عبدالرحمن الرشید
3 مارچ، 2015
ایک عرب صحافی نے کہا کہ دہشت گرد تنظیم داعش میں شمولیت اختیار کرنے کے لیے اپنے گھروں کو چھوڑ کر عراق کے لیے روانہ ہو نے والی ایشیا کی خدیجہ، شمیمہ اور امیرہ نامی تین برطانوی طالبات منفی پراپیگنڈے کا شکار ہیں۔
وہ لکھتے ہیں کہ لڑکیوں کے اس سفر کو "جنسی جہاد" قرار دینا سراسر افتراء اور کذب بیانی پر مبنی ہے جس کا مقصد جہاد کی ساکھ کو بگاڑنا ہے! اس کے بعد انہوں نے داعش کے اس بیان کا حوالہ دیا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ وہ وہاں ایک "مکمل خاندان" آباد کر سکتی ہیں اور زندگی گزار سکتی ہیں اور یہ کہ تنظیم ان کو مفت رہائش عطا کرے گی، یہی وجہ ہے کہ ایک 15 سالہ لڑکی مانچسٹر سے اپنے گھر کو چھوڑ کر شام میں رقہ کو روانہ ہو گئی ہے!
شام میں تباہی اور داعش کے درندوں کی بےحیائی کے رونماں ہوتے ہوئے واقعات کے درمیان یقینا ایک "مکمل خاندان" کی بات پر یقین کرنا ایک عجیب بات ہے۔ مجھے نہیں معلوم کہ "جنسی جہاد" جیسی اخباری زبان کی ان شرمناک اور پریشان کن اصطلاحات کو ختم کرنے کی ضرورت ہے یا ہمیں ایک ایسے بے نظیر واقعہ کی حقیقت کا سامنا کرنا ہوگا جس میں درجنوں نو عمر لڑکیاں اپنے والدین کے گھروں کو چھوڑ کر میدان جنگ میں شامل ہو رہی ہیں۔
اگر ہم ایسی صورت حال سے نمٹنے ہیں اور اس کی وضاحت اس کی اصل شکل میں کرتے ہیں تو ہم ان نوجوان لڑکیوں کو ان نوجوانوں مردوں کے ساتھ دیکھتے ہیں جو ہتھیار سے لیس ہیں اور ان کڑکیوں کے ساتھ اپنے تعلقات کو بڑے فخر کے ساتھ بیان کرتے ہیں جن میں سے کچھ کی "ملحد" یا اسیر ہونے کی وجہ سے عصمت دری کی گئی ہے۔ متعدد ویڈیوز ان شرمناک جرائم کا ثبوت ہیں۔ ہم ایسی دسیوں- کچھ لوگوں کا ماننا ہے کہ ہزاروں- خواتین کو جانتے ہیں جو اس سے پہلے بھی خلیج، مراکش، تیونس، یورپ اور امریکہ سے اپنے گھروں کو چھوڑ شام میں آئی ایس آئی ایس اور عراق میں القاعدہ میں شامل ہو ہو چکی ہیں۔
فریب خوردہ خواتین
لہٰذا کوئی بھی عقلمند یہ کہہ سکتا ہے کہ ان جنگجوؤں کا مقصد خواتین کو اپنی ملکیت میں لانا اور حالات جنگ میں سامان لذت کی طرح ان کا استعمال کرنا ہے۔ اس سلسلے میں عجیب و غریب معاملات درج کروائے گئے ہیں۔ اس سلسلے میں ایک معاملہ ایک سعودی خاتون کا ہے جس نے عراق پر امریکی قبضے کے دوران اپنے شوہر کو طلاق دیکر القاعدہ کے رکن کے ساتھ اپنے دو بچوں سمیت عراق اور پھر شام جانے کا فیصلہ کیا۔
انٹرنیٹ کے ذریعے شائع کئے گئے اس کے بیان کے مطابق اس کا مقصد اس کے رول ماڈل اور عراق میں القاعدہ کی قیادت کرنے والے ابو مصعب الزرقاوی سے ملاقات کرنا تھا جن کی ہلاکت کے بعد ان کی تعلیمات نے آئی ایس آئی ایس کی حوصلہ افزائی کی۔ اگرچہ،سیکورٹی فورسز نے سعودی عرب چھوڑنے کی اس کی پہلی کوشش کے دوران اسے گرفتار کر لیا تھا، لیکن بعد میں وہ یمن کے راستے سعودی سے فرار ہونے میں کامیاب ہو گئی۔
وہ پہلے شام اور اس کے بعد عراق گئی جہاں اس نے الزرقاوی سے ملاقات کی اور اسے طلاق دینے سے پہلے کچھ دنوں کے لیے اس سے شادی کی۔ اس کے بعد ایک اور جہادی نے اس سے شادی اور اس کے بعد ایک تیسرے جہادی نے بھی اس سے شادی کی۔ اس کے بعد وہ بغداد میں ایک فوجی حملے میں ہلاک ہو گئی تھی۔ ڈی این اے ٹیسٹ میں اس بات کا انکشاف کیا گیا تھا کہ اس کا ایک لڑکا جو افغانستان میں پکڑا گیا تھا جس کے بارے میں یہ مانا جاتا تھا کہ یہ اس کے بعد کے شوہروں میں سے کسی ایک سے ہے، وہ اصل میں زرقاوی کا ہی بیٹا تھا۔
