New Age Islam
Tue Mar 28 2023, 07:14 PM

Urdu Section ( 16 Feb 2011, NewAgeIslam.Com)

Comment | Comment

The Downfall of The Present-day Pharaoh Is a Lesson For the Existing Dictator فرعون وقت کا زوال آمر وقت کے لئے عبرت

BY Abid Anwar

The dictators of the Muslim countries who have been ruling over the masses for a long time should learn a lesson or two from the mass uprising in the Arab states and the downfall of the dictators of Tunisia and Egypt. The autocrats denied their people all the human rights and right to expression while they plundered the wealth of their respective countries. On the other hand the people lived in utter poverty. Toeing the line of their masters, the US they even tried to wipe out the marks of Islamic religious and cultural identities from their countries turning them into a westernised society. In the following Urdu article, Abid Anwar takes a brief look into the history of Egypt under Husni Mubarak and the events that led to the revolution.

Source: Hamara Samaj, New Delhi

URLhttps://newageislam.com/urdu-section/the-downfall-present-day-pharaoh/d/4142

 

فرعون وقت کا زوال آمر وقت کے لئے عبرت

عابد انور

قدرت نے ہر فرعون کے لئے موسی پیدا کیا ہے۔ ظالم سفا کی رسی کیوں نہ کتنی دراز کرلے اس کا آخری سرا ہاتھ آتا ہے اور انہیں اپنے ظلم وتشدد کا حساب و کتاب دینا ہی پڑتا ہے۔ مصر میں گزشتہ چھ دہائی سے وحشیت و بربریت کی حکمرانی تھی اور اس کا سب سے بڑا حامی اور دنیا کو جمہوریت کا درس دینے والا امریکہ تھا۔ مشرق وسطی میں تمام خرافات کے لئے وہی ذمہ دار ہے۔کبھی کسی مسلم کو متحد نہیں ہونے دیا، نہ ہی کسی کو ترقی کی منزل طے کرنے اور نہ ہی کسی کو خود کفیل ہونے دیا۔ خلیجی ممالک کے تمام فرمانر وا کوعیاشی کی ایسی لت میں گرفتار کیا وہ اپنا وجود اور اپنامقصد ہی بھول گئے۔ اپنے عیوب اور ناکامیوں پر پردہ پوشی کے لئے آمریت پر اتر آئے تاکہ کوئی ان کے خلاف ایک لفظ بھی نہ بول سکے۔ ان آمروں نےاپنے ملک میں نہ تو آزاد عدلیہ کو پنپنے دیا اور نہ آزاد میڈیا کو یہاں تک کے تحریر وتقریر کی آزادی چھین لی اگر کسی نے جرأت کی تو ان کا کبھی پتہ نہیں چلا کہ وہ کہا گیا۔ انسانی جانوں  کا اتلاف تو ان کے لئے مکھی اور چینٹیوں کو مارنے جیسا تھا۔ جن لوگوں کو گرفتار کیا جاتا انہیں سخت اذیتیں دی جاتیں۔ کسی کو ایک بار گرفتار کرلیا جاتا تو دوبارہ ان کا رہا ہونا مشکل ہوجاتا ہے کیونکہ آمروں نے اپنے کارندوں کو ظلم وتشدد کے تمام اختیارات سپرد کررکھے ہیں اور ان ممالک کے عوام کئی طرح کے مشکلات اور بد عنوانیوں سے دوچار ہیں وہیں حکمراں طبقہ اور ا س کا خاندان دنیا میں جنت پر جنت تعمیر کئے جارہا ہے۔ ملک کے تمام وسائل پر سانپ کی طرح پھن اٹھائے قبضہ کئے ہوئے ہے۔ قدرت نے جہاں ان ممالک کو تمام قدرتی وسائل سے مالا مال کیا ہے وہیں ان ممالک کے حکمراں اپنے عوام کی فلاح وبہبود کے تئیں ذہنی طور پر انتہائی قلاشی کا شکار ہیں ۔ اللہ تعالیٰ ایک حد تک ڈھیل دیتے ہیں لیکن اس کاشکنجہ ہمہ وقت تیار رہتا ہے اور اب ان ممالک کے حکمرانوں پر شکنجہ کسنے کا وقت آگیا ہے جس کا آغاز تین دہائی قبل ایران سے ہوا تھا جب امریکہ پرست رضا شاہ پہلو ی کو ملک چھوڑ کر فرار ہونا پڑا جو اپنے کو مسلمان ہونے کے بجائے پارسی اور مجوسی کی نسل سے ہونے پرزیادہ فخر کرتا تھا۔ لیکن حالیہ انقلاب اور تبدیلی تیونس سے ہوا جہاں صدر زین العابدین بن علی کو ملک چھوڑ کر فرار ہونا پڑا ۔ اس انقلاب کی آنچ پورے خلیجی خطے تک پہنچ چکی ہے اور مصر اس کا پڑاؤ تھا ابھی اس کی تپش جاری رہے گی اس کی زد میں تمام مطلق العنان حکمراں آئیں گے۔

