اے رحمان،نیو ایج اسلام
21دسمبر،2018
طلاق ثلاثہ کے خلاف آرڈیننس تو آہی گیاتھا ، لیکن اس کی معیاد کیونکہ چھ ماہ ہوتی ہے اس لئے پارلیمنٹ کا سرمائی اجلاس شروع ہوتے ہی اسے قانون میں تبدیل کرنے کا بل پیش کردیا گیا۔ فوراً ہی مسلم تنظیموں کی جانب کے خلاف مذمتی بیان آنے شروع ہوگئے ، لیکن ظاہر ہے محض بیانات جاری کرنے سے مسئلہ حل نہیں ہوگا ۔ طلاق ثلاثہ کا معاملہ صنفی انصاف کی بنیادوں پر کھڑا کیا گیا تھا، لیکن حیرت اور افسوس کی بات ہے کہ نہ توسپریم کورٹ میں صنفی انصاف پر بات ہوئی او رنہ ہی حکومت یا اس کے کسی ادارے نے اس موضوع کو آگے بڑھایا۔معاملہ طلاق ثلاثہ پر شور و غوغا تک ہی محدود رہا۔ یہ بھی نہیں بھولنا چاہئے کہ صنفی امتیاز کاشکار صرف مسلم عورتیں ہی نہیں ہیں، بلکہ صنفی انصاف کا تصور با تخصیص مذہب اور قوم تمام خواتین کے انسانی وشہری حقوق کااحاطہ کرتا ہے۔اس موضوع پر کسی قسم کے اقدامات تو کیا قومی سطح پر کوئی سنجیدہ بحث تک نہیں کی گئی۔ اور جب سپریم کورٹ کافیصلہ آیا تو اس میں صنفی انصاف کا ذکر تک نہیں تھا۔ طلاق ثلاثہ یقیناًایک معاشرتی برائی او رقابل نفرت رواج ہے۔ اسے طلاق بدعت سے موسوم کرنا بذاتِ خود اس کے غیر اسلامی ہونے کی دلیل ہے۔ لیکن زیر بحث قانون تو نہ صرف طلاق ثلاثہ جیسی برائی کو مٹانے میں ناکام ہوگا بلکہ نئے جرائم کی پیدائش کا سبب بنے گا۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اس کامتبادل کیا ہوسکتا تھا ۔ مسلم تنظیموں اور آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کو تقریباً دو سال اس غور و فکر کے لئے مہیا تھے کہ وہ کوئی تجویز لے کر حکومت کے پاس جائے اور طلاق ثلاثہ کے تدارک کیلئے اقدامات یا قانون بنانے کا ایسا مشورہ دے جو شریعت کی حدود میں ہو، لیکن ایسا نہیں کیا گیا اور تو اور مجوزہ بل کااعلان ہوجانے کے بعدبھی اس مسئلے پر ’ غور و خوض‘ ہی کیا جارتا رہا۔ یہ بھی یاد رہے کہ سپریم کورٹ میں داخل کئے گئے اپنے جوابی حلف نامے میں پرسنل لابورڈ نے خود کہا تھا کہ معاملہ کورٹ کے دائرہ اختیار سے بارہ ہے اور صرف پارلیمنٹ کو اس پر قانون سازی کا حق حاصل ہے ۔ دوسرے الفاظ میں بورڈ نے طلاق ثلاثہ پر قانون بنائے جانے کا عندیہ دے دیا تھا۔
کسی بھی مجوزہ قانون میں اہم ترین چیز ہوتی ہے وہ ’ مقاصد اور وجوہات‘ (objects and reason) جو اس قانون کا جواز ہیں ۔ بل کے مقاصد و وجوہات میں صاف طور پر کہا گیا ہے کہ مسلم پرسنل لا بورڈ نے یہ ذمہ داری ( یعنی اس مسئلے پر قانون سازی) حکومت پر ڈال دی تھی۔ وجوہات کے بیان میں یہ بھی درج ہے کہ مسلم پرسنل لا بورڈ نے سپریم کورٹ میں یقین دہانی کرائی تھی کہ اس قسم کے ہدایات جاری کی جائیں گی کہ طلاق ثلاثہ کا سد باب ہو، مگر اس کے باوجود طلاق ثلاثہ کے معاملات سامنے آتے رہے۔ بالفاظ دیگر بل کے وجوہات کے بیان سے یہ صورت حال سامنے آتی ہے کہ مسلم پرسنل لا بورڈ نے خود تو کچھ کیا نہیں اور جب حکومت نے قانون بنا دیا تو شریعت میں مداخلت کاشور مچا رہے ہیں۔ بات ہے بھی درست ۔ جہاں تک حکومت کاتعلق ہے تو طلاق ثلاثہ کی بنچ کنی کے تحت اگر کوئی پر خلوص کوشش کی جاتی یا کوشش کی نیت ہوتی اس سلسلے میں مزاحمتی (Perventive) قانون کا منصوبہ بنایا گیا ہوتا ۔ کئی مسلم ممالک میں نکاح اور طلاق کے ایسے قوانین اور میکینزم موجود ہیں جو پوری طرح اسلامی شریعت کے دائرے میں ہیں، لیکن ان کی موجودگی میں طلاق ثلاثہ جیسے عمل کاتصور بھی نہیں کیا جاسکتا ۔مراقش کے ایسے ہی قانون یعنی مدوّنہ‘ کی مثال خود مرکزی حکومت کے جوابی حلف نامے میں دی بھی گئی تھی ، لیکن پرسنل لابورڈیا اس کے فاضل وکلا نے اس کی طرف دھیان دینے کی ضرورت ہی نہیں سمجھی۔ مرکزی حکومت کی طرف سے ان تمام مسلم ممالک کی مثالیں پیش کی گئی تھیں، جہاں کے قوانین ایک نشست طلاق ثلاثہ کی اجازت نہیں دیتے ، لیکن بورڈ کے وکلا نے ان دلائل کو قابل اعتنا نہیں سمجھااور کھلی عدالت میں کئی تنظیموں نیز عرضی گزاروں کے مسلم اور غیر مسلم وکلاکی طرف سے حیرت کااظہار کرتے ہوئے کہا گیا کہ آخر ایسی کون سی شریعت ہے جو صرف ہندوستانی مسلمانوں پر عائد ہوتی ہے۔ اس پر طرہ یہ کہ اب بھی قانون کے خلاف ’ تحریک‘ چلانے کی بات کی جارہی ہے، جبکہ پاس ہوجانے کی صورت میں اسے آئین ہندکی کئی شقوں کے حوالے سے سپریم کورٹ میں چیلنج کیا جاسکتا ہے او رکامیابی کے ساتھ کیا جاسکتا ہے۔ لیکن امت مسلمہ اور خصوصاً ہمارے علما عقل ودانش کے بجائے جذبات کے استعمال کو ہی ہر مسئلے کاحل سمجھتے ہیں۔
حیرت کی بات تو یہ ہے کہ قانون کی مذمت کرنے والے علما اورتنظیموں نے بھی بل کے ( Reasons and Objecrts) مقاصد و وجوہات کامطالعہ نہیں کیا ۔ وجوہات کے بیان میں پیراگراف نمبر 2میں کہا گیا کہ سپریم کورٹ نے حکومت کے ’ آئینی اخلاقیات‘ پر مبنی موقف کو تسلیم کیا ہے۔ محض اس ایک نکتے پر اس قانون کو سپریم کورٹ میں چیلنج کیا جاسکتا ہے کیونکہ ’ آئینی اخلاقیات ‘ فلسفہ و اصول آئین ( constitutional Jurisprudence) کا ایک بے حد پیچیدہ موضوع ہے ، جس کاذکر نہ تو آئین ہند میں ہے او رنہ اس پر مبنی سپریم کورٹ کی کوئی نظیر موجود ہے ۔ وجوہات کے ذیل میں صنفی انصاف کابھی ذکر کیا گیا ہے، لیکن سپریم کورٹ نے جو قابل اطلاق فیصلہ دیا ہے اس کے سلسلے میں شریعت اور آئین میں موجود مذہبی آزادی کو ہی زیر بحث لایا گیا ہے۔ اور اگر صنفی انصاف کے تصور کو ہی قانون کی بنیاد سمجھا جائے تو اس انصاف کواطلاق صرف مسلم خواتین پر ہی کیوں کیا گیا اور وہ بھی ایک تعزیر ی قانون کے ذریعے ۔ مختصر الفاظ میں یہ کہا جاسکتا ہے کہ اس بات کی پوری گنجائش موجود ہے کہ اگر اس بل کے مقاصد و وجوہات سپریم کورٹ کے سامنے رکھ کر پوچھا جائے کہ کیا یہ قانون ان دی گئی وجوہات پر مبنی ہے اور ان مندر ج مقاصد کی تکمیل کرتا نظر آرہا ہے تو مجھے یقین ہے کہ سپریم کورٹ کا جواب نفی میں ہوگا اور حکومت کو جواب دینا مشکل ہو جائے گا ۔ یہ بھی طے بات ہے کہ ہمارے یہاں مروّج ومستعمل برطانوی فلسفہ قانون (Jurisprudence) کی رو سے ایک سول معاہدے کی خلاف ورزی کے معاملے میں اس قسم کا تعزیری قانون نہیں بنایا جاسکتا، جیسا کہ طلاق ثلاثہ کے سلسلے میں تجویز کیا گیا ہے۔ لیکن جہاں ایک طرف بل بھرپور مخالفت کی جارہی ہے وہاں ایسی کوئی تجویز یا متبادل پیش نہیں کیا جارہا جو مجوزہ قانون کی جگہ لے سکے۔ اس پر نہ غور ہے نہ خوض اورنہ کوئی لائحہ عمل۔
URL: https://www.newageislam.com/urdu-section/the-proposed-law-triple-talaq/d/117252
New Age Islam, Islam Online, Islamic Website, African Muslim News, Arab World News, South Asia News, Indian Muslim News, World Muslim News, Women in Islam, Islamic Feminism, Arab Women, Women In Arab, Islamophobia in America, Muslim Women in West, Islam Women and Feminism