New Age Islam
Fri Jan 24 2025, 02:28 PM

Urdu Section ( 16 Dec 2019, NewAgeIslam.Com)

Comment | Comment

Politics on the Babri Masjid: The Beginning or the End بابری مسجد پر سیاست: ختم یا شروع


اے۔ رحمان

13دسمبر،2019

سپریم کورٹ کے ذریعے ایودھیا مقدمے کے فیصلے کے خلاف دائر کی گئی نظر ثانی کی تمام عرضیوں کا ایک قلم خارج کردیا جانا کسی حیرت کا موجب تو نہیں ہونا چاہئے کیونکہ مقدمے کے فریقین کی جانب سے دائر عرضیوں کا تو یہ حشر ہوناہی تھا۔ لے دے کر کچھ امید ہوئی تھی تو اس عرضی کے تعلق سے جو چالیس ناموردانشوران،مورخین اور سماجی حقوق کے رضاکار ان کی جانب سے دائر کی گئی تھی کیونکہ اس میں اٹھائے گئے سوال آئین میں سیکولر اصولوں کے بارے میں دی گئی ضمانت سے پرمبنی تھے۔اس عرضی میں صاف طور پر کہا گیا تھا کہ زیر بحث فیصلے سے وہی بنیادی اصول پامال ہوتے نظر آئے ہیں جن کا تحفظ سپریم کورٹ کا فرض اولین ہے۔ لیکن نظر ثانی کی کسی بھی عرضی پر کسی قسم کا مثبت فیصلہ اس لیے بھی مشکل نظر آتا تھا کہ سپریم کورٹ نے آرٹیکل 142کے تحت مکمل ا نصاف کرنے کا اعلان کیا تھا او راب نظر ثانی کے بعد فیصلے میں کسی بھی قسم کا رد وبدل اس بات کا اعتراف ہوتا ہے کہ انصاف نا مکمل رہ گیا تھا۔ کسی بھی معاملے میں عدالت اور خصوصاً سپریم کورٹ کی صوابدید کے استعمال کو چیلنج کرناذرا مشکل کا م ہے حالانکہ خود سپریم کورٹ نے زیریں عدالتوں کے ذریعے صوابدید کے استعمال کے سلسلے میں رہنما اصول بناکر نافذ کیے ہوئے ہیں لیکن جب سپریم کورٹ انصاف کے تقاضے کے تحت (اور کسی زیر سماعت معاملے میں ’انصاف‘یا مکمل انصاف کیا او رکیسے ہوگا یہ بھی عدالت کی صوابدید پر منحصر ہے) کسی فیصلے کو مکمل انصاف کے تصور کی روشنی میں جاری و نافذ کرے تو اس پر سوال اٹھاناکار لا حاصل ہی ہوگا۔ نظرثانی کی عرضیاں خارج ہوتے ہی مختلف جانب سے مختلف قسم کے رد عمل آنے میں بھی دیر نہیں لگی۔

ایک طرف ممبئی ہائی کورٹ کے ریٹائر جج جسٹس بی جی کولسے پاٹل نے مایوسی ظاہر کرتے ہوئے کہا ”مجھے توقع تھی کہ ملک کی اعلیٰ ترین عدالت ملک کو 6دسمبر1992سے قبل کا حالت میں لے آئے گی او رامن کا دور دورہ ہوجائے گا مگر افسوس عدالت یہ کرنے میں ناکام رہی“ تو دوسری طرف ممئی بم دھماکوں کے مقدے میں وکیل استغاثہ رہے معروف وکیل اجول نکم نے اس کو تاریخی فیصلہ قرار دیتے ہوئے یہ خیال ظاہر کیا کہ ”فیصلہ عقیدے کے بنیادوں پر نہیں بلکہ دستاویزی ثبوت وشواہد کے بنیادوں پر دیا گیا ہے اور میں عوام سے اپیل کرتاہوں کہ فیصلے کا پورے طور پر احترام کرتے ہوئے فرقے وارانہ یکجہتی کو قائم رکھیں“۔ ممبئی بم دھماکوں میں ہی سنجے دت کی جانب سے وکیل دفاع رہ چکے وکیل مانے شندے نے کہا کہ”اب پورے طور پر امن اور فرقہ وارانہ یکجہتی قائم ہوجائے گی کیونکہ سپریم کورٹ نے ملک اور عوام کے عظیم تر مفادات کو مد نظر رکھ کے کے متوازن فیصلہ دیا ہے۔“سب سے مختلف الرائے ہوتے ہوئے معروف وکیل اور ممبر پارلیمنٹ مجید میمن نے کہا کہ ”اب جب کہ نظر ثانی عرضیاں بھی خارج ہوگئی ہیں بابری مسجد کے موضوع پر کوئی سیاست نہیں کر سکے گااور 6دسمبر،1992کے یوم سیاہ کے بعدہندومسلم فرقوں میں جس دشمنی کا آغاز ہوا تھا اب اس کا اختتام ہوجاناچاہئے۔“ مجید میمن کا یہ کہناکہ اب بابری مسجد پر اورزیادہ سیاست نہیں ہوسکے گی کافی پرکشش ہے۔ لیکن کیا ایسا ہوسکے گا؟

ہماری مذہبی اور سماجی تنظیمیں صرف اس وقت تک زندہ اورفعال رہتی ہیں جب تک انہیں اپنی سیاسی کی دکان چلانے کے لئے کوئی نہ کوئی گرما گرم مدعا یا مسئلہ ملتا رہے۔

آزادی کے بعدموقر مسلم تنظیموں سے لے کر مقامی چھٹ بھئیے قسم کے ’لیڈروں‘ کے ہاتھ بھی بابری مسجد سے زیادہ حساس اور مفعت بخش موضوع کوئی نہ لگا۔ بابری مسجد کاقضیہ گرم ہوتے ہی نئی تنظیمیں اورایکشن کمیٹیاں وجود میں آگئی تھیں اور مسجد کے انہدام کے بعد ان کی فعالیت میں کئی سو گنا اضافہ ہوا۔ بہت لوگوں کی لیڈری چمکی، بیکاروں کو کام ملا او رنہ جانے کتنے لوگوں کو ذریعہ معاش کے مختلف وسیلے ہاتھ آگئے حالانکہ اس میں وہ افراد اورتنظیمیں بھی شامل ہیں جنہوں نے پوری دلدہی اور خلوص کے ساتھ انصاف کے لئے جدوجہد کی، لیکن یہ بھی ایک افسوسناک حقیقت ہے کہ زیادہ تر افرادی اور تنظیمیں سیاست محض سیاست کے لیے کی گئی۔ یہ نہیں بھولناچاہئے کہ کسی بھی قوم یا ملت کے سامنے جب بابری مسجد جیسا کوئی سلگتا ہوا موضوع یا مسئلہ کھڑاہوجائے تو عوام کابیشتر وقت اور قوتیں اسی جانب مائل ہوکر انفرادی او رملی ترقی امکانات کو کم کر دیتی ہیں اور اگر ایمانداری سے حساب لگایا جائے تو بابری مسجد کے مسئلے پر ہندوستانی مسلمانوں نے دامے، درمے، سخنے اور جانے کھویا تو بے حساب لیکن پایا کچھ نہیں۔ اگر اس نقطہ نگاہ سے دیکھا جائے توبابری مسجد کامعاملہ بحیثیت ملی مسئلے کے فوت پا چکا ہے اور اس پر اب مزید کسی قسم کی سیاست کرنایا کسی اور حل کے لیے ملت کو انگخیت کرنا مزید مجموعی نقصان کا موجب ہوگا لہٰذا بابری مسجد کی اس سیاست کو دفن ہی کردینا اچھا ہے جس کے تحت خود غرض او ربے ضمیر قسم کے لوگوں نے اپنی ذاتی منفعت کے لیے پوری ملت کو عرصے تک بیوقوف بنایا۔ ہمارا سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ کوئی تنظیم تو کیا علماء اور دانشوروں کاکوئی ایسا منظم گروہ بھی نہیں جو ملت کو درپیش مسائل کے بارے میں غور و فکر کر کے نتائج اخذ کرے اور ان تنائج کی روشنی میں مستقبل کے لئے لائحہ عمل تیار کرے۔ ایسے لوگوں کی البتہ ضرور بھر مار ہے جو کسی بھی چھوٹے سے مسئلے کو سنسنی خیزیت دے کر پوری ملت کی توجہ اس کی طرف منعطف کردیتے ہیں اور پھر اس پر شروع ہوجاتی ہے وہی سیاست جس سے بچنے کے لیے مجید میمن نے اپنے تبصرے میں اشارہ کیا ہے۔ اب لازماً یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا بابری مسجد بقول افتخار گیلانی تاریخ کے صفحات میں دفن ہوجائے گی تو اس کاجواب یہ ہے کہ تاریخ کے صفحات میں عظیم ترین سلاطین و سلطنت اور عظیم الشان اقوام جن میں مسلمان بھی شامل ہیں کہ انتہا ئی عروج وزوال کی داستانیں دفن ہیں۔ ایسے زوال جن کے سامنے بابری مسجد کا سانحہ بے وقعت ہوجاتاہے۔انگریزی محاورے کے مطابق جس چیز کا علاج نہ ہو اس کو خوش دلی سے برداشت کیا جانا چاہئے۔ لہٰذااب بہتر یہی ہوگا کہ قہر درویش برجان درویش کے مصداق بابری مسجد کی اس داستان الم کو یہیں ختم اور فراموش کر کے مستقبل کے لیے عملی تشکیل دی جائے جو مصائب اور مسائل اس وقت نوشتہ دیوار ہیں۔

حالانکہ اس بات کے امکانات کم ہی نظر آتے ہیں کہ بعض افراد اور تنظیمیں جن کا وجود ہی بابری مسجد کے مسئلے پر منحصر تھا اتنی آسانی سے اپنے کاروبار کو الوداع کہہ کر کوئی اور دروازہ دیکھیں گے۔ اغلب تو یہی ہے کہ یہ قوتیں اب کسی نئے زاویے سے بابری مسجد کی سیاست شروع کردیں گی او رہماری جذباتی قوم پھر کسی نئی امید میں مبتلاہوکر اس طرف ملتفت ہو جائے گی۔ ان حالات میں ارباب علم و دانش کا فرض ہے کہ ملّت کو عقل سلیم کی روشنی میں مستقبل کی جانب گامزن ہونے کی تلقین کریں اس یاد دہانی کے ساتھ کہ یہ شکست بھی منجانب اللہ تھی اور اس میں پوشیدہ سبق کو پڑھنے کی کوشش کی جائے۔ اس تسلّی کے ساتھ کہ مقابلہ تو دل ناتواں نے خوب کیا۔

13دسمبر،2019  بشکریہ: روز نامہ میرا وطن، نئی دہلی

URL: https://www.newageislam.com/urdu-section/politics-babri-masjid-beginning-end/d/120530

New Age IslamIslam OnlineIslamic WebsiteAfrican Muslim NewsArab World NewsSouth Asia NewsIndian Muslim NewsWorld Muslim NewsWomen in IslamIslamic FeminismArab WomenWomen In ArabIslamophobia in AmericaMuslim Women in WestIslam Women and Feminism



Loading..

Loading..