فرعون وقت حسنی مبارک کو آخر کارجانا پڑا۔ 18دنوں کے مصری عوام کے شدید احتجاج نے مصر ی صدر حسنی مبارک کو اپنی گدی چھوڑنے پرمجبور کردیا۔ وہ 4مئی 1928کو قاہرہ کےشمالی علاقے میں پیدا ہوئے تھے اور ا نہوں نے سابق صدر انور سادات کے قتل کے بعد14اکتوبر 1981کو اقتدار سنبھالا تھا۔ احتجاج کو کچلنے کیلئے انہوں نے ہر حربے اپنائے ،گولیاں چلوائیں ،عوام کو حرص وطمع کے حصار میں قید کرنے کی کوشش کی گئی، کچھ  اصلاحات کا لالی پاپ پھینکا ،اپنے لوگوں کو احتجاجیوں کے جمع غفیر میں داخل کرا کر تصادم کروایا تاکہ یہ لوگ آپس میں لڑنے بھڑنے لگ جائیں ،یہاں تک کہ آئندہ صدارتی انتخاب نہ لڑنے کی قسمیں کھائیں اور پارٹی کے تمام عہدوں سے دستبردار ہونے کا اعلان کیا لیکن ان کا کوئی حربہ کام نہ آیا ۔10فروری کےقوم کے نام اپنے خطاب میں انہوں نے عہدہ چھوڑنے کا اعلان کیا اور بڑے ہی طمطراق سے اعلان کیا کہ باہری قوت ہمیں مشورہ نہ دیں لیکن اگلے ہی دن انہیں صدارتی عہدہ چھوڑ کر مصر کے سیاحتی مقام شرم الشیخ میں پناہ لینی پڑی ۔ جب براوقت آتا ہے تو سایہ بھی ساتھ چھوڑ جاتا ہے یہی حشر مصری فرعون کے ساتھ بھی ہوا۔ امریکہ سمیت مغربی استعماری طاقتوں کی غلامی کرنے والے اور ان قوتوں کے اشارے پر اپنےعوام کا ناطقہ بند کرنے والےحسنی مبارک کا ساتھ تمام لوگوں نے چھوڑ دیا تھا یہاں تک کہ امریکہ چاہتا تھا کہ حسنی مبارک تخت وتاج چھوڑدیں تاکہ امریکہ اپنے کسی پٹھوں ان کی جگہ بٹھا سکے لیکن قدرت کا قانون جب کام کرتا ہے تو کسی کا مشورہ یا حکمت عملی کام نہیں آتی۔ مصری صدر کے ساتھ بھی یہی ہوا۔ وہ مانتے بھی کیسے کہاں وہ اپنے بیٹے جمال مبارک کو جانشیں بنانے کے فراق میں تھے۔ کوئی بھی شخص اتنے حسین خواب سے بیدار ہونا پسند نہیں کرے گا۔ ایک فوجی کی حیثیت سے اپنے کیرئیر کی شروعات کرنے والے حسنی مبارک 1981میں انور سادات کے قتل کے بعد ملک کے صدارت کے عہدہ پر فائز ہوئے تھے۔ وحشیت ودرندگی انہیں اپنے پیشر و انور سادات جمال عبدالناصر سے وراثت ملی تھی ۔اسلام پسند ان کا اولین دشمن تھا یہی وجہ ہے کہ ان چھ دہائی کے اقتدار کے دوران مصر میں اسلام پسندوں کو چن چن کر قتل کیا گیا۔ اس طرح کی تنظیموں پر پابندیاں عائد کی گئیں اور ان کے عہدیداروں اور کارکنوں یا تو شہید کردئے گئے یا انہیں جیل  میں ڈال دیا گیا ۔ اسلام یا مسلمان ہونے پر فخر کرنے کے بجائے فرعون کی اولاد ہونے پر فخر کیا گیا۔ اس دوران مصری معاشرے سے اسلام کا نام ونشان مٹانے کی انتھک جدوجہد کی گئی اور معاشرے کو پوری طرح مغربی معاشرے میں تبدیل کردیا گیا۔

