New Age Islam
Sun Oct 06 2024, 01:20 AM

Urdu Section ( 4 Jun 2020, NewAgeIslam.Com)

Comment | Comment

Philosophy, Religion and Science: Clash and Connectivity فلسفہ، مذہب اور سائنس: تصادم، اتصال اور ہم روانی

اے۔ رحمان ، نیو ایج اسلام

4 جون، 2020

       پچھلی تقریباً نصف صدی سے مذہب اور سائنس کا باہمی رشتہ فلسفہ اور مذہبیات کے شعبوں میں ایک نہایت اہم موضوعِ بحث رہا ہے۔تاریخی اعتبار سے یہ تو امر مسلمّہ ہے کہ مذہب سائنس سے پہلے وجود میں آیا۔سائنسی نظریہء ارتقا بھی اس پر دلالت کرتاہے کہ انسان نے تہذیب سے آشنا ہوتے ہی مظاہرِ فطرت کی فوقیت اور قوّت کو تسلیم کرتے ہوئے ان میں خالقِ کائنات کا جلوہ دیکھ لیا تھا اور یہی وجہ ہے کہ بعض  قدیم مذاہب جیسے ہندوازم وغیرہ میں آج بھی سورج چاند اور ابرو باراں کی تقدیس و عبادت روایتی استحکام کے ساتھ جاری ہے۔ لیکن انسان کے علم میں جیسے جیسے اضافہ ہوتا گیا ویسے ویسے علمی اور تحقیقی انکشافات اور نتائج نے مذہبی  عقائد سے ٹکرانا شروع کر دیا۔اس مستقل تصادم کے نتیجے میں ایک نیا علمی میدان وجود میں آیا جسے ”مذہبیات اور سائنس“ سے موسوم کیا گیا۔اس کا موضوع ہے مذہب اور سائنس کا تقابلی مطالعہ اور تاریخی تنا ظر میں دونوں کے باہمی رشتے اور عوامل کے تجزیے کے بعد ان کی اقدار کا تعین و توضیح۔اس موضوع پر باقائدہ تحقیق ساٹھ کی دہائی میں شروع ہوئی جب مذہبیات، فلسفہ، تاریخ اور سائنس کے ماہرین نے باہمی تعاون اور ہم آہنگی کے ساتھ مذہب اور سائنس کے روابط اور مماثل  تلاش کرنے کا فیصلہ کیا۔آج ’مذہب اور سائنس‘ اتنا اہم موضوع ہے کہ آکسفورڈ  یونیورسٹی سے لے کر امریکہ کی ہر بڑی یونیورسٹی میں اس کے لئے مخصوص شعبے قائم ہیں،کئی بین الاقوامی تنظیمیں اس میدان میں فعّال ہیں اور کئی موقّر جرائد خصوصاً اسی موضوع پر شائع ہوتے ہیں۔

