عبدالحمید بلیسی
31 اکتوبر، 2014
عدل و انصاف کے لیے مشہور حضرت عمر نے گورنر سوفرونس سے یروشلم کا کنٹرول اپنے ہاتھوں میں لے لینے کے بعد مقدس مقامات کا دورہ کیا۔ انہوں نے مسجد اقصی کا دورہ کیا اور پھر اس کے بعد اس چرچ کو بھی دیکھنے گئے جہاں عیسائی عقیدے کے مطابق یسوع مسیح کو مصلوب کیا گیا تھا اور جہاں انہیں مدفون کرنے کی تیاری کی گئی تھی۔ سوفرونس جو حضرت عمر کے ساتھ چل رہا تھا اس نے حضرت عمر کو بتایا کہ وہ جہاں جہاں گیا اس نے نماز ادا کی اور انہیں بھی چرچ میں نماز ادا کرنے کے لیے کہا۔ حضرت عمر نے یہ کہتے ہوئے اس کی درخوست مسترد کر دی کہ "اگر میں یہاں نماز ادا کروں گا تو مسلمان اس جگہ ایک مسجد تعمیر کر دیں گے۔" اس کے بجائے انہوں نے چرچ کے جنوب میں نماز ادا کرنے کے لئے ایک خالی جگہ تلاش کی جہاں مسلمانوں نے بعد میں ان کے نام پر ایک مسجد تعمیر کی۔
شہر چھوڑنے سے پہلے خلیفہ حضرت عمر نے مقامی لوگوں کو آزادانہ طور پر ان کی مذہبی آزادیوں پر عمل کرنے کی ضمانت عطا کی۔ وہ معاہدے جس پر خلیفہ اور ان کے امراء نے پر دستخط کیے ان کے مطابق تمام لوگوں کی املاک اور جانوں کی ضمانت دی گئی تھی۔ انہوں نے لوگوں کو اس بات کی یقین دہانی بھی کروائی کہ ان کے مقدس مقامات، علامات یا مذہبی معتقداد میں کوئی مداخلت نہیں کی جائے گی؛ ان کے گرجا گھروں کو رہائشی گاہوں میں تبدیل نہیں کیا جائے گا؛ لوگوں کے گزشتہ حقوق محفوظ رکھے جائیں گے؛ اور ان پر کسی بھی طرح کا کوئی دباؤ نہیں ڈالاجائے گا۔ مجموعی طور پر انہوں نے یقین دلایا کہ کسی کو بھی نقصان نہیں پہنچایا جائے گا۔
یہ نقطہ نظر اس وقت سے لیکر اب تک اس بات کی ایک بنیاد رہا ہے کہ مسلمانوں کو دوسروں کے ساتھ کس طرح پیش آنا چاہئے۔ عثمانیہ تجربات اس کی تصدیق کرتے ہیں۔ محفوظ دستاویزاتی ذرائع پر مبنی "( Macedonia under the Ottoman Rule)عثمانی حکومت کے تحت مقدونیہ" کے نام سے ایک کتاب بلقان میں اس نقطہ نظر کی ایک واضح مثال فراہم کرتی ہے۔ اسکوپیہ میں رہنے والے ایک یہودی شخص یوکو نے 1 اگست، 1870 کو گورنر کے دفتر میں تاہتکلہ میں واقع اپنے سٹور میں الکوحل کے مشروبات فروخت کرنے کے لئے ایک درخواست پیش کیا۔ اگلے دن اس درخواست کو جائزے کے لیے میونس پیلٹی کے پاس بھیج دیا گیا۔ اس کے جواب میں مقامی اسمبلی نے چھ دنوں کے بعد یہ بیان جاری کیا کہ اگرچہ وہ جگہ اس طرح کا کاروبار شروع کرنے کے لئے موزوں ہے لیکن اس کے لیے انتظامی اسمبلی کی رائے حاصل کرنا ضروری ہے اس لیے کہ سٹور کے سامنے ایک ایک چرچ ہے۔ اس پر انتظامی اسمبلی نے وہاں دکان کھولنے کی اجازت منسوخ کر دی کیوں کہ اس کے سامنے ایک چرچ تھا اور اس دکان کے ارد گرد بڑی تعداد میں لوگ موجود رہتے تھے۔
یہ ہماری مذہبی رواداری کی میراث کا حصہ ہے لیکن ہماری موجودہ حیثیت کو سمجھنے کے لیے صرف ایک مرتبہ نظر دوڑانا چاہیے۔ ہر کوئی عثمانیہ کے دور میں ایک مثالی ریاست کی باتیں کرتا ہے جہاں مذہبی آزادی اور رواداری پائی جاتی ہے لیکن حقیقت میں ہر جگہ ظلم و بربریت کی ایک ریاست ہے جہاں دوسرے مذاہب کے تئیں کوئی بھی رواداری نہیں برتی جاتی، یہاں تک کہ صورت حال مسلمانوں کے خیالات سے مختلف ہے۔ عراق میں آئی ایس اور آئی ایس آئی ایل جیسی انتہاپسند تحریکیں اور ان کی شاخیں جو فرقہ وارانہ اور نسلی تشخص کو سیاسی مقاصد کے حصول میں استعمال کرتی ہیں مسلمانوں کے لئے سب سے زیادہ مضرت رساں ہیں۔ معصوم لوگوں کا قتل، تعلیمی اداروں اور عبادت گاہوں کی مسماری اور ان کا نظر آتش کیا جانا، غریبوں میں گوشت فراہم کرتے وقت نوجوان کا بہیمانہ قتل کیا جانا یہ تمام باتیں اسی ذہنیت کی پیداوار ہیں۔
ایرزوروم سے واپسی پر جہاز میں میرے ساتھ بیٹھے ہوئے ایک شخص سے بات کرتے وقت مجھے اندازہ ہوا کہ صورت حال اس سے بھی زیادہ سنگین ہے۔ ایک طویل سیاہ داڑھی والا 30 سالہ شخص ایک فارماسسٹ تھا۔ اس کے ایک دوست نے اس سے کہا تھا کہ اپنی داڑھی منڈوا لو ورنہ تمہیں آئی ایس آئی ایل کے ایک رکن کے شک کی بناء پر ہدف بنایا جائے گا۔ اس نے داڑھی نہیں مونڈوائی لیکن اس کے کچھ دوستوں نے اپنی داڑھی منڈوا لی۔ خاص طور پر اس نے ان نظریات و خیالات کے فروغ کے بارے میں شکایت کی جو ان ممالک میں شروع نہیں ہوئے تھے۔ حال ہی میں اسماعیل آغا اسلامی کمیونٹی کے محمد کیسکن نے ترکی کو اس کے قومی تشخص سے اور ترکی اسلام سے جدا کرنے کی کوششوں کے بارے میں اپنے مضمون میں لکھا جو کہ معرفت میگزین میں شائع کیا گیا۔ اس کے بعد ان لوگوں نے انہیں اپنی زبردست تنقید کا نشانہ بنایا جو اس ملک میں غیر ملکی دینی تحریکوں اور نظریات کا خیرمقدم کرتے ہیں۔ کچھ لوگوں کو واقع ہونے والے اس خطرے کا احساس نہیں ہے اور وہ نام نہاد متوازی ریاستی دلائل پر انحصار کرتے ہیں لیکن فتح اللہ گولن کو ان تمام مسلمانوں کے خلاف اس رجحان سے درپیش خطرے کا احساس ہے اسی لیے یہ تحریک امریکی، یورپی اور حال ہی میں کرد میڈیا میں اشتہارات کو اسپانسر کر کے اس خطرے کی طرف توجہ دے رہی ہے۔ گولن تحریک جس کی بنیاد مذہبی تعلیمات پر ہے آئی ایس آئی ایل کے تشدد کی مذمت کرتی ہے اور وبانی میں خطرے سے لوگوں کو آگاہ کرتی ہے اور اس خطے میں تمام لوگوں اور جماعتوں کے ساتھ مل جل کر رہنے کا پیغام دیتی ہے۔
قومی آزادی کا تحفظ اہم ہے لیکن اس کے ساتھ ہی لوگوں کے منفرد روحانی تشخص کا تحفظ بھی یکساں طور پر اہم ہے۔ بدقسمتی کی بات ہے کہ اسلام کے تئیں غلط نظریات و خیالات کے شکار لوگ دشمنوں کے مقابلے میں زیادہ اپنے مذہب کو نقصان پہنچا رہے ہیں۔
ماخذ:
http://www.todayszaman.com/columnist/abdulhamit-bilici/islams-internal-enemies_363205.html
URL for English article: https://newageislam.com/the-war-within-islam/islam-internal-enemies/d/99820
URL for this article: https://newageislam.com/urdu-section/islam-internal-enemies-/d/100816