ادارریہ
درج بالا عنوان میں شامل دونوں معروضی حقیقتیں انسانی تاریخ کے حوالے سے باہم ممدومعاون عناصر کے طور پر سامنے آتی ہیں ۔ یعنی حکمرانوں کی ھوس زر ہمیشہ نےلگامی کی حد تک اسی قوم میں جا پہنچتی ہے جہاں عوامی بے حسی بدرجہ اتم موجود ہو او رکوئی موثر عوامی تحریک زبانی یا عملی طور پر انہیں روکنے کے لئے برپا کی جاسکے ۔ دوسری جانب تصویر کا دوسرارخ بھی ہے، جس کےمطابق عوام کو بھوک اور افلاس کے ذریعہ الام و مصائب کی چکی میں پیستے ہوئے اتنا بے بس اور بےوسائل کردیا جاتا ہے کہ وہ خود پر ایک مصنو عی بے حسی طاری کرنے پر مجبور ہوجائیں او رپھر صو رت حال حکمران طبقے کو بلا روک ٹوک قومی وسائل لوٹنے کا موقع فراہم کر دے ۔ معاشروں میں پیدا کردہ ایسی منفی کیفیت میں قوم کے اکثر دانشوروں کے لئے یہ فیصلہ کرنا مشکل ہوجایا کرتا ہے کہ اس قومی المیے میں زیادہ قصوروار کس کو ٹھہرایا جائے ۔۔۔۔۔ لوٹ مار کرنے والے بے ضمیر اور غدار حکمران طبقے کو ۔۔۔ یا عوامی بےحسی او ربے غیرتی کو ؟؟؟؟ ایک جانب تغلب کی حیوانی ہوتی ہے تو دوسری جانب بے بسی سےپیدا بزدلی کادیمک؟
ہمارے حکمران طبقے کی اسی بے لگام ہوس زر کے باعث وطن عزیز وقت کے اس اہم او رنازک موڑ پر ایک طوفان برپا کردینے والے بین الاقوامی مالیتی اسکینڈل سے دو چار ہے۔ پانامہ میں جانائز دولت کوچھپانے میں مدد دینے والی ایک قانونی فرم کے ریکارڈ کا سامنے آجانا ایک وسیع البنیاد زلزلے کی کیفیت پیدا کرچکا ہے ۔ اس ٹیکس فری سٹیشین پر جوبے شمار آف شوزکمپنیاں اس فرم کے توسط سےکھلوائی گئی ہیں ان کی آڑ میں غصب کی ہوئی دولت کے انکشاف نے لندن او رمغرب کےدیگر ترقی یافتہ ممالک کےدارلحکومتوں میں شدید ارتعاش کی لہریں پھیلادی ہیں ۔ کچھ وزرائے اعظم استعفے دینے کی حد تک پہنچ چکے ہیں اور دیگر کے خلاف عوامی احتجاج کا طوفان برپا ہے۔
دور حاضر کے اس عظیم اسکینڈل میں پاکستان کا سربراہ مملکت برارہ راست ملوث پایا گیا ہے جس پر ناجائز دولت لوٹ کر اپنے تینوں بچوں کے نام پر آف شور کمپنیوں کی اڑ میں چھپانے کاالزام ہے۔ اب تک تمام تر ثبوت ، بیانات اور شواہد نیز انہی حکمرانوں کے تحت ملک کے طول و عرض میں ہر شعبے میں پھیلی کرپشن اس الزام کو درست ثابت کرچکے ہیں ۔ خود حکمران خاندان کی بد حواسیاں او رہنگامی حالات میں سب کی بیرون ملک روانگی او رباہم متضاذ و متخالف نوعیت کے جاری کر دہ بیانات بہت سی پھیلی ہوئی کہانیوں کو حقیقت کے دائرہ میں لارہے ہیں ۔ انکشاف و انکشاف اور حتمی دریافتوں کا ایک سیلاب روزانہ کی بنیاد پر اُمڈا چلا آتا ہے۔ہرنئی دریافت غریب عوام کو جو دو وقت کی روٹی سے محروم ہیں اور پاکستان کی تاریخ کےسفاک ترین ٹیکسز کا شکار بنا دیئے گئے ہیں، دانتوں میں انگلیاں دینے پر مجبور کردیتی ہے۔