عوامی تاثر یہ ہے کہ سائنس اور مذہب ایک دوسرے کی ضد ہیں اور یہی غلط مفروضہ سارے مسائل کی بنیاد ہے۔ یہ مفروضہ قائم یوں ہوا کہ جہاں مذہب صرف عقیدے پر قائم ہے وہیں سائنس ہر شے اور ہر نظریئے کو تجربے سے ثابت کرنے کی کوشش کرتی ہے۔سائنس فلسفہ سے پیدا ہے اور فلسفہ نتیجہ ہے تدبّر اور تفکّر کا۔انسان نے ہوش سنبھالتے ہی کائنات اور اس کے مظاہر پر غور و خوض شروع کر دیا تھا۔اس ضمن میں ہندوازم کا ذکر لازمی ہو جاتا ہے کیونکہ یہ نہ صرف دنیا کے قدیم ترین فلسفوں میں ایک ہے بلکہ انسانی فکر و تدبّر کی اعلیٰ ترین کاوشوں اور ان کے بہترین نتائج کا آئینہ دار ہے۔یاد رہے کہ فی زمانہ ہندو ’مذہب‘ یا دھرم کی جو تصویر تکثیری معبودیت(polytheism)، مختلف رسمیات اور مروجّہ مذہبی معمولات کی شکل میں سامنے آتی ہے اس کا قدیم ہندو فلسفے سے کوئی تعلق نہیں۔ویدانت میں زیرِ بحث لائے گئے تمام کائناتی مسائل اور موضوعات پر ہزاروں سال تک کیا گیا غور و فکر تو توحید کے یقین پر منتج ہوا تھا۔اس توحید اور اسلامی وحدت الوجود کے عقیدے میں بنیادی فرق یہ ہے کہ اسلام خالقِ کائنات کو کائنات سے الگ اور بالا یقین کرتا ہے جبکہ ہندو فلسفے نے کائنات اور اس کے خالق کو ایک اکائی تسلیم کر کے دونوں کا فرق مٹا دیا۔اور یہ کوئی ایسا خاص فرق بھی نہیں بلکہ محض ایک تشریحی پہلو ہے کیونکہ تصوّف کی ساری عمارت اسی اکائی کے فلسفے پر ایستادہ ہے۔ اور علّامہ اقبال نے تو وا شگاف الفاظ میں کہہ دیا

: حقیقت ایک ہے ہر شے کی خاکی ہو کہ نوری ہو

                                 لہو  خورشید  کا ٹپکے اگر ذرّے کا دل چیریں

فلسفہ عمیق غور و فکر کا نتیجہ ہے لہذٰا ابتدا میں سائنس کو  ” فطر ی فلسفہ“ (natural philosophy) کہا گیا تھا (سر سیّد سائنسی نطرزِ فکر کے حامل تھے اس لئے ان کو مخالفین نے ”نیچری“ کا لقب دے دیا تھا جو اس وقت ’کافر‘ سے ذرا ہی نچلے درجے کی گالی سمجھی جاتی تھی) سائنس کے لئے لفظ سائنس کا استعمال تو انیسویں صدی سے شروع ہوا۔اس سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ انسانی معاشرے پر مذہب کس حد تک حاوی تھا۔اب یہاں یہ واضح کرنا ضروری ہو جاتا ہے کہ”مذہب اور سائنس“  بحیثیت مضمون یا مبحث کے ایک طرف سائنس کے تمام شعبوں کو رکھتا ہے اور دوسری طرف صرف تین اہم ترین مذاہب یعنی اسلام، عیسائیت اور ہندوازم (ہندوازم بطور فلسفہ مذہب)۔سائنس کی ہر نئی تھیوری اور ایجاد کو مذہب کی کسوٹی پر کسنے کی کوشش کی جاتی ہے اور مذہبی احکامات اور رائج معمولات کا سائنسی تجزیہ کیا جاتا ہے۔سائنسداں حضرات خاص طور پر یہ سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں کہ بعض مافوق الفطرت مفروضات اور اشیا جیسے فرشتے اور جن وغیرہم پر مبنی مذہبی عقائد اور معمولات کی حقیقت کیا ہے۔دوسری جانب مذہبی اکابرین محیّر العقول سائنسی نظریات اور ایجادات کو مذہب کے مروجّہ عقائد کی روشنی میں دیکھ کر ان کا تجزیہ کرتے ہیں۔ابھی تک تو معاملات یہاں تک پہنچے ہیں کہ مذہب اور سائنس کی انفرادی اور جداگانہ حیثیت کو تسلیم کر لیا گیا ہے اور اس بات کا بھی مکمّل اعتراف کر لیا گیا ہے کہ سائنس اور مذہب دونوں کی قطعی طور پر تعریف ممکن نہیں۔ لیکن اس اعتراف کے باوجود یہ بھی دعویٰ کیا جاتا ہے کہ مذہب کا خاطر خواہ طور پر سائنٹفک تجزیہ اور مطالعہ ممکن بھی ہے اور دلچسپ بھی۔

              موجودہ دور میں اسلام اور سائنس کا رشتہ نہایت پیچیدہ ہو گیا ہے۔اس کی تاریخی وجوہات تو یہ ہیں کہ تقریباً چھ سو سال تک یعنی نویں اور پندرھویں صدی کے دورانئے میں عالمِ اسلام نے سائنس کے اہم ترین شعبوں میں مغربی دنیا سے کئی گنا زیادہ ترقّی کر لی تھی اور کئی سائنسی شاخوں جیسے ریاضیات،الجبرا،علمِ ہندسہ اور مثلّثات (trigonometry) وغیرہ کی ایجادات و اختراعات تو مسلمانوں سے ہی منسوب ہیں۔کتنے ہی سائنسی علوم کے نام آج بھی عربی الفاظ (جیسے الکحل، الکیمیا،الجبرا) میں ہیں جن کو انگریزیا لیا گیا ہے کیونکہ ان کے متبادل انگریزی یا یونانی زبانوں میں موجود نہیں تھے۔سینکڑوں یونانی ترکیبات و تعریفات عربی کے راستے انگریزی اور فرانسیسی زبانوں تک پہنچیں۔جہاز رانی میں انگریز پاینیر ہونے کا دعویٰ کرتے ہیں جو قطعی بے بنیاد ہے جس کا ایک ثبوت تو یہی ہے کہ انگریزی لفظ admiral  عربی کے ’امیر البحر‘ سے مشتق ہے۔نویں سے پندرھویں صدی تک کا دور عالمِ اسلام کا زرّیں دور تھا۔مذکورہ بالا علوم کے علاوہ فلکیات،طب اور نظاریات (optics) جیسے علوم پر بھی مسلمانوں کو دسترس حاصل تھی اور ان علوم کے پیش رو سمجھے گئے۔ یہاں تک کہ ان تمام علوم کو ”عربی سائنس“ کا نام دے دیا گیا تاکہ بعد کو مغربی ممالک میں ترقّی پذیر علوم کو ان سے ممیّز کیا جا سکے۔اس زمانے میں بیشتر مسلمان عالم ’ہمہ داں‘  (polymath) ہوتے تھے یعنی کئی کئی پیچیدہ علوم پر قادر۔مثال کے طور پر عمر خیّام جو شاعری، فلکیات، جغرافیہ اور علمِ معدنیات میں یدِ طولیٰ رکھتا تھا۔ الفارابی جسے موسیقی،سیاسیات،طبیعات اور ریاضیات پر عبور تھا۔ابنِ رشد جس نے نہ صرف طب،طبیعات،فلکیات،نفسیات،فلسفہء قانون،موسیقی اور جغرافیہ پر کتابیں تصنیف کیں بلکہ یونانی صنمیات اور فلسفہ مذہب کی تشریح میں بھی کارہائے نمایاں انجام دیئے۔عربی سائنس کی اس غیر معمولی ترقّی کی ایک بہت بڑی وجہ تھی خلافتِ عبّاسیہ کے ذریعے علوم اور علما کی بے دریغ سر پرستی۔ابتدائی عباسی خلفا خصوصاً ہارون رشید اور عبداللہ ابو جعفر مامون علوم و فنون کے شائق بھی تھے اور سرپرست بھی اور ان دونوں کے دور ِ خلافت میں عربی سائنس نے دن دونی رات چوگنی ترقّی کی۔ہارون رشید نے تو ”بیت الحکمۃ“ نام کا ادارہ قائم کیا اور اس کے تحت ارسطو اور جالینوس کے علاوہ بہت سے ایرانی اور ہندوستانی عالموں کی تصنیفات کو عربی میں ترجمہ کرنے کی ہدایات جاری کیں۔یہ ادارہ ایک آفاقی نقطہ نظر کے تحت قائم کیا گیا تھا(یعنی علم کے تعلق سے مذہبی عصبیت کو دور رکھا گیا) اور دیگر ممالک خصوصاٍٍ ہندوستان سے ماہرینِ ریاضیات اور فلکیات کو بلا کر بیش قیمت معاوضے پر علمی کام اور ترجمے  کے لئے مامور کیا گیا۔ یہ وہ دور تھا جب تمام عرب ممالک میں مسجدوں سے ملحق بڑی بڑی لائبریریاں ہوتی تھیں جن میں علم کا ایک بحرِذخارہر کس و ناکس کی علمی پیاس بجھانے کے لئے موجود تھا۔ تمام عالمِ اسلام میں ایک زبان اور کلچر نیز یکساں سیاسی اور مذہبی  ادارے اور دیگر ممالک سے روز افزوں تجارتی تعلقات نے علوم و فنون کی افزائش کے لئے بہت اچھی فضا قائم کر دی تھی۔ایسا کوئی نظریہ نہیں پایا جاتا تھا کہ یہ سائنسی علوم اسلام سے متصادم ہوتے ہیں۔دوسری بڑی وجہ تھی معتزلہ کا گروہ جنھوں نے قدامت پرست اسلامی تشریح کے خلاف آواز اٹھا کر لوگوں کو یہ باور کرایا تھا کہ اللہ اور اسلام سائنسی علوم یا طرزِ فکر کے خلاف نہیں ہیں۔ لیکن گیارھویں صدی میں الغزالی کے نظریات نے مسلمانوں کو ایک مرتبہ پھر قدامت پرستی کی طرف مائل کر دیااور  خلافتِ عباسیہ کے زوال اور سقوط کے ساتھ ہی علمی سرگرمیوں کو زبردست نقصان پہنچا اور کافی عرصے تک ایک جمود کی کیفیت طاری رہی۔آزاد خیال اسلامی مورخّین کی رائے ہے کہ اس جمود کا سب سے بڑا سبب تھا روایتی قدامت پسند ”ملّایت“ (clergy) کا ظہور اور مسلم معاشرے پر اس کا گہرا تسلّط جو بتدریج بڑھتا چلا گیا اور سلطنتِ عثمانیہ کے زوال کے بعد مکمّل طور سے مسلم فکر پر حاوی ہو گیا۔راقم اس رائے سے پوری طرح اتفّاق رکھتے ہوئے عرض کرتا ہے کہ مسلم علما نے وسیع پیمانے پر اس خیال کو عام کیا کہ اسلام نے ’علم‘ سے علمِ دین مراد لی ہے۔لہذٰا سائنس اور دیگر مفید علوم کی طرف سے مسلمانوں کی توجہ ہٹتی چلی گئی۔علمائے سوء کا تو یہ حال تھا کہ جدید سائنس کو وہ احکام الہٰی کی بے حرمتی گردانتے تھے اور انھیں یہ کہنے میں کوئی باک نہیں تھا کہ علومِ جدیدہ کے خواہش مند سیدھے جہنّم میں جائیں گے۔جب پرنٹنگ پریس ایجاد ہوا تو اسے ایک بدعت قرار دے کر اس قسم کے فتوے دئے گئے کہ اسلام اس کے استعمال کو حرام قرار دیتا ہے۔لاوڈاسپیکر کی آواز کو شیطان کی آواز قرار دیا گیا۔جب بجلی عام ہوئی تھی تو اسے حرام قرار دے کر مساجد میں اس کا استعمال ایک عرصے تک ممنوع رکھا گیاتھا۔۔انگریزی کو تو کافروں کی زبان کہا ہی جاتا تھا۔جب ٹیلی وزن سامنے آیا تو اسے یک چشمی دجّال سے موسوم کیا گیا۔اور انسان نے چاند پر قدم رکھا تھا تو مولویانِ کرام کا  جوردِّعمل ہوا دنیا کو معلوم ہی ہے۔اب انٹرنیٹ کے خلاف کئی عجیب و غریب فتوے آ چکے ہیں۔ کوئی بھی یہ سوچنے کی تکلیف گوارا نہیں کرتا کہ آج اسلام کی تبلیغ جس نہج پر اور جس خوبی سے کی جارہی ہے وہ جدید سائینس اور تکنالوجی کے بغیر ممکن ہی نہیں تھا۔

                               اس قدامت پسند مذہبی طرزِ فکر اور عصبیت نے جدید علوم کے دروازے مسلمانوں پر اس طرح بند کئے کہ پچھلے پانچ سو سال میں فارابی، ابنِ سینا،ابنِ رشد اور ابنِ ہیثم جیسا ایک بھی ہمہ داں پیدا نہیں ہوا۔یہ سوچ کر اور زیادہ شرم آتی ہے کہ مغربی ممالک نے سائنس کے میدانوں میں جتنی ترقّی کی ہے وہ ’عربی سائنس‘ کے بغیر ممکن نہیں تھی۔

                                گیارھویں صدی میں علوم فقہ نے زور پکڑا اور اس کے ساتھ ہی فکرِ نو اور تحصیلِ علوم ِ جدید پر تالے پڑ گئے۔قدامت پسندی اور روایتی مذہبی  تشریح کے خلاف سوچنا بھی زندقہ اور کفر سمجھا جانے لگا۔وہی تمام علوم جنکے پیش رو مسلمان عالم تھے معدوم ہو گئے اور سائنس کو باضابطہ اسلام کی ضد سمجھ لیا گیا۔لیکن اس کا ایک ردِ عمل یہ بھی ہوا کہ مخالفت کے باوجود علومِ جدیدہ کی تحصیل کرنے والے دوسری انتہا پر جاکر لا مذہب ہو گئے یا سمجھے جانے لگے۔

                                 اٹھارویں اور انیسویں صدی میں عربی سائنس سے فائدہ اٹھاتے ہوئے مغربی ممالک  میں سائنس کی  روز افزوں ترقّی دیکھ کرمسلم ممالک میں دانشوروں نے آہستہ آہستہ عوام کو باور کرانا شروع کیا کہ تحصیلِ علم کو محدود نھیں کیا جانا چاہئیے اور محض علمِ دین انسان کی ضرورت کو پورا نہیں کرتا۔نہ ہی اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایسی کوئی پابندی نافذ کی گئی ہے کہ مسلمان علومِ دنیا سے بے بہرہ رہے۔بیسویں صدی کے اوائل تک مسلم دنیا کو یہ احساس ہو چکا تھا کہ ہم سائنس کی دوڑ میں سینکڑوں سال پیچھے رہ گئے ہیں۔کھلے ذہن کے مطالعے اور تحقیق نے اس پس ماندگی کی وجہ بھی واضح کر دی۔یعنی مذہب اور سائنس کو متضاد سمجھنے کا مسئلہ۔  

                              اس مسئلے کا حل یہی ہے کہ اب جبکہ مذہب اور سائنس کے تقابلی مطالعے نے ثابت کر دیا کہ یہ دونوں ایک دوسرے کی ضد نہیں ہیں تو میانہ روی اختیار کرتے ہوئے ایک موضوع کو دوسرے کے ذریعے سمجھنے کی کوشش کی جائے۔یوں بھی قرآن خود کائنات اور اس کے مظاہر پر غور و فکر کرنے کی نہ صرف تلقین کرتا ہے بلکہ اس پر زور دیتا ہے۔ مظاہرِ فطرت پر غور و خوض اور تحقیق کے بعد ہی سائنس اور ٹکنالوجی وہاں پہنچ سکی جہاں وہ آج نظر آتی ہے۔سائنس اور مذہب کی confluence  یعنی ہم روانی میں ہی انسان کے مادّی اور روحانی وجود کا بہتر مستقبل مضمر ہے۔

rehmanbey@gmail.com

URL: https://www.newageislam.com/urdu-section/philosophy-religion-science-clash-connectivity/d/122028


New Age IslamIslam OnlineIslamic WebsiteAfrican Muslim NewsArab World NewsSouth Asia NewsIndian Muslim NewsWorld Muslim NewsWomen in IslamIslamic FeminismArab WomenWomen In ArabIslamophobia in AmericaMuslim Women in WestIslam Women and Feminism


Loading..

Loading..