اے۔رحمان ، نیو ایج اسلام
سپریم کورٹ میں زیرِ سماعت طلاقِ ثلاثہ کے قضیے کو ختم کرنے کی نیت سے مسلم پرسنل لا بورڈ نے آخرِ کار جو حلف نامہ داخل کیا ہے وہ کئی آئینی اور قانونی قضیوں کا سبب بن سکتاہے یعنی اگریہ فرض کر لیا جائے کہ سپریم کورٹ اس حلف نامے کو قبول کرتے ہوئے یہ کہہ کر مقدمہ خارج کر دے گا کہ مسئلہ حل ہو گیا ہے اور مسلم خواتین کوپورا انصاف مل گیاہے جو عدالت کے ذریعے از خود درج کی گئی پٹیشن بعنوان ’’ مسلم خواتین کی جستجوئے انصاف‘‘ کا بنیادی مقصد تھا ۔جہاں تک کئی خواتین اور سماجی تنظیموں کے ذریعے دائر کی گئی دیگر عرضداشتوں کا سوال ہے تو ان کے وکلا نے متفقہ طور پر ایک آواز میں اس حلف نامے اور اس کے منسلکات میں مذکور بورڈ کی قرار دادوں کو سرے سے نامنظور کر دیا ہے۔حلف نامے کے اہم مندرجات اور مشمولات حسبِ ذیل ہیں:
بورڈ اپنی ویب سائٹ،مطبوعات اور سوشل میڈیا پلیٹ فارم کے ذریعے نکاح خواں حضرات (لفظ قاضی استعمال نہیں کیا گیا اور یہ بات ایک خاص اہمیت کی حامل ہے) سے رابطہ کر کے ان سے’ درخواست‘ کرے گاکہ وہ نکاح خوانی کے دوران (پہلے یا بعد کی وضاحت نہیں کی گئی)یہ دو کام کریں: [الف ]عاقد (دولہا)کو’. نصیحت‘ کریں کہ ازدواجی اختلافات پیدا ہو جانے کی صورت میں نوبت اگر طلاق دینے تک پہنچ جائے تو وہ یعنی شوہر ایک نشست میں تین طلاق نہ دے۔ [ب]نکاح کے دوران دولہا اور دلہن دونوں کو مشورہ دیں کہ وہ نکاح نامے میں یہ شرط شامل کر لیں کہ شوہر ایک نشست میں تین طلاق دینے سے گریز کرے گا کیونکہ شریعت میں یہ ناپسندیدہ فعل سمجھا جاتا ہے۔ طلاقِ ثلاثہ کے مسئلے کا بس یہی حل حلف نامے کے صرف ایک مختصر سے پیراگراف (نمبر ۲)میں پیش کر دیا گیا ہے۔پورا حلف نامہ صرف تین پیراگراف پر مشتمل ہے جس میں پہلا پیراگراف رسمی خانہ پوری کا ہے۔ تیسرے اور آخری پیراگراف میں بورڈ کے ذریعے منظور کی گئی ان دو قرار دادوں کا ذکر ہے جن کے تحت بورڈ نے طلاقِ ثلاثہ کے سلسلے میں ایک کوڈ آف کنڈکٹ یا رہنما خطوط (guidelines) جاری کرنے اور ایک نشست میں تین طلاق دینے والوں کا سوشل بائیکاٹ کرنے کے فیصلوں کا اعلان کیا تھا۔حلف نامے کے ساتھ ان قرار دادوں کا اردو متن اور اسکے انگریزی ترجمے کی کاپیاں منسلک ہیں۔