تیونس کے سابق صدر زین العابدین بن علی کے بعد حسنی مبارک مختصر عرصے میں عرب دنیا کے دوسرے ایسے حکمران بن گئے ہیں ،جن کا اقتدار عوامی جدوجہد کے نذر ہوگیا۔ تیونس کے انقلاب کو انقلاب یاسمین کا نام دیا گیا تھا جب کہ مصری عوام اپنے یہاں آنے والی تبدالی کو سفید انقلاب کا نام دے رہے ہیں۔ مصر میں 1952میں شاہ فاروق کے خلاف فوجی بغاوت سے اب تک صرف فوجی شخصیات ہی حکمران رہی ہیں۔ اگرچہ سابق صدر انور سادات اور حسنی مبارک عام طور پر بہت کم ہی وردی میں ملبوس نظر آتے تھے ،تاہم دونوں پس پردہ فو جی سروس میں فعال رہے۔ مصری صدر کے استعفیٰ سے انکار کے بعد جمعہ کو بڑی تعداد میں مظاہرین التحریر اسکوائر میں جمع ہوگئے تھے انہوں نے احتجاج کا دائرہ وسیع کرتے ہوئے صدارتی محل اور سرکاری ٹی وی کی عمارت کا بھی محاصرہ کرلیا تھا۔ یہ پہلی بار ہوا تھا کہ مظاہرین نے صدارتی محل کا محاصرہ کیا تھا۔ مصری صدر حسنی مبارک حد سے زیادہ دولت اکٹھا کرلینا خود اس کی جانی دشمن بن گئی۔ نیویارک ،لندن، پیرس، میڈرڈ دوبئی سمیت دنیا کے کئی اہم ملکوں ان کے محل نما مکانات ہیں ۔ اس کے علاوہ مصر کے تمام اہم شہروں سمیت سیاحتی مقام شرم الشیخ میں محل ہے ۔ فوربس میگزین نے گزشتہ سال مارچ میں دنیا کے جن ارب پتی افراد کی فہرست شائع کی تھی ، اس میں حسنی مبارک کا نام شامل نہیں تھا۔ فوربس کے مطابق دنیا کی امیرترین شخصیت میکسیکو کے کارلوس ہیں جن کی دولت کا تخمینہ ساڑھے 53ارب ڈالر ہے، جب کہ مائیکرو سافٹ کے مالک بل گیٹس 53ارب ڈالر کے ساتھ دوسرے نمبر پر تھے۔ اس فہرست میں چوتھے او ر پانچویں نمبر پر ہندوستان کے امبانی برادران ہیں ۔ حسنی مبارک کی دولت کا اندازہ 70ارب ڈالر تک لگایا جارہا ہے جو دنیا کے امیر ترین  شخص کا رلوس سے تقریباً ڈیڑھ گنا زیادہ ہے ۔افریقہ ڈاٹ کام نے دعویٰ کیا ہے کہ حسنی مبارک دنیا کے امیر ترین انسان ہیں۔ برطانوی اخبار گارجین نے اپنی اشاعت میں لکھا ہے کہ 82سالہ حسنی مبارک کے 70ارب ڈالر سوئزر لینڈ اور کئی دوسرے ممالک کی تجوریوں میں محفوظ پڑے ہیں ۔ برطانوی ،لندن اور کیلی فورنیا کے شہر بیورلی ہلز میں ان کی بیش قیمت جائیدادیں بھی ہیں۔ مصر میں لوگوں کی ایک بڑی تعداد کی آمدنی دوڈالر یومیہ سے کم ہے اور وہ غربت وافلاس کی زندگی گذاررہے ہیں ۔ملک میں بے روزگاری کی سطح بہت بلند ہے۔ لوگ غربت کی وجہ ملکی دولت کی لوٹ کھسوٹ اور رشوت خوری کو قرار دیتے ہیں۔

