New Age Islam
Wed Sep 18 2024, 03:47 AM

Urdu Section ( 31 Jan 2014, NewAgeIslam.Com)

Comment | Comment

Causes and Solutions of the lack of Muslim Leadership مسلم قیادت کا فقدان اسباب اور حل

 

 

عبدالمعید مدنی

29 جنوری، 2014

ہندوستان میں ہرطرف یہ شکایت عموما مسلمانوں کی زبان پررہتی ہے کہ یہاں قیادت کا بحران ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ قیادت کا بحران کم اطاعت کا فقدان زیادہ ہے۔ عموما یہ کہا جاتا ہے کہ آزاد ی کے بعدمولانا آزاد کے ساتھ مسلم قیادت جاتی رہی۔ اس خیال پر یہ سوال اٹھتاہے کہ عملا کب انھیں کی قیادت تسلیم کی گئی۔ قیادت سے بحران کی بات جب آتی ہے تواکثریہ بات ذہن میں آتی ہے کہ آخریہ بحران کیا ہے؟ کیا قیادت کا بحران واقعتا مسلمانوں کے اندر موجودہے یا قیادت ہی مفقود ہے؟ یا قیادت مسلم معاشرہ میں پیدا ہی نہیں ہوتی ہے؟ اگر غورکیا جائے توحقیقی قیادت کے وجود پذیر ہونے کا موجودہ مسلم معاشرے میں امکان ہی نہیں ہے ۔ حقیقی اسلامی قیادت حقیقی مسلم معاشرے میں پیدا ہوسکتی ہے اورحقیقی مسلم معاشرہ اس وقت وجودمیں آتاہے جب سچا اسلامی فرد موجود ہواور سچا مسلم سماج موجود ہو۔کون نہیں جانتا کہ نہ سچا اسلامی فرد پایا جاتاہے ، نہ سچا مسلم سماج ۔ایسے ماحول میں مسلم قیادت، امانت داری اور دینی قیادت کا فقدان حتمی شے ہے۔ فرد، سماج، ملک اور قیادت مسلمانوں کے اندر اللہ تعالیٰ کے بتائے ہوئے احکام کو ماننے اوراس کے رسول کی پیروی کرنے سے اسلامی اور حقیقی رنگ پیدا ہوتی ہے ۔ایک مسلمان اس کا پابند ہے ۔خود رسول گرامی  صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ تعالیٰ کا حکم تھا۔(ترجمہ)‘‘ جو تم کو وحی کی جاتی ہے اس کی پیروی کرو۔

اور خود بزبان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم    کا اعلان تھا۔

(ترجمہ) میں توفقط اپنے پاس آئی ہوئی وحی کا پیروکار ہوں۔

حکم الہی کی پابندی کا اہتمام رسول پاک ؐ بڑے شوق اور بڑی شدت سے کرتے تھے۔ اس کے باوجود اللہ تعالیٰ نے اس پابندی کو مؤکد بنانے اوراس کی مخالفت کو تباہ کن بتانے کے لئے امام الرسول فخر موجودات کو مثال کے طورپر استعمال کیا اور فرمایا:

اگراس نے ہمارے اوپر بعض باتیں مڑھ دیں توہم اسے داہنے سے پکڑلیں گے پھر ہم اس کی شہ رگ کاٹ دیں گے(الحاقۃ:46۔44) رسول مشاہدومشہود معصوم تھے، نعوذ باللہ آپ سے ایسا کام ناممکن تھا مگر اللہ تعالیٰ نے سارے انسان کو بتلادیا کہ سید الکونین بھی اگرایسا کام کر بیٹھیں توان کے ساتھ کسی بھی رورعایت کا امکان نہیں ہے بلکہ انھیں بھی سخت سزا مل سکتی ہے۔ اندازہ لگائیے! ان آیتوں کی روشنی میں کہ اللہ کے بتائے ہوئے راہ عمل سے نکلنے کی کتنی عبرت ناک سزا ہے۔ اورکتنی سختی کے ساتھ مسلمانوں کو وحیین وحی جلی قرآن اور وحی خفی سنت رسول اور فرقان رسول کے ساتھ باندھ دیا گیا ہے۔ اس کے برعکس کتنی آسانی کے ساتھ مسلمانوں نے اپنی پسندکی الگ الگ راہیں اپنالی ہیں۔ رسول کو ذرہ برابروحی ا لہی میں تبدیلی کرنے کی سخت سزا کی دھمکی ملی اوریہاں حالت یہ ہے کہ آپ کے متبعین نے بڑی آسانی سے پورے دین کو تبدیل کررکھا ہے اور برابر تبدیلی کا عمل جاری ہے۔ اس سب سے بڑے جرم پر لوگوں کو خوشی اور مسرت بھی ہے اوراس سے بڑھ کر لوگوں نے اپنی تحریفانہ سرگرمیوں کے ساتھ مفادات وابستہ کررکھے ہیں اوروحیین سے یہ دوری انسان کو اللہ سے دور کردیتا ہے ۔ رسول اللہ سے دورکردیتا ہے، کتاب وسنت سے دورکردیتا ہے اوریہ دوری انسان کو تباہی کی طرف لے جاتی ہے۔ انسان اس دوری کے بعد حق کی راہ سے اتر کر بدعت کی راہ پر چل پڑتاہے۔ اطاعت اورپیروی کی راہ چھوڑکر نفس پرستی کی راہ پر چل پڑتاہے۔

بدعت کی راہ پر چلنے کا مطلب یہ ہوتا ہے کہ انضباط فکر وعمل ختم ہوجائے، فکر وعمل میں بے راہ روی عام ہوجائے، انتشار وخلفشار اور توڑپھوڑ کا عمل ہرطرف جاری ہوجائے، اجتماعیت تباہ ہوجائے۔ گروہ بندی اور گٹ بندی پروان چڑھنے لگے اور ہرطرف حصار بندی شروع ہوجائے۔ چھوٹے چھوٹے گروپوں کے دائرے میں لوگ محصور ہونا شروع ہوجائیں۔ ہرایک کی الگ الگ پہچان بن جائے۔ ان گروپوں اوران سے وابستہ لوگوں کے الگ الگ مفاد طے ہوجائیں۔ مفاد دین اور مفاد امت پس پشت ہوجائیں۔ بدعت مکمل طورپر راہ اتباع اوروحیین کی راہ نمائی کے مقابلے میں دین سے بالکل ایک الگ راہ ہوتی ہے۔ بدعت انسان کی پوری زندگی پر چڑھ جاتی ہے ۔ اللہ کا دین چھوٹتا ہے اوراس کی جگہ بدعت کا دین چھا جاتاہے۔ بدعت انفرادی سماجی سطح سے لے کر دین کے ہرمحور اور ہرسطح پر دھاوا بولتی ہے۔ بدعت انسان کی سوچ میں داخل ہوتی ہے، انسان کے عقیدے، عبادات اورعمل میں داخل ہوتی ہے، انسان کے عادات واطوار میں داخل ہوجاتی ہے حتی کہ مباحات ومجتہدات میں بھی داخل ہوجاتی ہے اور سرے سے انسان کو دین کا باغی بنادیتی ہے۔

خارجیت ، تشیع، اعتزال، جہمیت، قدریت، جبریت، ارجاء ،تقلید، تصوف ،تفسیر بالرائے آراء پر مبنی فقہ اور آج کے دورکی تحریکیت، دانشوری کل کی کل بدعات کے عنوانات ہیں۔ ان سارے عنوانات کے تحت فکری بدعات، سیاسی بدعات، عملی واعتقادی بدعات ،شخصیت پرستی اورخود پرستی کی بدعات، بغاوت اور شذوذ پسندی کی بدعات، مفاد پرستی اورعقل پرستی کی بدعات، حزبیت اور حزب پرستی کی بدعات، ذات برادری اور علاقائیت کی بدعات کو مسلم سماج میں فروغ حاصل ہوا ہے۔بدعات کے اس فروغ کے نتیجے میں نہ اصلی اسلام رہا، نہ اصلی مسلمان رہے، نہ مسلمانوں کی حقیقی اسلامی شناخت قائم رہی۔اورانھیں بدعات سے پھوٹی شاخیں ہیں ادارہ جاتی ،مدرسہ جاتی ،خانقاہی اورادارہ جاتی حلقہ بندیاں اوردائرہ بندیاں اور یہ حلقہ بندیا ںاتنی شدید ہیں کہ ان سے نکلنا مشکل ترین ہوگیا ہے ۔اسی طرح انھیں بدعات سے پھوٹی شاخیںسیاسی، سماجی، علمی، معاشی، علاقائی، ذاتی ذات برداری پر مبنی تنظیمات۔ ان تنظیمات کی عصبیت ،مفادات ، سوچ مخاصمتیں بھی شدت کے نقطہ عروج پر ہیں۔ اسلامی ودینی تنظیمات بھی مسلکی وذاتی مفادات کی بنیادوں پر قائم ہیں اوران میں اتنی شدت پسندی ہے کہ اپنی اپنی جگہ پر خلافت اسلامیہ کا بزعم خویش بدل بنی بیٹھی ہیں اوردین کی کل فرماروائی کی دعوے دارہیں۔ اورجورواداری عدم تعصب کا دعوی کرتی ہیں وہ منافقت، جہالت اور تعصب کا شکارہیں۔راہ اتباع کوچھوڑکر مبتدعانہ سوچ اور بچار کی بنیاد پر پھلی پھولی بڑھی پھیلی یہ عصبیتں گروپ گروہ بندیاں، بغاوتیں ،مفادات ،تحفظات حصار ی بندیاں، لا تعداد رنگ رنگ اور ڈھنگ ڈھنگ کے دائرے، الگ پہچان، الگ شناختیں، یہ سب کیا ہیں؟ یہ کل امت اسلامیہ کی طاقت، توانائی، اصالت، وقار، دبدبہ، وحدت اور اجتماعیت کی تباہی کے اسباب ہیں۔

ان کو نگاہ میں رکھتے ہوئے ہرآدمی فیصلہ کرسکتا ہے کہ مسلمانوں کے اندر عالمی طورپر قیادت کا فقدان ہے۔ قیادت کے بحران کی بات جانے دیں صحیح بات تویہ ہے کہ مسلمانوں کے اندر قیادت کا فقدان ہے۔ دنیا میں ہرجگہ اصلی مسلم قیادت کا فقدان ہے۔ مسلم فرد، مسلم سماج اور مسلم قیادت اس وقت بنتی اور تیار ہوتی ہے جب قرآن کریم کی فطری، ابدی، عالمی اور ربانی تعلیمات پر مسلمان خلوص و للہیت کے ساتھ چلیں اور رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم  کی سراپا رحمت وبرکت چشم کشادل تعلیمات پرعمل کریں۔ مسلمانوں کے اندر اجتماعیت بھیڑ اور انبوہ جمع کرنے سے نہیں پیدا ہوتی ہے نہ اتحاد اوراجتماعیت دنیاوی مفادات کے حصول کے لیے یکجا ہوجانے کانام ہے۔ نہ ساری بدعتوں کوتسلیم کرکے یا نظر انداز کرکے ایک جگہ جمع کرنے یا جمع ہونے کانام یک جہتی اور وحدیت ہے جیسا کہ کچھ لوگ چلاتے پھرتے رہتے ہیں۔ اسلام میں اجتماعیت کا تصوریہ ہے کہ اگر ایک آدمی حق پرہے تواکیلے جماعت اور فرقہ ناجیہ ہے اور اربوں ناحق پر اکٹھا ہوجائیں تب بھی فرقہ شاذہ وباطلہ ہیں۔

دنیادارانہ اتحاد دین سے بغاوت کو تسلیم کرنے اور اسے جواز کا مبادا پہنانے کا نام ہے۔ ساری بدعات کو دین کے مقابلے میں لاکھڑا کرنے اور قرآن وسنت کی تعلیمات سے ہاتھ اٹھالینے کانام ہے۔ دنیادارانہ اتحاد کو فضیلت وبرتری دینا اور اسے دین کی سب سے بڑی خدمت جاننا قرآن وسنت اور اللہ ورسول اللہ کے خلاف دین کی سب سے بڑی اورگھناؤنی سازش ہے۔ اسے اسلامی قیادت کو نکھارنا پروان چڑھانا نہیں کہیں گے۔ اسے اللہ ورسول سے بڑی اور دشمنی کہا جائے گا جب ہر گمراہی بدعت اور بدعت پرست سے تبری کرنا اور دوری اختیار کرنا دین کا خاصہ ہے اور دین کی وجوبی تعلیم ہے۔

مسلمانوں کے اندر دینی قیادت اس وقت پر وان چڑھے گی جب (1) قرآن وسنت کی تعلیمات کے مطابق افراد سازی اورذہن سازی ہو اور خالص مسلم فرد اور مسلم سماج تیارہو۔ (2) مسلم سماج میں اولوالامر اوراہل شوری کا ایلٹ گروپ تیارہو اور وہ شورائیت کی ساری صلاحیتوں سے بہرہ ور ہو ۔اس کے اندر علم، اخلاص، امانت، نصح وخیرخواہی اورسوجھ بوجھ پوری طرح موجودہو۔ (3) یہی اسلامی علمی گروہ اپنے میں سے قیادت کو پروان چڑھائے اوراہل ترافراد کو مختلف سطح پر پروان چڑھائے۔ سیاسی قیادت کے لئے اہل ترمخلص مسلمان کو متفقہ طورپر تیار کرے اور مختلف میدان ہائے کار کے لئے قیادت تیارکرے۔

قیادت کو تیار کرنے کا یہی اسلامی طریقہ ہے اوریہی اسلامی عمل ہے۔ مسلمانوں کے لئے ہمیشہ قیادت کو تیار کرنے کا یہی اسلامی طریقہ ہے۔ قیادت کو تیار کرنے کا یہی فارمولہ اسلامی خلافت کے لئے بھی ہے، مسلم اقلیت کے لئے بھی ہے، اسلامی اداروں اور تنظیمات کے لیے بھی ہے اورمسلم ملک کے لئے بھی ہے۔ اچھی حالت کے لئے بھی ہے اوربری حالت کے لیے بھی ہے۔

اس فارمولے کے مطابق اسلامی قیادت کی تعمیر، تشکیل اور بناؤ بگاڑ ہرحالت کے لیے تفصیلی تعلیمات ہیں اور یہی مسلمانوں پرلاگو ہے۔ اسلامی وحدت، اجتماعیت اور قیادت سازی کے اس طریقے اورعمل کوتسلیم کرنا اورماننا ہرمسلمان کے اوپر واجب ہے۔ اگر اس فریضے کو تسلیم نہ کیا جائے اوراس کے مطابق ایک مسلمان کا ذہن نہ بنے اور اس وجوب کو تسلیم نہ کرے توبسااوقات انسان کی ذہنی، دلی اورعملی حالت کے مطابق وہ زندگی بھر شذوذ کی حالت میں رہتا ہے اور اس کی زندگی غیرشعوری طورپرجاہلیت میں گزر جاتی ہے۔ اس کے برعکس اگرایک مخلص مسلمان بدعات سے پھوٹی ان شاخوں کو تسلیم نہ کرے اور غیر قرآنی غیر سنی شناخت کو مرفوض مانتا ہو اورکتاب وسنت پرمبنی جماعت کو مانتا ہو اوراس وحدت کا داعی ہو خواہ وہ تنہا ہو تووہ اکیلے اس پر جماعت کا اطلاق ہوگا اوروہ ان شاء اللہ اللہ کی بارگاہ میں سرخرو ہوگا۔اسلام میں قیادت سازی اوروحدت سازی کا عمل کبھی بندنہیں ہونا چاہیے ۔ اس کا عمل جاری رہنا چاہیے اور تمام غیر اسلامی تعصبات، تحزبات اورحصاروں کو تسلیم نہیں کرنا چاہیے۔ اس سے انسان اس فریضے سے واگذار ہوسکتا ہے جس کا تعلق جماعت سے وابستگی، اسلامی وحدت سازی اوراسلامی اجتماعیت واسلامی خلافت کے قیام سے ہے۔وحدت کے اس فارمولے کی تشکیل اور فروغ کے لیے ہماری کوشش جاری رہنی چاہیے اور یہ کوشش اقلیت کی حالت میں بھی مطلوب ہے اوراکثریت کی حالت میں بھی، انتشار کی حالت میں بھی اور اتحاد کی حالت میں بھی ۔ اس اسلامی طریقے کو چھوڑ کر قیام خلافت کا نعرہ لگانا اوراساس اور زمینی حقیقت کو نظرانداز کرکے خلاؤں میں اچھلنا، نعرے لگانا، چیخنا چلانا، گلا پھاڑنا تضاد اور حماقت کا مظاہرہ کرنا ہے۔وحیین (قرآن، حدیث) کے دائرہ سے باہر نکلنا اور ذہنی عیاشی کرنا افکار وخیالات کی دنیا آباد کرنااور ابتداع کی راہ پر چلنا ہے۔ اس سے دین کی مخالفت ہوتی ہے۔ یہ برائیوں کی جڑہے اورسارے شرکاسرچشمہ۔ یہ شرک اور گناہ کبیرہ کے ارتکاب سے زیادہ خطرناک ہے۔ یہ اللہ کے مقابلے میں اللہ ورب کھڑا کرنے کے مترادف ہے۔ یہ اللہ پر افتراء سازی ہے۔آج عموما مسلمان بدعات کے جن گھیروں اور حصارو ںمیں بندھے ہیں جن کی تفصیل اوپر دی گئی ان میں بند ہونے کے بعد جاہلیت کی زندگی گذاررہے ہیں یعنی جو خلفشار وانتشار کی حالت بعثت محمدی کے وقت تھی اس حالت میں مسلمان جی رہے ہیں۔ایک مخلص اورسنجیدہ مسلمان اس حالت میں یہ سوال کرسکتا ہے کہ آخراس نفس پرستی کی عام وبا اورانتشار کے طوفان میں وہ کیا کرے ؟اس کا جواب یہ ہے کہ اس قیادت سازی اور وحدت سازی کے فریضے سے عہدہ برآہونے کے لئے سب سے پہلے تواس کے اوپر یہ ضروری ہے کہ یہ عقیدہ بنالے کہ بدعات سے پھوٹی یہ ساری شناخت، دائرے، حصار، مفادات سب باطل ہیں اور عملا’’ ماانا علیہ واصحابی‘‘ پر قائم رہے ۔اس پر اگر وہ قائم ہے تواکیلے جماعت ہے وحدت سازی اورقیادت سازی کی ذمہ داری سے عہد برآہے۔ اسے چاہیے کہ غیر دین سارے تعصبات کو اپنے پیروں تک رونددے اور پوری بصیرت کو استعمال کرتے ہوئے ان لوگوں کا ساتھ دے جو قرآن وسنت کے حوالے سے مخلصانہ دعوتی، دینی، تعلیمی، سماجی کام کرتے ہوں۔ ورنہ زندگی کی ساری بھاگ دوڑ برباد ہوسکتی ہے۔

انسان کے عمل کوسند اس وقت مل سکتی ہے جب وہ راہ اتباع پر چل رہا ہو۔ اگروہ راہ ابتداع پر چلتا ہے تواس کی ساری محنت اکارت اور بے کار جائے گی۔ خواہ وہ دنیا کو اپنی آواز سے بھردے، ہرطرف اس کی گونج ہو، سارا جہاں اس کا نعرہ لگائے،چاروں جہات میں اس کے کام کی دھوم ہو اورہرطرف اس کے کارناموں کی تختیاں لگی ہوئی ہوں۔

اے نبی کہہ دو کیا ہم تمہیں بتلائیں سب سے زیادہ کون لوگ کارکردگیوں میں خسارہ یاب ہوں گے ؟وہ لوگ جن کی دنیا کی زندگی میں تگ ودوبے کار چلی گئی اور وہ یہ سمجھتے رہے کہ وہ بڑا اچھا کام کررہے ہیں(الکہف:104۔103)۔

یہ خسارہ یاب کون لوگ ہیں؟ وہی جو خوش فہمیوں کی دنیا میں جیتے ہیں اور اپنی سرگرمیوں پر جھومتے ہیں۔ ان کے کسی کام کو شرعی سند حاصل نہیں ہے۔ نیتوں اور ارادوں میں فتور، فساد، غیراسلامی مبتدعات نیتیں، عمل متبدعانہ اور راہ عمل بدعت، مفادات کی دنیا ،بے دینی کا حصار،تحزباتی تعصبات اشخاص ورجال کی غیردینی مرتبت وحیثیت وغیرہ جن کی تفصیل اوپر گذرچکی ۔

موجودہ انتشار میں قیادت کا فقدان طے ہے۔ اس کے پیچھے کیا اسباب ہیں؟ اسے کوئی نہیںدیکھتا ہے۔ عام وبا یہی ہے کہ انسان اپنے ماحول کا غلام ہوتا ہے اور موجودہ میڈیائی دورمیں جو زیادہ پروپیگنڈہ کرلے جائے، اپنی حیثیت وشخصیت کو اچھال لے جائے ،وہ ملت کا رہنما بننے کی دعوی داری رکھتا ہے۔ گووہ ابولہب اور ابوجہل کا بھائی ہو، عبداللہ بن ابی کا باپ ہو، مکر وفریب کا پتلا ہو،کذب میں ڈھل چکا ہو۔اورلوگ ماحول کی غلامی کے سبب ایسے سہل انگار بن چکے ہیں کہ ایسے اشتہاری قیادت کو تسلیم کرکے بیٹھتے ہیں۔

اسلامی قیادت کا فارمولہ وہی جس کو بیان کیا گیا ہے۔ قیامت تک وہی فارمولہ چلے گا اور ہردورمیں اس پر عمل کرنے کا وجوب طے ہے۔ فاتقوا اللہ ما استطعتم کے اصول پر ہر مسلمان کو عمل کرنا ضروری ہے۔

 رہ جاتاہے ایک سوال کہ کیا موجودہ انتشار پذیر ملت اورمنتشرامت کو چھوڑدیا جائے اس کے بارے میں کوئی عملی اقدام نہیں ہونا چاہیے یا امت بربادی کے دہانے پر پہنچ جائے یا پہنچ گئی ہو یا ایسے حالات پیدا ہوں کہ اگرعملی اقدام نہ کیا جائے توامت کے تباہ ہوجانے کا عظیم خطرہ ہو توایسی صورت میں کیا کیا جائے۔اس سلسلے میں سب سے اہم عملی راہ عمل یہ ہے کہ ما أنا علیہ أصحابی اور علیکم بسنتی وسنۃ الخلفاء الراشدین المہدیین کی تبلیغ ہونی چاہیے اور راہ ابتداع سے نکال کر لوگوں کو راہ اتباع پر لانے کی بھرپور جدوجہد ہونی چاہیے تاکہ لوگ اسلام کی راہ وحدت پر آئیں اور تعصبات کے اندھیروں سے باہرنکلیں۔ دعوت کا یہ کام مسلسل ہونا چاہیے۔ موجودہ وقت میں کرنے کا سب سے اہم کام یہی ہے اورراہ نجات یہی ہے۔ اس سے ملت کی مشکلات کم ہوں گی۔ دعوتی جدوجہد جس قدر مضبوط ہوگی اورجس توجہ سے اتحاد کے فارمولے کو عملی شکل دی جائے گی اورجتنا لوگوں کو اس سے جوڑا جائے گا اس کے بقدر قیادت سازی اوروحدت سازی کا فریضہ بحسن وخوبی ادا ہوگا۔

اس کے ساتھ بین جماعتی تعاون اوراتحاد کی سنجیدہ اورمخلصانہ عمل میں حصہ داری ہوسکتی ہے۔ اس مصنوعی طریقے کے مطابق منہجیت کی روشنی میں یعنی ابتداع کی راہ پر جائے بغیر اتباع کی راہ اپناتے ہوئے مشترکہ ملی دینی مفادات وحقوق کے تحفظ میں بھرپور حصہ لینا چاہیے اور جہاں بھی جب بھی یہ کام اصولوں کی بنیاد پر اخلاص کے ساتھ ہو باہر رہ کر بھرپو رتعاون کرنا چاہیے۔ اورجب محسوس ہو کہ جیب وشکم اورمنصب وکرسی کا کام شروع ہوگیا توبھرپور اصلاح کی کوشش ہو۔ اگر فساد فرعونیت کا روپ اختیار کرے یا بدبودار نفاق بن جائے توپھر دوری بنالینی چاہیے۔ایک صدی کی مثال ہمارے سامنے ہے کتنے مشترکہ پلیٹ فارم غارت ہوگئے اور ایک خاندان کے ہاتھ میں چلے گئے۔ یہ سب سے بڑی خیانت ہے اورملت کے مفادات کو نظر انداز کرنا ہے۔ اس کت باوجود ٹوٹی پھوٹی بار بار قیادت انھیں لوگوں کے ہاتھوں میں جاتی ہے جو ذاتی مفادات کو ترجیح دیتے ہیں۔ کون کتنا اجتماعیت کی نزاکتوں کو سمجھتا ہے؟ یہ معیارنہیں ہے۔ معیار،اصول اورضابطے ہیں گروہی اورمسلکی عصبیتوں اورذاتی حرص ولالچ نے اس پلیٹ فارم کو برباد کردیا ۔ گوناگوں مصلحتوں عصبیتوں نے نا معلوم کتنے مشترکہ مفادامت پلیٹ فارموں کو برباد کیا۔ جومشترکہ پلیٹ فارم جعلی قسم کے ہیں اور جو شخص امیج اور شخصی ولولوں کی بنیاد پر وجود میں آئے ہیں اورقائم ہیں ان کی حیثیت توفتنوں کی ہے جو ملت کے لئے فتنہ ہیں۔ اس کی تاریخ سب کے سامنے ہے۔ اسے اوراس جیسے دیگر اداروں کو کون فتنہ وفساد کہنے سے باز رہ سکتا ہے۔راہ ابتداع پر چل کر موجودہ وقت میں امت کے اندر اتحاد پیدا ہونے اورقیادت اسلامی نمودار ہونے کا کوئی امکان نہیں ہے ۔اس راہ پر چل کر فرد فرد کا شیرازہ بکھر گیا ہے۔ گھر سماج ملک کی بات توسب دور کی ہے۔ ہرہر فردراہ ابتداع پر چل کر مریض بن گیا ہے۔ اس کی اتحاد اوراجتماعیت کی صلاحیت مرگئی ہے ۔اس کا جذبہ اتحاد ختم ہوگیا ہے۔ ہرشخص روز ٹوٹتا بگڑتا اور بکھرتا ہے اور روز بنتا اور بگڑتا ہے یا صرف بگڑتا ہی رہتا ہے۔ آج کا مسلمان بدعات میں ڈوب چکا ہے اور بدعات میں غرق ہونے کے بعد کہاں وہ اتنا حوصلہ رکھتا ہے کہ امت کے مفاداوراتحاد کے متعلق سوچ سکے؟ اس کوکہاں اتنی سوجھ بوجھ ہے کہ وحدت سازی کرسکے؟ اس کے اندر اتنی صلاحیت کہا ں ہے کہ وحدت اور قیادت کے مسائل کا ادراک کرسکے۔ اس کے پاس اتنا دم خم کہاں ہے کہ اس کے لئے کھڑا ہوسکے؟

کم از کم سوسال کی امت اسلامیہ ہند کی تاریخ میں صرف ایک شخص ایسا نظر آتاہے جو مسلمانوں کی قیادت کرسکتا تھا اوروہ تھے مولانا ابوالکلام آزاد رحمہ اللہ۔ قیادت کی ساری صلاحیتیں ان کے اندر بدرجہ اتم موجود تھیں۔ وہ کوئی حزبیاتی انتساب نہیں رکھتے تھے۔ ان کے اندر کسی طرح کا مسلکی، ذات برادری، علاقائیت کا تعصب نہ تھا۔ وہ اتباع کی راہ جانتے تھے ۔ اتباع کی راہ سے وحدت سازی اور قیادت سازی کا ان کا واضح دینی تصور بھی تھا۔ وہ مطلوب اصلی اور حالت واقعی دونوں کو جانتے تھے اوردونو ں کے درمیان تال میل کا اسلامی طریقہ بھی جانتے تھے۔ وہ بابصیرت تھے، عالم بے مثال تھے۔ زبان وقلم کے یکساں شہ سوار تھے۔ مدبر اورمصلح بھی تھے۔ تناصح اور امانت دار ی بھی تھی ۔ اخلاص کی دولت سے مالا مال تھے۔ قیادت کی ساری صفت ان کے اندر موجود تھی۔ انہوں نے وحدت سازی اورقیادت سازی کی ملت اسلامیہ ہند کو دعوت بھی دی اوراس کے لئے بھرپور کوشش بھی کی لیکن مسلکی عصبیتوں نے ان کی کوششوں کو ناکام بنادیا۔اس برصغیر کے بدعت کدے میں جب ابوالکلام آزاد جیسا یکتائے زمانہ مرفوض ٹھہرا پھر قیادت کے لیے کس کی تلاش کی جاتی ہے؟ آزاد علیہ الرحمہ کا زمانہ آج کے زمانے سے کہیں بہترتھا۔ اس دورمیں لوگ موجودہ دور کے توسع پذیر عام انتشار سے محفوظ تھے۔ اب توصورت حال یہ ہے کہ ایک مسلک کے اداروں اور تنظیموں میں ذاتی مفادات کے حصول کے لیے وہ جنگ ہوتی ہے کہ اللہ کی پناہ۔ اورپبلک کا حال یہ ہے کہ ذہنوں میں فسادات ایسا بیٹھ گیا ہے کہ مجاہدین بطن وشکم کے لشکر میں لوگ بڑی آسانی سے شریک ہوجاتے ہیں اوردن دھاڑے ملت اور مسلمانوں کو لوٹنے والے قابل ستائش بنے رہتے ہیں اورایسے ایسے فلسفے ایجاد ہوتے ہیں کہ سب کچھ جائز اور صحیح قرار پاتاہے۔ بدعتیں جب قلوب واذہان میں گھرکر لیتی ہیں توانسان ہرگناہ کے پیچھے عذر تلاش کرلیتا ہے بلکہ اپنے گناہوں کو ثواب کا درجہ دینے کے لئے کمربستہ رہتا ہے اورآج کے فساد زدہ ماحول میں مبتدعین ومفسرین کی معذرتیں ،تبریرات اور وجہ جواز کی ناروا شکلوں کو لوگ دیدہ وادانستہ مان لینے کے لئے تیار رہتے ہیں۔  جب تک راہ ابتداع کو بند نہ کیا جائے گا اورلوگوں کو راہ اتباع پر چلنے کا عادی نہ بنایا جائے گا مسلمانوں کے اندر حقیقی جاندار اور جانفزا،اتحاد پیدا ہونے کی کوئی صورت ہوہی نہیں سکتی۔ اگربظاہر راہ اتحاد پیدا بھی ہو تواس کے ٹوٹ پھوٹ جانے اور شخصی مفادات کا شکار ہوجانے کے سوا کچھ نہ ہوگا۔