تمام فریادیوں اور عرض گزاروں کے وکلاء نے نکتہ اٹھایا ہے کہ نہ تو قاضیوں کو کوئی قانونی حیثیت حاصل ہے اور نہ ایسا کوئی قانون موجود ہے جس کے تحت وہ یعنی قاضی حضرات نکاحوں پر نگرانی کے اختیارات رکھتے ہوں لہٰذا یہ حلف نامہ خواتین کے حقوق کے لیئے بے مصرف ہے اور اس کے ذریعے محض قانونی لیپا پوتی کی کوشش کی گئی ہے۔سینئر وکیل اور ملک کی سابقہ اڈیشنل سالیسٹر جنرل اندرا جے سنگھ نے کہا کہ کوئی بھی خاتون نکاح کے وقت طلاق کے مسئلے پر بحث یا اس کا ذکر بھی پسند نہیں کرے گی ۔۔۔اس خوف سے بھی کہ کہیں دولہا شادی سے انکار ہی نہ کر دے۔عرضی گزار شاعرہ بانو کے وکیل نے یہ سوال اٹھایا کہ اب تک جن خواتین کے نکاح طلاقِ ثلاثہ سے اجتناب یا گریز کی شرط نکاح نامے میں شامل کئے بغیر قرار پائے ہیں انکی قانونی صورت کیا ہوگی۔لیکن ایسے بہت سے جائز سوالات سے قطع نظربھی کئی قانونی اور سماجی پہلو ایسے ہیں جن کو یہ حلف نامہ ڈرافٹ کرتے وقت قابلِ توجہ نہیں سمجھا گیا اور اسی اعتبار سے اس میں پیش کردہ تجاویز قابلِ عمل نہیں ہیں۔17 مئی کو سپریم کورٹ کی بنچ کے ذریعے کئے گئے ایک سوال کے جواب میں بورڈ کی طرف سے کہا گیا تھا کہ ملک کے قاضی بورڈ کے پابند نہیں ہیں۔
اب یہ کہا جا رہا ہے کہ بورڈ قاضیوں یا نکاح خوانوں کو مشاورت مذکورہ بالا(advisory) جاری کرے گا۔لیکن اگرکوئی نکاح خواں اس مشاورت پر عمل نہ کرتے ہوئے نکاح پڑھا دیں تو اس نکاح کی بورڈ کی نظروں میں قانونی حیثیت کیا ہو گی؟پھر ایسا کوئی نکاح طلاقِ ثلاثہ کا شکار ہو کر ختم ہو جائے تو کیا ہو گا؟سب سے بڑا سوال تو یہ ہے کہ کیا بورڈ کے پاس ہندوستان بھر کے قاضیوں اور نکاح خوانوں کی فہرست اور ان کے نام پتے موجود ہیں؟ اب یہاں میں ایک اور بہت اہم نکتہ بیان کرنا اپنا فرض سمجھتا ہوں۔تحفظِ شریعت کے نام پر تو مسلم پرسنل لا بورڈ چوالیس سال سے مسلمانوں کو بے وقوف بناتا چلا آ رہا ہے لیکن اس کے علمائے دین اور مفتیانِ شرعِ متین نے تو اتنا بھی نہیں کیا کہ اسلامی نکاح کی تشریح و تشہیر کر کے بتائے کہ اسلامی نکاح کی شرائطِ ضروریہ کیا ہیں جبکہ اس مسئلے پر کوئی مسلکی اختلاف بھی نھیں پایا جاتا۔دنیا بھر کے ماہرینِ قانون اس بات پر متفق ہیں کہ سب سے آسان اور سادہ شادی ہے اسلامی نکاح جس کا سب سے بڑا ثبوت ہے رسول اللہ ﷺ کا پہلا نکاح جو خدیجۃ الکبرہ سے ہوا ۔’’خدیجہ کی طرف سے نکاح کی پیشکش محمد ﷺ نے قبول کر لی اور شادی کی تاریخ مقرر ہوگئی(خدیجہ کی طرف سے) طے پایا کہ شادی خدیجہ کے گھر پر ہو گی۔صرف محمد ﷺ ان کے چچا اور ان کی بیویاں نیز بنو ہاشم کے کچھ معزز افراد مقررہ تاریخ پر خدیجہ کے گھر پہنچے۔چند بھیڑیں ذبح کی گئیں اور ضیافت ہوئی۔اس کے بعد رواج کے مطابق ابو طالب نے کھڑے ہو کر حاضرین سے خطاب کیا ’ جیسا کہ آپ کو علم ہے، میرے بھائی کا بیٹا محمد بن عبداللہ آپ کارشتہ دار ہے۔قریش کا کوئی جوان اس کی ہمسری نھیں کر سکتا۔عزت،عقل و فہم ،نیکی اور شہرت میں وہ سب سے افضل ہے۔بے شک اس کے پاس مال و متاع زیادہ نہیں ہے لیکن یہ بات بے معنی ہے۔مال و متاع تو آتی جاتی چھاوں ہے۔
ایک عارضی شے جو کبھی ملتی ہے کبھی واپس لے لی جاتی ہے۔میں قسم کھا کر کہتا ہوں کہ اس (محمد) کے رتبے اور اعزاز میں روز افزوں اضافہ ہو گا۔اب وہ (محمد) شادی میں آپ کی بیٹی خدیجہ کا ہاتھ طلب کرتا ہے اور عوض میں بیس اونٹ بطور مہر دینے کا اقرار کرتا ہے۔‘ ابو طالب یہ کہ کر بیٹھ گئے اور خدیجہ کے چچا کے بیٹے ورقہ بن نوفل نے اٹھ کر کہنا شروع کیا۔ ’ہم بھی اس اعزاز کے خواہشمند ہیں اور یہ رشتہ استوار کرنا چاہیں گے۔اے قریش کے لوگو ! گواہ رہنا کہ میں خویلد کی بیٹی خدیجہ کو پیش کردہ مہر کے عوض عبداللہ کے بیٹے محمد بن عبداللہ کے نکاح میں دیتا ہوں۔‘ جب ورقہ بن نوفل کہہ چکے تو ابو طالب نے خواہش ظاہر کی کہ خدیجہ کے چچا امر بن سعد بھی اپنی رضامندی کا اعلان کریں چنانچہ وہ بھی اٹھ کھڑے ہوئے اور کہا ’ اے قبیلہٗ قریش کے لوگو ! گواہ رہنا کہ میں نے خدیجہ بنت خویلد کو محمد بن عبداللہ کے ہمراہ نکاح میں اکٹھا کر دیا‘ (ابن ہشام ’’سیرۃ الرسول‘‘ جلد ۱ صفحہ ۲۰۱، ابن سعد ’’طبقات‘‘ جلد ۱ صفحہ ۱۳۱) واضح رہے کہ یہ نکاح بعثتِ رسول اور آمدِ اسلام سے پندرہ سال قبل ہوا تھا اور زمانہٗ اسلام میں نہ تو اس پر کوئی سوال اٹھایا گیا نہ بعد کے نکاحوں میں اس سے الگ ہٹ کر کوئی اضافی چیز شامل کی گئی۔لہٰذا نکاح کی شرائط میں ایجاب و قبول کے بعد مہر ،گواہان اور نکاح کا اعلان ضروری ہے۔۔بس۔ نکتہ یہاں مقصود یہ ہے کہ نکاح کے لئے کسی نکاح خواں یا قاضی کی کوئی ضرورت ہی نہیں ہے۔کوئی بھی ان شرائط سے واقف مسلمان شخص کسی بھی دوسرے مسلمان کا نکاح ’’پڑھا ‘‘ سکتا ہے جو ہر لحاظ سے شرعاً جائز اور قانوناً مطلق ہو گا۔(شاید یہی وجہ ہے کہ بورڈ کے حلف نامے میں لفظ قاضی کے بجائے ’’نکاح خواں ‘‘ استعمال کیا گیا ہے ) رہی بات نکاح نامے کی تو نکاح ایک سماجی معاہدہ ہے اور اسلام نے ہر قسم کے معاہدے کو ضابطہٗ تحریر میں لانے اور اس پر گواہ کرنے کا حکم دیا ہے۔