سرد جنگ کی وجہ سے علاقے میں امریکہ اور روس کی بڑھتی دلچسپی او رمصر کے بظاہر روس سے قریب ہونے کے نتیجے میں جب امریکہ نے عالمی بینک کے ساتھ مل کر مصر کے لیے ایک اہم منصوبے اسوان ڈیم کی تعمیر کے لیے مالی وسائل پر پابندی عائد کی تو صدر ناصر نے نجی ملکیت کی اہم بحری گزر گاہ سویز کنال کو قومیا لیا تھا۔ صدر ناصر کے اس فیصلے کے نتیجے میں برطانیہ ،فرانس اور اسرائیل نے مصر پر فوجی کشی کردی تھی۔1963میں اسرائیل کے ساتھ چھ روزہ جنگ میں مصر صحرائے سینائی کے وسیع علاقے سے ہاتھ دھو بیٹھا تھا جس کے بعد جمال عبدالناصر نے عوامی مقبولیت کے باوجود مستعفیٰ ہونے کا اعلان کردیا۔ 1970میں ناصر کی موت کے بعد اصل ‘فری آفیسر ز’ موومنٹ کے انقلابی گروہ میں شامل اس وقت کے نائب صدر انور سادات مصر کے منتخب ہوئے۔ لیکن مصر کےعلاقے میں اپنی منفرد حیثیت 1979میں انور سادات کے اسرائیل کے ساتھ تاریخی کیمپ ڈیوڈ امن معاہد ہ کرنے کے بعد بری طرح متاثر ہوئی تھی۔ اس معاہدے کے رد عمل میں مصر کو عرب لیگ سے خارج کردیا گیا اور یہ پابندی 1989تک جاری رہی۔ امریکی اثالثی ہونے والے کیمپ ڈیوڈ معاہدے سے مصر نے صحرائے سینائی کا علاقہ دوبار ہ حاصل کرلیا اور انور سادات اسرائیل کو تسلیم کرنے والے پہلے عرب پڑوسی رہنما بنے ۔ یہ پہلا عرب ملک تھا جنہوں نے تین جنگیں لڑنے کے باوجود اسرائیل سے معاہدہ کیا تھا۔ جس کی قیمت انور سادات کو اپنی جان دے کر چکانی پڑی تھی ۔

یہ الگ بات ہے کہ حسنی مبارک کے دور حکومت میں آئین میں تبدیلی کر کے حزب اختلاف کے امیدوار وں کو صدارتی انتخابات میں حصہ لینے کی اجازت دی گئی تھی لیکن ان امیدوارو ں کے لئے ایک انتہائی سخت معیار رکھا گیا۔ عملاً تینوں انتخابات میں حسنی مبارک بلا مقابلہ صدر منتخب ہوئے تھے۔ ان کے مخالفین کا موقف ہے کہ یہ قانون آزاد انہ سیاسی اظہار کے راستے میں ایک بڑی رکاوٹ ہے۔ مصر میں اب بھی مذہبی سیاسی جماعتوں پر پابندی عائد ہے لیکن اس کے باوجود معاشی ناہموار ی اور سیا سی گھٹن نے مصر ی عوام کے اندر پکتے لاوے کو ان کے لیے ناقابل برداشت بنادیا تھا ۔ رہی سہی کسرتیونس میں عوامی طاقت سے آنے والے انقلاب نے پوری کردی اور یوں التحریر اسکوائر عرب دنیا میں شاید سب سے نا قابل یقین تبدیلی کا عنوان بن گیا۔

