فرہاد صاحب: چند سوالات ہیں جن کی وجہ سے الجھن میں ہوں ۔ آپ سے مدد کی درخواست ہے ۔ کافی عرصہ بعد آپ کو زحمت دے رہا ہوں ۔ ہمارے اساتذہ کہتے ہیں کہ جو نماز اب پڑھی جاتی ہے یہ وہی نماز ہے جو حضور صلی اللہ علیہ وسلم بھی پڑھتے تھے ۔ مگر اس میں التحیات و صلوٰۃ و طیبات کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر سلام بھیجا جاتا ہے ( اَلسَّلَام عَلَیْکَ یَا اَیَّھَا اَلْنَّبِی) اگر حضور صلی اللہ علیہ وسلم بھی یہی نماز پڑھتے تھے تو وہ صلی اللہ علیہ وسلم کسی نبی پر سلام بھیجتے ہوں گے؟ ۔ جواب سےنواز ئیے گا ۔ اور درود کے معنے کیا ہے؟ یہ کیوں حضور صلی اللہ علیہ وسلم پر بھیجا جاتا ہے ۔ یہاں تک کہ اللہ او رملائک بھی رسول علیہ السلام پر درود او رسلام بھیجتے ہیں ۔ ا س کا جواز قرآن کریم کی آیت ( 33:56 ) سے لیتے ہیں ۔ (إِنَّ اللَّهَ وَمَلَائِكَتَهُ يُصَلُّونَ عَلَى النَّبِيِّ ۚ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا صَلُّوا عَلَيْهِ وَسَلِّمُوا تَسْلِيمًا) درود۔ تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے اللہ سے برکت ( اللہ ھم بارک علی محمداً) اور رحمت طلب کرنا ہے۔ جو ہم تو اللہ سے طلب کرتے رہتے ہیں مگر اللہ او رملائک کس سے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے برکت طلب کرتے ہیں ؟ ۔ یہ آیات کریمہ دوران خطبہ پڑھ لے تو پوری مسجد درود سے گونج اٹھتی ہے ۔ جواب کا منتظر ۔
عبدالخالق بارہ بانڈوی دارالعلوم ....... ملتان
عبدالخالق بارہ بانڈی صاحب! چاہیے تو یہ تھا کہ آپ اپنے قریب اساتذہ یاکسی مولوی صاحب سے پوچھتے وہ ان موضوعات میں ماہر ہوتے ہیں ،یہ جڑے حساس موضوعات ہوتے ہیں ہر ایک ان سے پہلو تہی کرتا ہے۔سب سے بڑا ظلم یہ ہے کہ کسی چیز کا نام بدل دیا جائے ۔ مثلاً راستے میں سانپ ہے۔ اگر آپ کسی راہ گیر کو کہیں کہ آگے سانپ ہے تو وہ ممکنہ خطرے سے محتاط ہوکر خطرے سے محفوظ بھی رہ سکتا ہے ۔ لیکن اگر آپ سانپ کے بجائے رسّی کہہ دیں تو وہ بے دھڑک آگے بڑھے گا اور نقصان اٹھائے گا ۔ و ایضاً اللہ کو اللہ کہنا ہی درست ہے جب ہمارے ایک دوست نے لندن میں انگریز عورت سے شادی کرنا چاہی تو پادری نے پوچھا بچے کس مذہب پرہوں گے؟۔
عورت نے کہا یہ ان کی مرضی پر منحصر ہے ۔ ویسے ہمارا اور مسلمانوں کا God تو ایک ہی ہے ۔ پادری نے کہا ایک نہیں ہے ان کا اللہ انسانوں سے لاتعلق ہے جب کہ گاڈ کی اولاد بھی ہے۔ ملاحظہ فرمایا جب اللہ کا نام بدل دیا تو اللہ سبحانہ تعالیٰ کو صاحب اولاد بنا دیا ۔ یہی حال اہل فارس کے خدا کا ہے ، خدا زمیندار کو کہتے ہیں ۔ علامہ اقبال فرماتے ہیں ۔۔۔۔ وہ خدا یا یہ زمین تیری نہیں میری نہیں ۔ زمیندار سے مخاطب ہیں ۔
ملاحظہ فرمایا ذرا سا نام بدلا، کیا سے کیا بن گیا ۔ قرآنی صلوٰۃ کا ہر حرف بدل کر نماز بن چکا ہے۔ صلوٰۃ ، نماز ۔ رکوع، نماز۔ سجدہ، نماز۔ یہاں تک ان فرضوں کی ادائیگی سے ان کے بقول اللہ تعالیٰ کے تمام احکام کی تکمیل ہوجاتی ہے۔ لیکن قرآنی صلوٰۃ تو قرآن کریم کی چوکھٹ میں زندگی گزارنے کے قوانین ، اصول اور ڈھنگ سکھاتی ہے ۔ اور نماز یہی ہے جو ہم مسجد میں جاکر پڑھتے ہیں ۔ پڑوسی کے ساتھ آپ کا کیا برتاؤ ہونا چاہئے ، اگر آپ اولاد ہیں تو والدین کے ساتھ آپ کا کیا رویہ ہونا چاہئے، اگر آپ والدین ہیں تو اولاد کے ساتھ آپ کیسے پیش آئیں گے؟ آپ کے کیا فرائض ہیں؟ اگر آپ نوکر ہیں تو مالک کے ساتھ آپ کا کیا رویہ ہوناچاہئے ، اگر آپ مالک ہیں تو نوکر وں کے ساتھ کیسا رویہ رکھیں گے ۔ یہ سب چیزیں آپ کو قرآنی صلوٰۃ سکھائے گی۔
رہی نماز تو آپ کی جیب میں رشوت کے نوٹ ہیں، آپ جوا کھیل کر آئے ہیں اگر اجنبی نہیں ہیں، وضو کیا ہے کپڑے پاک صاف ہیں ،قبلہ رو ہیں،تو کسی مولوی سے پوچھئے آپ کی نماز ہوجائے گی۔ نماز کےلئے جو شرائط ہیں اگر وہ پوری ہیں تو نماز ہوجاتی ہے صلوٰۃ نہیں ہوتی۔
آیت ( 33:56) کامسئلہ کچھ یوں ہے کہ اُردن مسیحیت کا مرکز ہے عیسیٰ علیہ السلام کی جائے پیدائش ہے میرے ساتھ فورس میں کافی تعداد میں مسیحی تھے وہ جب بھی چرچ جاتے تھے تو یہی کہتے تھے راح اصلّی میں صلوٰۃ کے لئے جارہا ہوں دعاء کےلئے بھی یہی لفظ استعمال ہوتا ہے اور عبادت کےلئے بھی ۔ سلم سلام کے معنی ہیں Peace امن کے اور تسلیم کے معنی ہیں Surrender اس کا رواں ترجمہ اس طرح کیا جاتا ہے ۔ ‘‘بے شک اللہ اور اس کے فرشتے نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر درود بھیجتے ہیں۔ اے ایمان والوں تم ( بھی) ان پر درود بھیجو اور خوب سلام بھیجو’’ ۔ ( ترجمہ حافظ نذر احمد ۔ اب اس ترجمے پر غور فرمائیے ۔‘‘ اللہ اور اُس کے فرشتے نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر درود بھیجتے ہیں اے ایمان والوں ! تم بھی اس پر درود بھیجو ۔’’ یعنی جس کام کاحکم مومنین کو دیا جارہا ہے وہی کام اللہ خود بھی اور ملائک بھی انجام دے رہے ہیں ۔مومن بھی درود پڑھ رہے ہیں ، اللہ بھی درود پڑھ رہا ہے۔ اس اعتبار سے دونوں ایک ہی کام کررہے ہیں ۔ مومن بھی دعا کررہے ہیں ۔ اللہ بھی دعا کررہے ہیں ۔ سوال یہ ہے کہ مومن تو اللہ سے دُعا کررہے ہیں لیکن اللہ کس سے دُعا کررہے ہیں؟ اور اگر اللہ بھی دُعا کررہا ہے تو دُعا کرنے والا عاجز ہوتاہے۔ التجا کررہا ہوتا ہے ۔ تو کیا معاذ اللہ ، اللہ بھی ............ إِنَّ اللَّهَ وَمَلَائِكَتَهُ يُصَلُّونَ عَلَى النَّبِيِّ ۚ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا صَلُّوا عَلَيْهِ وَسَلِّمُوا تَسْلِيمًا ( 33:56)
متذکرہ بالا آیات کارواں ترجمہ ہے۔ ‘‘ میں او رمیرے فرشتے نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر درود بھیجتے ہیں تم لوگ بھی بھیجا کرو۔’’ قرآن میں درود بھیجنے کاذکر نہیں ، بلکہ ‘‘صلو’’ کرنے کا حکم ہے اور ‘‘صل’’ کامطلب ہے ۔ حمایت اور نصرت کرنا، منسلک و متمسک رہنا، اطاعت و مددگار ہیں چنانچہ تم بھی اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی حمایت و اعانت کرو اور اس کی مکمل اطاعت بجا لاؤ۔ اس کی مدد و نصرت کرو۔ اس سے والہانہ وابستگی اختیار کرو، اس سے پوری طرح منسلک و متمسک ہوجاؤ ۔ پوری آیت کا صحیح مفہوم یہ ہے ۔ ‘‘ اس سے منسلک رہو اور اطاعت بجا لاؤ تسلیم و رضا کے ساتھ ( احزاب :57) صلی اللہ علیہ وسلم کا ترجمہ ہے ( GOD BLESSING AND PEACE BE UPON HIM) رہا ‘‘درود’’ تو وہ پورے قرآن میں کہیں نہیں آیا ہے کیونکہ یہ عربی نہیں فارسی کالفظ ہے ۔ جو ‘‘دردن’’ سے نکلا ہے ۔ میرے ساتھ اردنی مسیحی تھے وہ جب بھی چرچ جاتے تھے کہتے تھے راح اصلی صلو کا لفظ عبادت کے لئے بھی استعمال ہوتا ہے۔
ہمارے ہاں عبد یا عبادت پر ستش کے لئے استعمال ہوتاہے مگر عرب اس لفظ کو فرمانبردار ی کے لئے استعمال کرتے ہیں ۔ میں نے تیس سالہ زندگی میں کسی عبد کو مالک کے سامنے سجد ہ ریز نہیں دیکھا البتہ احکام بجا لاتے ضرور دیکھا ہے۔
جولائی ، 2014 بشکریہ : ماہنامہ صوت الحق ، کراچی
URL:
https://newageislam.com/urdu-section/true-meaning-darud-salam-/d/98434