New Age Islam
Tue Dec 10 2024, 08:01 PM

Urdu Section ( 9 Jun 2017, NewAgeIslam.Com)

Comment | Comment

Psychological Motives of Worship and Prayer, Its Factors and Benefits in the Scientific Context عبادت اور دعا کے نفسیاتی محرکات ، عوامل اور فوائد سائنسی تناظر میں

اے رحمٰن ،نیو ایج اسلام

5جون،2017

مذہب اور سائنس کو عمومی طور پر ایک دوسرے کی ضد کہا گیا ہے اور زندگی کے بیشتر شعبوں میں ان کے خانے مختلف رکھے گئے ہیں ۔ اس کے باوجود بنیادی مذہبی عقائد اکثر سائنسی نظریات سے متصادم ہوجاتے ہیں حالانکہ اس تصادم کاکوئی فیصلہ کن نتیجہ آج تک برآمد نہیں ہوا۔ لیکن اس معاملے میں ایک خوش کن بات یہ ہے کہ سائنس ہمیشہ مذہب کے گوناگوں پہلوؤں اور ترکیبی عناصر کا جائزہ لینے اورمعتقدین کے افعال و اعمال کا تجزیہ کرنے کی جستجو میں رہتی ہے۔ اس ضمن میں سب سے زیادہ اور سنجیدہ تحقیق جس سائنسی میدان میں کی گئی وہ ہے نفسیات جو بحیثیت سائنس انسانی وجود کے تمامتر داخلی اور خارجی عوامل کامشاہدہ کر کے ان کے اسباب ونتائج دریافت کرتی ہے۔ مغربی فلسفے اور سائنس کی تاریخ پرنظرڈالی جائے تو ہیگل (1770-1831) پہلا ایسا فلسفی نظر آتا ہے جس نے حصول علم کی انسانی جستجو اور تگ و دو میں مذہب کی اہم ترین برسرکار قوت قرار دیا تھا۔اپنی مشہور زمانہ کتاب (The Phenomenology of Spirit) علم المظاہرات روح میں اپنے نظریے کی وضاحت کرتے ہوئے ہیگل نے ان تمام انفرادی اور اجتماعی تجربات کے نتائج کورقم کیا تھا جوکسی بھی انسانی مجمع یاگروہ کے مذہبی عقائد اور افعال سے مشتق ہوتے ہیں ۔ سادے الفاظ میں یو ں کہا جاسکتاہے کہ کسی بھی فرد یا جماعت کامذہبی عقیدہ اورطریقۂ عبادت وغیرہ اس فرد اورجماعت کے سماجی کردار اور روّیوں کومتعین کرتاہے۔ یہی نہیں بلکہ ہر شخص کا اندازفکر اورعام طریقہ زندگی اس کے مذہبی عقائد کاآئینہ ہوتاہے۔ ہیگل قائم کردہ رہنما اصول کی بنیاد پر امریکی اوردیگر نفسیات نے مذہب اور انسانی زندگی پر اس کے اثرات کاوسیع و عمیق مطالعہ کیا اور اس نتیجے پر پہنچے کہ انسانی فکر و عمل میں مذہب کو اہم ترین مقام حاصل ہے۔