اس وقت امت اسلامیہ ہند کا حال انتہائی دگرگوں ہے۔ اللہ تعالیٰ اس کی حالت پر رحم فرمائے۔ آمین۔ اس وقت زندگی کے مسائل بے حد بڑھ گئے ہیں۔ زندگی بڑی پرپیچ بن گئی ہے۔ اس وقت متنوع قیادتوں کی بھی ضرورت ہے جواپنے اختصاص کے مطابق امت کی درہم برہم زندگی کو منظم کرے۔ اسلام کی بہت بڑی عطا ہے کہ اس نے اولوالامر اور اہل شوری کا تصور دیا ہے۔ قیادت تک کے لئے مسلم سماج کا یہ قیادی گروہ ہے۔ اس گروہ میں علماء دین کے سوا مخلص سماجی کارکن، اپنی فیلڈمیں مخلص دین پسند ماہرین ،مخلص، ناصح اورمتواضع مسلم اصحاب ثروت، سماج کے معتبر ثقہ دین دار دین پسند تعلیم یافتہ حضرات ۔اوران کی مشترکہ صفت ہے علم دین کی معرفت مختلف سطحوں پر علماء کے لئے اختصاص علم اور مختلف لوگوں کے لئے کلیات دین کی جانکاری، اخلاص، تعلق باللہ، امانت داری، نصح وخیرخواہی اورسوجھ بوجھ دین ودنیا کی سوجھ بوجھ۔مسلمانوں کی ذمہ داری ہے کہ مسلم سماج میں قیادت سازی کا ایسا دینی عمل بنائیں کہ اہل شوری کے شرفاء کو آگے بڑھایا جائے۔ لیکن موجودہ بگڑے ماحول میں اس عمل کو جاری کرنے کا تصوربھی محال ہے۔ یہ عمل انھیں لوگوں کے ذریعہ ہوسکتا ہے جوراہ اتباع پرچلتے ہوں اوردوسروں کو اس پر چلانے کا حوصلہ رکھتے ہوں۔ ’’إن اللہ لا یغیر ما بقوم حتی یغیروا ما بأنفسہم‘‘بے شک اللہ قوم کی لگی علتوں کو نہیں بدلتا جب تک وہ از خوداپنی ذات سے لگی علتوں کو نہ بدلیں۔دلوں کو بدعات کا لگاروگ ازخود نہیں جائے گا۔ اس کو بدلنے کے لیے انسان کو ازخود جدوجہد کرنی ہوگی۔ یہی اللہ کا قانون ہے اوریہ اٹل قانون ہے ۔ رسول پاک ؐ کا امتی ہونے کا دعوی اس کی ضمانت نہیں دے سکتا ہے کہ مسلمان اللہ کے چہیتے ہیں۔ صرف دعوی داری سے نہ مسلمان اللہ کا چہیتا بن سکتا ہے نہ اس کے لئے اللہ کے اصول اورسنن الہیہ بدل سکتے ہیں۔ مسلمان کو اپنی اصلاح خود کرنی پڑے گی۔ اس کے سوا اس کے لیے کوئی چارہ نہیں ہے۔

مسلمانوں کی اجتماعی حالت کفارسے زیادہ بگڑی ہوئی ہے ۔ کفار کو جوڑنے کے لیے دنیوی مفادات قومی مفادات ہوسکتے ہیں۔ مال دولت منصب وقیادت کے حصول کی ہوس انھیں جوڑسکتی ہے۔ دنیوی مفادات کے تحفظ کے لئے ضابطہ بندی قانون پر عمل پیرائی انھیں جوڑسکتی ہے مگریہ ہے مصنوعی اتحاد جس کی افادیت وقتی ہوتی ہے اورانھیں محض دنیاوی فائدہ پہنچاسکتا ہے اورمفادات زیادہ بڑھے تویہی مصنوعی اتحاد انھیں تہس نہس بھی کرسکتا ہے۔اوراس کو دیکھ کر بہت سے مسلمان ریجھ جاتے ہیں اورانھیں خطوط پر اتحاد امت کا نعرہ لگاتے ہیں اوراس طرح مزید تشبیہ کی بدعت کی طرف دعوت دیتے ہیں جومسلمانوں کے لیے مزید انتشار اورخلفشار کا سبب بن جاتی ہے۔ مسلمانوں کا بدعمل روباہ صفت دانشورطبقہ اس دنیاوی مصنوعی اتحاد پر ہمیشہ لٹورہتا ہے۔مسلمانوں سے جواتحاد مطلوب ہے وہ حقیقی اتحاد مطلوب ہے جو واعتصموا بحبل اللہ جمیعا کی بنیاد پر قائم ہو، جو کتاب وسنت کی تعلیمات پر قائم ہو۔ دراصل یہی اتحاد ہے جس سے دل مل سکتے ہیں۔ خلافت علی منہاج النبوۃ قائم ہوسکتی ہے۔اسلام کا نظام عدل قائم ہوسکتا ہے ۔ انسانوں کو امن وانصاف مل سکتا ہے۔ دنیا سے جہالت، استحصال اوراستبعاد ختم ہوسکتا ہے اورلوگوں کو ان کے حقوق مل سکتے ہیں۔ غربت ختم ہوسکتی ہے ۔اسلام کا آفاقی پیغام دنیا میں سارے انسانوں کے پاس پہنچ سکتا ہے ۔ حزبیات کے سانچے ٹوٹ سکتے ہیں۔ مفادات کی غلامی ختم ہوسکتی ہے۔ یافت وشناخت کا حصار ٹوٹ سکتا ہے۔ اللہ کے ابر کرم کی بارش ہوسکتی ہے اورمسلمان شذوذ پسندی کی حالت سے باہرنکل سکتے ہیں۔

اس حقیقی اتحاد سے مسلمانوں کی قوت بڑھ سکتی ہے۔ طاغوتوں اور فرعون کا زورٹوٹ سکتا ہے۔ قارونوں اور شائیلا کوں کا ا ستحصال ختم ہوسکتا ہے۔ جب تک مسلمان اپنی ِشذوذ پسندی اور انتشار وتشتت کی حالت زار سے نہیں نکلیں وہ دن بدن پستی کے دلدل میں دھنستے جائیں گے اورلوگوں کے ظلم وستم اور استحصال کا شکار رہیں گے آج جس طرح شیطانی اعتاب سیاست پر جس طرح ناک رگڑتے ہیں اسی طرح ناک رگڑتے رہیں کبھی انھیں عزت نہیں ملے گی ۔ رعایت ریزویشن اورحقوق کی بھیک مانگتے رہیں گے۔ عیار سیاست داںانھیں ٹھکراتے رہیں گے اور بھگوارنگ دشمنوں کا ٹولہ جوہرجگہ گھسا ہوا ان کی جڑیں کاٹتے رہیں گے۔

راہ ابتداع پرچلنے کانتیجہ آج ہمارے سامنے ہے۔ تداعی علیکم الأمم کما یتداعی الأکلۃ علی قصتہا کی پیش گوئی ثابت ہورہی ہے اور غثاء کغثاء السیل کانتیجہ بھی ظاہرہے۔ اس حالت میں بھی قیامت تک سدھار کی راہ کھلی ہوئی ہے اوراتباع کی راہ بھی کھلی ہوئی ہے۔ مگرجب تک از خود مسلمانوں کے اندر تبدیلی لانے کا داعیہ پیدا نہ ہوگا ، ان کا بدعت کا روگ ختم نہ ہوگا نہ ان کے اندر تبدیلی آنے کا کوئی امکان ہے۔ یہ اللہ کا اٹل اصول ہے۔ اس اصول کے سامنے سرنگوں ہونا پڑے گا ۔اس کے بغیر کوئی چارہ نہیں ہے۔

اللہ تعالیٰ ہماری حالت پر رحم فرمائے اور ہمیں راہ راست پر چلائے۔آمین۔

29 جنوری ، 2014  بشکریہ : روز نامہ عزیزالہند ، نئی دہلی

URL:

https://newageislam.com/urdu-section/causes-solutions-lack-muslim-leadership/d/35524

 

Loading..

Loading..