ابواسامہ
17 اکتوبر،2021
راہی معصوم رضا ایک
بااصول او ربے باک ادیب کے طور پر سرفہرست ہیں۔ سماجی اور سیاسی مسائل، محفلوں میں
ہونے والے مباحثے، وجود ی بحران سے جو جھتا ہواانسان، انسانی رشتوں کے بیچ حائل بے
شمار وعدوں اور معاہدوں کے درمیان راہی ایک بہترین مصور ہیں۔آج کے سماجی و سیاسی
حالات کے پس منظر میں راہی صاحب بہت یاد آرہے ہیں۔ خاص طور پرجب کہ ہندو مسلم
تعلقات میں خلیج بڑھتی جارہی ہے اور فرقہ پرستی کی طناب ایک بار پھر سے پورے ملک
میں پھیل رہی ہے۔ راہی نے مابعد تقسیم والی جنریشن کی ذہن سازی کرنے کی ہمت کی۔
حالانکہ اس وقت یہ کام آسان نہیں تھا۔ ایک باخبر ادیب کی طرح انہوں نے کہا کہ
تقسیم ہند سے ہمارا مسئلہ ختم نہیں ہوا بلکہ ہندوستان میں نفرت اور فرقہ پرستی
پرمبنی سیاست کے عہد کی ابتدا ہوئی۔ دونوں قوموں نے اپنی اپنی تاریخ کو روشن بنانے
کے فراق میں تاریخ کو مسخ کیا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ ہزاروں سال کی مشترکہ تاریخ اب
ہندو تاریخ اور مسلم تاریخ میں تقسیم ہوگئی۔ دونوں نے اپنے اپنے راجا اور ہیرو،
اپنی زبانیں، اپنے لباس او راپنے لوگ چن لیے۔ یہاں تک کہ خوابوں کی دنیا میں بھی
بہت گھپلا ہوا، خوب ہندو اورمسلمان، خوب ہندوستانی اور پاکستانی ہوگئے۔ راہی نے
سیکولر او رجمہوری اقدار کی آبیاری کی، ان کی کہنی اور کرنی میں فرق کرنا مشکل ہے۔
انہوں نے کہا کہ میں تین ماؤں کا بیٹا ہوں: نفیسہ بیگم، گنگا اور علی گڑھ مسلم
یونیورسٹی،جن میں نفیسہ بیگم تو مرچکی ہیں لیکن گنگا او رعلی گڑھ مسلم یونیورسٹی
اپنی پوری آب و تاب کے ساتھ زندہ ہیں۔ ہمارے ارد گرد کتنے لوگ ایسے ہوں گے جو اپنی
مٹی کے تئیں اس حد تک دیوانے ہوں اور ایمان کی حد تک اس امر کے قائل ہوں؟ گنگان
ندی ان کے لئے ایک سیکولر استعار ہ ہے جو ہندوؤں او رمسلمانوں دونوں کے نزدیک مقدس
ہے۔ راہی ایک بات ببانگ دہل کہہ رہے ہیں کہ صاحب! دوندیاں ملنے سے تین نہیں بلکہ
ایک ہوجایا کرتی ہیں۔ وہ اپنے عقیدے اور سماجی پوزیشن سے بھی بخوبی واقف ہیں یعنی
ایک مسلمان اور سیکولر ہندوستانی۔
راہی معصوم رضا
-------
ان باتوں کی روشنی میں
سمجھنا چاہئے کہ مشہور زمانہ ٹی وی سیریل مہابھارت کے مکالمہ نویس اور ’میں سمے
ہوں‘ کی نہ ختم ہونے والی گونج کے خالق راہی صاحب ہیں۔
راہی کا مشہور زمانہ ناول
’ٹوپی شکلا‘ ہندو مسلم تعلقات او رسیکولرزم کی عکاسی کرتاہے۔ اس میں انہوں نے
متمول اور تعلیم یافتہ طبقے کے دوہرے اور منافقانہ کردار کا ماتم کیا ہے کہ جو
سیکولر ہونے دعویٰ تو کرتے ہیں جب کہ وہ حقیقتاً فرقہ پرست ہیں۔ٹوپی شکلا جو کہ
سیکولر اور ہندوستانیت کی اقدار کا پرتو ہے، اس منافقت کا شکار ہوجاتاہے جس کا
انجام خود کشی پر ختم ہوتا ہے۔ آج یونیورسٹی اور کالجوں میں اساتذہ کے طرز فکر اور
کیمپس میں ہونے والی منافقانہ پالٹیکس سے نہ جانے کتنے ٹوپیوں کی زندگی اجیرن
ہوگئی ہے۔ وہ ٹوپی شکلا کے پیش لفظ میں لکھتے ہیں کہ خود کشی انسانی تہذیب کی ہار
