عبدالحمید نعمانی
اہل علم میں نقطہ ہائے
نظر کے اختلافات کوئی نئی بات نہیں،اختلافات کئے جاسکتے ہیں او رکیے گئے ہیں،لیکن
ان کو وہاں تک پہنچا دینا کہ مسلمانوں کی جان و مال کی ارزانی ہوجائے اور ملت بے حیثیت
و بے قیمت ہوکر رہ جائے، یا مسلکی جہاد میں بدل جائے، بڑی خطرناک اور تباہ کن بات
ہے۔
دور زوال میں یہودیوں عیسائیوں
میں بہ بحث زوروں پر تھی کہ ایک سوئی کی نوک پر کتنے فرشتے بیٹھ سکتے ہیں،ان میں
اب اس قسم کی بحثیں بند ہوچکی ہیں۔ مولانا آزادؒ نے مسلمانوں کے زوال کے اسباب پر
روشنی ڈالتے ہوئے ایک بار کہا تھا کہ ”جب ان کا عروج کادور تھا تو ان کے نعرہ ئ
تکبیر سے اغیار بدحواس ہوکر میدان سے بھاگ کھڑے ہوتے تھے، گرگر پڑتے تھے اور جب
زوال کا عہد شروع ہوا تو نعرہ لگا کر خود گرنے لگے،وجدوحال طاری کر کے عقل و شعور
سے بے گانہ ہوجانے کو کمال سمجھاجانے لگا، جب کہ واقعتا یہ زوال ہے۔“
اگر مسلمانوں کے سماجی و
معاشرتی حالات کا گہرائی سے جائزہ لیا جائے تو یہ حقیقت سامنے آتی ہے کہ ہم ایسے
دور سے گزر رہے ہیں کہ پستی کی طرف مسلسل پھسل رہے ہیں اور گرنے کی مطلق خبر نہیں
ہے۔ مسلکی اختلاف کے نشے میں ایسے مدہوش او رمست ہیں کہ یہ تک خبر نہیں ہے کہ خود
سوئی کی نوک پر بیٹھ جاتے ہیں اور چبھن تک کا احساس نہیں ہوتا۔ اگر پاکستان کے
مسلمان مسلکی اختلاف کی باتیں کریں تو کچھ سمجھ میں آتا ہے کہ آخر بے کاری میں بیٹھے
بٹھائے اورکیا کریں؟ پاکستان جیسا ملک جہاں مسلمانوں کی اکثریت ہے،انہیں جہاد کے لیے
شاید مسلکی اختلاف سے بہتر کوئی میدان نہیں مل سکتا،لیکن جہاں مسلمان گوناگوں
مسائل سے دوچار ہوں اور موت و حیات کے درمیان معلق ہوکر رہ گئے ہوں، وہاں کیا اس کی
گنجائش ہے کہ دیوبندی،بریلوی،مقلد،غیر مقلد کے نام پر اپنی زندگی او رملی توانائی
کو برباد کرنے کا جرم کیا کیا جائے او رمعاملے کو حل کرانے کے لیے ان لوگوں کے
حضور میں لے جایا جائے جن کی ہلکی مسکراہٹ بھی ملت اسلامیہ کی بھیانک رسوائی ہے،
جو یہ نہیں جانتے ہیں کہ دیوبندی، بریلوی، مقلد،غیر مقلد،شیعہ،سنی میں کیا فرق
ہے،انہیں یہ عملاً بتانا کہ ہم میں ایسے ایسے اختلافات ہیں کہ مرنے مارنے او
ربرباد ہوجانے کی حد تک پہنچ جاتے ہیں؟
یوپی کے رام پور کے سوار
کی ایک مسجد کو لے کر چند دنوں قبل بریلوی دیوبندی اختلافات کی جو بھیانک شکل
سامنے آئی ہے اس نے ملت کو رسوا کیا اور برادران وطن کے سامنے ایسی شرمناک شبیہ پیش
کی ہے جس سے ہر غیرت مند مسلمان شرمسار ہوکر رہ گیا ہے۔ اردو میڈیا میں جو آیا سو
آیا ہی، ہندی،انگریزی میڈیا نے بہت مزے لے لے کر بریلوی۔دیوبندی کے خونریز تصادم
او رمسلمانوں کے ایمان و عشق رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے نام پر آمنے سامنے آجانے
کی خوب تشہیر کی اورجس طرح ان حضرات نے اونچی پگڑیوں، کالے چشموں او رلہراتی داڑھیوں
کے ساتھ میدا ن میں آکر اسلامی شناخت اور ملت اسلامیہ کی شبیہ خراب کرنے کاکام کیا
ہے وہ حددرجہ افسوسناک ہے۔بریلوی۔دیوبندی کے درمیان جن امور کو لے کر اختلافات ہیں،
ہم ان سے اچھی طرح واقف ہیں اور خاکسار نے ان کے ہر پہلو کا تفصیلی مطالعہ کیا ہے
اور وہ ہمارے سامنے اس سلسلے کا وسیع لٹریچر ہے او رہم یہ ایمانداری سے کہتے ہیں
کہ اختلافات کے بہت بڑے حصے کا معاملہ امی کا بھائی،ابو کا سالا، اور ماموں جان سے
مختلف نہیں ہے۔ محض لفظی اختلافات اور تعبیر ات کے الگ الگ انداز کا کھیل ہے،جو
اپنے اپنے غلبے کی خاطر،دین و ایمان سے جوڑ کر عوام کو گمراہ کرنے کی محض ایک سیاسی
کرتب بازی ہے۔ آخر ہاتھ کی صفائی سے کب تک ملت کے وقار و وزن کا صفایا کیا جاتارہے
گا؟
یہ افسوسناک امر ہے کہ
مسجد جو صرف اللہ کی عبادت او رنام بلند کرنے کے مقصد کے لیے ہوتی ہیں او رجہاں
اسلامی اتحاد و مساوات کا ایسا شاندارعملی مظاہرہ ہوتا ہے کہ اونچ نیچ کی مہم کی
ستائی دنیا کے باسیوں کے لیے منارہئ نور و رہنما ئی بن جاتا ہے،خاص طور سے ہندوستان
جیسے ملک کے لیے جہاں آج بھی بہت سے لوگوں کے لیے پوجا گھر کے دروازے بند ہیں، وہ
داخل نہیں ہوسکتے ہیں،زیادہ سے زیادہ وہ دور ہی سے اپنے بھگوان کا،دائرے سے بہت
دور رہ کر درشن کرسکتے ہیں مسجد کا اتحاد و مساوات کا مظاہرہ بڑا متاثر کن ہوتا
ہے۔ اگر ہندوستانی مسلمان پاکستانیوں کی طرح آپس میں ہی دست وگریباں ہوجائیں گے
اور ایک دوسرے پر تلواریں، بندوقیں تان لیں گے تو استحصال نظام کے ستائے انسانوں
کو کہاں جائے پناہ ملے گی۔یہ صحیح ہے کہ برٹش سامراج کے عہد میں کچھ اکابر کی
عبارتوں کو لے کر تکفیر و تفسیق کے خوب خوب گولے داغے گئے، لیکن سوال یہ ہے کہ اس
کا فائدہ کسے ہواہے اور نقصانات کس کے حصے میں آئے ہیں۔ اگر اس کا تجزیہ کیا جائے
تو نتائج بڑے رسوا کن اور تباہ کن برآمد ہوئے ہیں اور ملت کا شیرازہ بکھر کر رہ گیا
ہے۔ برٹش سامراج کے بہی خواہ،اس کا مخبر رجب علی کا پورا پورا ہاتھ تھا، جو حکومت
وقت کی رہنمائی اور زیر سایہ دکھایا گیاتھا، اہل علم میں نقطہ ہائے نظر کے
اختلافات کوئی نئی بات ہیں، اختلافات کیے جاسکتے ہیں او رکیے گئے ہیں،لیکن ان کو
وہاں تک پہنچادینا کہ مسلمانوں کی جان ومال کی ارزانی ہوجائے اور ملت بے حیثیت و
بے قیمت ہوکر رہ جائے، یا مسلکی جہاد میں بدل جائے،جیسا کہ پڑوسی ملک پاکستان میں
اللہ کی مساجد میدان جنگ میں بدل کر رہ گئی ہیں، بڑی خطرناک اور تباہ کن بات
ہے۔وہاں ایسے عناصر کی خاصی بڑی تعداد ہے جو جمہوریت کو کفر او رسیکولر زم کو شرک
و الحاد قرار دینا اسلام کی بڑی خدمت تصور کرتے ہیں، اس کی دیکھا دیکھی ہندوستان میں
بے دانشی میں مبتلا کچھ بر خود غلط افراد، سیکولرزم کو شرک الحاد او رجمہوری طریقہ
انتخاب کوکفر و باطل اور طاغوت کا تعاون قرار دینے کی تبلیغ کررہے ہیں، جب کہ وہ
اسی نظام کے تحت ملنے والے فوائد سے مستفیض ہونے میں کوئی گناہ نہیں سمجھتے ہیں۔
قول و فعل کے اس تضاد او ربے ایمانی نے عوام کے اعتماد کو زبردست ٹھیس پہنچائی ہے
او رمسلکی اختلافات پر مشتمل لٹریچر شائع کر کے بھی ہندوستانی مسلمانوں کو بھی
تصادم کی راہ پر لے جانے کا مسلسل جتن کیا جارہا ہے، حالانکہ یہ کوئی معمہ نہیں ہے
کہ ہندوستانی مسلمانوں کے حالات بہت مختلف ہیں۔ہندوستان سیاسی، اقتصادی، مذہبی،
اور ثقافتی و تہذیبی لحاظ سے جس صورت حال سے گزارہا ہے اس میں مسلکی تصادم کی سرے
سے گنجائش ہی نہیں ہے۔زیادہ سے زیادہ حدود میں رہتے ہوئے اپنے اختلاف رائے کا
اظہار کیا جاسکتا ہے، عملاً تمام تر اختلافات کے دروازے بند نہیں کئے جاسکتے۔تاہم
مشترک مسائل میں اختلافات کے ساتھ بھی اتحاد و اشتراک میں کوئی عملی رکاوٹ نہیں
ہے۔ اختلافات کالازمی نتیجہ تصادم کی شکل میں نہیں نکلنا چاہئے، اسے اس حد تک نہیں
لے جاناچاہئے کہ اغیار کو ہمارے اتحاد و صلح کے لیے آگے آنے کاموقع ملے۔یہ بڑی ذلت
و باعث ننگ و عار ہے کہ ماضی میں یقینا ایسے فتوے دیے گئے ہیں کہ جن میں دیوبندیوں
کی مسجد کو مثل گھر کے اور ان کو مسلمان سمجھنے والے کو اسلام سے خارج اور تجدید
نکاح کو لازم بتایا گیا ہے۔ چنانچہ اب وقت کا تقاضا ہے کہ ایسے فتوؤں کو لائبریری
کی زینت او رکتابوں میں دفن رہنے دیا جائے،الزامات پر تکفیر کوئی دانشمندانہ عمل
نہیں ہے، یہ سراسر بے جا جسارت ہے۔ ملک کے نئے حالات میں مسلمانوں،خصوصاً نئی مسلم
نسل کے مسائل بالکل بھیانک شکل میں آرہے ہیں۔ ایسی مشکل صورت حال میں اگر او رکچھ
نہیں کیا جاسکتا ہے تو کم از کم اتنا تو کیا جائے کہ انہیں پچاس سال تک مسلکی
تصادم او رکورٹ کچہریوں تک جانے سے روکا جائے۔ یہ التوا ملت اسلامیہ کی تقدیر و
حالت بدلنے میں اہم رول ادا کرے گا۔ ہم صدیوں سے مسلکی اختلافات کے نام پر بہت کچھ
کرتے آئے ہیں، اب پچاس ساٹھ سال کچھ نہ کرکے بھی دیکھیں کہ نتائج کس شکل میں نکلتے
ہیں۔بسا اوقات کچھ کام نہ کرنا بھی بڑے بڑے کام کا روپ دھار لیتا ہے۔
URL: https://newageislam.com/urdu-section/sectarian-differences-among-indian-muslims/d/1614