مصری کو برطانیہ کی غلامی سے آزاد کرانے میں اہم رول ادا کرنے والے اخوان المسلمین کے کارکنوں او رعہدیداروں جن میں سید قطب شہید اور حسن البنا اور زینب الغزالی شامل تھیں یا شہید کردئے طویل عرصہ تک جیل میں قید کرکے سخت اذیتیں دی گئی تھیں اس کے بارے میں تصور کر کے انسان کی روح کانپ جاتی ہے۔مغربی طاقتوں کے اشارے پر جمال عبدالناصر ،ان کے جانشیں انور سادات اور ان کے جانشیں حسنی مبارک نے مصر میں اسلام پسندوں کو کبھی چین سے نہیں رہنے دیا مختلف بہانے سے اسے یا تو قتل کرواتے رہے یا جیل میں ڈال کر سخت تکالیف پہنچاتے رہے تاکہ مصر میں اسلام کے بارے میں یا اسلامی قوانین کے نفاذ کے بارے میں کوئی بات نہ کرسکے۔ یہاں تک کے وہاں کے نصاب میں بھی تبدیلی کی گئی بچوں کی نصابی کتابوں میں باپر دہ خاتون کے اسکیچ کی جگہ اسکرٹ پہنے خواتین کو دکھا گیا ۔ یہودیوں کی بدتمیزی اور بد عہدی کے بارے میں قرآنی آیتوں کو نصاب سے نکال دیا گیا ۔ امریکہ اور اسرائیل کے اشارے پر غزہ کو عملاً فلسطینیوں کے لئے ایک قید خانہ بنادیا گیا ۔ اس کے علاوہ امریکہ اور مغرب کے اشارے پر مسلم نوجوانوں کو گرفتار کر کے جیل میں ڈال دیا گیا۔ حسنی مبارک درحقیقت امریکہ کے کٹھ پتلی تھے جو اس کے اشارے پر رقص کرتے تھے۔ انہوں نے اپنے ملک میں کبھی بھی منصفانہ اور آزادانہ انتخابات نہیں ہونے دیا گیادوم انتخابات میں بڑے پیمانے پر دھاندلی کی گئی۔ مصر میں انتخابات نہیں بلکہ جمہوریت کا مذاق اڑایا جاتا تھا۔ انور سادات کے قتل کے بعد ا نہوں نے جو ایمر جنسی نافد کی تھی وہ ابھی تک نافذ تھی۔ مصر میں شہنشاہیت کا خاتمہ 1952میں ہوا تھا جب اپنے آپ کو ‘فری آفیسرز’ کہنے والے فوج کے چند افسروں نے شاہ فاروق کا تختہ الٹ دیا ۔ ایک مختصر سیاسی مدو جزر کے بعد 18جون 1953جو فوجی افسروں کے اس گروپ نے جمال عبدالناصر کی قیادت میں مصر میں ایک جمہوری حکومت کی بنیاد ڈالی ۔

مصر میں یہ تبدیلی درحقیقت امریکہ، اسرائیل سمیت مغربی استعماری طاقتوں کیلئے ایک کھلا پیغام ہے وہ نوشتہ دیوار کو پڑھیں ۔درحقیقت مصر میں یہ انقلابی تبدیلی امریکہ اور اسرائیل کی تباہی کا نقطہ آغاز ہے اگر امریکہ نے اپنی مغربی ایشیا کی پالیسی میں انصاف کو جگہ نہیں دی اور اسرائیل کی آنکھ بند کر کے حمایت جاری رکھی تو اسرائیل کے ساتھ وہ صفحہ ہستی سے مٹ جائے گا اور اسرائیل کے مجرمانہ گناہوں کا خمیازہ اسے ہی بھگتنا ہوگا کیوں کہ عرب ممالک میں بدنظمی اور بدعنوانی کے لئے امریکہ ہی ذمہ دار ہے اور وہ ایسے حکمرانوں کی کھلم کھلا حمایت کرتا ہے۔ عرب ممالک میں اب بیداری کی لہر چل پڑی ہے۔ سارے مطلق العنان حکمرانوں کو جانا ہوگا۔ یہ لہر اسی وقت تھمے گی جب عرب ممالک سے مغرب پرستوں کا صفایا ہوگا۔ مصری عوام کو حقیقی آزادی اس وقت حاصل ہوگی جب وہ مغربی نظریہ رکھنے والے افراد سے گلو خلاصی حاصل کرلیں گے اور نہر سوئز پر ان کی مرضی کے بغیر ایک پتا بھی نہیں ہلے گا۔ اس دن عرب قوم کا سر افتخار سربلند ہوگا۔ ہوسکتا ہے کہ یہ چند جملے کسی کو دیوار نے خواب لگے لیکن نطقہ انجام اسی پر ہوگا۔

ڈی ۔64،فلیٹ نمبر ۔10، ابو الفضل انکلیو ، جامعہ نگر ، اوکھلا ، نئی دہلی۔25

9810372335

ای ۔میل :abidanwaruni@gmail.com

Abid.anwar@yahoo.co.in

URL: https://newageislam.com/urdu-section/the-downfall-present-day-pharaoh/d/4142

Loading..

Loading..