اے رحمان ، نیو ایج اسلام
2فروری،2019
علامہ اقبال نے سخت الفا ظ میں قوم کو تنبیہ کی تھی۔ جہانِ تازہ سے ہے نمود ۔۔۔ افکارِ تازہ سے ان کی مراد وہ ’ فکر‘ تھی جسے انگریزی میں original thinking کہا جاتا ہے ۔ لفظ اوریجنل انگریزی میں جو مفہوم رکھتا ہے اس کاکوئی قطعی متبادل اردو میں نہیں ہے۔ یوں سمجھا جاسکتا ہے کہ ہر وہ چیز ، خیال یا نظریہ جو پہلے سے موجود نہ ہو اور تجربے ،مشاہدے اور عمیق غور و خوض کے بعد وجود میں لایا جائے اسے اوریجنل کہا جائے گا۔ اور اسے وجودمیں لانے کیلئے غور و خوض کے جس ذہنی اور دانشورانہ عمل سے گزرا جاتا ، اسے original thinking کہتے ہیں۔اس گفتگو کیلئے میں اسے ’ تخلیقی فکر‘ کا نام دیئے دیتا ہوں۔ یہ وہی ’ فکر‘ ہے جس کی تلقین قرآن میں ’’ یتفّکرون ‘‘ کا حکم لگا کر کی گئی ہے۔ اسی فکرنے مظاہر فطرت اور خارجی تجربات کاتجزیہ کر کے انسان کو تہذیب سے روشناس کیا، فلسفے کو جنم دیا، سائنس دریافت کی جس سے مخترع ایجادات نے علم و دانش کی آبیاری کی اوروہ غیر معمولی صفت ودیعت کے جسے تخیل کہتے ہیں۔ فکر کا دوسرا پہلو تنقید ی ہوتا ہے یعنی original thinking ۔ تخلیقی فکر زمانی و مکانی قیود و حدود سے ماورا ہوکر سرگرم رہتی ہے، جبکہ تنقیدی فکر موجودمظاہر و اشیاء کامختلف طریق سے تجزیہ کر کے نئے پہلو ، زاویئے اورنظریات اختراع اور دریافت کرتی ہے۔ لیکن یہ انسانی کی تخلیقی فکر ہے جو بنیادی سر چشمہ ہے علم، ادب، فلسفہ ، فنونِ لطیفہ اور سائنس کی ترقی کے اس درجہ کمال کاجہاں آج ہم پہنچے ہیں اور جس سے ہماری زندگی مخلوط و مملوہے۔ اسی تخلیقی فکر کی اہمیت کے ادراک اور احساس نے اقبال کو مذکورہ بالاتنبیہ کرنے پر مجبور کیا۔ انہوں نے یورپ سے واپسی پر جب اپنے وسیع تر علمی اور فکری تناظر میں برّ صغیر کے مسلمانوں پر نظر ڈالی تو بے ساختہ کہہ اٹھے:
حیرت ہے کہ تعلیم و ترقی میں ہے پیچھے
جس قوم کا آغاز ہی اقراء سے ہوا تھا
اقبال کے بعداگر دیکھا جائے تو واحد اوریجنل مفکّرمولانا ابوالکلام اور واحد مسلم سائنس داں ڈاکٹر عبدالکلام ہی نظر آتے ہیں۔ یہاں علمائے دین زیر بحث نہیں ہیں اور اس کی وجہ یہ ہے کہ بڑے بڑے جیّد علماء نے بھی اپنی تمام عملی اور دانشورانہ صلاحیتوں کو مذہب کی ’ تفسیر‘ تک محدود رکھا۔ ( اجتہادتو فقہ کے آغاز سے ہی متنازع بلکہ تقریباً فساد انگیز موضوع رہا ہے اور امام غزالی نے تو معتزلہ سے بھی اعتزال کیا اورعلم الکلام کی بیخ کنی کر کے کٹّر تقلید کا فلسفہ قائم و دائم کردیا تھا)لہٰذا علمائے دین سے ’ تخلیقی فکر‘ کی توقع کرنا لا حاصل ہے۔ یہی سبب تھا کہ علامہ نہ صرف مولوی ملاّ اور ملاّیت کے سخت خلاف تھے، بلکہ انہیں قوم کی ترقی کی راہ میں سب سے بڑی دشواری او رمزاحمت سمجھتے تھے ۔ لیکن علماء سے قطع نظر جو مسلم دانشور طبقہ (intelligentsia)تھا، اسے بھی انہوں نے برملا للکار کر احساس دلایا کہ ۔۔۔۔۔تری خرد پہ ہے غالب فرنگیوں کا فسوں۔۔۔ او راب تو یہ بات نہایت افسوس مگر تیقن سے کہی جاسکتی ہے کہ ہمارے بیشتر دانشور تخلیقی فکر کے معنی و مفہوم تک کو فراموش کر بیٹھے ہیں ۔ علم و ادب اور خصوصاً ادب کے معاملات مکمل طو رپر مغرب سے مستعار شدہ ( او راکثر سرقہ شدہ) افکار و تراکب سے چل رہے او رچلائے جارہے ہیں۔ پچھلے سو سال ۔۔۔ بلکہ کلاسیکی ادب کی طے شدہ حدودِ زمانی کے بعد سے۔۔ آج تک ایسا نیا نظریہ اور طرز ( مرصع یا غیر مرصع) پیش نہیں کی گئی جسے خالصتاً تخلیقی فکر کا نتیجہ کہا جاسکے ۔ترقی پسند تحریک تو کھلم کھلّا ایک مخصوص سیاسی نظریے کا پروپیگنڈہ تھی مابعد نو آبادیاتی نظام جو ادب تخلیق ہو اور ضرور اتنی عظیم معاشرتی تبدیلی بلکہ انقلاب کے ایماندار انہ ردّعمل کافطری نتیجہ تھا۔ اور آج بھی اس ادب کی اہمیت اور تاریخی معنویت سے انکار نہیں کیا جاسکتا ۔ جدید اد ب کی تحریک بلکہ ندرت اس بے حد وبست یا وہ گوئی کی نذر ہو گئی جسے جدت کے نام پر شاعری اور فکشن میں کوڑے کرکٹ کی مانند پھیلا دیا گیا۔ ویسے بھی ’ جدیدیوں‘ نے نہ تو جدید ادب کی کوئی مستقل تعریف سامنے رکھی نہ ہی اس کے اصول و ضوابط متعین کئے، لہٰذا زیادہ تر جدید ادیب اور شاعر بے نکیل کے بیل بن کر قارئین کے صبر و ضبط کی گھاس چرتے رہے۔اور یہ تو معلوم ہے ہی کہ جدید ادب کا پورا پورا کینوس مغربی رنگ و اسلوب سے مزین تھا۔ پھر ایک قد آور اور جید ادیب ونقّاد نظریہ سازبن کر مشرقی شعریات کے سیاق میں ساختیات او رپس ساختیات کے نظریے کی ایجاد کے سامنے آئے اور بجائے نظریہ ساز آخری درجے کے چور ثابت ہوئے ۔
نتیجہ یہ ہے کہ اب اردو میں ساختیات کا ذکر بھی حرام سمجھا جاتا ہے۔ اب یہاں یہ دلیل دی جاسکتی ہے کہ ادب کی تخلیق کے لئے کسی مخصوص ادبی نظریے کی ضرورت نہیں اور ہر تخلیق بذات خودایک نظریہ ہے اور ایک دنیائے خیال ہے ۔ تو ذرا تخلیقی منظر نامے پر ایک طائرانہ نظر ڈالیے ۔ بالکل ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے ادیبوں کے پاس موضوعات کا فقدان ہے۔ زیادہ تر تخلیقات ( بات صرف معیاری تخلیقات کی ہے) سیاسی حالات و تنازعات سے متاثر ملیں گی۔ معاشرہ جس خطرناک عبوری دور سے گذر رہا ہے اس میں قدیم ( متروک) اور جدید ( نامانوس)اقدار کے تصادم کے طور پر جو انفرادی شناخت کا بحران اور نفسیاتی تناؤ او رکشمکش کا منظر ہے اس کو موضوع بنانے یا اس سے تحریک لینے کے بجائے اگلے ہوئے لقمے چبا کر دوبارہ اگلے جانے کا رجحان چل رہا ہے جو ادیبوں کی تن آسانی اور یا ذہنی قلاّشی کا بیّن ثبوت ہے۔ اس منظر نامے میں داخل ہوتے ہی غیر ملکی ادیب جو اردو زبان سے بہرہ ور ہوکر ادبی تخلیقی کی جانب متوجہّ ہوتے ہیں۔ دور دراز کے غیر ممالک میں اردو کا چلن ایک قابل فخر بات ہے اور وہاں کے باشندوں کا اردو ادب کی طرف ملتفت ہوکر تخلیقی کاوشیں کرنا ہمارے لئے اس سے بھی زیادہ باعث افتخار ہے ، لیکن ان کی ادبی کاوشوں کو مینار ۂ نور کا درجہ دے کر قابل تقلید سمجھنا او ران کے نامانوس طرز اظہار کو ادبی سنگ میل قرار دینا محض ہماری ذہنی کم مائیگی اور احساس کمتری کی غمّازی کرتا ہے۔ ہر زبان نے اہل زبان کے علاوہ دوسروں کی ادبی تخلیقات اور فن پاروں کو ثانوی حیثیت اوردرجے پر کھا ہے( سبک ہندی اس کا سب سے بڑا ثبوت ہے) برطانوی دورِ حکومت میں کتنے ہی انگریزوں نے اردو میں شاعری اور دوسری ادبی کاوشیں کیں، لیکن آج ان کے فن پارے محض تاریخی حیثیت رکھتے ہیں اور بس۔ ادب کے ارتقا میں ان کی حیثیت کبھی معرض بحث میں نہیں آتی۔ لیکن غیر ملکی اردو ادیبوں سے تحریک پاکر ان کی ادبی کاوشوں کو اوریجنل تخلیقات کا درجہ دیتے ہوئے انہیں اپنے ادبی ارتقا کا حصہ بنانا فی الوقت ہمارے یہاں عام ہوچکا ہے۔ اس سے صاف ظاہر ہے کہ ہمارے تخلیقی سوتے خشک ہوچکے ہیں او رہمیں احیائے دانش کی ضرورت ہے ۔ وہ دانش جو اوریجنل ہو، ہماری اپنی ہو، کہیں او ر سے در آمد کی ہوئی نہیں ۔
URL: https://www.newageislam.com/urdu-section/now-knowledge-wisdom-come-africa/d/117646
New Age Islam, Islam Online, Islamic Website, African Muslim News, Arab World News, South Asia News, Indian Muslim News, World Muslim News, Women in Islam, Islamic Feminism, Arab Women, Women In Arab, Islamophobia in America, Muslim Women in West, Islam Women and Feminism