عبدالرحمن حمزہ ، نیو ایج اسلام
نکاح حلالہ ’متعہ‘ نکاح مسیار ( یعنی نکاح مؤقت) اور تعدد ازدواج پر عدالت عظمیٰ میں جلد ہی بحث شروع ہونے کا امکان ہے۔ طلاق ثلاثہ ہی کی طرح مسلم پرسنل لاء بورڈ ا پنے موقف پر بضد نظر آتا ہے۔ مسلم پرسنل لا بورڈ کے جنرل سکریٹری اور ممتاز وکیل جناب ظفر یاب جیلانی صاحب نے حال ہی میں اس بات کی وضاحت کی ہے کہ مروجہ نکاح حلالہ قرآن کے مطابق بالکل ناجائز ہے اور انہوں نے یہ عندیہ دیا ہے کہ مسلم پرسنل لا بورڈ اس حقیقت کو عدالت عظمیٰ کے سامنے پیش کریگا اور مطالبہ کریگا کہ اس مقدمہ کو خارج کیا جائے۔
اگرچہ ان کا یہ کہنا بالکل درست ہے کہ کہ قرآن کے مطابق اگر کسی عورت کو اس کا شوہر طلاق مغلظہ دیدے تووہ عورت اپنے خاوند کے لئے ہمیشہ کے لئے حرام ہوجاتی ہے۔اب اس کے لئے دوبارہ اس سے نکاح کرنے کی صرف ایک ہی صورت ہے اوروہ یہ کہ وہ کسی دوسرے شخص سے نکاح کرے اور دوسرا شوہر یا تو بعد میں اسے طلاق دیدے یا اس کی موت واقع ہوجائے تو عدتِ طلاق یا عدتِ وفات گذارنے کے بعد وہ اپنے پہلے والے خاوند سے نکاح کرسکتی ہے۔ اس کے علاوہ اور کوئی صورت اس کے پچھلے خاوند کے لئے حلال ہونے کی نہیں ہے۔ اگر واقعی یہی صورت حال ہوتی اور مفتیانِ کرام صرف اسی کے مطابق فتوے صادرکررہے ہوتے تو کوئی مسئلہ ہی پیدا نہ ہوتا،لیکن صورت حال حقیقت میں اتنی سادہ نہیں ہے جتنا اسے بنا کر پیش کیا جارہا ہے ورنہ مروجہ حلالہ کے واقعات جن میں پہلے سے طے ہوتا ہے کہ زوجِ ثانی صرف عورت کو زوجِ اول کے لئے حلال کرنے کی غرض سے شادی کرکے ایک دوراتیں اس کے ساتھ گذارنے کے بعداس کو طلاق دیدیگا، اتنی کثرت سے پیش نہ آتے اور نہ ہی یہ معاملہ عدالت تک پہنچتا۔اسی لئے جو کچھ بھی جناب ظفریاب جیلانی صاحب نے کہا وہ آدھا سچ ہے باقی آدھا سچ کچھ اور ہے۔ آئیے ذرا دیکھتے ہیں کہ وہ آدھا سچ کیاہے۔
دراصل جب حضورﷺ کے زمانے میں کثرتِ طلاق اور طلاق دینے میں جلد بازی کی وجہ سے صورت حال سنگین ہوگئی تو کثرت سے حلالہ کے واقعات پیش آنے لگے۔ کسی نے کسی کو جلد بازی میں طلاق مغلظہ د یدی پھر پچھتاوا ہوا تو اپنے کسی دوست یا سگے بھائی سے اپنی مطلقہ بیوی کا نکاح اس نیت یا اس شرط کے ساتھ کرادیا کہ ایک دور اتیں گذارنے کے بعد وہ اس کو طلاق دے کر اس کے لئے حلال کردے۔ یہ قرآن کی روح کے بالکل منافی تھا۔ اس پر حضورﷺ نے سخت ناپسندیدگی کا اظہار کرتے ہوئے فرمایا کہ ایسا کرنے والے اور کروانے والے دونوں پر خدا کی لعنت ہے۔ اس حدیث کی بنا پر نکاح بشرطِ تحلیل (یعنی پچھلے شوہر کے لئے حلال کرنے کی شرط کے ساتھ ) بالا تفاق ناجائز قرار پایا۔ اگرچہ یہ طریقہ سب کے نزدیک ناجائز ہے اس کے باوجود ائمہ کے درمیان اس بات میں شدید اختلاف ہے کہ نکاح بشرطِ تحلیل یابنیت تحلیل درست ہوگا یا نہیں اور یہ کہ ایساکرنے سے وہ زوجِ اول کے لئے حلال ہوجائیگی یا نہیں۔
