ابراہیم آتش
13اپریل، 2017
راجستھان کے الور میں 55سالہ پہلو خاں کی ہلاکت کے بعد ملک میں چاہے اپوزیشن پارٹیاں کتنا بھی ہنگامہ کھڑا کریں اس سے نہ پہلو خا ں کے خاندان کو کسی قسم کا فائدہ ہوگا اور نہ ہی مستقبل میں گائے اور بیل کی نقل و حرکت کرنے والوں کو راحت ملے گی حالانکہ گاؤ رکشک کے نام پر کھلے عام غنڈہ گردی جاری ہے اس بات کو ملک کے وزیر اعظم نریندر مودی نے خود کہا ہے گاؤ رکشک کرنے والوں میں اکثریت مجرموں کی ہے اپنے جرم کو چھپانے کے یہ گاؤ رکشک کا چلا پہنے ہوئے ہیں نریندر مودی کے بیان کے بعد بھی ریاستی حکومتیں ان گاؤ رکشک پر لگام کسنے کو تیارنہیں ہے ابھی حال ہی میں سپریم کورٹ نے بھی ملک کی چھ ریاستوں او رمرکزی حکومت کو نوٹس جاری کیا ہے گاؤ رکشک کے نام پر کسی کو اپنے ہاتھ میں قانون لینے کی اجازت نہیں ہے اور ریاستی حکومتیں ان سے سختی سے نمٹیں جو بیجا معصوم انسانوں کو پیٹتے ہیں حتی کہ ان کو ہلاک بھی کر دیتے ہیں اس طرح کے واقعات کو دنیا کے تمام لوگوں نے ٹی وی اور موبائل میں دیکھا ہے ظلم او ربے رحمی کی حدیں بھی پار ہوتی ہوئی دیکھی گئی ہیں اس لئے کہ معاشرہ کا ایک طبقہ ان واقعات کو فلم بند کررہا ہوتا ہے یا پھر اس واقع سے لطف اندوز ہوتا ہوا دیکھا گیا ایک عام انسان جو اس منظر کودیکھنے کے بعد لرز ہ طاری ہوجائے ویسے منظر کو راست دیکھنے والوں پر کس قدر اثر ہو نا چاہئے اگر اثر نہیں ہورہا ہے تو پھر ان لوگوں کے دل مردہ ہوچکے ہیں یا پھر نفرت کا لاوا مخصوص طبقہ کو لے کر ان کے دلوں میں ابل رہا ہے۔
دادری میں اخلاق کو ہلاک کیا گیا مدھیہ پردیش میں دو عورتوں کو ریلوے اسٹیشن پرکھلے عام پیٹا گیا گجرات میں چار دلتوں کو ننگا کر کے پیٹا گیا اور ہریانہ میں گائے کا گوبر زبردستی کھلایا گیا اور اب راجستھان کے الور میں پہلو خاں کوموت کے گھات اتارا گیا حالانکہ ان تمام واقعات کی تفصیل جاننے کے بعد یہ معلوم ہوا کہ یہ سب بے قصور تھے جس جرم کی ان کو سزا دی گئی وہ اس جرم میں ملوث نہیں تھے ۔ مسلمان یہ بات اچھی طرح سمجھ لیں کہ گاؤ رکشک کے نام پر جو غنڈہ گردی چل رہی ہے اس غنڈہ گردی کو ریاست کی حکومتوں کی پشت پناہی حاصل ہے جب تک ریاست کی حکومتیں ان پر لگام نہیں کستی یہ رکنے والی نہیں ہیں غنڈہ گردی کو روکنے کا واحد حل یہی ہے کہ ان کو سزا ملے اگر سزا نہ ملے تو غنڈہ عناصر کی ہمت بڑھے گی اور ہمیں یہ بات بھی ذہین نشین کر لینی چاہئے کہ جمہوریت میں سب سے بڑی طاقت عوام کی ہوتی ہے عوام جس حکومت کو منتخب کرتی ہے وہ طاقت حکومت میں منتقل ہوجاتی ہے یہاں تک کے عدالتوں سے بڑھ کر حکومتوں کی طاقت دیکھی گئی ہے کیونکہ سپریم کورٹ کے فیصلوں کو بھی پارلیمنٹ کے ذریعہ بدلا گیا ہے اور بدلا جاسکتا ہے عدالت کا کام یہ ہوتا ہے اپنے فیصلے ثبوتوں کی بنیاد پر دیتی ہے جب کہ ثبوتوں کو مٹانا اور ثبوتوں کو بنانا حکومت کا بائیں ہاتھ کا کھیل ہے اس طرح کے کئی واقعات ہم دیکھ رہے ہیں جن لوگوں کوپچھلی سرکاروں نے مجرم مانا تھا وہ موجودہ سرکار میں بے قصور پائے جارہے ہیں اور باعزت بری ہورہے ہیں اور ایسا بھی دیکھا گیا ہے عدالت اپنے فیصلے شخصیات کے مطابق کرتی ہے حالانکہ عدالت میں ایک مجسمہ ہوتا جس کی آنکھ پر کالی پٹی بندھی ہوتی ہے اس کا مقصد