اس طرح ان گمنام خواتین کے ایسے بہت سارے معاملات ہیں جو مبلغین کے دھوکے میں پڑ گئی ہیں یا انہیں شام میں جنگجوں تنظیموں میں شامل ہونے کے لیے انٹرنیٹ کے ذریعے بحال کیا گیا ہے۔ شروع میں بہت سے لوگوں نے کہا کہ یہ کہانیاں جھوٹی ہیں ا س لیے کہ یہ نامعقول ہیں۔ کچھ لوگوں نے کہا کہ یہ ایک پروپیگنڈے کا حصہ ہے جس کا مقصد وہاں کے عسکریت پسند گروپوں کی ساکھ کو مسخ کرنا ہے۔
حقائق کا سامنا
تاہم، اب اس امر میں کوئی شک و شبہ باقی نہیں رہ گیا ہے، اس لیے کہ اپنی بیٹیوں کی گمشدگی کی رپورٹ دینے والے والدین کے پاس ویڈیوز اور دیگر معلومات سمیت دستاویزی ثبوت موجود ہیں۔ لہٰذا، ان حقائق سے نمٹنا ایک لازمی امر ہے۔
ان نوجوان جنگجوؤں کا یہ ماننا ہے کہ ان کے مقبوضہ علاقوں سے یا رضاکارانہ طور پر بحال کر کے ان خواتین کے حصول کا مقصد صرف شادی ہے۔ در اصل یہ شادی روایتی معنی میں شادی نہیں ہے، بلکہ یہ نوجوان لڑکیوں کا استحصال ہے۔ خود عسکریت پسندوں نے اسے "جنسی جہاد" کا نام دیا ہے
خواتین کو جنسی غلام بنا کر یا ان سے شادی کر کے، خواتین کے حوالے سے آئی ایس آئی ایس جنگجوؤں کے اسکینڈلز کی خبروں کی روشنی میں کچھ لوگ ‘‘جدید جہاد’’ کی ساکھ کو بے داغ کرنے کی کوشش کررہے ہیں۔ اور وہ یہ کہہ کر کے کہ: آئی ایس آئی ایس کے مظالم کی خبریں جھوٹی ہیں، اس طرح کے مظالم پر مبنی ویڈیوز جعلی ہیں اور یہ کہ "جنسی جہاد" بھی ایک جھوٹ ہے، اپنے مقصد میں کامیابی بھی حاصل کر رہے ہیں۔ اور ان تمام کا مقصد آئی ایس آئی ایس کے جرائم کی پردہ پوشی کرنا ہے۔
ایک جنگ زدہ علاقے میں ایک "مکمل خاندان" آباد کرنا کس طرح ممکن ہے، اور آئی ایس آئی ایس کس طرح ان علاقوں میں میں ان خواتین کو رہائش گاہ فراہم کرے گا جہاں اکثر گھر تباہ کر ہو چکے ہیں؟ ان تمام باتوں کا کوئی مقصد ہی نہیں اور کوئی بیوقوف شخص ہی ان باتوں کو قبول کرے گا۔
ہم نے ان تصویروں کو دیکھا ہے جن میں وہ جنگجو عورتوں کو بھیڑوں کی طرح گھسیٹ رہے ہیں، انسانوں کو جلا کر مارا جا رہا ہے، عراق میں خواتین اور بچوں کو موت کے گھاٹ اتارا جا رہا ہے اور لیبیا میں مصری قبطیوں کو پھانسی دی جا رہی ہے۔ ان تمام کا مقصد قتل کرنے کی خوشی حاصل کرنا ہے۔
ہم کس طرح یقین کر سکتے ہیں وہ مجرمین ان نو عمر لڑکیوں کے ساتھ ایک مکمل خاندان آباد کریں گے جو دھوکے سے ان کے دام فریب میں پھنس گئی ہیں؟
سچائی روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ ان لڑکیوں کو لڑنے یا ایک مکمل خاندان آباد کرنے کے لیے نہیں بلکہ محض شہوانی خواہشات کی تکمیل کے لیے بحال کیا گیا ہے۔
عبدالرحمن الراشد العربیہ نیوز چینل کے سابق جنرل منیجر ہیں۔ ایک تجربہ کار اور بین الاقوامی شہرت کے حامل صحافی لندن کے ایک مشہور و معروف عرب روزنامہ الشرق الاوسط کے سابق ایڈیٹر ان چیف رہ چکے ہیں جس میں وہ اب بھی باقاعدہ ایک سیاسی کالم لکھتے ہیں۔ انہوں نے الشرق الاوسط کی شاخ المجلہ میں بھی ایڈیٹر کے طور پر اپنی خدمات انجام دی ہیں۔
ماخذ:
http://english.alarabiya.net/en/views/news/middle-east/2015/03/03/Is-it-jihad-or-sexual-exploitation-.html
URL for English article: https://newageislam.com/islam-women-feminism/is-jihad-sexual-exploitation/d/101832
URL for this article: https://newageislam.com/urdu-section/is-jihad-sexual-exploitation-/d/102031