New Age Islam
Sat Apr 01 2023, 07:57 AM

Urdu Section ( 19 Jul 2018, NewAgeIslam.Com)

Comment | Comment

Pathetic Condition of Urdu اردو کا حال زار: غلطی ہائے مضامیں مت پوچھ

اے رحمان

20جولائی،2018

اردو زبان کی روز افزوں مقبولیت او راردو ناخواندہ طبقے کا اردو شاعر ی کے تئیں شغف اور پسندیدگی کا چہار سوعملی اظہار خوش آئند بھی ہے اورخوش کن بھی ،لیکن جیسے ہی زبان و ادب کے مستقل گرتے ہوئے معیار پر نظرجاتی ہے تودل خون ہو جاتا ہے۔ افسوس اورحیرت کامقام ہے کہ ادبی تخلیق ، تحقیق اور تدریس سے وابستہ ذمہ داران کی جانب سے اس صورت حال کی بابت کوئی تبصرہ یا اظہار تشویش تو کجا اس موضوع پر کہیں گفتگو تک نہیں ہوتی ۔یہ مجرمانہ خاموشی بر قرار رہی تو وہ دن دور نہیں جب حسن زبان و بیان اور ادب کی اعلیٰ اقدار قطعی معدوم ہوکر قصہ پارینہ بن جائیں گی۔ ادب کے تین اہم میدان ہیں :شاعری ، فکشن (افسانہ اور ناول وغیرہ کے لئے اب یہی انگریزی لفظ عام استعمال میں ہے) اورتنقید ۔ پچھلی صدی کے نصف دوئم خصوصاً 70کی دہائی میں منظر عام پر آنے والے ادیبوں اور نقادوں میں سے تو اب دو چار ہی باقی بچے ہیں، جو حالانکہ از کار رفتہ نہیں ہیں، لیکن زبان ادب کی بدلی ہوئی اور بدلتی ہوئی تصویر دیکھ کر تن بہ تقدیر ہیں ۔ قابل غور و فکر ہے کہ پچھلے تیس پینتیس سال میں اردو ادب میں نہ تو کوئی نئی تحریک شروع ہوئی اور نہ ہیئت اصناف کے تعلق سے کوئی ایساانقلاب رونما ہوا جسے ادب کے سنگ میل کے تعبیر کیا جاسکے ۔تنقید البتہ جی بھر کے لکھی گئی، اور اس علاقے سے ضرور دو کتابوں ،شمس الرحمٰن فاروقی کی ’’ شعر شور انگیز‘‘ اور گوپی چند نارنگ کی ’’ غالب :معنی آفرینی ، جدلیاتی وضع ۔ شونیتا اور شعریات ‘‘ کو سنگ میل کا درجہ دیا جانا چاہئے ۔ لیکن تخلیقی ادب کے معیار کی بات پھر کبھی ہوگی ۔اس مضمون میں میرا واسطہ صحت زبان ( تحریر و تقریر دونوں) سے ہے۔ کوئی زمانہ تھا جب ادب و شعر کو زبان کی سند سمجھا جاتا تھا۔ یہ ایک بجا مفروضہ تھا کہ ادیب قادر السنہ اور شاعر قادر الکلام ہوتے ہیں ۔ او رہوتے بھی تھے ۔

لیکن پھر ہوا یہ کہ ہر بوالہوس نے حسن پرستی شعار کی اور تُک بند گوییّ شاعری کے میدان کے شہسوار ہوگئے ۔ نثر میں حالات اوربھی خراب ہوئے ۔ اعلیٰ قدر اور عالی مرتبت فکشن نگاروں کی نسل تو انتظار حسین کے ساتھ ختم ہوئی ( ویسے چند اچھے افسانہ نگار جیسے رتن سنگھ، بن رزّاق ،شوکت حیات وغیرہ ابھی باقی ہیں ) لیکن بیسویں صدی کی آخری دہائی میں فکشن نگاری پر زوال یوں بھی آیا کہ کئی چھٹ بھیؤں نے مشرف بہ اردو ہوئے بغیر نہ جانے کس عالم سرشاری میں ذوق تخلیق کے تحت قلم اٹھایا اور بس لکھنا شروع کردیا ۔ زبان۔ حسن و معنی سے مطلقاً خالی۔ یعنی بالکل مسدّس حالی۔ لیکن لکھتے گئے ، لکھتے گئے اور پھر چھپنے بھی لگے ۔ بڑا زور مارا اور بیسوں کتابیں فکشن کی ادھر ادھر سے چھپوا دیں ۔ اب ہے کسی مائی کے لال میں ہمت جو اتنی ساری کتابوں کے مصنف کو ادیب کہنے سے انکار کردے۔ او رجب منظر نامے پر ہوں ہی معدودے چند نثر نگار تو بیس کتابیں چھپوانے کی مالی استعداد کا حامل شخص خود کو اہم کیا عظیم فکشن نگار بھی کہلوالے گا ۔ اس کینڈے کے لکھاڑیوں ( ان جیسے لوگوں کے لئے میرا نا پسندیدہ یہ لفظ ہی موزوں ہے) نے زبان کا اقوام کافی حدتک خراب کیا۔ ناول تو اب تقریباً معدوم سمجھئے کیونکہ ناول لکھنے اور پڑھنے دونوں کے لئے اچھا خاصا وقت اور محنت شاقہ درکار ہے(فوری حصول لذت کی ضرورت اور خواہش یعنی instant cultureکے اس دور میں وقت کس کے پاس ہے،اور رہی محنت تو اس سے بچنے کے توبے شمار طریقے اور وسائل وجود میں آچکے ہیں )افسانوں کے البتہ سینکڑوں اوصاف سے صرف نظر کر کے محض صحت زبان کے تناظر میں دیکھا جائے تو فاضل مصنفین کو حق زندگی سے محروم کردینے کی خواہش ہوتی ہے۔ ایک وہ زمانہ بھی رہا ہے جب ’ صاحب طرز‘ ادیب ہوا کرتے تھے ۔ کسی بھی نثر یا افسانہ نگار کو قاری اس کے انداز نگارش سے پہچان سکتے تھے ۔ زبان قدرت ادیب کو ایک مخصوص او رمنفرد انداز اختیار کرنے کی صلاحیت بخش دیتی ہے۔ مگر آن قدح بشکست وآن ساقی نماند۔