شرط کے ساتھ نکاح حلالہ امام شافعیؒ اور امام احمد ابن حنبل کے نزدیک متحقق ہی نہیں ہوتا اور نہ اس سے عورت زوجِ اول کے حلال ہوتی ہے جبکہ احناف کے نزدیک ایسا کرنا اگرچہ حرام (مکروہ تحریمی) ہے لیکن اگر کوئی شخص اس کا ارتکاب کرلے تو نکاح منعقدہوجائیگا اور عورت زوجِ اول کے لئے حلال بھی ہوجائے گی۔ احناف کا کہنا ہے حضور ﷺ نے حلالہ کرنے والے اور حلالہ کروانے والے پرجو لعنت بھیجی ہے اس کا مطلب یہ ہے کہ و ہ مکروہ تحریمی ہے۔ان کے نزدیک شرطِ فاسد سے نکاح فاسد نہیں ہوتا اور جب دوسرے مرد سے نکاح درست ہوگیا تو وہ عورت زوجِ اول کے لئے حلال بھی ہوگئی۔
کتب احناف سے تو یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ اگر دونوں کے دل میں یہ نیت ہوکہ زوجِ ثانی عورت سے صحبت کے بعد اسے طلاق دے کر زوجِ اول کے لئے حلال کردیگا تو ایسا کرنے والا شخص خدا کے یہاں اجر کا مستحق بھی ہوگا۔میرے علم میں بہت سے ایسے علماء اور مفتیان کرام ہیں جو زوجِ ثانی کی خدمات پیش کرکے دنیا میں بھی فیضیاب ہوئے اور بزعم خود آخرت میں اجروثواب کی مستحق بھی ٹھہرے۔
پاکستان کے جناب مفتی تقی عثمانی صاحب جو کہ علماء دیوبند میں ایک نمایاں مقام رکھتے ہیں انہوں نے اپنی کتاب درسِ ترمذی میں مذکورہ بالالعنت والی حدیث پر بحث کرتے ہوئے اس مسئلہ پر خاطر خواہ روشنی ڈالی ہے اور مسلک حنفی کا پرزور طریقے سے دفاع کیاہے۔
امام ابو حنیفہ ؒ کے دو مشہور شاگرد گذرے ہیں۔ امام ابو یوسفؒ اور امام محمدؒ ۔ان دونوں شاگردوں کا اپنے استاد سے اختلاف کے ساتھ ساتھ خود آپس میں بھی اس مسئلہ پر شدید اختلاف ہے۔
امام ابو یوسف کے نزدیک نکاح بشرطِ تحلیل (یعنی زوجِ اول کے لئے حلال کرنے کی شر ط کے ساتھ) فاسد ہے لہذا ایسا نکاح نہ خود درست ہوگا اور نہ وہ عورت کو زوجِ اول کے لئے حلا ل کریگا۔
اس کے بر خلاف امام محمد کے نزدیک ایسا نکاح تو درست ہوگا کیونکہ نکاح شرطِ فاسد سے فاسد نہیں ہوتا۔ البتہ وہ عورت زوجِ اول کے لئے حلال نہیں ہوگی۔یہ بات اوپر گذرچکی ہے کہ امام شافعی اور امام احمد ابن حنبل کے نزدیک نکاح بشرط التحلیل نہ تو دوست ہوگا اور نہ وہ عورت کو زوجِ اول کے حلال کریگا۔
حضرت ابن عمرؓ کے حوالے سے ایک حدیث منقول ہے جس میں حضرت ابن عمرؓ سے سوال کیا گیا کہ ایسے شخص کے بارے میں ان کی کیا رائے ہے جس نے اپنی بیوی کو طلاق دیدی اور اس کے سگے بھائی نے طلاق دینے والے بھائی سے کوئی سازباز کئے بغیر اسکی مطلقہ بیوی سے اس نیت سے نکاح کرلیا کہ وہ بعد میں طلاق دیکر اسے اپنے بھائی کے لئے حلال کردیگا۔ حضرت ابن عمرؓ نے جواب دیا کہ ایسے عمل کو ہم حضورﷺ کے زمانے میں زنا سمجھتے تھے کیونکہ جب تک نکاح کرتے وقت تا عمر نباہ کی نیت ورغبت نہ ہو وہ نکاح نہیں بلکہ زنا ہے۔
مولانا ابوالاعلیٰ مودودی صاحب تفہیم القرآن سورۃ بقرہ کی آیت نمبر۰ ۲۳پراپنے نوٹ میں رقم طراز ہیں :
احادیث صحیحہ سے معلوم ہوتا ہے کہ اگر کوئی شخص محض اپنی بیوی کو اپنے لئے حلال کرنے کی خاطر کسی سے سازش کے طور پر اسکانکاح کردے اور پہلے سے یہ طے کرلے کہ وہ دوسرا شخص نکاح کے بعد اسے طلاق دیدیگا تو یہ سراسر ایک ناجائز فعل ہے۔ ایسا نکاح، نکاح نہ ہوگا بلکہ محض ایک بدکاری ہوگی اور ایسے سازشی نکاح و طلاق سے عورت ہرگز اپنے سابق شوہر کے لئے حلال نہ ہوگی۔ حضرت ابن مسعود ابوہریرہ اور عقبہ بن عامرؓ کی متفقہ روایت ہے کہ نبیﷺنے اس طریقہ سے حلالہ کرنے اور حلالہ کرانے والے پر لعنت فرمائی ہے۔
اسی طرح سعودی عرب سے تقسیم ہونے والی اہلِ حدیث عالمِ دین و مفسرِ قرآ ن مولانا محمد صاحب جوناگڈھی کی تفسیرِقرآن میں سورہ بقرہ کی اسی آیت نمبر ۲۳۰کی تشریح میں لکھا ہے کہ ہمارے ملک میں جو حلالہ کا طریقہ رائج ہے یہ لعنتی فعل ہے۔نبیﷺ نے حلالہ کرنے والے اور حلالہ کروانے والے دونوں پر لعنت فرمائی ہے۔ حلالہ کی غرض سے کیا گیا نکاح، نکاح نہیں زنا کاری ہے ۔اس نکاح سے عورت پہلے خاوند کے لئے حلال نہیں ہوگی۔
ائمہ اربعہ اور علماء دین کے درمیان اتنے شدید اختلاف آراء کے ہوتے ہوئے کون دعویٰ کرسکتا ہے کہ اس نے واقعی منشائے خداوندی کو پالیا ہے۔ چونکہ ہندوستان میں مسلمانوں کی اکثریت حنفی مسلک سے وابستہ ہے خواہ وہ دیوبندی مکتبِ فکر سے تعلق رکھتے ہوں یا بریلوی مکتبِ فکر سے، لہذا امارات شرعیہ، دارالقضاء، مدارس و مساجد سے اکثر و بیشتر اس قبیح عمل کے جواز کے حق میں عورت کے وقار کو مجروح کرنے والے ایسے فتوے صادر ہوتے رہتے ہیں اور کچھ مولویوں نے تو اب اپنی انہیں خدمات کے عوض فیس بھی وصول کرنی شروع کردی ہے جس سے نکاحِ حلالہ ایک انڈسٹری میں تبدیل ہوچکا ہے۔ایسے معاملات میں اکثر عور ت بے قصور ہوتے ہوئے بھی کس اذیت اور شرمندگی سے گذرتی ہے اس کی کسی کو فکر نہیں ہوتی کیونکہ اسے ہم نے انسان نہیں بلکہ سامان سمجھ رکھا ہے جس کا مالک اس کا شوہر ہے۔اسلام میں تو ایسے متعددعائلی مسائل بھی ہیں جن میں اسلام نے اس وقت کے مروجہ عرب رسم و رواج کی رعایت کرتے ہوئے احکام متعین کیے تھے یا سکوت اختیار کیا تھاان مسائل میں علماء کی ایک جماعت کی تائید سے بہت سے عرب ممالک نے جن میں تونس، مصر اور ترکی سرفہرست ہیں انہوں نے اپنے اپنے علاقے کے موجودہ رسم و رواج اور بدلے ہوئے حالات کی روشنی میں نمایاں تبدیلیاں کی ہیں جس سے انصاف کے تقاضے پورے ہوئے ہیں۔یہ اس لئے ممکن ہو سکا کہ ان علماء کا ماننا ہے کہ بہت سے ایسے احکام ہیں جن میں عرب سماج کے اس دور کے رسم و رواج کا لحاظ کیا گیا تھا اور اب اقدار(عرف) بدل جانے سے ایسے احکام میں تبدیلی کی گنجائش ہے۔شاہ ولی اللہ محدث دہلوی ؒ نے اپنی مشہور کتاب حجۃ اللہ البالغہ، باب اسبابِ نسخ ادیان میں اس حقیقت کی طرف واضح اشارہ کیا ہے۔ یہ ایک دوسری بحث ہے جس پر اس چھوٹے سے مضمون میں بحث کی گنجائش نہیں ہے۔ فی الحال تو ہمارے سامنے حلالہ کا سنگین مسئلہ ہے جس میں عرب رسم و رواج کی رعایت کا پہلو بھی نہیں نکلتابلکہ اس سلسلے میں قرآن اورحدیث دونوں ہی کا منشا بالکل واضح ہے اور وہ یہ کہ ایسا عمل نہ خدا کو پسند ہے اور اس کے نبی کو۔نیز یہ کہ یہ عمل کھلم کھلا زنا ہونے کے علاوہ عورت کے وقار کو مجروح کرنے والا بھی ہے۔ لہذا اب وقت آگیا ہے کہ اس قبیح عمل کو فوراً ختم کیا جائے اور اگریہ نیک کام خود مسلم پرسنل لا بورڈ کے ہاتھوں انجام پائے تو یہ امت مسلمہ کے لئے ایک خوش آیند قدم ہوگا۔
URL: