اے رحمان ، نیو ایج اسلام
14مئی،2017
اس مضمون کے عنوان میں لفظ ’ سیاسی‘ کچھ اجنبی او رموضوع سے غیر متوقع محسوس ہوگا، لیکن زندگی کا کوئی شعبہ او رانسانی سرگرمیوں کا کوئی پہلو ایسانہیں ہے تلاش کرنے پر جس میں کسی قسم کی دلچسپی یا بو العجبی نہ مل سکے۔ طلاق بھی اس اصول سے مبّرا نہیں ہے۔ سیاسی وجوہات سے بھی طلاقیں نہ صرف ہوسکتی ہیں بلکہ درحقیقت ہوتی ہیں۔ اس کی تفصیل آگے آئے گی۔ تقریباً ہر مذہب اور معاشرے میں طلاق کو ایک نا پسندیدہ او رمعاشرے کی اہم ترین اکائی خاندان کے لئے ضرر رساں سمجھا گیا ہے،لیکن اگر طلاق کے تاریخی پس منظر ، معاشرتی اسباب و اثرات نیز اس سے متعلق مختلف ممالک کے اعداد و شمار پر نظر ڈالی جائے تو بہت چونکادینے والے حقائق سامنے آتے ہیں جن میں کچھ دلچسپ بھی ہیں۔
فی الوقت ہمارے سپریم کورٹ میں طلاق ثلاثہ کا مقدمہ زیر سماعت ہونے اور اس کے سلسلے میں طویل عرصے سے میڈیا میں شدّ ومد سے چلی آرہی بحث کے باعث عوام کے ذہنوں میں تاثر قائم ہوگیا ہے کہ طلاق ایک مذہبی مسئلہ ہے ۔ ایسا ہر گز نہیں ہے۔ طلاق ایک خالصتاً معاشرتی مسئلہ ہے او ر اس کی ابتدا انسانی معاشرے کی ابتدا سے ہی پیوستہ ہے ۔ تہذیب کا آغاز خاندان او رخانوادے سے ہوا اور خاندان کی تشکیل اس وقت ہوئی جب ایک عورت او رایک مرد نے مستقل باہمی رشتہ قائم کرکے نسل انسانی کی افزائش او رارتقا کو منضبط کیا۔ اسی مستقل رشتے کو شادی کا نام دیا گیا۔ ( عورت محض ایک جنسی رفیق سے ’ بیوی‘ کب بنی یہ ایک تاریخی موضوع ہے۔ شادی کے آغاز و ابتدائی دور سے اکیسویں صدی تک اس کے ارتقا اور متعلقہ سماجی رویوں پر تحقیق کے بعد ایک امریکی خاتون میریلن یلوم نے ایک مبسوط کتاب لکھی ہے جو ’’ بیوی کی تاریخ‘‘ کے دلچسپ عنوان سے 2001میں شائع ہوئی تھی) لیکن کائنات کی ہر شے اپنے تضاد سے ہی شناخت پاتی ہے، لہٰذا جب ایک مستقل رشتہ پیدا ہوا تو اس کی تحلیل یا ٹوٹ جانے کا عمل بھی وجود میں آنا لابدی تھا ۔ اس طور طلاق کا چلن بھی شروع ہوگیا۔ طلاق کا سب سے پہلا تاریخی طور سے مستند ریکارڈ قدیم روم و یونان کی تہذیب میں ملتا ہے ، جہاں شادی شدہ جوڑوں کو طلاق ’ لینے ‘ کے واسطے مجسٹریٹ ( یہ لفظ او رعہدہ بھی یونانی تاریخ سے ہی ماخوذ ہے) کی عدالت میں حاضر ہونا پڑتا تھا ۔ اس سلسلے میں گزارش یا درخواست میں مستعمل لفظ ’ لینے‘ اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ خاوند اور بیوی دونوں کو طلاق کے یکساں او رمساوی حقوق حاصل تھے ۔ درج شدہ تاریخ سے قطع نظریہ بات مسلم الثبوت ہے کہ زمانہ میں شادیاں ہوتی تھیں ۔ فراعین کی تاریخ اس کا عین مظہر ہے ۔ اس لئے قیاس کیا جاسکتا ہے کہ طلاقیں بھی ہوتی ہوں گی۔ ( ایک دلچسپ تاریخی حقیقت یہ بھی ہے کہ پیغمبر وں نے اپنی بیوی کو طلاق دی) ۔ توریت نے طلاق کو ممنوع تو نہیں کیا تھا لیکن صرف ربانی ( شرعی) عدالتوں کو ہی شادی تحلیل کرنے کا اختیار تھا اور عدالتوں میں طلاق کا مقدمہ برسوں چلتا تھا حالانکہ توریت میں شادی کے معاملے میں واضح طور پر کہا گیا ہے ’ رشتہ ٹھیک کرو یا ختم کرو‘۔
مگر اسرائیل کے قیام سے قبل امریکہ اور آسٹریلیا وغیرہ میں آباد یہودیوں میں طلاق کی شرح بقیہ مغربی ممالک کے غیر یہودیوں کی نسبت بہت کم تھی ۔ یوروپ میں طلاق کا چلن عیسائیت کی آمد تک رہا لیکن بائبل نے طلاق کو سختی سے ممنوع قرار دیا او رکیتھولک عیسائی فرقے میں طلاق حرام تھی بلکہ چرچ آف انگلینڈ نے اس کو قابل تعزیر جرم قرار دیا تھا ۔ بعض مخصوص حالات میں چرچ طلاق کا اعلان کر تو دیتا تھا لیکن وہ معاملات شوہر کی نامردی ، جنون یا محرم ( بھائی بہن، ماں بیٹا ) فریقین کی شادیوں تک محدود تھے، او رایسی طلاق کی اجازت ہونے کے بعد دونوں میں سے کوئی بھی فریق دوسری شادی کرتا تو اس سے پیدا شدہ بچوں کو چرچ کے ذریعے ناجائز تصور کیا جاتا تھا۔ کیرولین نارٹن پہلی انگریز عورت تھی جس نے 1857ء میں طلاق کا مطالبہ کر کے برطانیہ کی تاریخ بدل دی اور آزادی نسواں کی ایسی تحریک شروع کی جس کے نتیجے کے طور پر انگلینڈ میں 1885ء کا شادی اور طلاق قانون (Divorce and Marrage Act) پاس کیا گیا ۔ یہ دیگر بات ہے کہ اس کی کامیابی میں اس حقیقت سے مد د ملی کہ اس کی شادی ایک ممبرآف پارلیمنٹ سے ہوئی تھی اور خود اس کے پرائم منسٹر او رہوم سکریٹری سے ذاتی تعلقات تھے ۔ امریکی نو آبادیات کی تاریخ میں بھی پہلی طلاق ایک عورت سے ہی منسوب ہے جس کا نام این کلارک تھا اور جس نے اپنے خاوند ڈینس کلارک سے مورخہ 5جنوری 1643ء کو میسا چوسٹس میں اس بنا پر طلاق لی تھی کہ اس کے خاوند نے ایک دوسری عورت کے چکر میں پڑ کر اس سے بے پروائی اختیار کرلی تھی۔
طلاق کے نفسیاتی اسباب : بیشتر ماہرین نفسیات کانظریہ ہے کہ تقریباً اّسی فیصد مردوں کے ذہن میں شادی کے ابتدائی دس سال کے دوران کم از کم دو چار بار یہ خیال ضرور آتا ہے کہ ’’ یار یہ شادی تو غلط کرلی‘‘۔ حالانکہ یہ ضروری نہیں ہے کہ یہ خیال انہیں طلاق کے ارادے تک لے جائے۔ یاد رہے کہ یہاں امریکی ماہرین نفسیات او رامریکی معاشرے کا ذکر ہے جہاں تمام شادیاں ’ محبت کی شادیاں ہی ہوتی ہیں۔ لیکن محبت کی شادی جذبات کے زیر اثر کی جاتی ہے او رانسانی جذبات میں مستقل تبدیلیاں ہوتی رہتی ہیں ۔ وطن عزیز میں بھی ستّر کی دہائی سے تو محبت کی شادی کا باقاعدہ چلن شروع ہوگیا تھا، لیکن ایسی شادیوں میں طلاق کی شرح ( غالباً معاشرتی دباؤ او رخود کردہ اعلاجے نیست کے مصداق ) تقریباً صفر ہے۔ پسندنا پسند کے نفسیاتی عمل کا طلاق میں منتج ہونا یا اس کا سبب ہونا تو قرآن میں بھی مذکور ہے ۔ سورۃ النسا میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ’’ او رگزر کروان ( عورتوں) کے ساتھ مہربانی او رمساوات کے ساتھ اور اگر وہ تمہیں نا پسند ہوں تو ( سمجھ لو) کہ شاید ایک چیز ( جو) تمہیں پسند نہ ہو اس میں اللہ نے تمہارے لئے بڑی بھلائی رکھی ہو‘‘ ( النساء۔19)صاف ظاہر ہے کہ طلاق سے بچنے کی تلقین تو کی گئی ہے لیکن شخصی پسند ناپسند کو فطرت انسانی کا خاصہ سمجھتے ہوئے ملحوظ بھی رکھاگیا ہے ۔ ہمارے یہاں طلاق کے موضوع پر ماہرین نفسیات کی تحقیق کم او رماہرین سماجیات کا کا م زیادہ ہے۔ یہاں طلاق کے معاشرتی اسباب بے شمار ہیں جن میں ذات برادری کے تفرقوں سے لے کر طبقاتی او ر اقتصادی مسائل نیزجہیز کے لین دین اور رشتے داریوں سے پیدا شدہ تنازعات او رکاروباری رقابتیں جیسے عوامل بھی کام کرتے ہیں ۔ اوریہ نہایت حیرت انگیز بات ہے کہ اتنے سارے اسباب ہونے کے باوجود ہندوستان میں طلاق کی شرح دیگر تمام ممالک کی نسبت نصف بھی نہیں ۔ لیکن افسوسناک بات یہ ہے کہ اب یہ شرح خصوصاً بڑے شہروں میں تیزی سے بڑھ رہی ہے۔
اب بات آتی ہے طلاق کے سیاسی اسباب کی تو اس ضمن میں جزائر مالدیپ کاذکر آئے گا ۔ یہ ایک تقریباً اسلامی ملک ہے جسے اس کے جغرافیائی حسن کی بدولت ہنی مون پر جانے والے شادی شدہ جوڑوں کی جنت کہا جاتا ہے۔ لیکن طلاق کی شرح کے حساب سے مالدیپ کا دنیا میں پہلا نمبر ہے۔و ہاں یہ شرح 10,97فی ہزار سالانہ ہے جو امریکی شرح طلاق کاڈھائی گنا ہے۔
طلاق کی اس شرح کی وجہ سے مالدیپ کا نام گنیز بک آف ورلڈریکارڈ ز میں درج کیا گیا ہے اور اب اسے طلاق کا بین الاقو امی دارالخلافہ کہا جانے لگا ہے۔ اقوام متحدہ کے ذریعے کئے گئے ایک سروے کے مطابق مالدیپ کی ہر عورت تیس سال کی عمر کو پہنچتے پہنچتے تین مرتبہ طلاق یافتہ ہوجاتی ہے۔ اس کی ایک بڑی وجہ تو یہی ہے کہ مسلم ملک ہونے اور اسلامی قوانین کے تحت معاشرے میں مغربی ممالک جیسی آزاد روش نہیں ہے اور مرد و زن کے باہمی تعلقات پر روایتی پابندیوں کے سبب اکثر شادیاں نو عمری میں ہوجاتی ہیں۔ عمر اور عقل میں پختگی تک پہنچتے پہنچتے کئی اختلافات پیدا ہوجاتے ہیں اور نوبت طلاق کی آجاتی ہے ۔ اتنا ضرور ہے کہ طلاق زیادہ تر بغیر کسی تلخی او رشکر رنجی کے فریقین کی باہمی رضامندی سے ہوجاتی ہے۔ وہاں طلاق کی دوسری وجہ ہے بچوں کی پرورش کامہنگا ہونا۔ دراصل مالدیپ کی راجدھانی ’ مالے‘ وہاں کی مرکزی علاقہ ہے جہاں بیشتر نوکریاں ، پیشے او رکارو بار واقع ہیں ۔ تمام رہائشی علاقے وہاں سے دور افتادہ جزائر پر ہیں جہاں اکثر شہری سہولیات مفقود ہیں ۔ زیادہ سے زیادہ عورتیں نوکریوں اور دوسرے پیشوں سے وابستہ ہوکر خود کفیل تو ہیں لیکن ملک کی جغرافیائی کیفیت کو دیکھتے ہوئے گھر سے پیشے یا نوکری کی جگہ تک روز سفرکرنا اور بچوں کی پرداخت خصوصاً اس صورت میں کہ خاوندبھی کام کرتا ہونہایت مشکل ہے۔ ایسی صورت میں خاوند کابچوں کی خواہش کرنا او ربیوی کا اس کے لئے راضی نہ ہونااختلافات اور آخرش طلاق پر منتج ہوتا ہے۔ اب رہا طلاق کا سیاسی سبب تو یوں ہے کہ مالدیپ میں عوام سیاست کی اچھی سوجھ بوجھ رکھتے ہیں اور سیاسی بیداری او رآگاہی کی سطح کافی اونچی ہے۔ اب اگر شوہر او ربیوی مختلف سیاسی نظریات رکھتے ہوں اور ان پر سختی سے قائم ہوں تو رقابت اور تنازعہ پیدا ہونا قدرتی بات ہے او رمعاملہ زیادہ شدّت اختیار کر جائے تو طلاق تک ہی پہنچتا ہے ۔ اس کا ثبو ت یہ ہے کہ مالدیپ میں زیادہ طلاقیں الیکشن کے دنوں میں واقع ہوتی ہیں۔ ایک اچھی بات یہ ہے کہ وہاں طلاق ثلاثہ کا تصور تک نہیں ہے۔ 2000ء میں وہاں فیملی ایکٹ کے نام سے قانون بنا کر قرآن میں دئے گئے طلاق احسن کے طریقے کو منضبط ( Codify) کردیا گیا تھا اور اسی قانون کے تحت قائم کردہ اسلامی عدالت دونوں فرقوں میں صلح کی کوششوں کے بعد ہی طلاق کا اعلان کرکے اسے عائد کرتی ہے۔ صرف مالدیپ پر ہی منحصر نہیں تقریباً تمام مسلم ممالک میں تین طلاقیں قابل قبول نہیں ہیں ۔ نہ کہیں آل انڈیا مسلم پرسنل لابورڈ جیسا موقف پایا جاتا ہے کہ اچھے برے کسی بھی طریقے سے دی جائے طلاق واقع ہوجائے گی۔
URL:
New Age Islam, Islam Online, Islamic Website, African Muslim News, Arab World News, South Asia News, Indian Muslim News, World Muslim News, Women in Islam, Islamic Feminism, Arab Women, Women In Arab, Islamophobia in America, Muslim Women in West, Islam Women and Feminism