اے رحمان
23اکتوبر،2020
تہذیب کی ابتدا سے اب
تک پوری دنیا کی تاریخ مظہر ہے کہ ’تخیّل‘
جسے انسان کی ذہنی ساخت کے اجزائے ترکیبی میں اہم ترین مقام حاصل ہے اس کی تمام تخلیقی
کاوشوں اور سرگرمیوں کا آفرینندہ ہے اور اسے فطری طور پر ودیعت کی گئی غورو فکر
کی صلاحیت نے تخیل کی سان پر چڑھ کر ہی علم و دانش کی وہ تیغ ِ برّاں مہیّا کی جسے
استعمال کر کے انسان نے جہل کے پردۂ تاریک کو چاک کیا اور ارتقا کی اس موجودہ سطح تک پہنچ گیا جہاں
سے وہ ستاروں پر کمندیں ڈال رہا ہے اور نئی دنیاؤں کی جستجو میں ہے۔ یہ نئی دنیائیں حقیقی اور طبیعاتی بھی ہیں اور
فرضی یعنی تخیّلی بھی۔قدیم یونانی فلسفے نے جب انسانی ذہن کے مطالعے یعنی نفسیات
کے بنیادی اصول مرتّب کئے تو انسان اور دیگر ذی روح انواع کے درمیان تخیل کو اہم
ترین ممیّز گردانا۔( قوّتِ گویائی بھی مسلّم لیکن ایک نظریہ کہتا ہے کہ وہ بھی
تخیّل کے ہی تابع ہے)۔آپسی رابطے اور اظہارِ خیال کے لئے منضبط ’زبان‘ وجود میں
آتے ہی انسان نے داستاں طرازی اور قصّہ گوئی شروع کر دی تھی جسے ’ زبانی ادب‘ (oral
literature )
کہا جاتا ہے اور تحریر ایجاد ہوتے ہی سنگی تختیوں یعنی tablets پر اپنی پروازَ
تخیّل کے نتائج رقم کرنے میں بھی دیر نہیں کی جس کا قدیم ترین نمونہ دو ہزار سال
قبلِ مسیح میں تخلیق کیا گیا ’ قِلقمیش کا رزمیہ ‘ Epic of Gilgamesh (سمیریائی زبان کا
نسخہ) آج بھی موجود ہے۔(حالانکہ قدیم ترین’ ادب پارے ‘ کے موضوع پر چین اور مصر
کی تصویری زبان (hieroglyphics ) میں دریافت شدہ تحاریر کے معاملے میں ماہرین کے درمیان اختلاف
ہے لیکن وہ اس وقت موضوعِ بحث نہیں)۔ادب کے بعد وجود میں آنے والا موضوع ’ صحافت
‘ بھی کم اہم نہیں بلکہ مہذّب جمہوری ممالک میں نہ صرف ایک بنیادی ضرورت بلکہ
عوامی حقوق کا نگراں اور پاسدار سمجھا جاتا ہے۔انسانی معاشرے کے سیاسی اور تہذیبی
استحکام اور اس کے علمی اور دانشورانہ ارتقا کے لئے ادب اور صحافت دونوں ہی
انتہائی اہمیت کے حامل ہیں اور ایک کو دوسرے پر فوقیت یا ترجیح نہیں دی جا سکتی۔
اس مضمون میں بحث اردو
ادب اور اردو صحافت سے ہے۔پہلے ادب کو لیتے ہیں۔ اردو ادب کی تاریخ زیادہ پرانی تو
نہیں لیکن روشن اور آفاقی خصائص سے معمور رہی ہے۔کم از کم پچھلے پچاس سال تک تو
یقیناً۔گزشتہ صدی کی ساتویں دہائی سے کچھ اس قسم کے انقلابات رونما ہوئے جن کی
افادیت یا ادب کے ارتقا میں جن کا کردار بحث طلب ہے۔پھر’ ادب میں جمود‘ کا تنبیہی
نعرہ بلند ہوا اور اس پر اتنی بحث ہوئی کہ ’جمود‘ اگر تھا بھی تو ختم ہو گیا۔لیکن
پچھلے پچیس تیس سال سے عموماً اور اکیسویں صدی کی ابتدا سے خصوصاً ادب میں جو
معیاری زوال مستقلاً دیکھنے میں آ رہا ہے اس نے ادب کے مستقبل کے تعلّق سے بڑے
سنگین خدشات اور بعض چبھتے ہوئے سوالات پیدا کر دیئے ہیں۔یوں تو ادب کی بے شمار
اصناف پیدا ہو چکی ہیں لیکن اہم ترین تو شاعری اور فکشن ہی سمجھی جاتی ہیں۔جہاں تک
شاعری کی موجودہ صورتِ حال کا تعلّق ہے تو
کلاسیکی شاعری کے پیمانے پر اس کا مقام کافی گر چکا ہے اور یہ اسقاط محض
موضوعات اور اظہار کے اسلوب تک محدود نہیں بلکہ شعری کیفیت اور ’ شعریت‘ کے اس
پیرائے تک وسیع ہے جو بڑے نا قابلِ بیان طریقے سے اعلیٰ اور ارذل تخلیق کی درجہ
بندی کرتا ہے۔یوں کہا جاسکتا ہے کہ بیشتر شاعری ’ نا شاعری‘ کے زمرے میں آتی ہے
اور پچاس سال قبل کے دو چار بچے کھچے شعرا کو چھوڑ کر ( جو سب اس وقت پینسٹھ سے
پچھتّر کے پیٹے میں ہیں) زیادہ تر شعرا حضرات شاعری کے کلاسیکی ہی نہیں جدید ترین
پیمانے سے بھی نا شاعر شمار ہوں گے( شاعری کی کوئی ’نئی‘ یا جدید ترین ’شعریات‘ تو
مرتّب کی نہیں گئی)۔اس زوالِ معیاری کی ایک بہت بڑی وجہ موجودہ طرز کے مشاعروں کا
چلن اور شعرا حضرات کو ان سے لگی سستی شہرت اور مالی منفعت کی لت ہے۔مشاعروں میں
غیر اردو داں سامعین کی تعداد زیادہ ہونے کے سبب کئی اچھے شاعر بھی ان سامعین تک ’
پہنچنے‘ اور شور و غوغا کے ساتھ ملنے والی داد و تحسین کے لالچ میں اسی درجے کی
شاعری پر اتر آتے ہیں جس درجے کی شعری فہم وہ سامعین رکھتے ہیں۔انگریزی میںاسے playing to the gallery کہا جاتا ہے یعنی
تھیٹر میں نچلے درجے کی سستی نشستوں پر موجود عوام الناس کی بڑی تعداد کو خوش کرنے
کے لئے اپنی صلاحیت اور استعداد سے گر کر ادا کاری یا اپنے فن کا مظاہرہ کرنا۔(حال
ہی میں فوت ہوئے ایک مشہور و مقبول شاعر نے اس حقیقت کا اپنے تعلّق سے کھلے الفاظ
میں اعتراف کیا تھا)اور اس میں بھی مبالغہ نہ سمجھا جائے کہ بہت سے شعری صلاحیت سے
محروم حضرات محض اسی شہرت اور مالی منفعت کی کشش سے متاثر ہو کر کسی چمکیلی صبح
شاعری کرنے کا فیصلہ کر لیتے ہیں ۔اور شاعری کرنے لگتے ہیں۔نتیجہ سامنے ہے۔
افسانوی ادب (جسے اب اردو
’فکشن‘ کہا جانے لگا ہے) کی حالت اس سے بھی زیادہ دگرگوں ہے۔اوّل تو اچھے افسانہ
یا ناول نگار اس وقت ہیں ہی بہت کم،دوسرے موجودہ دور کی چند سنگین لعنتوں میں سے
ایک instant culture یعنی ضرورت اور
خواہش کی فوری تسکین کے مروجّہ تقاضے نے سنجیدہ ،وقت طلب اور صبر آزما تخلیقی
کاوشوں کی روایت کو تقریباً نیست و نابود کر دیا ہے جس کا نتیجہ یہ ہے کہ ادھ کچرے
مشاہدے اور ’کچھ ہٹ کر ‘ منتخب کئے ہوئے بعید از حقیقت قسم کے موضوعات پر عجلت میں
گھسیٹی ہوئی زبان و بیان کی اعلیٰ خصوصیات سے عاری بے مزہ اور کبھی کبھی بد مزہ
تحریروں پر مشتمل افسانے اور (کم تعداد میں) ناول وجود میں آتے ہیں جو عملی طور
سے اپنے ’خالق‘ یعنی لکھنے والے کی بحیثیت ادیب شناخت قائم کرنے کا ذریعہ ہوتے ہیں
اور بس۔اگر کوئی شخص پچاس ساٹھ افسانے یا ایک آدھ ناول لکھ اور چھپوا چکا ہو تو
خواہ تحریریں کتنی ہی گھٹیا اور لا یعنی ہوں لیکن ہے کسی میں ہمّت جو اسے ‘ ادیب‘
یا فکشن نگار کہنے سے انکار کر دے۔اس کینڈے میں ایسے کئی لوگ ہیں جو ایک دو
افسانوی مجموعے اور دو تین ناول شائع کرا کے ’منفرد‘ اور ’ صاحبِ طرز‘ فکشن نگار
کہلانےلگے ہیں کیونکہ اس حصولیابی کا ایک سکّہ بند فارمولہ موجود ہے۔کتاب (افسانوی
مجموعہ یا ناول) چھپوایئے، کسی بڑے ادیب یا ناقد سے اس کی ’رسمِ اجرا‘ کرایئے،
اجرا کی خبر چھپ جائے گی، اس کے بعد جتنے اخبارات اور ادبی جرائد میں ممکن ہو اس
پر تبصرے لکھوایئے(باہمی امداد یا ’اس ہاتھ دے اس ہاتھ لے‘ کے اصول پر یہ کام
آسانی سے ہو جاتا ہے) مزید ذرائع اور وسائل میسّر ہوں تو کتاب پر مباحثے اور
سیمینار کروا لیجیئے۔اتنا سب ہو جانے کے بعد کتاب اور مصنّف کا نام دور دور تک
پہنچ چکا ہو گا،کتاب خواہ سو قارئین نے بھی نہ پڑھی ہو۔پبلک ریلیشنز یعنی روابطِ
عامّہ کے فن اور اس کے استعمال سے واقف کئی لوگوں کو میں نے معمولی سے عرصے میں
’مشہور‘ ادیب بنتے ہوئے دیکھا ہے۔عوام الناس کے ذہن پر اشتہاریت یعنی پبلسٹی بہت
جلد اثر انداز ہوتی ہے اور محض نام کو شہرت مل جانے سے ادیب بڑا سمجھا جانے لگتا
ہے۔قلم اٹھا کر مغز زنی اور عرق ریزی کرنے سے کہیں زیادہ آسان یہ فارمولہ ہے اور
زیادہ تر بے صلاحیت یا تخلیقی قوّت سے عاری لوگ اسی کے استعمال سے ادیب بن جاتے
ہیں۔ایسی صورتِ حال میں ادب کے معیار برقرار رہنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ناول
تو بہت ہی کم لکھے جارہے ہیں کیونکہ اسی instant culture کے زیرِ اثر قارئین کو
فوری مزہ چاہیے اور نفسا نفسی کے اس ہُو ہائی دور میں اتنی فرصت کس کے پاس ہے کہ
وہ تین چار سو صفحات کا ناول لے کے پڑھنے بیٹھے گالیکن میں سمجھتا ہوں کہ یہ کاہل
یا بے صلاحیت ادیبوں کا گڑھا ہوا بہانہ ہے۔آج بھی میں ہی نہیں مجھ
جیسے کئی دوسرے شوقین راجندر سنگھ بیدی، عصمت،منٹو اور قرۃ العین کی کئی کئی بار
پڑھی ہوئی تحریروں کو قندِ مکرّر کے طور پر پوری رغبت سے پڑھتے ہیں۔ان بڑے ناموں
کو چھوڑیئے ،حقیقت یہ ہے کہ آجکل توگلشن نندہ،قیسی رامپوری اور ایم اسلم کی سطح
کا فکشن بھی نہیں لکھا جا رہا (جاری)
23اکتوبر،2020،بشکریہ:انقلاب، نئی دہلی
URL: https://www.newageislam.com/urdu-section/literature-journalism-meaningless-now-/d/123262
New Age Islam, Islam Online, Islamic Website, African Muslim News, Arab World News, South Asia News, Indian Muslim News, World Muslim News, Women in Islam, Islamic Feminism, Arab Women, Women In Arab, Islamophobia in America, Muslim Women in West, Islam Women and Feminism