دنیا کی دو ایسی زبانیں ہیں جو اپنی صحت اور حسن اظہار (تلفظ اورمحاورہ) کے واسطے سے نہایت حساس واقع ہوئی ہیں ۔ایک تو یونانی جس میں قبل مسیح ادوار سے فلسفہ لکھا گیا اور اس کی بدولت نہایت قوی بنیادوں پر ایسی عظیم الشان لسانی عمارت استوار ہوئی جو اب تک امتدادِ زمانہ اورسیاسی تخریب وتبدل کے باوجود اپنی اصل صورت وہیئت میں پوری شوکت سے قائم ہے۔ یونانیوں نے زبان ادب اور فلسفے کی اکادمیاں (لفظ اکادمی یونانی الاصل ہے) قائم کیں جن کا علمی تنجر یوں نسل بعدنسل منتقل اور اثر پذیر رہا کہ آج بھی ایک عام یونانی مزدور یاتاجر بھی فصیح اور ادبی درجے کی زبان استعمال کرتا ہے ۔ اعلیٰ تعلیم یافتہ لوگوں کا تو کہنا ہی کیا ۔ دوسری لسانیاتی زوائیے سے حساس زبان ہے فرانسیسی ۔ وہاں یعنی فرانس میں ایک ادارہ Academie francaisese(فرانسیسی اکادمی) کے نام سے 1635ء میں قائم کیا گیا تھا جسے سرکاری حیثیت حاصل ہے اور جو زبان و ادب سے متعلق تمام معاملات کے لئے اس حد تک بااختیار ہے کہ اس کی اجازت او رمہر قبولیت کے بغیر فرانسیسی لغت میں کسی قسم کی ترمیم یا اضافہ نہیں کیا جاسکتا ۔ یہی اکادمی فرانسیسی ادب کے اعلیٰ معیار قائم رکھنے کیلئے ذمہ دار ہے اور باقاعدہ طور پر چھوٹی سے چھوٹی ادبی اشاعت پر نگرانی کرتے ہوئے ملحوظ رکھتی ہے کہ کوئی ایرا غیرا نتھو خیرا کسی قسم کی الٹی سیدھی تحریر شائع کراکے ادیبوں کے صف میں شامل نہ ہوجائے ۔ زبان کے معاملے میں توفرانسیسی تقریباً عصبیت زدہ ہیں، اس حد تک کہ کئی زبانوں کا علم رکھنے والافرانسیسی بھی اپنی زبان کے علاوہ کسی زبان کااستعمال نہایت مجبوری کی حالت میں کرتا ہے ۔ اردو کے تعلق سے بھی ادیبوں اور زبان دانوں کی حساسیت اسی درجے کی ہوا کرتی تھی ۔ مگروہ زمانے لدگئے ۔

عام استعمال کی اردو کو خراب کرنے کا سہرا ذرائع ابلاغ اور خصوصاً اردو صحافت کے سر ہے۔اچھے وقتوں میں ادیبوں کی مانندصحافیوں کی زبان بھی سند کا درجہ رکھتی تھی ۔اور یہاں میں مولانا ابوالکلام آزاد کی عالمانہ ،معرباور مفرس جناتی اردو کی بات نہیں کرتا بلکہ اس صحافتی اردو کی بات کررہا ہوں جسے مولوی ناصر علی، مولانامحمد علی جوہر، محمد حسین آزاد،نثار علی شہرت اور مولانا ظفرعلی خاں جیسے جید علما اور صحافی حضرات نے پروان چڑھا یا اور جو بانی ومدیر ’نئی دنیا ‘عبدالوحید صدیقی پر آکر تقریباً ختم ہوگئی ۔یاد رہے کہ اس تاریخی ترتیب میں مہاشے کرشن، دیش بندھو گپتا اور دیوان سنگھ مفتوں جیسے غیر مسلم صحافیوں کی بھی کمی نہیں رہی۔ فی زمانہ اردو صحافی جس قسم اور سطح کی اردو لکھ رہے ہیں اس کے دفاع میں یہ دلیل تو دی جاسکتی ہے کہ وہ اپنا ما فی الضمیر قاری تک پہنچا دیتے ہیں لیکن اس ابلاغ میں اردو کی شہہ رگ سے جو لہو جاتا ہے اس کا کوئی ازالہ نہیں ۔ ٹی وی نیوز چینلوں کے مقبول عام ہونے کے بعد ان کے اینکر وں اور نیوز ریڈروں کے ذریعے بولی جانے والی زبان کا اردو رپورٹر وں اور نامہ نگاروں نے عجیب ہی اثر قبول کیا ۔ ( جاری)

20جولائی،2018 بشکریہ: انقلاب ، نئی دہلی

URL: https://www.newageislam.com/urdu-section/pathetic-condition-urdu-/d/115880


New Age IslamIslam OnlineIslamic WebsiteAfrican Muslim NewsArab World NewsSouth Asia NewsIndian Muslim NewsWorld Muslim NewsWomen in IslamIslamic FeminismArab WomenWomen In ArabIslamophobia in AmericaMuslim Women in WestIslam Women and Feminism


 

Loading..

Loading..