وزیر اعظم صاحب کے تینوں بچے یہ سطور ضبط تحریر میں لانے کے وقت تک نو (9) آف شور کمپنیوں کےمالک بتائے گئے ہیں جو لندن میں کم از کم چھ انتہائی قیمتی جائیدادوں کی ملکیت رکھتی ہیں ۔ پنجاب کے وزیر اعلیٰ شہباز شریف کے دو رشتے داروں ثمینہ درانی اور الیاس معراج کے نام سات (7) آف شور کمپنیوں کے ساتھ جوڑے گئے ہیں ۔ وزیر اعظم کی صاحبزادی نے ٹویٹر پر اپنے بیانات میں تمام الزامات سےانکار کیا ہے، لیکن اسی اثناء میں ان کے بھائی حسین نواز نےان کمپنیوں کی ملکیت کا اقرار کرتے ہوئے موقف اختیار کیا ہے کہ ایسا کوئی ناکوئی غیر قانونی کام نہیں ہے۔ اگر چہ ایک آف شور کمپنی کا مالک ہونابذات خود کوئی غیر قانونی کام نہیں ہے ، لیکن سب جانتےہیں کہ یہ عمل عمومی طور پر فراڈ او رٹیکس چوری کے ساتھ ساتھ دیگر تمام اقسام کی مالیاتی کرپشن بشمول منی لانڈرنگ کے ساتھ جڑا ہوا ہے۔ وزیر اعظم کےساتھ ساتھ اب تک 200 دیگر پاکستانیوں کےنام بھی ان انکشافات کے ذریعے سامنے آئے ہیں جو پانامہ میں آف شور کمپنیوں کےمالکان ہیں ۔ ان پاکستانی حضرات میں سیاست دان، صنعت کار اور تاجر شامل ہیں۔ سابق صدر اوربھٹو فیملی کے کچھ دیگر افراد کے نام بھی پانامہ سکینڈل کی لسٹ میں شامل ہیں ۔ اس پر مستزادیہ کہ ٹرانسٹپیر ینسی انٹر نیشنل پاکستان کے ریکارڈ کے مطابق سرکاری اداروں کےبھی آف شور اکاونٹس موجود ہیں جن میں قومی ایئر لائن پی آئی اے کے اکاونٹس بھی شامل ہیں جو آئر لینڈ کےکچھ بینکوں میں کھولے گئے ہیں ۔ خاص خبر بتائی گئی کہ ان آف شوراکاونٹس کا فائدہ ادارے کو نہیں ہوتابلکہ یہ فائدہ چندمخصوص افراد نجی طور پر حاصل کرتے ہیں ۔ معاذ اللہ۔
وزیر اعظم نواز شریف اس معاملے کی تحقیقات کے لئے ایک عدالتی کمیشن قائم کرنے کےلئے تیار ہوگئے ہیں ۔ البتہ کمیشن کے قیام کامسئلہ کافی پیچیدہ ثابت ہورہا ہے ۔ اب تک کئی سینیئر لیکن ریٹائر ججز کوباری باری یہ ذمہ داری سونپنے کااعلان کیا جاچکا ہے اور تقریباً تمام ججز نے اس پیشکش کو رد کردیا ہے۔ اپوزیشن پارٹیاں اپنے الگ تحفظات رکھتی ہیں اور کسی ایسے کمیشن کو تسلیم کرنے کے لئے تیار نہیں جو حکومت کا قائم کردہ ہو اور جس کی تشکیل میں اپوزیشن کا اتفاق رائے شامل نہ ہو۔ عمران خان کا موقف ہےکہ ریٹائرڈ ججز کی سربراہی میں بننے والا کمیشن قوم کے ساتھ مذاق ہوگا۔ انہوں نے چیف جسٹس کی سربراہی میں کمیشن قائم کرنے کی سفارش کی ہے۔ یہ خبر بھی قابل غور ہے کہ تحریک انصاف سے متعلق آف شور کمپنی قائم کرنے والا واحد نام عبدالعلیم خان کی صورت میں سامنے آیا ہے او ریہ وہ واحد سیاست دان ہے جس نے اپنی ٹیکس ریٹرن میں اس کمپنی کا وجو داپنی ملکیت کے ساتھ قبل ازیں ہی ڈکلیر کردیا ہے۔ ایف بی آر نے البتہ اپنے طور پر ٹیکس چوری کے مدعے کو لے کر اس معاملے میں تحقیقات شروع کرنے کا ارادہ ظاہر کیا ہے اور اس سلسلے میں یہ ادارہ ان تمام 200 ناموں کو نوٹس بھیجنے کا آغاز کرنے والا ہے جن کےنام پانامہ لیکس میں ظاہر کئے گئے ہیں ۔معروف سیاسی لیڈر اعتزاز احسن کا کہنا ہے کہ اگر نواز شریف اتفاق گروپ اوراپنے خاندان کے تمام اثاثے ڈکلیر کردیں تو معاملہ کلیر ہوسکتا ہے ۔ آرمی چیف نےاس انتہائی گھمبیر قومی مسئلے پر بیان دیتے ہوئے کہا ہے کہ پاکستان کی ترقی اور سالمیت کےلئے بلا امتیاز احتساب ہوناچاہئے ۔ انہوں نے کہا کہ کرپشن کے خاتمے تک ملک میں امن و امان کاقیام ممکن نہیں ۔ انہوں نے بلا استثناء احتساب ہی کو دہشت گردی کے موثر اور دیر پا حل سے تعبیر کیا ہے جو ہمارے کرپشن میں لت پت ارباب اقتدار و اختیار کے لئے ڈوب مرنے کامقام ہے۔ یہ ہماری انتظامیہ کے وہ ذمہ داران ہیں جو انتہائی باوثوق سرکاری ذرائع کے مطابق صرف سرکاری شعبے میں 15 ارب روپے روزانہ کی شرح سے قومی و سائل کی مسلسل لوٹ مار کے ذمہ دار ہیں۔
حقیقین کے مطابق زرعی دور کی ابتداء ہی سے جو 8000 قبل مسیح سے شروع ہوا، دنیاوی معاشروں میں سر مایہ داری نظام چلا آتا ہے جس کی بنیاد ہی اکتناز وارتکاز دولت پررکھی جاتی ہے ۔ اکتناز دولت فالتو پیداوار اور بے تحاشہ منافعوں کی بنیاد پر دولت میں بے اندازہ اضافوں کے ذریعے حاصل کیا جاتاہے اور اس مقصد کےلئے ہر قسم کے استحصال ہتھکنڈے استعمال کرتے ہوئے معاشرے کے کمزور طبقات کو لوٹا جاتا ہے اور انہیں ملکی و سائل میں سے ان کےجائز حقوق سے محروم رکھا جاتا ہے ۔ اس طریقے سے دولت پرست لوگ کمال خود غرضی او رلالچ کےذریعے مالی و سیاسی طاقت حاصل کرتے ہوئے حکومتوں پر قابض ہوجاتےہیں اور انسانیت ان کی کبھی نہ ختم ہونے والی ہوس کے باعث چیختی چلاتی رہ جاتی ہے۔ عوام کی ان محرو میوں ا ور مصائب پر یہ زر پرس لوگ خوش ہوتے ہیں اور دولت اور اقتدار کانشہ انہیں اندھا کرتے ہوئے ذلت کی راہ نیچے ہی نیچے لئے چلا جاتاہے ۔ حتیٰ کہ مادی زندگی کے جسمانی عیش و آرام کا خاتمہ کردینے والی موت انہیں آدبوچتی ہے اور آخر کا ر دائمی روحانی عذاب ان کا مقدر بن جاتا ہے۔