بات کوموضوع کے مرکز تک لے جانے کے لئے ضروری ہے کہ مذہب کی بنیادی وضاحت ہوجائے ۔ مذہب ان تمام اعمال و افعال نیز سماجی روّیوں کامجموعہ ہے جو فرد کے ’عقیدے‘ پر مبنی ہوتے ہیں ۔ اب یہاں عقیدے کی تعریف ضروری ہوجاتی ہے۔ اسلامی لٹریچر میں لفظ ’ایقان‘ کو عقیدے کے متبادل کے طور پر استعمال کیا گیا ہے جو لغوی معنی میں تو غلط ہے ہی بلکہ یقین اور عقیدے کا بنیادی فرق ہی عقیدے کی اصل تعریف ہے۔ عقیدہ یقین کی انتہائی شکل ہے۔ ایسا یقین جو کسی حسی تجربے پر مبنی نہ ہوگا عقیدہ کہلاتا ہے۔ ہمیں یقین ہے کہ آگ جلادیتی ہے ،پانی گیلا ہوتا ہے ، سورج گرمی پہنچاتا ہے وغیرہ۔ ان تمام حقائق پر ہم قطعی یقین کرتے ہیں کیونکہ ان سب کے حسّی تجربات سے گزر چکے ہیں یا گزر سکتے ہیں ۔ لیکن اگر ہمیں یقین ہے خدا موجود ہے تو یہ عقیدہ ہے کیونکہ خدا کا حسّی تجربہ کسی معمولی انسان کو تو آج تک نہیں ہوا ۔ پیغمبروں کی بعثت اور آسمانی کتابوں کی سچائی اور تقدس پر یقین کو عقیدہ کہا جائے گاکیونکہ اس یقین کے طبیعاتی ثبوت موجود نہیں ہیں ۔ جیسا کہ ذیل میں تفصیل سے آئے گا ماہرین نفسیات نہایت مفصّل مطالعہ ، مشاہدہ اور تحقیق ا س نتیجے پر پہنچے ہیں کہ عقیدے کی پختگی انسان کو غیر معمولی قوت عطا کرتی ہے۔اس ضمن میں ایک حکایت کا بیان خالی از دلچسپی نہ ہوگا جو بغدادی ادب سے آئی ہے۔ کہا جاتاہے کہ ایک عالم دین گاؤں گاؤں اور قریہ قریہ گھوم کر مذہب کی تبلیغ کرتے تھے۔ ایک مرتبہ کسی چھوٹے سے گاؤں میں پہنچ کر انہوں نے بسم اللہ پر خطبہ دیا اور لوگوں کو تلقین کی کہ اگر وہ ہر کام سے پہلے خلوص کے ساتھ بسم اللہ الرحمٰن الرحیم پڑھ لیں تو و ہ کام آسان ہوجائے گا۔ خطبہ دے کر مولانا رخصت ہوگئے ۔ واپسی کے سفر میں ان کا گزر پھر اسی گاؤں سے ہوا ۔ گاؤں والوں نے ان کی آؤ بھگت کی اور انہیں گاؤں کی سرحد تک چھوڑنے کے لئے ساتھ ہولئے۔ گاؤں کے باہر ایک چھوٹا سا دریا تھا جو برسات کے سبب طغیانی پر تھا۔ گاؤں والوں نے وہاں تک پہنچ کر اجازت چاہی، لیکن مولانا وہاں عبورِ دریا کے لئے کوئی ذریعہ یعنی کشتی وغیرہ نہ دیکھ کر بہت پریشان ہوئے اور گاؤں والوں سے پوچھا کہ بھئی تم لوگ کیا اس سمت میں کبھی سفر نہیں کرتے۔ لوگوں نے کہا کہ اکثر کرتے ہیں،پوچھا پھر دریا کیسے عبور کرتے ہوتو ان لوگوں نے کہا جیسا آپ نے بتایا تھا بسم اللہ پڑھ کر پار ہوجاتے ہیں۔ یہ کہہ کر ایک شخص نے بڑی قرآت سے کہا بسم اللہ الرحمٰن الرحیم اور نہایت آسانی سے پانی پر چلتا چلا گیا۔ مولانا نے نہایت شرمسار ہوکر کہا کہ تمہاراایمان اورعقیدہ سچا اور پختہ ہے اور میرا نہایت نحیف ۔ اس کے بعد انہوں نے اپنابقیہ سفرمنسوخ کرکے اسی نیک لوگوں کے گاؤں میں بودوباش اختیار کرلی۔ یہ محض حکایت ہوسکتی ہے ، لیکن سائنسی تحقیق نے ثابت کردیا ہے کہ عقیدے کی پختگی نہ صرف ایمان کی سچائی کاثبوت ہے بلکہ انسانی کردار کو وہ قوت عطا کرتی ہے جس کے تحت وہ پہاڑوں کوریزہ ریزہ کرسکتا ہے۔