قاضیوں کو مشاورت بھیجنے کی تجویز اس لئے بھی بے مصرف اور بے معنی ہے کہ اگر کوئی شخص یعنی دولہا یا دولہا دلہن دونوں ہی قاضی یا نکاح خواں کی ’نصیحت‘ اور ’مشورہ‘ ماننے سے انکار کردیں تو قاضی کے لئے کیا راستہ ہو گا۔ کیا وہ نکاح پڑھانے سے انکار کردے گا؟اور بغیر ایسی کسی شرط کے واقع ہونے والے نکاح کی شرعی اور قانونی حیثیت کیا ہوگی؟
دوسری تجویز حلف نامے میں یہ پیش کی گئی ہے کہ ایک نشست میں تین طلاق دینے والوں کا سوشل بائیکاٹ کر دیا جائے گا۔ میں پچھلے ایک مضمون میں لکھ چکا ہوں کہ سوشل بائیکاٹ صرف داودی بوہرہ فرقہ میں رائج ہے اور وہاں ان کے سیّدنا کی تسلیم شدہ مذہبی حیثیت اور تفوق کو مدِ نظر رکھتے ہوئے قابلِ عمل بھی۔اس کے علاوہ انھوں نے سوشل بائیکاٹ کے خلاف ۱۹۴۹ میں بمبئی ریاست کے بنائے ہوئے ایک قانون کو بھی سپریم کورٹ سے کالعدم کرایا ہوا ہے۔لیکن ملک کے باقی مسلمانوں پر سوشل بائیکاٹ کسی بھی صورت میں عائد نہیں کیا جاسکتا۔سب سے بڑا سوال تو یہ ہے کہ مسلم پرسنل لا بورڈ کو کسی بھی قسم کا تعزیری قانون بنانے کا اختیار دیا کس نے؟ اور بالفرض ایسا کوئی حکم جاری کر بھی دیا جاتا ہے تو اس کے نفاذ کا میکنزم کیا ہو گا۔ کیا اب مسلم پرسنل لا بورڈ اپنی کوئی پولیس فورس بھی بنائے گا؟ اس کے علاوہ دوسرے طلاقِ ثلاثہ سے بھی زیادہ بڑے گناہ ( جن کی ملکی قانون اجازت دیتا ہے) جیسے شراب خوری،طوائف بازی،جوا اور لو ان ریلیشن شپ (نکاح کے بغیر عائلی تعلقات) کا ارتکاب کرنے والے مسلمانوں کے لئے کوئی سزا کیوں نہیں تجویز کی گئی۔قران سے بڑا اور مکمل کوڈ آف کنڈکٹ کوئی نھیں ہے ۔مسلمان پوری طرح اسی پر عمل پیرا نہیں ہیں۔آپ کے کوڈ آف کنڈکٹ کی کون پروا کرے گا۔
مسلم پرسنل لا بورڈ کے ذریعے داخل کیا گیا یہ حلف نامہ ان کے ذریعے کیا گیا اعتراف ہے کہ طلاقِ ثلاثہ قطعی غلط اور قابلِ تعزیر فعل ہے اور اسے جاری نہیں رہنا چاہئیے تو اس کی آسان ترین ترکیب اور حل تو یہی ہو گا کہ سپریم کورٹ اسے غیر آئینی قرار دے کر ساقط کردے اور حکومت قانون بنا کر اسے جرم قرار دے ۔
URL:
New Age Islam, Islam Online, Islamic Website, African Muslim News, Arab World News, South Asia News, Indian Muslim News, World Muslim News, Women in Islam, Islamic Feminism, Arab Women, Women In Arab, Islamophobia in America, Muslim Women in West, Islam Women and Feminism