عبد المعید ازہری ، نیو ایج اسلام
ہر فکر و عمل کے کئی اچھے برے طریقے ہوتے ہیں۔منز ل تک وہی راستہ پہنچتا ہے جوسیدھا اور مستقیم ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ صراط مستقیم پر گامزن رہنے کی دعا مانگنے کی تلقین کی گئی ہے۔صراط مستقیم یعنی سیدھا ، مستقل اور استقامت والا راستہ۔
ہندوستان کی تحریک آزادی سے لے کر دور حاضر کے جدید تقاضوں تک قوم مسلم کی اصلاح میں علماء مدارس کا اہم کردار رہا ہے۔1857کی تحریک جنگ آزادی میں انگریزوں کے خلاف جہاد کا فتویٰ دینے والے علامہ فضل حق خیرآبادی ایک صوفی عالم دین اور چشتی سلسلے کے شیخ تھے ۔ہندوستان کی آزادی میں ہزاروں علماء کرام نے علامہ فضل حق خیرآبادی کی قیادت میں گراں قدر قربانیاں پیش کیں۔درختوں پر لٹکے ہو ئے ہزاروں علماء کرام کے سر ان علماء کی جا نب سے پیش کی گئی قربانیوں کا واضع ثبوت ہیں ۔ مدارس اسلامیہ نے ہمیشہ اپنے طلباء کو وطن سے محبت کا درس دیا ۔ غلامی کی زندگی پر عزت کی موت کو ترجیح دینے کا سبق پڑھایا ۔ معاشرتی اور سیاسی فتنوں کے سد باب کے لئے بھی مدارس اسلامیہ ہمیشہ پیش پیش رہے ۔ اسلام کے ساتھ ساتھ ہندوستان کی تہذیب اور اس کی ثقافت کو ہاتھوں سے نہ جا نے دیا ۔ آج پورا ملک جس گنگا جمنی تہذیب پر ناز کرتا ہے اور پوری دنیا جس مذہبی ہم آہنگی پر رشک کرتی ہے وہ علمائے دین و صوفیائے کرام کی دین ہے ۔ ہر دور میں معاشرتی تہذیب کو پراگندہ کرنے کے لئے مختلف قسم کے فتنوں نے سر اٹھایا لیکن ہر دور میں ایسے ذمہ دار علماء رہے ہیں جنہوں نے بر وقت ان تمام فتنوں کا پر زور سد باب کیا ۔ ہندوستان کی اسلامی تاریخ میں ایسے ہزاروں علماء و مدارس کے نام سنہرے الفاظ میں موجود ہیں جنہوں نے اپنی بے لوث اور ذمہ دار انہ خدمات کی بنا ء پر تاریخ میں اپنے آپ کو زندہ و جاوید کر رکھا ہے ۔انہوں نے زندگی کے ہر شعبوں میں نمایا خدمات انجام دیں ۔ یہ علمائے اسلام و مدارس اسلامیہ کا شاندار قابل فخر اور رشک آفریں ماضی ہے جس کے نقوش آج تک اپنے اثرات مرتب کر تے ہو ئے نظر آ رہے ہیں اور قوم و ملت کی اصلاح میں اپنی اہمیت کو درج کرا رہے ہیں ۔ قوم و ملت آ ج بھی ان کے علمی و روحانی ورثے سے فیض حاصل کر رہی ہے لیکن افسوس دور حاضر میں مدارس اور علمائے مدارس کا کردار اس کھنڈر کی مانند ہو گیا ہے جن کے آثار شیش محلوں کا پتہ دیتے ہیں ۔مدارس کے قیام کے اولین مقاصد میں یہ تھا کہ قرب وجوار کے لوگ ایک جگہ اکٹھا ہو کر تعلیم حاصل کر سکیں اور ان کی تربیت بھی کی جا سکے ۔ دور حاضر کے مدارس میں روزانہ تعلیم و تربیت اور ضروری مسائل سے واقفیت کے علاوہ با قاعدہ طلبہ کو مدرسہ میں مقیم رکھ کر ان کی مکمل تربیت ہو تی ہے ، انہیں داعی مبلغ ،امام خطیب بنا کر فارغ کیا جا تا ہے ۔ مکتب سے لے کر مدرسہ دارالعلوم ، جامعہ تک ہندوستان میں آج کئی ہزار مدارس ہیں جن میں کثیر تعداد میں طلبہ تعلیم حاصل کر رہے ہیں ۔ اس شاندار ماضی کا بگڑا ہوا حال آج تاریک مستقبل سے خوف زدہ کر رہا ہے اور دعوت غور وفکر دے رہا ہے ۔
دور حاضر کے مدارس کا حال یہ ہے کہ جس علاقہ میں مدرسہ واقع ہے ، ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ مدرسہ کی تعمیر و ترقی میں اس علاقہ کے لوگ پیش پیش رہتے ۔ معاون و مددگار رہتے ، لیکن حقیقت یہ ہے کہ اس علاقہ کے لوگ ہی اس سے بیزار ،غیر مطمئن بلکہ متنفر نظر آتے ہیں ۔ ایسا نہیں ہے کہ مدرسہ کے قیام میں انہوں نے کوئی حصہ نہیں لیا ۔ انہوں نے اپنی زمین دی ، سرمایہ دیا ، جسمانی محنت و کاوش سے امداد کی ۔ جب پودے فصل بہاربن کر چھانے لگے تو اس کی پر لطف بہاروں سے مالی اور باغباں ہی محروم نظر آتے ہیں ۔ آئے دن کمیٹی کا جھگڑا، علاقہ کے سرمایہ دار اور مدرسہ کے اساتذہ کے درمیان نا اتفاقیوں کے واقعات سے اہل علاقہ چائے خانہ پر بیٹھ کر چسکیوں میں لطف لیتے ہیں اور سگریٹ کے دھوئیں میں اڑا دیتے ہیں یہ سوچ کر کہ اگلے دن کچھ اور ٹائم پاس مسالہ ملے گا ۔ اب چراغ تلے اندھیرے کو کون دور کر سکتا ہے لیکن ایسے چراغ تلے اندھیرا کی توقع لوگ کم کرتے ہیں ۔
ماضی کی تاریخ میں ایسے بہت سارے علماء کرام ہیں جنہوں نے اپنے مادر علمی کو اپنے نام کے ساتھ جوڑ کر اپنی شہر ت و قابلیت کا حصہ دار بنایا ۔ آج مدارس کے اساتذہ اور طلبہ میں کہیں نہ کہیں اس ربط باہم کی کمی نظر آتی ہے ۔ طالب علم فراغت کے بعد ایسی آزادی محسوس کرتا ہے مانو کسی قید با مشقت سے رہائی حاصل ہوئی ہے۔ اپنے اساتذہ اور مدرسہ سے بیزار نظر آتا ہے ۔ اساتذہ کی قربانیاں ضائع ہو تی ہیں ۔ آج کے دور میں بھی ہمارے اساتذہ کی تنخواہ یومیہ محنت کرنے والے مزدور سے بھی کم ہوتی ہیں ۔ دوسرے دفتروں میں کام کرنے والوں کی نسبت ان کے لئے سہولیات بھی مہیا نہیں ہوتی ۔
پانچ سے دس سال تک جن اساتذہ کی سرپرستی میں تعلیم حاصل کرتا ہے فارغ ہونے کے بعد کبھی بھی پلٹ کر اپنے اساتذہ سے ملاقات کی خواہش نہیں رکھتا ہے ۔ میں نے تو نظریں چراتے ہو ئے دیکھا ہے کہ کہیں ملاقات نہ کر نی پڑ جا ئے ۔ مدارس اور اساتذہ کے تئیں اتنی بیزاری باعث افسوس ہے ۔ رواں صدی کے مدارس کی جو صورت حال ہے اس سے اس بات کا اندازہ لگا نا قطعی مشکل نہیں ہے ۔ ۔ آج کے مدارس ایسے امام و خطیب ، داعی ومبلغ دینے سے قاصر ہیں جو قوم و ملت کے لئے مصلح اور مفید ہوں بلکہ ان سے نقصان زیادہ ہو رہے ہیں ۔
مقاصد سے دور ہونے کے اسباب و وجوہات:
مدارس کے گرتے معیار کے کئی اسباب ہیں ، عام طور پر مدارس کا رخ ایسے طلبہ کرتے ہیں جو ذہنی طور پر کمزور ہو تے ہیں ۔ والدین اپنے ان بچوں کو مدارس میں مقیم کر دیتے ہیں جن پر ان کا اختیار نہیں ہوتا ۔پڑھائی لکھائی میں ان کا جی نہیں لگتا ہے۔ ان کی شرارتوں سے اہل خانہ کے ساتھ پاس پڑوس بھی پریشان ہوجاتے ہیں۔ ایسے طلبہ کی تربیت ایک چلینج ہے ۔ ایسے میں اگر ذی صلاحیت عالم فارغ ہو کر نکلتا ہے تو یہ واقعی قابل تحسین خدمت ہے ۔
مدارس کاموجودہ نظام دور حاضر کے تقاضوں کو پورا کرنے کے لئے ناکا فی ہے۔ رواں صدی کی پچھلی دہائی اس کمی کے تدارک کے لئے تیار ہو ئی ہے ورنہ آج بھی سو سال قدیم منطق ، فلسفہ ہماری درسگاہوں کے موضوع اورموا د ہیں ۔ مدارس کے نظام میں تقابلی ذوق وشوق کافقدان نظر آتا ہے ۔ تقابل ادیان ومذاہب ہو یا تقابل تہذیب وثقافت، عصری ضرورتوں کو پورا کرنے والے مواد ہمارے تعلیمی نظام سے غائب ہیں ۔ نئی نسل میں نئے دور کے شبہات کے ازالہ کے تئیں ان کی ذہنیت کے مطابق جواب نہیں ہے ۔ آج کا سامع قدیم انداز بیاں سے نا آشنا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ آج کی نسل ہمارے مدارس اور قدیم طرز کے علماء وخطباء سے اجتناب کرتی نظر آ تی ہے ۔ ایسے میں ا ن کو بہکانا اور گمراہ کرنا آسان ہو جا تا ہے ۔ آج ہماری قوم مسلم کے دس فیصد سے بھی کم لوگ مدارس ومساجد ،امام و خطیب سے منسوب و مربوط ہیں ۔ تو علماء مدارس وخطباء مساجد کی تمام تر محنتیں اور کا وشیں قوم کے صرف دس فیصد لوگوں پر صرف ہو تی ہیں تو باقی کی اصلاح کو ن کرے گا ؟ یہ بڑا سوال ہے ۔
مدارس کے نظام کی یہ بھی کمی ہے کہ فراغت کے بعد امامت اور خطابت اور تدریس کے فرائض انجام دینے کے لئے یکساں تعلیم اور مواد ہیں۔ ایسے میں کتنے لوگ ہیں جو صحیح طور پر امامت کی اہلیت اور صلاحیت رکھتے ۔ اس دور میں امامت ایک ایسا منصب ہے جس کا سب سے زیا دہ غلط استعمال ہو تا ہے ۔ دیگر شعبوں میں ناکام لوگ آخر میں امامت کو اختیار کرلیتے ہیں جو کہ سب سے اہم اور نازک شعبہ ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ امامت مسجد میں پانچ وقت کی نماز وں میں سمٹ کر رہ گئی ہے ۔ مسجد کے باہرقوم کے معاملات کیسے ہوں ،کس سے ہوں، ان کی معاشرت ،گھر کا ماحول ،باہر کا معاملہ کیسا ہو، اس کا امام صاحب سے کو ئی تعلق نہیں ۔ تیمار داری ،مزاج پرسی جیسی روایتیں ختم ہو گئیں ۔ امامت کے انتخابات کا بھی برا حال ہے۔ ایک صاحب کا فون آیا کہ ہمارے یہاں مسجد میں ایک امام کی ضرورت ہے ۔ اس کی صلاحیت اور درکار اوصاف کا ذکر کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ آواز اچھی ہو ،نعت پڑھتا ہو اور تقریر اچھی کرتا ہو ، دیکھنے میں اچھا، قابل اور پڑھا لکھا ہو اور تنخواہ کی فکر نہ کریں ہم اسے دو ہزار روپئے تک دینے کو تیار ہیں ۔ اس بات سے آئمہ حضرات کے تعلق سے ان کی ذہنیت کا اندازہ لگا یا جا سکتا ہے ۔ اس کے بعد وہ مسجد کا امام کم پرسنل سکریٹری زیادہ ہو جا تا ہے ۔ یہ کس کی کمی اور نا اہلی ہے اس پر بحث مشکل ہے لیکن قوم مشکلات کا سامنا کر رہی ہے اس پر غور و فکر کی ضرورت ہے ۔
آج کے تقریر فروش خطبا کا بھی یہی حال ہے ، تقریر اور خطبات کے نام پر کاروبار ہو تا ہے۔ تعلیم کے نام پر صفر ہیں ۔ دوران تعلیم اسے ایسی تربیت نہیں ملتی ۔ذمہ داریوں سے دور آسانیوں کی تلاش میں ایسے بن جاتے ہیں اس کے بعد آنے والی نسل کی نمایاں کامیابی دیکھ کر ان کی راہ پکڑ لیتے ہیں ۔ آج حالت یہ ہے کہ اچھے علماء کی تقریروں سے لوگ اجتناب کرتے ہیں ۔ مدارس میں کتابی تعلیم توکافی ہوتی ہے لیکن اس کا عملی تجربہ نہیں ہوتاہے ۔داخلہ سے لے کر فراغت تک وہ قوانین پڑھتا ۔تھیوری میں مہارت تک حاصل کرلیتا ہے لیکن ؤ آخر تک عملی تجربہ سے محروم و ناواقف رہتاہے ۔ ان تمام علوم و فنون ،لیاقت وصلاحیت کا استعمال کیسے کیا جا ئے اس کی عملی تربیت ہمارے مدرسوں سے ندارد ہے ۔ ایک کے بعد دوسری اس کے بعد تیسری نسل یکے بعد دیگر ے ایسے ہی بنا پریکٹکل کے گذر رہی ہے ۔بڑی تعدا د میں علما ء فارغ تو ہوتے ہیں لیکن ان کا عملی کردار قوم کے سامنے نہیں آ پا تا ہے ۔
آج مدارس چندے کے نام پر ہر زیب و نازیب حرکت کرنے پر آمادہ ہیں۔ہر طرح کے عطیات،خیرات ،زکوٰۃ، فطرات سے مدرسوں کے پیٹ بھرے جا تے ہیں ۔ چندہ حاصل کرنے کے نت نئے حربے استعما ل کئے جا تے ہیں ۔ جھوٹ ،فریب ،دھوکہ سے بھی گریز نہیں ہو تا ہے ۔ اسی چکر میں تائید کرنے والوں کی بے جا قصیدہ خوانی اور مخالف کی بے مخالفت ہمارے خطابات کے موضوع ہو گئے ۔ حرام میں تاویل ،حلال کیلئے گنجائش کے ذریعہ شرعی معاملات میں بھی چھیڑ چھاڑ سے پرہیز نہیں کیا جا تا ہے ۔
حل و تدارک کے وسائل وذرائع۔
مذکورہ بالا نقوص وعیوب میں کمی لائی جا سکتی ہے۔طلبہ اپنے اہداف کا تعین کر لیں ۔ اپنے اندر کی صلاحیتوں اور ذوق و شوق سے آگاہ ہو کر فن کا انتخاب کریں ۔ اور اپنی پوری توانائی اسے حاصل کرنے پر صرف کر دیں ۔
دور حاضر کے تناظر میں تعلیم و تربیت کا سمت متعین کریں ۔ اسلام ایسا آفاقی نظام ہے جو ہر دور کے تقاضوں کو پورا کرتا ہے ۔ ترقی یافتہ تکنیکی دورجدید میں اسلام کو صحیح طریقے سے پیش کرنے کا خاص ہنر حاصل کریں۔ہر علم سیکھنے کے بعد اس پر عملی تجربہ کی ضرورت ہوتی ہے ، عام طور پر مدرسوں میں دو بڑی چھٹیاں ہوتی ہیں ۔ایک ریع الاول اوردوسری شعبان کے بعد ۔ ایسے موقعوں کا فائدہ اٹھایا جا سکتا ہے۔ طلبہ کے اندر دلچسپی پیدا کی جا ئے۔ چھٹیوں کے اوقات کو تجربہ کے طور پر اپنے اپنے علاقوں میں استعمال کر سکتے ہیں ۔ اس سے دو بڑے فائدے ہو ں گے ۔ عملی تجربہ ہو گا اور جس علاقہ میں تجربہ ہوگا لوگ مستفید ہوں گے ۔ طلبہ کی قدر و منزلت میں اضافہ کے ساتھ ان کی ذاتی اعتماد میں بھی اضافہ ہوگا۔
تقریباً ہر مدرسے کا نظام ہے کہ جمعرات کو آدھا دن پڑھا کر ایک چھوٹی سی بزم کا انعقاد کرتے ہیں ۔ ان میں طلبہ اپنی علمی صلاحیتوں کا عملی تجربہ کرتے ہیں ۔ اس دن کو اس علاقہ میں بھی استعمال کر سکتے ہیں جس میں مدرسہ واقع ہو ۔ دعوت و تبلیغ کے لئے ہر ہفتہ یا پندرہ دن میں یا مہینہ میں ایک بار ایک محلہ کا انتخاب ہو جا ئے ، وہاں دعوت و تبلیغ اور اصلاح کے فرائض انجام دئے جا ئیں ۔ طلبہ میں عملی تجربہ کے ساتھ علاقہ کے لوگ مستفید ہوں گے ، مدرسہ ، طلبہ اور اساتذہ سے انسیت ہوگی۔ اور چراغ تلے روشنی بھی باقی رہے گی ۔
طلبہ اپنے اساتذہ سے اس لئے بیزار ہو جا تے ہیں کہ فن اور مادہ کو منتخب کرنے کا حق انہیں نہیں دیا جا تا ۔ جس میدان میں طلبہ کی ذاتی دلچسپی ہے اس کو وہ اختیار نہیں کرپاتے ۔ زیر درس ایسے مواد پڑھتے ہیں جس میں ان کی قطعی دلچسپی نہیں ہو تی ہے ۔ ایسے میں اساتذہ لاکھ کوششوں کے باوجود طلبہ کے دلوں میں جگہ نہیں بنا پاتے ۔ اور آخر میں ان کی بیزاری کا شکار ہو جا تے ہیں ۔ اساتذہ کو چاہئے کہ طلبہ کو ان کے پسندیدہ فن اور میدان کو اختیار کرنے دیں۔ اس سے طلبہ میں دلچسپی پیدا ہو گی ، محنت کریں گے ، اساتذہ کو کم محنت کرنی پڑے گی ۔ نتیجہ میں کم محنت کے باوجود طلبہ زندگی بھر اپنے اساتذہ کے احسان مند رہیں گے ۔ اور یہ بھی ایک سچائی ہے کہ آج جو استاذ ہے وہ بھی کبھی طالب علم تھے ۔ ان کے ساتھ بھی ایسا ہی ہوا ہوگا ۔ ان کے اختیار ی مضمون سے ان کو الگ رکھاگیا ہوگا۔ آج موقعہ ہے ۔ اپنے طلبہ کو ان کے پسندیدہ میدان میں جینے دیں ۔ اس کے پیچھے آج آپ بھی بیس سال پرانی خواہش کو زندہ کریں ۔ اپنے طلبہ میں اس زندگی کو محسوس کریں کیونکہ ایسا ہوتا ہے کہ والداگر کوئی کام بچپن میں کسی وجہ سے نہیں کرپاتا تو اس کام کو اپنی اولاد کے ذریعہ کرتا ہے ۔وہ اپنے کھوئے ہو ئے ماضی کو مستقبل میں جیتے ہیں ۔ پھر استاذ کو تو باپ کے اوپر درجہ دیا گیا ہے ۔ ذریعہ معاش کی پریشانی کا حل بھی انہیں طریقوں میں موجود ہے ۔ کیونکہ تدریس وتربیت ،دعوت وتبلیغ عبادت ہے۔ کار عظیم ہے۔ ان کے لئے اخلاص اورجہدمسلسل درکار ہے ۔ در پیش مشکلات میں صبر کا مظاہرہ رضائے الٰہی کے دروازے کھولتا ہے ۔
آج ان فارغین مدارس پر دہری ذمہ داری عائد ہو تی ہے جو مدرسے کے بعد عصری درس گاہ کالج یا یونیورسٹی میں زیر تعلیم ہیں یا تعلیم حاصل کر کے کہیں کو ئی خدمات انجام دے رہے ہیں ۔ کیونکہ یہ دریا کا وہ پانی ہے جو دونوں کناروں سے جا ملتا ہے ۔ انہیں دور حاضر کی سمجھ ہے ۔ اس کے تقاضوں سے بخوبی واقف ہیں ۔ روزانہ رواں دور کے مسائل سے دوچار ہوتے ہیں ۔ لہٰذا مدارس کے طلبہ کی ذہن سازی کے ساتھ ساتھ ان کی مستقبل کے منازل کے تئیں راستے ہموار کر نا انہیں کا کام ہے ۔ اپنے اکابرین کی باتوں کو اور ان کی خدمات کو دور حاضر کے تناظر میں پیش کرنا ان کی ذمہ داری ہے۔ ایسے افراد تیار کرنا بھی ان کی ذمہ داری ہے جو اسلام کے آفاقی پیغام محدود کرنے کے بجائے اسے اور وسعت دیں اور فراخ دلی سے پیغام عام ا ورآسان کریں ۔ ورنہ اکابرین کی جن خاموشیوں کو ہم ادب سے کو ستے ہیں ۔ آنے والی نسل ہمیں معزرت کا موقعہ نہیں دے گی اور کسی بھی طرح کے ادب کاپاس ولحاظ نہیں ہوگا۔غور و فکر کریں اسی میں ہر مشکل کا حل ہے۔
URL : https://newageislam.com/urdu-section/madrasas-misguided-path-/d/104579