ہمارے خالق و مالک نے اسی صورت حالات کا مداواکرنے کےلئے انسانی معاشروں میں وقتاً فوقتاً اپنے بزگزیدہ بندوں کو اپنا پیغام بر مقرر کیا اور مقدس صحائف نازل فرمائے، جنہیں اس ذات پاک نے آخری صحیفے قرآن میں ھُدی Hudan کانام دیا ہے۔ عربی زبان کی لسانی گہرائیوں میں اترنے کےبعد یہ خاص لفظ ‘‘ایک دائمی ضابطہ کردار’’ کے معانی سے تعبیر ہوتا ہے۔باکردار انسانوں کو ہوس زر سے دور کھنے کےلئے اللہ تعالیٰ نے دولت پرست لوگوں کو مخاطب کرتے ہوئے قرآن حکیم کی سورۃ 102 میں خوب پتے کی بات اس طرح بیان فرمائی ہے۔۔۔۔تکاثر یعنی کثرت مال و دولت کی ہوس تمہیں انسانیت کی سیدھی راہ سےبھٹکا دیتی ہے یہاں تک تم اسی تگ و دو میں اپنی قبروں میں جا ٹھہرتے ہو ۔ دوسرے مقامات پر اسی تکاثر یا ناجائز بڑھوتری کے خلاف قرآن حکیم میں ایک پورا موضوع ‘‘الربا’’ کےعنوان سے زیر بحث لایا گیا ہے جس میں ناجائز منافع خوری اور ظلم و استحصال کے ذریعے حاصل کی گئی بڑھوتری یا تکاثر کو حرام قرار دیا گیا ہے کیونکہ اسے مالوں میں بے تحاشااضافے کاناجائز ذریعہ اور ظلم قرار دیا گیا ہے۔ خزانوں او ر اموال میں اضافی رقوم جمع کرتے چلے جانے بجائے انسانوں کی پرورش و نشوو نما کےلئے مال خرچ کر دینے کو حقیقی اضافے کا ذریعہ قرار دیتے ہوئے ان الفاظ میں نصیحت فرمائی گئی ہے وَمَا آتَيْتُم مِّن رِّبًا لِّيَرْبُوَ فِي أَمْوَالِ النَّاسِ فَلَا يَرْبُو عِندَ اللَّـهِ ۖ وَمَا آتَيْتُم مِّن زَكَاةٍ تُرِيدُونَ وَجْهَ اللَّـهِ فَأُولَـٰئِكَ هُمُ الْمُضْعِفُونَ (39۔30)یعنی جو کچھ بھی اضافی رقوم (مِّن رِّبًا) تم اس مقصد کےلئے لگا دیتے ہو کہ وہ لوگوں کے اموال یعنی سرکاری خزانے (أَمْوَالِ النَّاسِ Public – exchequer) میں اضافے /بڑھوتری کا باعث بنیں (لِّيَرْبُوَ) تو جان لو کہ اللہ کے نزدیک وہ بالکل اضافہ یا بڑھوتری نہیں پاتا (فَلَا يَرْبُو )۔ لیکن جو کچھ بھی رقوم کی مدیں تم اُس ‘‘اموال الناس’’ میں سے اللہ کے احکام میں بجا آوری کےلئے (تُرِيدُونَ وَجْهَ اللَّـهِ ) سامان پرورش و نشوونما کی مد میں (مِّن زَكَاةٍ) عام کردیتےہو، تو بس وہی ہے جو خزانوں میں اضافے او ر بڑھوتری کا مآخذ و منبع و ذریعہ ہے (الْمُضْعِفُونَ) ’’۔ یعنی کھلے انداز میں اعلان کردیا گیا کہ ارتکازیا اکتنا ز دولت مطلوب و مقصود نہیں ، بلکہ دولت کو انسانوں کی فلاح وبہبود کےلئے خرچ کر دینا ہی حکومتوں کا نصب العین ہوناچاہئے۔
اس ہی کی مانند انسانوں او رقوموں کو اکتنا ز دولت سےروکنے کےلئے واضح احکامات سورۃ توبہ میں بھی نہایت راست انداز میں اس طرح پیش کئے گئے ہیں ۔ وَالَّذِينَ يَكْنِزُونَ الذَّهَبَ وَالْفِضَّةَ وَلَا يُنفِقُونَهَا فِي سَبِيلِ اللَّـهِ فَبَشِّرْهُم بِعَذَابٍ أَلِيمٍ 9۔34) يَوْمَ يُحْمَىٰ عَلَيْهَا فِي نَارِ جَهَنَّمَ فَتُكْوَىٰ بِهَا جِبَاهُهُمْ وَجُنُوبُهُمْ وَظُهُورُهُمْ ۖ هَـٰذَا مَا كَنَزْتُمْ لِأَنفُسِكُمْ فَذُوقُوا مَا كُنتُمْ تَكْنِزُونَ (9۔35) اور وہ لوگ جو ھوس زر کے تحت سوناچاندی کےڈھیر لگالیتے ہیں او رپھر اس دولت کو اللہ کے کاموں کےلئے کھلا نہیں چھو ڑ تے انہیں درد ناک عذاب کی بشارت دےدو ۔ وہ وقت دور نہیں جب وہ مال جہنم کی آگ تپایا جائے گا اور اس سے ان جمع کرنے والوں کی پیشانیاں پہلو اور پیٹھیں داغی جائیں گی او ر کہا جائے گا کہ یہ ہےجو تم نےاپنے لئے جمع کیا تھا ۔ سو اب اس کامزہ چکھو ۔ انتہائی عبرت کامقام ہے کہ یہ داغ ہماری اسی زندگی میں ، اسی روزانہ چمکتے ہوئے سورج کی زندگی بخش روشنی میں ہماری کھلی آ نکھوں سےسامنے ہماری طاقت کےنشے میں چور حکمرانوں کےچہروں پر لگ چکےہیں اور تمام دنیا محو تماشا ہے۔
ہمارا قاہر حکمران طبقہ یہ بھول چکاہے کہ سب سے برُا کھانا وہ ہے جو حرام ہو۔ اور سب سےبڑا ظلم وہ ہے جو ناتواں اور بے بس عوام پر کیا جائے۔ ہمارے وزیران باتدبیر اور امیر ان باتو قیر جو آمروں کے دسترخوانوں سے پس خوردہ کھانے کے شوقین ہیں ، یہ حقیقت فراموش کرچکے ہیں کہ قومی و سائل کی چوری اور عوام کےحقوق کا استحصال ایک ایسی دائمی ذلت و رسوائی کا راستہ ہے جس سےنہ دنیا میں کوئی مفر ہے نہ ہی آخر ت میں ۔ اسی لئے آج پاکستانی قوم عینی شاہد ہے کہ ہمارا حکمران طبقہ اپنی تمام تر ریاستی قوت قاہرہ او راربوں کھربوں کی جمع شدہ مال و دولت کے باوجود اس دنیا میں اب بقایا زندگی رسوائیوں اورجگ ہنسائیوں کے سیاہ داغوں کے ساتھ ہی بسر کرے گا۔ دنیا کے تمام ممالک میں محفوظ کیا گیا ان کا پرسنل ڈاٹا یا شخصی فائلیں ان کی سیاہ کر توتوں کے ریکارڈ سےبھری ہونگی ۔ ان کی اپنے حق میں دی جانے والی بے مغزدلیلیں اور فتنہ گر چالیں عوام کے ہونٹوں پر فقط ایک طنزیہ مسکراہٹ ہی پیدا کر سکیں گی۔ اگرچہ اللہ کے قانون میں ہر مجرم اور قوم کےلئے باز آفرینی کی گنجائش موجود ہے لیکن اس ذات عالی مقام کے واضح او رعبرت انگیز فرمودات کے بعد بھی ہمارا سرمایہ دار حکمران طبقہ اگر اکتناز دولت پر ہی اپنی توجہ مرکوز رکھتا ہے تو وہ صرف ملکی آئین و قانون کا مجرم ہے بلکہ جلد ہی وہ اللہ رب العزت کی بڑی عدالت میں بھی ایک بڑے مجرم کی صورت پیش ہونے والاہے جہاں فرار دیا بچاؤ کاکوئی راستہ کسی بھی انسان کو میسر نہیں ہے۔۔۔۔۔ فاعتبر ویا اولی الباب
جون ، 2016 بشکریہ : ماہنامہ صوت الحق ، کراچی
URL: