تین طلاق بہت ہی کم ہی پیش آتی ہے او راگر ایسے بدبختانہ معاملے پیش آئیں تو کمیونٹی نے بڑی حد تک مطلقہ کی پرُ زور حمایت کی او راس کی باز آبادکاری کی کوشش بھی کی گئی ۔یہ بھی ضرو ر نوٹ کیا جانا چاہئے کہ سپریم کورٹ پہلے ہی 2002کے شمیم آراء بمقابلہ ریاست یوپی ( اتر پردیش) فیصلہ اس تین طلاق کو ناقص قرار دے چکی ہے، اور مطلقہ مسلم خواتین کو بھی مختلف قوانین جیسے مسلم ویمنس ایکٹ او رگھریلو تشدد سے خواتین کی حفاظت سے متعلق قانون 2005نیز تعزیرات ہند ( آئی پی سی) کے تحت انصاف حاصل ہورہا ہے۔
اس پس منظر میں آر ایس ایس ،بی جے پی اور حتیٰ کہ وزیر اعظم مودی کا جوش و خروش کہ مسلم برادری کو بااختیار بنانے کے حصہ کے طور پر تین طلاق کو بڑے مسئلہ کے طور پر پیش کیا جائے، قابل اعتراض ہے۔ اس کی بجائے، انہیں چاہئے کہ اپنی فکر مندی سماج کے تمام حصوں سے تعلق رکھنے والی 43ملین بیوہ عورتوں پر مرکوز کریں، انہیں گزر بسر کے لئے دوسری شادی کے لئے ترغیبات اور یا باقا عدہ پروگرام کے تحت مالی مدد فراہم کریں ۔ ہندوستان میں تقریباً ایک ملین طلاق شدہ خواتین ایسی بھی ہیں جن کو سماجی نیز حکومتیں مدددرکار ہے۔ نیز یہ علیحدہ شدہ او رچھوڑی ہوئی عورتوں سے متعلق مسائل طلاق ثلاثہ سے کہیں زیادہ سنگین ہیں ۔ گزشتہ مردم شماری کے مطابق ہندوستان میں 2.3ملین علیحدہ شدہ اور چھوڑی ہوئی خواتین ہیں، جو قطعی طور پر مطلقہ خواتین کی تعداد سے زائد از دو گنا ہے۔ لگ بھگ دو ملین ہندو خواتین چھوڑی ہوئی او ر علیحدہ شدہ ہیں ، یہ تعداد مسلمانوں میں 2.8لاکھ ، عیسائیوں میں 0.9لاکھ اور دیگر مذاہب میں 0.8لاکھ ہے۔
ہر وہ خاتون جو اپنے شوہر سے یکطرفہ طور پر علیحدہ ہوجائے، اس کی زندگی اَجیرن ہوجاتی ہے ، چاہے وہ راجہ بھوج کی شریک حیات رہی ہو یا گنگو تیلی کی ۔ انہیں اپنے سسرال او رمائیکے دونوں خاندانوں میں چیلنجوں اور پابندیوں کا سامنارہتا ہے۔ سسرال میں ان کو تائید نہیں ملتی کیونکہ ان کا بیٹا اسے چھوڑ چکا ہوتا ہے اور پیدائشی گھر میں اسے توجہ نہیں دی جاتی کیونکہ وہ روایتی طور پر ’’ پرایا دھن‘‘ سمجھی جاتی ہے۔ وہ دوسری شادی کرتے ہوئے نیا گھر نہیں بسا سکتی ہیں کیونکہ یہ حقیقت آڑے آتی ہے کہ وہ طلاق شدہ نہیں ہیں۔ ایسی زیادہ تر خواتین سماجی اور معاشی طور پر نہایت خراب حالات میں جی رہی ہیں ، اور انہیں دیگر کی جانب سے استحصال کا جوکھم بھی لاحق ہے۔ و ہ اپنے شوہروں کے ساتھ رہنے کے لئے مضطرب ہوتی ہیں، اور بس ایک شادی کی منتظر رہتی ہیں۔43سال سے اپنے شوہر کے ساتھ نہ رہنے کے باوجود جشودابین مودی نے 24نومبر 2014کو کہا تھا کہ ’’ اگر وہ ایک بار بھی یاد کرلیں تو میں ان کے پاس چلی جاؤں گی‘‘۔ لیکن ان کے شوہر نے کبھی جواب نہ دیا۔
چھوڑی ہوئی بیویوں کو ہندوستان میں پاسپورٹ حاصل کرنا تک مشکل ہوجاتا ہے، مثلاً 2015میں جب جشودابین نے پاسپورٹ حاصل کرناچاہا تو ان کی درخواست اس وجہ سے مسترد کردی گئی کہ ’’ کوئی میریج سرٹفیکٹ یا شوہر کے ساتھ مشترک حلف نامہ منسلک نہیں تھا‘‘۔ انہیں جد وجہد کرنی پڑی اور خود اپنے شوہر کے پاسپورٹ کی تفصیلات حاصل کرنے کے لئے آرٹی آئی درخواست داخل کرنی پڑی۔
طلاق ثلاثہ سے پیدا ہونے والے مسائل کا ڈھنڈورا پیٹ کر مسلم خواتین کے حالات میں بہتری لانے کے لئے کوشاں کسی بھی شخص یا تنظیم کو 2.4ملین چھوڑی ہوئی خواتین کے مصائب کی گہرائی کاپتہ کرنا چاہئے۔ مودی نے کہا تھا ’’ مذہب یا برادری کے نام پر ہماری ماوؤں اور بہنوں کے ساتھ نا انصافی نہیں ہوناچاہئے‘‘۔کیا وہ چھوڑ ی ہوئی خواتین کے مفاد کا مسئلہ نہیں اٹھائیں گے حالانکہ یہ حیقیقت ہے کہ اکثریت 1.9ملین ۔۔ ہندو ہیں اور شاید ان کی زبو حالی کے تعلق سے بات کرنے پر کوئی سیاسی فائدہ حاصل نہیں ہوگا؟
( ابو صالح شریف یو ایس ۔ انڈیا پالیسی انسٹی ٹیوٹ ، واشنگٹن ڈی سی سے وابستہ ماہر معاشیات ، سید خالد ریسرچ اسوسی ایٹ، سنٹر فار ریسرچ اینڈ پیٹیس ان ڈیولپمنٹ پالیسی ، نئی دہلی )
3مئی،2017 بشکریہ : روز نامہ جدید خبر ، نئی دہلی
URL: https://www.newageislam.com/urdu-section/the-divorce-rate-among-muslims/d/111071
New Age Islam, Islam Online, Islamic Website, African Muslim News, Arab World News, South Asia News, Indian Muslim News, World Muslim News, Women in Islam, Islamic Feminism, Arab Women, Women In Arab, Islamophobia in America, Muslim Women in West, Islam Women and Feminism