اداریہ
موجودہ حکومت مبارکباد کی مستحق ہے کہ وزیر اعظم سمیت تمام گورنروں ،وزیروں ، مشیروں نے واضح طو رپر وی آئی پی کلچر کو خیر باد کہ دیا ہے اور یہ حقیقت تمام میڈیا کوریج اور فوٹنگز میں بآسانی دیکھی جاسکتی ہے۔ کیونکہ ضرب المثل موجو د ہے کہ ’’ الناس علیٰ دین ملوکھم ‘‘ ، اس لئے یہ امید کی جاسکتی ہے کہ معاشرے کی مقتدرین کی اس روش کی پیروی کرتے ہوئے پورے معاشرے میں اس روش یا کلچر کے خلاف مزاحمت پیدا ہوتی جائے گی اور رفتہ رفتہ معاشرے سے وی آئی پی کلچر کا خاتمہ ممکن ہوسکے گا۔
تا ہم یہ حقیقت بھی ہم سب کے سامنے ہے کہ سابقہ حکمران ٹولے کے سربراہوں کی معزولیوں ، گرفتاریوں اور ناہلیوں کے باوجودبھی انہیں اس قبیح کلچر کی پیروی کرنے سے روکا نہیں جاسکا ۔ سزا یافتہ قیدی اور بد عنوانیوں کے الزامات کے شکار یہ سابقہ حکمران ، جو دراصل انتہائی زیرک مجرموں کا ایک ٹولہ ہے ، آج بھی عدالتوں میں بڑے طمطراق سے حاضریاں دیتے دیکھے جاتے ہیں اور انصاف کے منتظر عوام کو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ یہی مجرم آج بھی ملک کے حکمران ہیں۔ اس پاک وطن کے سوا بھلا روئے زمین پر کہیں او ربھی ایسا منظر دیکھنا ممکن ہے کہ قومی دولت لوٹنے والے سفاک مجرم جن کے نامہ اعمال میں اپنی ہی قوم کو اقوام کی برادری میں ارذل ترین سطح پر گرا دینے کا گناہ بھی شامل ہے، آج بھی جیلوں سے نکل کر مہنگی ترین گاڑیوں میں اوراپنے کاسہ لیسوں کی ہمراہی میں ایک جلوس کی مانند عدالتوں کا تفریحی وزٹ کریں، اور پھر اسی طمطراق سے جیلوں کو واپس تشریف لے جائیں؟ جب بھی چاہیں ،وی آئی پی ہسپتالوں میں داخل کر دیے جائیں، یا ان کے مخصوص علاج کے لیے ڈاکٹروں کے بورڈ قائم کر دیے جائیں؟ علاوہ ازیں ان بدترین قومی مجرموں کو جیلوں میں ایر کنڈیشننگ ، فرنیچر ، گھروں سے اشیائے خورد و نوش منگوانے ، سیل فورنز استعمال کرنے اور ہفتہ وار اپنے تمام احباب سے کھلی ملاقات جیسی سہولیات کی عام اجازت ہے۔ اور مزے کی بات یہ کہ ان کی ملاقاتیں دیگر عام قیدیوں کے بر عکس جیل کے سربراہ کے سجے سجائے دفاتر میں قیمتی صوفوں پر بیٹھ کر کی جائیں۔
یہ بھی نوٹ کیا گیا کہ انصاف کی دعوے دار حکومت کے تحت او رایک انتہائی نیک نام اور فعال عدالت عظمیٰ کی موجودگی میں ایک ایسے ٹی وی اینکر کو جو اعلیٰ تعلیم یافتہ ، انتہائی نیک نام اورمہذب انسان ہے اور پی ٹی وی کا منیجنگ ڈائریکٹر بھی رہ چکا ہے، ہتھکڑیاں لگائے عدالتوں میں پیشی کے لیے لایا جاتا ہے!!! تحریک انصاف کی حکومت میں ایسا تضاد اور امتیاز جو تمام انسانی حقوق و اقدار کے منافی ہے سوچا بھی نہیں جاسکتا تھا۔ واضح رہے کہ یہ ٹی وی اینکر ہے جس پر بد عنوانی کاالزام ثابت نہیں کیا جاسکا اور جو پی ٹی وی کی سربراہی کی مختصر مدّت میں شاید اپنی لاعلمی کے باعث ایک ٹینڈر کو منظور کرنے میں زیادہ سے زیادہ کسی دفتر قاعدے کی بے ضابطگی کاشکار پایا گیا ہے۔ یہ بھی یاد رہے کہ یہ اینکر قومی مجرموں او رلٹیروں کو بے نقاب کرنے میں تمام اینکر برادری میں اوّل درجے پر فائز ہے اور پاکستان کی تاریخ میں سب سے زیادہ عوامی مقبولیت اور سب سے اونچی ریٹنگ کا حامل ہے۔ یہ فاضل اینکر اس سے قبل بھی حکمران مافیاوں کی زد میں آچکا ہے جب اس نے اپنی جان کی پروا نہ کرتے ہوئے معصوم بچوں کے ساتھ جنسی درندگی کرنے والے اور اس سارے عمل کی ویڈیو فلمیں تیار کرنے والے گروہوں کی نشان دہی کی تھی، او ریہ بااثر ٹولہ اس کا دشمن بن گیاتھا، اور بزور طاقت اس کی زبان بندی کروادی گئی تھی۔ اس زبان بندی کی کچھ ماہ بعد ہی اس اینکر کی انکشاف کردہ کہانی کی حقیقت یوں ثابت ہوگئی کہ اداروں نے اب تک سینکڑوں نہیں بلکہ ہزاروں کی تعداد میں ایسی ویڈیوز پکڑلی ہیں جن میں بچوں کے ساتھ جنسی درندگی کے مناظر فلمائے گئے ہیں۔ یہ واحد اینکر ہے جو اپنی تحقیقی کاوشوں اور وطن پرستی کے باعث ایک قومی ہیرو کا درجہ رکھا ہے۔ کیا ہمیں موجودہ حکومت کے تحت بھی اس پاک وطن میں انسانی حقوق و اقدار کا اسی طرح خون ہوتے ہوئے دیکھنا ہوگا جیسا کہ سابقہ ادوار میں ہم سب خون کے گھونٹ پی کر برداشت کرتے رہے ہیں؟ کیا آج بھی پاک وطن میں عزت و احترام کی کسوٹی بے پناہ دولت ہی ہے خواہ وہ عوام و ریاست کے ساتھ فراڈ کر کے لوٹی گئی دولت ہو؟
