عبد الصمدحنفی،نیو ایج اسلام
9 جولائی،2013
مولانا جلا ل ا لدین عمری جماعت اسلامی ہند کے صدر ہیں اور انہوں نے اپنی ساری عمر مولانا مودودی کے نظریات کی تشہیر میں لگا دی۔ مولانا مودودی ایک بین الاقوامی شہرت یافتہ مفسر قرآن، نظریہ ساز اور سیاست دان تھے۔ ان کی قائم کردہ تنظیم جماعت اسلامی آج بر صغیر ہندوپاک و بنگلہ دیش میں ان کے اسلامی سیاسی نظریا ت کی تشہیر و تبلیغ کے کام میں مصروف ہے۔
مولانا عمری نے اپنے اس مضمون میں اسلام کےبنیادی پیغامات کونظریاتی سطح پر پیش کیا ہے۔ جن قرآنی و اسلامی حقائق و نظریا ت کو انہوں نے پیش کیا ہے اس سے کسی کو انکار نہیں ۔ انہوں نے بجا طور پر کہا کہ اگر قرآنی تعلیما ت اور اصولوں کا اطلاق ایمانداری سے انسانی سماج پر ہو تو جدید معاشرے کے تمام مسائل حل ہو سکتے ہیں۔ انہوں نے عدل، ایمانداری اور مساوات کے قرآنی اصول کی بنیاد پر یہ دعوی کیا ہے کہ اگر ان اصولوں پر دنیا عمل کرلے تو دنیا سے بدعنوانی، عدم مساوات، ظلم اور استحصال کا خاتمہ ہوسکتا ہے۔
ان حقا ئق سے قطع نظر مولانا عمری کی اس تقریر میں ناصحانہ اسلوب بیان میں جوش خطابت دکھا نے کی کوشش زیادہ کی گئی ہے سماجی مسائل پر عملی اور منطقی نقطہ ء نظر سے بات نہیں کی گئی ہے۔ ان کی باتوں میں تضاد ہے اور ایک واضح مطمح نظر کا فقدان ہے۔ ان کی اس پوری تقریر سے صرف ایک پیغام ابھر کا سامنے آتا ہے اور وہ یہ کہ پوری دنیا کے انسانوں کو اسلام قبول کر لینا چاہئے ۔ اگر وہ اسلام قبول کر لیں گے تو آج تمام دنیا میں جتنے مسائل ہیں چاہے وہ بدعنوانی کا مسئلہ ہو، یا ذات پات ، رنگ و نسل کا، امیر و غریب کا یا شیعہ سنی کا۔ اگر دنیا اسلام قبول کرلے گی تو پسماندہ طبقات پر ظلم بند ہو جائیگا۔ طاقتور ملک کمزور ملک پر حملہ نہیں کرےگا۔لوگ رشوت خوری سے باز آ جائیں گے۔
مذہبی افراد کے ساتھ الجھن یہ ہوتی ہے کہ وہ دنیا وی مسئلے پر با ت کرتے ہوئے ایک موضوع پر اپنی توجہ مرکوز نہیں رکھ سکتے۔ وہ فکر کے شٹل کاک میں دونوں دنیا ؤں میں آمدورفت کرتے رہتے ہیں اور سامعین ان کی پوری تقریر کے دوران باری باری سے دونوں دنیا ؤں کی سیرکا لطف اٹھاتے رہتے ہیں۔ ابھی وہ نوجوانوں کی بیروزگاری کا رونا روئیں گے تودوسرے ہی لمحے وہ انہیں جنت کی حوروں کی تصویرٰیں دکھا نے لگیں گے۔ ایک لمحے وہ مسلم ممالک پر یوروپی ممالک کے حملے کا ذکر کریں گے تو دوسرے ہی لمحے وہ انہیں اللہ کے عذاب سے ڈرانے لگیں گے۔
ان کی یہ تقریر بھی متضاد باتوں اور الجھے ہوئے خیالات کا ایک ملبہ ہے۔ انہوں نے اپنی تقریر خطیبانہ انداز میں شروع کی ہے اور سامعین کو مساوات کا درس دیا ہے۔