ہوتی ہے، ٹوپی شکلا میں ایک بھی گالی نہیں ہے مگر یہ پورا ناول ایک گندی گالی ہے
جسے میں ڈنکے کی چوٹ پر بک رہا ہوں۔ راہی صاحب خوش نصیب تھے کہ انہیں اساتذہ او
رتعلیم یافتہ طبقے کے چھپے ہوئے فرقہ پرستی کے جذبات کو اجاگر کرنے کی ضرورت محسوس
ہوئی۔ وہ آج زندہ ہوتے تو انہیں یہ محنت بھی کرنے کی ضرورت نہیں ہوتی کیونکہ اب یہ
افراد خیموں میں تقسیم ہوچکے ہیں اور سیاسی پارٹیوں کے منشور لکھ رہے ہیں۔ ہمارے
دور کی فرقہ پرستی نے نئی کروٹیں لی ہیں۔ راہی صاحب دونوں قوموں کے لئے ایک مشترکہ
پلیٹ فارم ڈھونڈتے رہے،وہ بتاتے رہے کہ دونوں قوموں کے بیچ رشتہ اٹوٹ ہے۔ انہوں نے
ہندو مسلم رشتوں کو روز مرہ کی زندگی میں جاکر سمجھانے کی کوشش کی۔ ان کے رشتوں کی
نفسیات کا نصاب ہمارے نصاب سے ذرا مختلف ہے۔ کیونکہ ہمارے والے نصاب میں جنوبی ہجوم کا حد سے بڑھا ہوا تشدد ہے، ذات
اور فرقے کے نام پر جان لیوا حملے ہیں اور سماج کے مرکزی دھارے سے خارج افراد کا
جم غفیر ہے۔ یہ سب کچھ آج ’نارمل‘ ہوگیا ہے۔ او رایسا اس وجہ سے بھی ہورہا ہے
کیونکہ ہم نے اپنے حصے کا کام ملک کے سیاست دانوں پر چھوڑ دیا ہے۔ راہی صاحب آج یہ
کہنا چاہتے ہیں کہ ہجوم کسی کا نہیں ہوتا، اس نے تو تہذیبوں کو نگل لیا ہے۔ لہٰذا
یاد رہے کہ جرمنی میں آج ہٹلر اور اس کی پارٹی کا ذکر بھی قابل جرم ہے حالانکہ یہ
وہ لوگ تھے جنہیں یہ غرورتھا کہ ان کا سورج کبھی غروب نہیں ہوگا۔
ضرورت اس بات کی ہے کہ
پھر سے پرانے رشتوں کی ڈور کو تلاش کیا جائے او رماضی کے مزاروں کو آباد کیا جائے۔
راہی صاحب اس بات پر بضد تھے کہ ہندوؤں او رمسلمانوں کے تعلقات کی صدیوں پرانی
تاریخ ہے، خدارا اسے نہ جھٹلا یا جائے۔ انہوں نے کہا کہ جدید ہندوستان کی کہانی
میں تقسیم ہند ایک فل اسٹاپ ہے جسے دربدری کی تاریخ کے اوراق میں جلی حرفوں سے
لکھا جاچکاہے۔مگر کیا اس ملک کے ہندو اور مسلمان اس المیے کو اپنے لیے ہمیشہ ہمیش
کا تاریخی حوالہ بنالیں گے یا پھر وہ اس سے سبق حاصل کریں گے اور ایک اچھی اور
مثبت سماجی زندگی میں یقین رکھنے کی ابتدا کریں گے؟ یہی وہ نصاب ہے جسے راہی ہمارے
سامنے پیش کرنا چاہتے ہیں او ریہی وہ تعلیم ہے جو وہ ہمیں دینا چاہتے ہیں۔ راہی
معصوم رضا کی تحریریں نئے ہندوستان کے ہندو مسلم تعلقات کی سیاست کے ساتھ ساتھ
تقسیم ہند،سیکولرزم، تہذیب اور ’ہندوستانیت‘ جیسے موضوعات پر مبنی ہیں۔ ان کی
کتابوں میں آدھا گاؤں،ٹوپی شکلا، ہمت جون پوری، نیم کا پیڑ، اوس کی بوند، دل ایک
سادہ کاغذ، کٹرہ بی آرزو، سین پچھتر او راسنتوش کے دن وغیرہ شامل ہیں۔
17 اکتوبر،2021، بشکریہ: روزنامہ چٹان، سری نگر
URL:
New Age Islam, Islam Online, Islamic Website, African
Muslim News, Arab
World News, South
Asia News, Indian
Muslim News, World
Muslim News, Women
in Islam, Islamic
Feminism, Arab
Women, Women
In Arab, Islamophobia
in America, Muslim
Women in West, Islam
Women and Feminism