یہی ہوتا ہے کہ انصاف کسی کے درمیان فرق نہیں کرتا عدالت کی نظر میں سب ایک ہیں مگر حقیقت میں ایسا نہیں ہوتا ہے بہت سے عدالت کے فیصلوں میں ہم نے دیکھا ہے با اثر شخصیات کے خلاف فیصلہ سنانے سے پہلے انصاف کی دیوی آنکھوں کی پٹی نکال لیتی ہے اور دیکھتی ہے کہ اس شخص کے خلاف فیصلہ سنانے سے ملک میں کوئی ہنگامہ تو نہیں ہوگا اور اگر کوئی کمزور شخص نظر آئے تو فوراً اس کے خلاف فیصلہ سنا کر جیل میں ڈال دیا جاتاہے اس کے باوجود ہمیں عدالت پر ہی بھروسہ کرنا ہوگا کیونکہ امید کی آخری کرن وہیں سے نمودار ہوتی ہوئی نظر آتی ہے۔
اس مضمون کا اصل موضوع ہے مسلمان گائے اور بیل ہی نہیں بھینسوں سے بھی دور رہیں موجودہ حالات میں مسلمانوں کی طرف سے بھی اس طرح کے سوالات اٹھ رہے ہیں کہ مسلمانوں کوگائے بیل اور بھینسوں کا ذبیحہ بندکرناچاہیے ابھی اتر پردیش کے قریش برادری کے صدر نے یہ اعلان کیا جو لوگ ان جانوروں کے گوشت کی غیر قانونی تجارت کریں گے ان کا سماجی بائیکاٹ کیا جائے گا یہ ایک اچھی خبر ہے پورے ملک کے مسلمانوں کو اجتماعی فیصلہ لینا ہوگا ملک کاکوئی مسلمان ان جانوروں کا ذبیحہ نہیں کرے گا او رنہ ان کے گوشت کی تجارت کرے گا اتر پردیش میں یوگی حکومت بننے کے بعد ملک کی دوسری ریاستوں میں غیر قانونی ذبح خانوں پر پابندی لگائی جارہی ہے ۔ ملک میں قریش برادری اس معاملہ میں سنجیدہ ہونے کی ضرورت ہے اگر یہ بات مان بھی لیں ان جانوروں کا گوشت مسلمانوں سے زیادہ غیر مسلم کھاتے بھی ہیں تو اس سے قریش برادری کو کسی قسم کی ہمدردی اور تائید نہیں ملے گی کیونکہ ان معاملوں میں مسلمانوں کے ساتھ کوئی دوسری قوم کھڑی ہوئی نظر نہیں آتی جب کہ عیسائی اور دلت کہ علاوہ دوسری قومیں بھی گوشت کھاتے ہیں ملک میں گوشت کے نام پر غنڈہ گردی مندرجہ بالا جن واقعات کا ذکر کیا گیا ۔ یقیناًقریش برادری کیلئے بڑا آزمائش کا دور ہے سب سے پہلے ان کی روٹی روزی چھن جائے گی او رمجھے لگتا ہے ان لوگوں کیلئے حکومت کوئی متبادل روزگار فراہم کرے گی اس پیشے سے جو افراد جڑے ہیں وہ تعلیم یافتہ نہیں ہوتے ہیں اس لئے ان کو کوئی دوسرے شعبوں میں جگہ بنانابھی مشکل ہوگا اگراتفاق سے ان کے گھر کاکوئی فرد تعلیم حاصل کر لے تو وہ اس پیشے کو پسندنہیں کرے گا۔
گائے کے ذبح پر پابندی کی آواز کئی دہوں سے اٹھ رہی ہے اگر اس وقت پر قریش برادری سنجیدگی سے لیتی تو آج ان کی نسل بھی تعلیم یافتہ ہوتی کیا یہ ضروری ہے قریش برادری صرف گوشت کا کاروبار کرے بھنبھناتی ہوئی مکھیوں میں اور بسا بدبوں میں سارا دن گزارے مسلمانوں کو یہ بھی سوچنا ہوگا عوام کی اکثریت اس تجارت کے بغیر اچھی زندگی گزار سکتی ہے تو مسلمان کیوں ایسا نہیں کر سکتے او راس پر پہلے قریش برادری کو ہی آگے بڑھنا ہوگا کیونکہ حکومت اور غنڈہ عناصر کا شکار وہی ہورہے ہیں ۔ مسلمان صرف ایک ہی نظر یہ نہ سوچیں دنیابدل رہی ہے آج گوشت کا کاروبار کرنے والے وہیں ہیں او ران پڑھ ہوکر رہ گئے ہیں معاشرے کی اکثریت کا یہ خیال ہے گوشت کا کاروبار کرنے والوں سے کوئی رشتہ داری کرنابھی پسند نہیں کرتے ہیں یہ حقیقت ہے معاشرے میں ایک محدود طبقے میں بٹ کر رہ گئے ہیں اگران کو ان حدود سے نکلنا ہے تو اس کا روبار سے نجات حاصل کرلیں ۔ ملک کے مسلمان کسان او ران مویشوں سے جڑے افراد بھی چوکنا رہیں خاص کر ان ریاستوں میں جہاں گائے کے ذبح پر پابندی ہے کوئی بھی شخص ان مویشوں کی نقل و حرکت نہ کرے کیونکہ حکومت کے کسی بھی دستاویز کی کوئی اہمیت نہیں ہے کوئی نہیں دیکھے گا آپ کے پاس دستاویز ہیں یا نہیں ان کے لئے آپ ہی ممنوع دستاویز ہوں کے جو لوگ مویشیوں کا کاروبار کرتے ہیں وہ کوئی دوسرا کاروبار ڈھونڈ لیں جو لوگ زراعت کے لئے مویشی استعمال کرتے ہیں وہ ٹریکٹر کا استعمال کریں ۔
موجودہ دور میں مسلمان ملک میں جن حالات سے گذر رہے ہیں یہ سب ہمارے اعمال کا نتیجہ ہے ہم نے دور اندیشی سے کام لیا ہوتا حکمت سے کام لیا ہوتا یا ان مفکروں کی باتوں کو قبول کیا ہوتا تو آج یہ دن دیکھنے کو نہیں ملتے ہم جذباتی علماؤں کے پیچھے بھاگتے رہے جو صحیح طریقے سے رہنمائی نہیں کی جن حالات کا ہم آج سامنا کررہے ہیں جن واقعات کے ہم چشم دیدہ گواہ ہیں وہ یکایک نہیں آئے بلکہ اس کے پیچھے کچھ جماعتیں اور تنظیمیں کئی دہوں سے مسلسل کام کرتی رہی ہیں جس کا نتیجہ آج بر آمد ہورہا ہے ہوسکتا ہے یہ شروعات ہو کیونکہ ملک کی اکثریت ان تنظیموں سے نہیں جڑی ہے اور اتفاق بھی نہیں کرتے ہیں جس دن وہ بھی ان کے ساتھ مل جائیں گے ملک کے حالات بد سے بد تر ہوسکتے ہیں ابھی تک جو ان کے ساتھ نہیں ہیں مسلمان ان کو اپنا دوست بنالیں اوران کا دل جیتیں دل جیتنے کے لئے کچھ قربانی بھی دینی پڑے گی اس میں ایک قربانی گاؤ کشی بھی ہوسکتی ہے یہ بات بھی ذہین میں رکھنی چاہئے کہ جس ملک میں آزادی سے پہلے اور آزادی کے بعد پورے ملک میں لوگ اپنی پسند کی غذا کھاتے تھے مگر آہستہ آہستہ لوگوں کا مزاج بدلتا گیا گاؤ کشی کولے کر مسلمانوں سے نفرت کی فضا پیدا کی گئی یہ بھی حقیقت ہے کہ اس ملک میں زیادہ تر لوگ گوشت خور نہیں ہیں کیونکہ مذہبی اعتبار سے وہ لوگ گائے کو ماں کا درجہ دیتے ہیں مانا کہ ملک میں سیکولرزم ہے اس کے باوجود سیکولرزم کی بقا کے لئے اکثریت قوم کا لحاظ رکھا جانا چاہئے او ریہ بھی حقیقت ہے ان میں بعض لوگوں کا مسلمانوں کے متعلق اچھا ذہن نہیں گاؤ کشی تو صرف بہانہ ہے ان کا نشانہ کچھ اور ہے ان کے پاس بے شمار متنازعہ معاملوں کی فہرست ہے تین طلاق کا معاملہ ، یکساں سول کوڈ ، بابری مسجد ، حجاب ، داڑھی کامعاملہ یہ کبھی ختم ہونے والے نہیں اس طرح کے معاملے اٹھاتے رہیں گے کہ قومی ٹی وی پر ا س کا مباحثہ ہوگا او رمسلمانوں کی نمائندگی کرنے ایسے لوگو ں کو بلایا جائے گا جو دین کا علم نہیں رکھتے ہوں او رنہ سائنس کا علم رکھتے ہوں اور ان لوگوں کو مسلمانوں کے ترجمان کے طور پر پیش کیا جائے گا اور یہ نام نہاد مسلمانوں کا او راسلام کو موقف کمزور پیش کریں گے جس سے ملک کے لوگوں کو یہی پیغام جائے گا مسلمان ان پڑھ اور ظالم ہیں ۔
13اپریل،2017 بشکریہ : روز نامہ سیاسی تقدیر ، نئی دہلی
URL: https://www.newageislam.com/urdu-section/muslims-avoid-only-cows-oxen/d/110756
New Age Islam, Islam Online, Islamic Website, African Muslim News, Arab World News, South Asia News, Indian Muslim News, World Muslim News, Women in Islam, Islamic Feminism, Arab Women, Women In Arab, Islamophobia in America, Muslim Women in West, Islam Women and Feminism