اس مخصوص واقعے کے علاوہ بھی وطن عزیز میں اب تک جاری و ساری وی آئی پی کلچر کی کئی مثالیں آئے دن ہمارے سامنے آتی رہتی ہیں جن پر حکومت وقت کو فوری توجہ دینے کی ضرورت ہے ۔ شکایات سیل قائم تو کردیے گئے ہیں، لیکن ان کے ذریعے کوئی عام فریادی کہا ں تک اپنی شکایت ارباب اقتدار تک پہنچاپاتا ہے ، یہ ایک بڑا سوال ہے۔ کیا عوام کی جانب سے آنے والی شکایات کو ذیلی بیورو کریسی مانیٹر کرتی ہے اور بہت سے شکایات اوپر تک جانے ہی نہیں دی جاتیں کہ ان پر کوئی ایکشن لیا جاسکے ؟ ہمارے ارد گرد بہت سے ایسی شہری موجود ہیں جو طاقتور لوگوں کے ظلم و ستم اور زیادتیوں کا شکار ہیں اور مقامی پولیس سے لے کر ضلعی انتظامیہ اور عدالتوں تک درخواستیں لگا چکے ہیں۔ لیکن کوئی ان کی مدد کو نہیں آتا ۔ اس کے برعکس جو بھی میڈیا میں تھوڑا بہت اثر و رسوخ رکھتا ہے ، وہ اپنی شکایت کی تشہیر کروا کر اپنا مسئلہ اونچی سطح پر حل کروالینے میں کامیاب ہوجاتا ہے۔
جس مبنی برانصاف مساوات کانعرہ لگا کر موجودہ حکومت برسراقتدار آئی ہے، اس کی کچھ جھلکیاں تو بعض اہم واقعات سے نظر آجاتی ہیں،لیکن اگر اس روٹس لیول تک انصاف اور مساوات کا پہنچ جاناابھی ایک طویل المیعاد ہدف ہی کی حیثیت رکھتا ہے ۔ ہمیں اس بات کا بخوبی ادراک ہے کہ موجودہ حکومت ابھی صرف چندہ ماہ ہی گذار پائی ہے۔ ایک بڑی تبدیلی لانے کے لیے یہ بہت ہی کم وقت ہے، لیکن کم از کم ثابت شدہ اور سزا یافتہ مجرموں کا طمطراق اور ان کے ساتھ وی آئی پی سلوک کا توفی الفور خاتمہ کیا جاسکتا ہے۔ کم از کم بدترین قومی مجرموں کو کھلے ہاتھوں آزادی کیساتھ عدالتوں میں پیش کرنا اور ایک اعلیٰ تعلیم یافتہ ملزم کو جس کا سابقہ کردار کسی جرم کا آئینہ دار نہیں ، ہتھکڑی لگا کر پبلک میں پیش کرنے جیسا امتیازی سلوک تو فی الفور بند کیا جاسکتا ہے۔ کم از کم ارباب اقتدار یہ تو سوچیں کہ بین الاقوامی سطح پر قومی مجرموں کے اس وی آئی پی کلچر کے استحقاق سے وطن عزیز اور خود موجودہ حکومت کے بارے میں کیا رائے قائم کی جارہی ہوگی۔
ایک بار پھر عرض کردی جاتی ہے کہ قومی مجرموں اور جیلوں میں بنددولت مند سابقہ حکمرانوں کو آج بھی وی آئی پی کلچر بر قرار رکھنے کا استحقاق دینا ہمارے قومی مذاق کا ایک ایسا مظاہرہ ہے جو نہ ہی عقل و دانش کی کسی کسوٹی پر پورا اترتا ہے، نہ ہی کوئی قانونی، شرعی اور اخلاقی جواز رکھتا ہے اور نہ ہی اسے دنیا میں کہیں بھی شرف قبولیت حاصل ہوسکتا ہے ۔ بلکہ اس کے برعکس یہ ہماری قوم اور ہماری حکومت کو دنیا میں تمسخر کا نشانہ بنانے میں ایک اہم کردار ادا کررہا ہے۔ کیا ہم پی ٹی آئی کی حکومت میں بھی خود کو اسی طرح مذاق کا نشانہ بنواتے رہیں گے؟ کیا ہم آج کے بدترین قومی منظر نامے میں بھی سابقہ دور ظلمات کے ایسے تماشے بر قرار رکھنے کے متحمل ہیں جن کے باعث عوام کا صبر و ضبط اپنی آخری حدوں کو پہنچ چکا ہے؟
فروری،2019، بشکریہ: ماہنامہ صوت الحق ، کراچی
URL: https://www.newageislam.com/urdu-section/vip-culture-/d/117727
New Age Islam, Islam Online, Islamic Website, African Muslim News, Arab World News, South Asia News, Indian Muslim News, World Muslim News, Women in Islam, Islamic Feminism, Arab Women, Women In Arab, Islamophobia in America, Muslim Women in West, Islam Women and Feminism