جب نفسیاتی سائنس نے عبادت پر تحقیق شروع کی توابتدا میں ہی نہایت حیرت انگیز نتائج سامنے آئے ۔ اس وقت hencephalograpیعنی انسانی دماغ کی اندرونی کیفیت کو ریکارڈ کرنے کی مشین ایجاد ہو چکی تھی ۔ اس کے استعمال سے معلوم ہوا کہ عبادت کے وقت عبادت میں مشغول شخص کا دماغ پرسکون رہتاہے اور دماغ کواتھل پتھل کرنے والی برقی لہریں بہت کم حرکت کرتی ہیں ۔ الیکٹرونک ٹکنالوجی کی ترقی کے ساتھ ساتھ اس قسم کے آلات ایجاد ہوگئے جوکافی حد تک ذہن میں ہونے والی سرگرمی کو پڑھ کر اس کی تشریح کرسکتے تھے ۔ ان سے یہ پتہ چلا کہ عبادت ( اس مذہب کی تخصیص نہیں ہے) کے دوران انسان کے ذہن سے منفی جذبات جیسے غصہ ، نفرت اور حسد وغیرہ بالکل مفقود ہوجاتے ہیں اور اعصابی نظام ایک ایسے سکون کی حالت میں ہوتا ہے جو کسی دیگر عمل حتیٰ کہ نیند کی حالت میں بھی میسر نہیں آتا ۔ یہ حقیقت بھی سامنے آئی کہ یکسوئی سے کی جانے والی عبادت stressیعنی ذہنی تناوسے پیداشدہ مضراثرات کو زائل کردیتی ہے۔(غالباً یہی وجہ ہے کہ رات کی نماز نسبتاً طویل ہے اور رات کے وقت پڑھنے جانے والے نفل بھی افضلیت کے حامل ہیں تاکہ دن بھر کی تناو سے پر بھاگ دوڑ کی کدورت ذہن سے زائل ہوجائے) جس وقت عبادت تحقیق جاری تھی تو مغربی سائنسدانوں نے غور کیا کہ مسلمان قرآن کی تلاوت کرتے ہوئے آگے پیچھے ہلتے ہیں لہٰذا ان کا تجسس بیدار ہوا کہ اس میں کیا رمزہے۔ طبیعات کے ماہرین نے عقدہ کھولا کہ انسانی دماغ میں مقناطیسی قطبین یعنی magnietic poles اس طور واقع ہیں کہ اگرپیچھے جنبش کرنے سے مثبت برقی رو پیدا ہوتی ہے اور دائیں بائیں حرکت سے منفی ۔ اس کی جو توجیہ کی گئی وہ تو نہایت پیچیدہ ہے لیکن اسے یوں سمجھا جاسکتا ہے کہ آگے پیچھے حرکت کرنااقرار اور قبولیت کی ذہنی کیفیت پیدا کرتاہے گویا آپ جو کچھ کہہ رہے ہیں آپ کاذہن اس کی سچائی کا اقرار کرتے ہوئے اسے قبول کررہا ہے ۔ لیکن عقیدے کے نظریے کو سامنے رکھتے ہوئے بیسویں صدی کے اوائل میں روسی ماہرین نفسیات نے ایک تجربہ کیا۔ انہوں نے ایک غیر مسلم عربی داں کو ہل ہل کر قرآن کی تلاوت کرنے کے لئے کہا جس کے دوران اس کے دماغ کی لہروں کو ریکارڈ کرنے والے آلے نے بتایا کہ اس کے ذہن میں نہ تو مثبت لہریں پیدا ہوئیں نہ منفی۔ اس تجربے نے عقیدے کی نفسیاتی اہمیت کو مسلّم کردیا اور بعد کو امریکہ میں ان خطوط پر بے شمار تحقیقی تجربے کئے گئے ۔

سماجیات اورنفسیات کے ماہرین نے اس نکتے پر بھی تحقیق کی کہ وہ کون سے محرکات ہیں جو انسان کو اپنے مذہب اور عقیدے کے مطابق عبادت پر اکساتے ہیں ۔ اس تحقیق کے نتیجے میں ماہرین نے عبادت کرنے والوں کوچار خاص گروہوں یا طبقات میں تقسیم کیا ۔ (1) وہ جو نہایت تونگر اور خوشحال ہیں ۔ ان کادل احساس مندی اور شکر کے جذبات سے معمور ہوتا ہے اور انہیں عبادت کی طرف راغب کرتاہے۔ (2) وہ جو افلاس اور تکلیف میں مبتلاہیں اور رحمت خداوندی کی امید او رطلب کے لئے عبادت کرتے ہیں (3) تیسرا طبقہ ان لوگوں کا ہے جن کی عبادت منافقانہ ہوتی ہے کیونکہ وہ عقیدے کے بجائے خاندان ،سماج یا کسی وقتی دباو کے تحت عبادت میں مشغول نظر آنا چاہتے ہیں ۔ یہ لوگ زیادہ تر معاشرے کے درمیانہ طبقے سے متعلّق ہوتے ہیں ۔ اور (4) طبقے میں وہ لوگ شامل ہیں جو ’’ مجرم ضمیری‘‘ کے تحت عبادت پر آمادہ ہوتے ہیں یعنی کسی دن انہیں اچانک اپنی بد اعمالیوں کاشدّت سے احساس ہوتا ہے اور شرمندگی او رندامت کے جذبات سے مغلوب ہوکر اپنے خدا کے سامنے سجدہ ریز ہوتے ہیں ۔ حیران کن بات ہے کہ اس طبقے سے متعلق لوگ اپنی عبادت میں سب سے زیادہ پر خلوص پائے گئے ۔ شاید یہی وجہ ہے کہ اسلام نے توبہ کوبڑی اہمیت دی اور تائب کی عبادت اللہ کو پسند ہے۔

پچھلے سوسال میں نفسیات کے میدان میں سب سے زیادہ کام امریکہ میں ہوا ہے ۔ انسانی نفسیات پر مذہب اور عقیدے کا اس درجہ اثر ثابت ہونے پر اس سائنسی موضوع یعنی نفسیات میں مذہب کو ایک نہایت اہم مقام دیا گیا اور ایک امریکی فلسفی اور ماہر نفسیات ولیم جیمز (1842-1910) نے الگ سے ایک باقائدہ مضمون ’’مذہب کی نفسیات‘‘ کا آغاز کیا ۔ اس کی مشہور کتاب (Varieties of Religious Experience) کوایک کلاسیکی اہمت حاصل ہے اور دنیا بھر میں اس موضوع پر ہونے والے مباحثوں اورتحقیق میں اس کے حوالے دئے جاتے ہیں ۔ جدید مفکر ین اور ماہرین نفسیات میں سے ایک جیمس ہلمین نے انسانی نفسیات کو ایک الوہی تجربہ ثابت کرتے ہوئے یہاں تک کہہ دیا کہ ’’نفسیات انسانی روح میں الہٰیت کی آمیز ش کا ثبوت ہے ۔ نفسیات ہی مذہب ہے ‘‘ 1996میں شائع ہوئی اس کی ایک کتاب The Soul's Code ( روح کا ضابطہ) مذہب کی نفسیات میں ایک نہایت اہم اضافہ سمجھی جاتی ہے۔

دنیا میں تقریباً پچیس کروڑ لوگ جو خود کو لامذہب کہتے ہیں اور تقریباً اتنی ہی تعداد ایسے لوگوں کی ہے جو خدا کے وجود سے ہی منکر یعنی athiestہیں ۔ ان میں دو تو دورِ حاضر کے عظیم ترین سائنسداں اسٹیفن ہاکنگ اور رچرڈ ڈاکنس بھی ہیں ۔ ان لامذہب اور منکرین خدا لوگوں کی نفسیات پر بھی تحقیق کی گئی ہے لیکن وہ ایک قطعی مختلف اور تفصیل طلب موضوع ہے جس پر آئندہ کبھی قلم کشی کی جائے گی۔

URL: https://www.newageislam.com/urdu-section/psychological-motives-worship-prayer-its/d/111465

New Age IslamIslam OnlineIslamic WebsiteAfrican Muslim NewsArab World NewsSouth Asia NewsIndian Muslim NewsWorld Muslim NewsWomen in IslamIslamic FeminismArab WomenWomen In ArabIslamophobia in AmericaMuslim Women in WestIslam Women and Feminism


 

Loading..

Loading..