‘مشرق کے لوگو، مغرب کے لوگو، شمال کے لوگو، جنوب کے لوگو، اس وقت سے لے کر قیامت تک پیدا ہونے والے لوگو! سنو! تم سب ایک ماں اور ایک باپ کی اولاد ہو ، تمہارے خاندان بھی ہیں، قبیلے بھی ہیں ، قومیں بھی ہیں، یہ اس لیے ہیں کہ تم ایک دوسرے کو پہچان سکو۔ یہ کالا ہے، یہ افریقہ کا رہنے والا ہے۔ یہ گورا ہے، یہ یورپ کا رہنے والا ہے۔ یہ سانولے رنگ کاہے، یہ ایشیا کا رہنے والا ہے۔، کچھ پہچان ہو، ورنہ سب کے رنگ ایک ہوجاتے، سب کے قد وقامت ایک ہو تے، شکل وصورت ایک ہو جاتی تو پہچاننا مشکل ہوجاتا۔ یہ پہچان کے لیے ہے ،یہ انسانوں کے درمیان فرق و امتیازکی بنیاد نہیں ہے۔جو قوم اللہ سے ڈر کے زندگی گزارتی ہے وہ اللہ کے نزدیک محترم ہے۔’
ظاہر ہے تقریر کی تمہید پوری تقریر کے موضوع اور اس کی سمت کا تعین کر دیتی ہے۔ لہذا، اس تقریر سے بہت زیادہ مطلب نکالنے کی کوشش بے سود ہوگی۔ اس میں بنی نوع انسان کی نا شکرگذار فطرت کا ذکر کیا گیا ہے مگر یہ بھی اعتراف کیا گیا ہے کہ ہندوستان نے صنعت و حرفت، معاشیات اورفنون میں کافی ترقی کی ہے اور دنیا اسکی روز افزوں طاقت سے انکار نہیں کر سکتی اور یہ کہ انسان جو بھی ترقی اور اس کے نتیجے میں خوش حالی حاصل کرتا ہے وہ اللہ کا دیا ہوا ہوتا ہے مگر ترقی یافتہ قومیں اس کے لئے اللہ کا شکریہ ادا نہیں کرتیں۔ ہندوستان ایک ہندو اکثریتی ملک ہے۔اس میں کون سا علمی نکتہ پوشیدہ ہے قاری کی سمجھ سے باہر ہے۔ہندوستان کی صنعتی ا ور سائنسی ترقی کا ذکر نے کے فوراً بعد وہ قرآن کی اس آیت کا ذکر کرتے ہیں جس میں وہ کہتا ہے کہ اللہ کی نعمتوں کو پانے کے بعد انسان کو اللہ کا شکرگذار ہونا چاہیے، اس کے احکام کی بجاآوری کرنی چاہیے، اس کی اطاعت وعبادت اور اس کی فرماںبرداری کرنی چاہیے۔ ان دونوں باتوں میں کیا ربط ہے؟ ۔ قرآن میں خدا کہتا ہے کہ ہم فکر کرنے والی قوم کو حکمت ( سائنسی علم اور تکنالوجی) دیتے ہیں۔ قوم سے مراد قرآن لازمی طور پر کوئی قوم نہیں لیتا بلکہ عوام کا ایک طبقہ، گروہ اور آبادی بھی لیتا ہے۔خدا یہ نہیں کہتا کہ جو اسلام قبول کرتا ہے ہم صرف اسی کو حکمت عطا کرتے ہیں۔ وہ غور و فکر کرنے والا یہودی بھی ہوسکتا ہے، نصرانی بھی اور عبدالکلام نام کا ہندوستانی مسلم سائنسداں اور عبدالسلام نام کا پاکستانی احمدی بھی ہوسکتا ہے۔اسلام کے نزدیک ہر وہ شخص نا شکر گذار ہے جو اسلام قبول نہیں کرتا۔ پھر بھی خدا نا شکری قوموں اور افراد کو علم و حکمت کیوں عطا کرتا ہے اس مصلحت پر عمری صاحب کوئی روشنی نہیں ڈال سکے۔
انسان کو زندگی میں محنت کرکے اپنی حالت کو بہتر بنانے اور دوسرے لفظوں میں اپنی تقدیر سنوارنے کا درس دیا گیا ہے۔ حالی نے اسی قرآنی آیت کا ایک شعر میں ترجمہ کردیا ہے
خدا نے آج تک اس قوم کی حالت نہیں بدلی
نہ ہو جس کو خیال آپ اپنی حالت کے بدلنے کا
ظاہر ہے اس محنت کے نتیجے میں اور ان تمام وسائل کے استعمال سے جو خدا نے عطا کئے ہیں انسان ترقی حاصل کرتا ہے اور ان وسائل کے لئے خدا کا شکریہ بھی ادا کرتا ہے۔ مگر بنیادی طور پر اس کی ترقی اس کی محنت اور لگن کا نتیجہ بھی ہوتی ہے۔ورنہ شکر گذار مسلم ممالک تمام وسائل کی موجودگی کے باوجود غریب کیوں ہیں اور ان وسائل سے محروم غیر مسلم ممالک ترقی یافتہ خوشحال اور طاقتور کیوں ہیں۔انسان بھیک میں ملی دو روٹی کے لئے بھی خدا کا شکر گذار ہو سکتا ہے اور محنت کر کے حاصل کئے ہوئے حلوے پراٹھےکے لئے بھی خدا کا شکر ادا کرسکتاہے۔شکریہ دونوں صورتوں میں ادا کیا جا سکتا ہے مگر مؤخرالذکر شکریہ کی شان مؤمنانہ ہوگی ۔ مگر آج مسلمان اؤل الذکر شکرئیے میں زیادہ ایمان رکھتے ہیں کیونکہ اس میں محنت نہیں لگتی۔غالب نے اسی خیال کو اس شعر میں پیش کیا ہے۔
قرض کی پیتے تھے مئے لیکن سمجھتے تھے کہ ہاں
رنگ لائے گی ہماری فاقہ مستی ایک دن
خدا نے انسانوں کے فائدے کے لئے جو وسائل اور نعمتیں عطا کی ہیں ان کا عدم استعمال ہی در اصل نا شکری اور نا قدری ہے۔اور مسلم ممالک اس ناقدری کے گنہ گار ہیں۔ مولانا عمری اگر اپنے بیٹے کو ایک قلم تحفے میں دیں تاکہ اس قلم کا استعمال کرکے وہ علم حاصل کرے اور اپنی دنیا اور آخرت دونوں سنوارلے مگر ان کا بیٹا اس قلم کو کہیں کونے میں رکھ چھوڑے اور علم حاصل کرنےکے لئے اس کا استعمال نہ کرے مگر صبح و شام قلم تحفے میں دینے کے لئے ان کا شکریہ ادا کرے تو کیا اس شکریئے کی کوئی اہمیت ہوگی؟اور کیا وہ اپنے بیٹے سے اس شکر گذاری کے باوجود خوش ہونگے؟آج کے مسلمان خدا کا شکریہ اسی طرح سے ادا کررہے ہیں اور زمانے میں ذلیل و خوار ہیں۔وہ طاقتور غیر مسلم ممالک کی محکومی کے لئے خدا کا شکریہ ادا کررہے ہیں۔
در اصل مولانا عمری نے مذہبی اور دنیاوی معاملات کو گذ مڈ کر دیا ہے۔اور یہی وہ کنفیوژن ہے جس میں آج کے علماء مبتلا ہیں۔ایک طرف تو وہ اسلامی مساوات کا ڈھول پیٹتے ہیں مگر جب مسلکی معاملات پر ان کے مؤقف پر سوال کیا جائے تو بغلیں جھانکنےلگتے ہیں۔ ہندوستان کی جماعت اسلامی یہ دعوی کرتی ہے کہ اس کا پاکستان یا بنگلہ دیش کی جماعت اسلامی سے کوئی نظریاتی تعلق نہیں ہے مگر جب بنگلہ دیش کے قاتلوںاور ریپسٹوں کو وہاں کی عدالت سزائے موت سناتی ہے تو وہ ہندوستان میں آسمان سر پر اٹھا لیتے ہیں۔پاکستان میں گذشتہ حکومت نے دہشت گردی پر ایک کل جماعتی میٹنگ بلانے کا ارادہ کیا تو پاکستان کی جماعت اسلامی نے اس میٹنگ میں شرکت سے یہ کہہ کر انکار کردیا کہ جماعت اسلامی طالبان کو دہشت گرد نہیں سمجھتی۔آج بھی پاکستان میں طالبان کی طرف سے شیعوں کے خلاف اور دوسری اقلیتوں اور مسلکی طبقوں کے خلاف جو متشدد کارروائیاں ہورہی ہیں ان کے خلاف جماعت اسلامی پاکستان و ہند کا کوئی واضح مؤقف نہیں ہے۔ یہ ایک کھلی حقیقت ہے کہ بنگلہ دیش میں آزادی کی لڑائی میں پاکستان کی جماعت اسلامی نے کھل کر پاکستانی فوج کا ساتھ دیا ۔ البدر ملیشیا میں جماعت اسلامی کے ہی کارکن تھے اور جماعت اسلامی نے اس سیاسی جنگ کو کفر اور اسلام کی جنگ قرار دیا تھا اور بنگلہ دیش کا مطالبہ کرنے والے ا ن کی اور پاکستانی فوج کی نگاہ میں کافر تھے اور ان کا قتل اور عصمت دری ان کی نگاہ میں عین اسلام کی خدمت تھی۔ مگر آج ان کو سزا دینے پر جماعت اسلامی ہند کو شدید اعتراض ہے اور یہ ان کے لئے غیر قانونی عمل ہے۔ طالبان کے ذریعہ پاکستان میں شیعوں کے قتل کی مذمت میں جماعت اسلامی ہند کا کوئی مذمتی بیا ن شائع نہیں ہوتا۔ پھر مولانا جلال الدین عمر ی کس بنیاد پر کہتے ہیں کہ اسلام کو قبول کرلینے والا شخص اللہ کی پناہ میں آجاتا ہے۔
بنگلہ دیش میں اقلیتوں پر مظالم ڈھانے والے سیکولر طبقہ نہیں جنہیں جماعت اسلامی لا دین کہتی ہے بلکہ جماعت اسلامی اور دوسری مذہبی تنظیمیں ہیں جو اسلام کی پیروی اور تقلید کا دعوٰ ی کرتی ہیں۔شاہ باغ اسکوائر پر ۱۹۷۱ کے قاتلوں اور زانیوں کی سزا کا مطالبہ کرنے والوں میں شامل غیر مسلموں پر انہی اسلام کی دہائی دینے والی تنظیموں نے حملے کئے اور ان کےمکانوں کو جلایا۔
اسلامی علماء عا م حا لات میں تو امن اور عدم تشدد کی تلقین کرتے ہیں مگر جب بحران کا وقت آتا ہے تو ان کی تمام تر امن پسندی ہو ا ہوجاتی ہے۔پاکستان کی حکومت تو خیر جانے دیجئے وہ بقول جماعت لادینیت پر مبنی ہے مگر طالبان کے حلقہ اختیار میں شیعوں، سکھوں اور مسلم طالبات پر اسلام کی داعی تنظیمیں جو ظلم ڈھارہی ہیں ان کا عمری صاحب کے پاس کیا جواز ہے۔اور وہ سب کون سی اسلامی تعلیما ت کے تحت ہورہا ہے۔
مولانا عمری فرماتے ہیں
‘‘دوسری طرف عملی صورت حال یہ ہے کہ آج جو شخص غریب اور وسائل سے محروم ہے نہ اس کی جان ومال محفوظ ہے اور نہ عزت وآبرو۔ اس کے ساتھ کچھ بھی ہوسکتا ہے۔ اس لیے یہ سوچنا کہ دنیا میں امن ہے، ناقابل یقین بات ہے۔ آپ دیکھ لیجئے کہ مغربی ممالک اور امریکہ کس طرح بمباری کرکے ہزاروں لاکھوں انسانوں کو ہلاک کررہے ہیں۔’’
آج غیرمسلم ممالک مسلم ممالک پر بمباری کرکے معصوم افراد کو ہلاک کرتے ہیں یہ انتہائی مذموم فعل ہے مگر ان معصوم افراد کا کیا ہوگا جو طالبان، بوکو حرام اور دیگر اسلامی ہونے کا دعوی کرنے والی تنظیموں کے حملوں میں مارے جاتے ہیں۔ ڈرون حملوں میں امریکا دس افراد مارتا ہے تو طالبان حملوں میں نوے افراد شیعوں کے مارے جاتے ہیں۔ کیا ہی اچھا ہوتا کہ ‘خودکش حملے دہشت گردی ہیں اور اسلام مخالف کارروائیا ں ہیں’ کہنے کے بجائے اسلامی نتظیمیں غیرمبہم انداز میں یہ فتویٰ جاری کرتیں کہ شیعوں ، احمدیوں ، ہندوؤں اور عیسائیوں کے خلاف نام نہاد اسلامی تنظیموں کی متشدد اور خود کش کارروائیاں اسلام مخالف اور کفر کے مترادف ہیں۔ مگر حیرت ہے کہ اسلامی ادارے اور تنظیمیں گول مول بیان دے کر دنیا کو بیوقوف بنا تی ہیں کیونکہ خود انہوں نے اپنے دارالفتاوی میں ان کے خلاف فتوے دے رکھے ہیں۔
مولانا فرماتے ہیں۔
‘‘ ہوسکتا ہے آپ کو اس سے اختلافات ہوں ، مگر آپ کو یہ حق نہیں ہے کہ آپ اسے زندہ رہنے نہ دیں۔’’
ان کی یہ بات بالکل اسلامی اسپرٹ کے عین مطابق ہے مگر بد قسمتی سے عملی طور پر اسلامی علما کی ایک بڑی تعداد اس مؤقف پر یقین نہیں رکھتی۔ حالیہ مثال میں مصر کے اسلامی عالم اور دنیا بھر کے عالموں کی تنظیم کے صدر یوسف القرضاوی نے شیعوں کے قتل کا فتوی جاری کر دیا اور دنیا بھر کے سنی مسلمانوں کو شام کے ‘جہاد ‘میں شامل ہونے کی اپیل جاری کردی ۔نتیجے میں رپورٹوں کے مطابق دنیا بھر سے تقریباً ۸۰۰۰ نوجوان شام میں شیعوں کے خلاف جہاد میں شامل ہونے کے لئے القاعدہ میں تربیت کے لئے شامل ہوگئے ہیں۔کیا یہ علما مسلمانوں کو دہشت گرد نہیں بنا رہے ہیں۔ اور کیا ان فتووں کے خلاف ہندوستان کی اسلامی تنظیموں نے مذمتی بیان جاری کئے۔؟
آج بیشتر مسلم علما کا عملی طور پر مؤقف یہی ہے کہ جو ہم سے اختلاف کرے اسے زندہ رہنے کا حق نہیں ہے۔
مولانا نے اسلام میں انسانی حقوق کا ذکر کیا ہے۔ بے شک اسلام نے عام مسلمانوں کے ساتھ غلاموں اور لونڈیوں کے حقوق بھی متعین کئے مگر کیا سعودی عربیہ میں کام کرنے والے ہندوستانیوں اور یگر ملکوں کے ملازمین کے ساتھ ہونے والے غیر انسانی سلوک کی روح فرسا خبروں سے کوئی انگار کرسکتا ہے؟کیا دوسرے مسلم معاشروں میں خود مسلمان اپنے ہی مذہبی بھائیوں کے حقوق پامال نہیں کر رہے ہیں اور کیا انہی خبروں کی بنیاد پر مسلمان یہ امید رکھیں کہ غیر مسلم آپکی بات سنیں اور اس پر غور کریں۔؟
مولانا عمری بجا طور پر فرماتے ہیں
‘‘اسلام کی ایک بنیادی تعلیم یہ ہے کہ اس زمین میں فساد نہ ہونے دو۔ اللہ تعالیٰ نے جو کائنات پیدا کی ہے اس میں کہیں کوئی فساد اور بگاڑ نہیں ہے ،البتہ تمہاری زندگی میں فساد برپا ہے تو اس فساد کو ختم کرو۔ ہر انسان اللہ کو یاد کرکے بیٹھ نہ جائے ،بلکہ زمین میں جو فساد پھیلا ہوا ہے اسے ختم کرنے کی کوشش کرے۔ یہ اللہ کے ماننے والوں کی ذمہ داری ہے۔ اگر وہ اس ذمہ داری کو ادا نہیں کریں گے تو حشر میں ان سے بازپرس ہوگی۔’’
مگر عملی طورپر آج جتنے مسلم ممالک ہیں جو اپنے آپ کو اسلامی ملک بھی قرار دیتے ہیں ان سب میں ایک بھیانک فساد برپا ہے۔ یہ فساد غیر مسلموں کے خلاف نہیں ہے بلکہ اپنے ہی مسلم بھائیوں کے خلاف ہے۔ شیعہ۔ سنی اختلاف کے نتیجے میں ہونے والے فساد کے علاوہ یہ فساد اب اس سے بھی آگے بڑھ گیا ہے۔ اب کچھ اسلامی شدت پسند تنظیمیں ان کو بھی کافر قرار دے کر مارنے کے درپے ہیں جو جمہوریت کی حمایت کرتے ہیں۔ شام میں اس پر عمل بھی ہورہا ہے۔
بدعنوانی کی مذمت قرآن نے واضح طور پر کردی ہے مگر آج سب سے زیادہ بدعنوانی مسلمانوں میں ہے۔کیا اسی بد عنوانی کو دیکھ کر غیر مسلم آپ کی بات سنیں؟ آج جو بھی غیر مسلم اسلام قبول کر رہے ہیں وہ دراصل اپنی ذاتی تلاش و جستجو اور اسلامی تعلیمات کے براہ راست مطالعے کی بنا پر ہورہے ہیں۔ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ بہت سے مسلمان مسلمانوں میں مروج ظلم و تشدد سے بیزار اور خائف ہو کر اسلام چھوڑ رہے ہیں۔
اسلامی حکومت کا قیام عام مسلمانوں میں اسلامی اخلاق و اصولوں کی پیروی کی ضمانت نہیں دیتا۔ یہ بات مصر اور پاکستان میں اسلامی حکومت کے قیام کے باوجود مسلمانوں میں اخلاقی، معاشی اور سماجی برائیوں کی کثرت سے ثابت ہوچکی۔ مصر میں تو اخوان المسلمین کی حکومت میں اخلاقی برائیوں خصوصاً عورتوں کے خلاف جرائم میں اضافہ ہی ہوا بلکہ ایک عالم نے تو اسے جائز بھی قرار دے دیا۔ مسلمانوں میں اخلاقی اصلاحات تب ہی آسکتی ہیں جب خود ان کے علما میں اخلاقی بلندی ہو اور وہ خود انہیں مذہبی اور سیاسی بنیادوں پر تشدد پر نہ اکساتےہوں۔آج مسلمان دنیا کے مسائل کا حل پیش کرنے کے بجائے خود دنیا کے لئے مسئلہ بن گئے ہیں۔ شام ، مصر اور پاکستان اور اب نائجریا کی مثالیں سامنے ہیں۔ بوکو حرام کا مطلب ہے مغربی تعلیم حرام۔ جو جماعت تعلیم کی ہی دشمن ہو وہ خود کو اسلامی کہنے کا کیا حق رکھتی ہے جبکہ اسلام کی تعلیم ہی علم کے ارد گرد گھومتی ہے۔ مگر حقیقت ہی یہی ہے کہ آج مسلمانوں نے علم کو حرام شئے تسلیم کر لیا ہے۔تعلیمی اداروں اور طالبات پر حملے ان کے نزدیک اسلامی اعمال ہیں۔
جب تک مسلمانوں میں اخلاقی سطح پر تبدیلیاں نہ آئیں اور علما اپنے ذاتی مفادات اور سیاسی اور مسلکی بنیادوں پر مسلمانوں کو تقسیم نہ کریں تب تک ہمیں یہ حق نہیں کہ دوسروں کو انسانیت کا درس دیں۔
URL:
https://newageislam.com/urdu-section/some-reflections-maulana-jalaluddin-umri’s/d/12507