فرہاد صاحب! میرا سوال یہ ہے کہ انسان تقدیر کی زنجیروں میں بندھا ہوا ہے؟ وہ کتنی ہی کوشش کرے ہوگا وہی جو اس کی تقدیر میں لکھا ہے؟.....
مدعی لاکھ برا چاہے تو کیا ہوتا ہے
وہی ہوتاہے جو منظور خدا ہوتا ہے
اب تو میں بھی اس مقام پر پہنچ چکا ہوں کہ اگر کوئی چیز بھول جاؤں یا ضروری کام خراب ہوجائے تو اسے چھوڑ دیتا ہوں یہ سوچ کر کہ یہ کام میرے حق میں برا ہوگا جب ہی میں بھول آیا ہوں یا خراب ہوگیا ۔ تقدیر میں لکھا ہوگا اللہ کی یہی مرضی ہوگی ۔ کیا میری سوچ صحیح ہے؟ ۔ اس لئے کہ ابن ماجہ کی حدیث ہے۔
باب تقدیر (10) حدیث نمبر 76 صفحہ 56۔ میں ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ۔ تم میں سے ہر ایک کی تخلیق شکم مادر میں چالیس دن تک رکھا جاتاہے ، اس کی طرف ایک فرشتے کو بھیجتے ہیں جس کو چار باتوں کا حکم دیا جاتاہے ۔ اللہ فرماتے ہیں اس کا عمل ، عمر، رزق اور بد بخت ہونا یا خوش بخت ہونا لکھ دو۔ قسم ہے مجھے ذات کی جس کے قبضہ میں میری جان ہے، کوئی اہل جنت کے سے عمل کرتا ہے یہاں تک کہ اس کے اور اہل جنت کے درمیان ایک ہاتھ کا فیصلہ رہ جاتاہے تو لکھا ہوا اسی پر سبقت لے جاتا ہے اور وہ اہل جہنم کا سا عمل کر بیٹھتا ہے اور اس میں داخل ہوجاتا ہے ۔
اور کوئی اہل جہنم کے سے عمل کرتا ہے یہاں تک کہ اس کے اور جہنم کےدرمیان ایک ہاتھ کا فیصلہ رہ جاتاہے تو لکھا ہوا اس پر سبقت لے جاتاہے اور وہ اہل جنت کا سا عمل کر بیٹھتا ہے او روہ ( نتیجتاً ) جنت میں داخل ہوجاتا ہے ۔ ( کتاب فی الایمان حدیث 73 صفحہ 54)
فرہاد صاحب ! اگر حقیقت یہی ہے جو اوپر پڑھا تو انسان کیوں عمل صالح کرے جب پتہ لگ گیا کہ آخر میں سب کچھ عبث جائے گا ہوگا وہی جو رب جل جلالہ چاہے۔ تو کیوں نہ کشتی اور پتوار چھوڑ دیں کیوں محنت کریں ۔ ہم اس کنارے محنت کر کے پہنچنے والے ہوں کہ وہ قوی العزیز میں کھینچ کر اس کنارے پر لے آئے ۔ اور رب کا یہ ارشاد اس کےبرعکس ہے۔ فرمایا ۔ لَا أُضِيعُ عَمَلَ عَامِلٍ مِّنكُم مِّن ذَكَرٍ أَوْ أُنثَىٰ (3:195) تم میں سے کسی کا کوئی عمل ضائع نہیں ہوگا چاہے وہ مر د ہو یا عورت ۔ بتائے کیا کریں ۔ اللہ کا فرمان کہ تمہارا کوئی عمل ضائع نہیں ہوگا۔ رسول علیہ السلام فرماتے ہیں کہ کچھ بھی کرو۔ پہنچی وہیں پہ خاک جہاں کا خمیر تھا ۔
عبدالخالق بارہ بانڈوی دارالعلوم ملتان
عبدالخالق صاحب! بلاشبہ یہ روایت ہماری کتب میں ہے یہ فارس کی حکمت عملی ہے آپ کو اعمال صالح سے روک کر بے دست و پا کرنا اور جہنم کا مال بنانا ہے ۔ ہوشیار رہنا ان کی کمند کب سے آپ کے انتظار میں ہے ۔ حدیث بالا سے ایرانیوں نے ان مسلمانوں کو اسلام سے خارج کردیا جن کا عقیدہ یہ ہوکہ انسان اپنے افعال کا خود ذمہ دار ہے۔ البتہ اگر کسی کا یہ عقیدہ ہے کہ جو کچھ وہ کرتاہے وہ اللہ کرواتا ہے تو پھر وہ اسلام کے اندر ہے ۔ حالانکہ رب کا فرمان ہے ۔ تُصِبْهُمْ حَسَنَةٌ يَقُولُوا هَٰذِهِ مِنْ عِندِ اللَّهِ ۖ وَإِن تُصِبْهُمْ سَيِّئَةٌ يَقُولُوا هَٰذِهِ مِنْ عِندِكَ ۚ قُلْ كُلٌّ مِّنْ عِندِ اللَّهِ ۖ فَمَالِ هَٰؤُلَاءِ الْقَوْمِ لَا يَكَادُونَ يَفْقَهُونَ حَدِيثًا (4:78)
اگر انہیں کوئی فائدہ پہنچتا ہے تو کہتےہیں یہ اللہ کی جانب سے ہے ۔ اور جب انہیں کوئی نقصان پہنچتا ہے تو کہتے ہیں یہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی جانب سے ہے ۔ کہو سب کچھ اللہ کی جانب سے انسان کو برے اعمال کی پاداشت میں ہے ۔ آخر انہیں کیا ہوگیا ہے کہ کوئی بات ان کی سمجھ میں نہیں آتی ۔ اے انسان ۔ مَّا أَصَابَكَ مِنْ حَسَنَةٍ فَمِنَ اللَّهِ ۖ وَمَا أَصَابَكَ مِن سَيِّئَةٍ فَمِن نَّفْسِكَ ۚ وَأَرْسَلْنَاكَ لِلنَّاسِ رَسُولًا ۚ وَكَفَىٰ بِاللَّهِ شَهِيدًا (4:79) تجھے جو بھلائی ملتی ہے اللہ کی عنایت سےہوتی ہے اور جو مصیبت تجھ پر آتی ہے وہ تیرے ہاتھ کی کمائی ہے۔
اسلام کی انگوٹھی میں یہ نگینہ اس لئے جڑ دیا گیا ہے تاکہ ترقی یافتہ قوموں کے ساتھ مسلمان قدم ملا کر چلنے کے قابل ہی نہ رہے پچھڑ کر پیچھے رہ جائے۔ مسلمان کا بچہ جوان ، بوڑھا ، عورت مرد، امیر اور غریب ، پیر مرشد اور مرید سب تقدیر کے قائل ہیں ، ہر ایک یہی کہتا ملے گا کہ تقدیر کا لکھا ہوکر رہے گا ، نصیبوں میں جو لکھا ہے وہ تو ہوناہی ہے ۔ پڑوسی بھارت کہتاہے ‘‘ کرمن کی کھیت ایسی نیازی نا سمجھے سنساری ’’ قسمت کا لکھا ایسا حیران کن ہے جسے دنیا دار نہیں جانتے ؟
عام طور پر یہ کہا جاتاہے کہ پتہ بھی بغیر اس کے حکم کے نہیں ہلتا ، پھر اگر زید جھومتا ہےہوا طوائف کے کوٹھے کی طرف جائے تو کس کے حکم سے؟ ظاہر ہے اُسی کے حکم سے جس کے حکم کے بغیر پتہ بھی نہیں ہلتا ۔ تو پھر گناہ گار کیوں ٹھہرایا جاتاہے ۔ اگر ماجد شراب خانے کی طرف ہلتا ہوا جارہا ہے وہ کس کے حکم سے ؟ اگر حسن جواخانے کی طرف رواں دواں ہے تو اسے کون لئے جارہا ہے ؟ ظاہر ہے کہ وہی طاقت جس کے حکم کے بغیر ( بقول آپ کے ) پتہ نہیں ہل سکتا ۔ تو پھر عمل بد کی سزا ایک فرمانبردار کو کیوں دی جارہی ہے؟ کیا کسی نے ایسا مالک دیکھا ہے کہ غلام یا نوکر کو پانی لانے کو کہے جب وہ پانی لے آئے تو اسے سزا دے کہ پانی کیوں لایا ہے۔ اس طرح تو قرآن کا پورا فلسفہ جنت جہنم سزا سب کچھ عبث ہوکر رہ جاتاہے ۔ جو لکھ دیا گیا ہے وہ ہوکر رہے گا ۔ لکھے ہوئے کو انسانی کوششیں بدل نہیں سکتیں ۔
مثلاً ایک صاحب کا نوکر شہر میں نیا آیا ہے ۔ اتوار کے دن چھٹی ہوتی ہے مالک اسے لکھ کر دیتاہے کہ جاؤ گھومو پھرو سیر کرو دس بجے ہل پارک ، گیارہ بجے کلفٹن بارہ بجے چڑیا گھر ، ایک بجے نیپئر روڈ ( بازارِ حسن) ، دو بجے منگھو پیر۔ اب اگر وہ نوکر یا غلام ایک بجے نیپپر روڈ کے بدنام علاقہ میں گھومتا ہوا پایا گیا تو کیا اس کا مالک اُسے سزا دینے کا حق رکھتا ہے؟ ۔ نہیں اس لئے کہ اس کی سیر و تفریح دی گئی لسٹ کے مطابق تھی ۔ یہ اس کی فرماں برداری ہے۔ حکم عدولی نہیں ۔
ہاں اگر مالک نے لسٹ دے کر کہا ہوتا کہ جاؤ ان تمام تفریحی مقامات کی سیر کرو مگر ایک جگہ ہے نیپئر روڈ ( بازارِ حسن) وہاں مت جانا اگر تم وہاں پائے گئے تو سزا ملے گی پھر اگر نوکر وہاں پایا جائے تو مالک سزا دینے کا حق رکھتاہے ۔ ورنہ نہیں۔
اگر رب نے تقدیر میں لکھ دیا کہ 16 سال کی عمر میں فلاں زنا کا ارتکاب کرے گا، 17 سال کی عمر میں چوری کرے گا اور 22 سال کی عمر میں اپنے پڑوسی نور محمد کو چھری سے قتل کرےگا، اگر آپ کا یہ من گھڑت مفروضہ درست ہے ‘‘کہ پتہ بھی بغیر اس کے حکم کے نہیں ہلتا ’’ تو پھر یہ درست ہے کہ نور محمد کا قاتل جج کے سامنے چھری رکھ دے کہ نور محمد کو اس نے مارا ہے ۔ جج اگر روایتی مسلمان ہے تو وہ کہے گا بلاشبہ قاتل کاہاتھ نور محمد کے پیٹ میں نہیں گھسا چھری گھسی ہے لہٰذا سزا چھڑی کو ملنی چاہئے ، مگر جج کا فیصلہ کہ سزا اس کو ملے گی جس کےہاتھ میں چھری کادستہ تھا، پھر قاتل توو ہ چھری ہے جس کا دستہ رب کے مٹھی میں ہو اور رب کے ارادے سے حرکت میں آئی ہو ۔ تو قاتل کو سزا کیسی ؟ وہ تو اپنے مالک کا فرمانبردار ہوا؟۔
دوسری حدیث جو اوپر بیان کی گئی ہے ۔ باب تقدیر نمبر 76 صفحہ 56۔میں کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ۔ تم میں سے ہر ایک کی تخلیق شکم مادر میں چالیس دن تک رکھا جاتا ہے ، اس کی طرف ایک فرشتے کوبھیجتے ہیں جس کو چار باتوں کا حکم دیا جاتا ہے ۔ اللہ فرماتے ہیں اس کا عمل، عمر، رزق اور بد بخت ہونا یا خوش بخت ہونا لکھ دو۔ قسم ہے مجھے اس ذات کی جس کے قبضے میں میری جان ہے، کوئی اہل جنت کے سے عمل کرتا ہے یہاں تک کہ اس کے اور اہل جنت کے درمیان ایک ہاتھ کا فاصلہ رہ جاتاہے تو لکھا ہوا اس پر سبقت لے جاتاہے اور وہ اہل جہنم کا سا عمل کر بیٹھتا ہے اور اس میں داخل ہوجاتاہے۔
بتائیےاگر معاملہ یہی ہے کہ لکھا ہوا غالب آکر تمام اعمال صالح کو بہا کر لے جائے اور انسان خود نا کردہ گناہ کے طفیل جہنم کا ایندھن بنے زلزلہ زدگان کو جو دیا اور سوات کے متاثرین کی جو مدد کی ہے وہ بھی کسی کام نہ آئے، تو انسان کیوں ایسے کام کرے جس میں اس کا وقت ، محنت اور مال دولت بھی خرچ ہو اور ہاتھ کچھ نہ آئے ۔ اعوذ باللہ وہ عادل بادشاہ جو فرماتا ہے کہ میں نیکی ہو یا بدی ہو ذرّے ذرّے کا حساب کروں گا ۔ فَمَن يَعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ خَيْرًا يَرَهُ ، وَمَن يَعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ شَرًّا يَرَهُ (99:7:8) یہ اس عادل بادشاہ کی تصویر پیش کی جارہی ہے ۔ کہ بلا کسی سبب وہ اپنے لکھے ہوئے سے مجبور ہوکر کسی کو جہنم میں داخل کردے یا جنت میں ۔ عربوں کی فتح مندی کی دو وجوہات ہیں (1) قر آن (2) دوسری وجہ یہ لوگ تقدیر کے قائل نہیں ہیں، یہ تعلیمات بھی اِسی قرآن کی تھیں ۔
طے یہ پایا کہ اِن سے اللہ کی کتاب علیحدہ کی جائے ۔ علامہ اقبال اسے عجمی سازش کہتے ہیں ۔ وہ کہتےہیں کاش ایران فتح نہ ہوتا۔ فیصلہ یہ ہوا کہ سب سے پہلے قرآن کی تعلیمات یعنی رب کے ارشادات کو تبدیل کیا جائے، اس کو اٹھا لینا چاہئے ۔ قرآن میں زائد اور ناقص ممکن نہ تھا قرآن تک پہنچنے کاکوئی راستہ نہ تھا،رب نےیہ راستہ خود بند کر رکھا تھا، یہ کہہ کر کہ ۔إِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّكْرَ وَإِنَّا لَهُ لَحَافِظُونَ (15:9) یہ قرآن ہمارا نازل کردہ ہے او رہم ہی اس کے محافظ ہیں ۔ دین کے بنیادی عقائد کا معتبر ذریعہ کلام الہٰی یعنی قرآن کریم ہے ۔ جس کے بارے میں رب کا فرمان ہے ۔إِنَّ عَلَيْنَا جَمْعَهُ وَقُرْآنَهُ ، فَإِذَا قَرَأْنَاهُ فَاتَّبِعْ قُرْآنَهُ ، ثُمَّ إِنَّ عَلَيْنَا بَيَانَهُ ( 75:17:18:19) اس کا جمع کرنا یاد کرادینا اور پڑھو انا ہمارے ذمہ ہے جب اسے پڑھا جائے تو تم بھی ایسے پڑھو پھر یقیناً اس کا مطلب سمجھا دینا بھی ہمارے ذمہ ہے ۔وَكِتَابٍ مَّسْطُورٍ ، فِي رَقٍّ مَّنشُورٍ ( 52:2:3) جو رقیق پتلے کاغذ پر لکھی گئی ہے ۔فِي صُحُفٍ مُّكَرَّمَةٍ ، مَّرْفُوعَةٍ مُّطَهَّرَةٍ ، بِأَيْدِي سَفَرَةٍ ، كِرَامٍ بَرَرَةٍ (80:13:14:15:16) یہ قرآن ایسے صحیفو میں درج ہے جو قابل احترام ہیں، بلند مرتبہ ہیں پاکیزہ ہیں معزز اور نیک کا تبوں کے ہاتھوں سے۔
قرآن کریم کے بارے میں یہ تھا رب کا دعویٰ۔ یہی وجہ تھی کہ مجوسی ایرانی کوئی چور دروازہ نہ پاکر قرآن تک تو نہ پہنچ سکے ۔ مگر مسلمانوں سے انتقام لینے کےلئے ضروری تھا کہ وہ اس مصفیٰ چشمے کو مکدّر کرتے ۔ طے یہ پایا کہ قرآن کے متبادل کتابیں لکھیں جائیں، اس میں اپنی تعلیمات اور مجوسی عقائد مسلمانوں کی تباہی کے سامان رکھ دیئے جائیں ۔ انہوں نے قرآن کریم کی عظمت کو گھٹا نے اور مشکوک کرنے کےلئے عقلی دلائل کا ایک جال سا بچھا دیا۔ ایسے مسائل پیدا کردیئے کہ خواص بھی الجھ کر رہ گئے ۔ بولنے کی جرات اس لئے نہ کرسکے کہ الجھا نے والوں میں وہ لوگ بھی شامل تھے جن کے سر پر فضیلت کی پگڑیاں رکھی تھیں ۔سب سے پہلے جناب امام شافعی صاحب نے جو امام فقہ بھی ہیں ایک مسئلہ ناسخ و منسوخ کا کھڑا کردیا یعنی قرآن کی بعض آیات کو بعض سے منسوخ کردیا یہ ایک بہت بڑی تباہی تھی پہلے پانچ سو تعداد تھی شاہ ولی نےدس آیت تک بات پہنچا دی ۔ راقم ان روایاتی کتب کے دیگر زبانوں میں تراجم کے اس لئے خلاف ہے کہ ایک غیر مسلم جب اس مسئلہ پر غور کرے گا تو کیا کہے گا یہی تا کہ قرآن کریم ایک خود تردیدی بیان (Self contradictory statement) جو بات منسوخ ہو گئی وہ فاضل اور بیکار ہوگئی مگر وہ قرآن مجید ابھی بھی موجود ہے تو وہ نتیجہ بر آمد کرے گا کہ مسلمانوں کی آسمانی کتاب میں فضول اور بے کار باتیں بھری پڑی ہیں ۔ حالانکہ ایسا نہیں ہے۔ رب کوئی ضیا الحق اور پرویز مشرف نہیں ہے کہ جب جی چاہا آئین میں ترمیم کیا اور ا پنے مفاد کو تقویت کا سامان بھر دیا ۔ اس موضوع پر علامہ رحمت اللہ طارق کی کتاب منسوخ القرآن حرف آخر ہے۔
طے یہ پایا کہ مسلمان تقدیر ، نصیب ، بخت اور حظ کو نہیں مانتے انہیں اس کا قائل بنایا جائے ، کہ تم کچھ نہیں کرسکتے، ہوگا وہی جو اللہ کو منظور ہو، ایک پتہ بھی ا س کے حکم کے بغیر نہیں ہل سکتا ، انسان تقدیر کے زنجیروں میں جکڑ ا ہوا ہے ۔ جب ایسی من گھڑت روایات کے ساتھ جلیل القدر صحابہ کا نام دیا جائے اور اس سلسلے کی آخری کڑی ختم المرتبت صلی اللہ علیہ وسلم پر ختم ہوتی ہو، پھر کسی قول پر ہمارے ہاں تحقیق ضروری نہیں سمجھی جاتی ۔
خبر نہیں کیا ہے نام اس کا خدا فریبی کہ خود فریبی
عمل سے فارغ ہوا مسلماں بنا کے تقدیر کا بہانہ
حقیقت تو روز روشن کی طرح عیاں ہے۔ کہ مسلمان کے لئے ایمان کے ارکان چھ ہیں ایمان بااللہ ، ملائکہ ، کتب ، مرسلین، یوم آخرت اور حیات الموت (خیر اور شر اللہ کی جانب سے ہوتا ہے ) یہ ٹکڑا ایران کا تحفہ ہے ۔ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے دور میں شام میں طاعون کی وبا پھیلی تھی، حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو شام کی سرحد پر ابو عبیدہ ملے کہا شام میں وبا پھیلی ہوئی ہے۔ چند صحابہ نے کہا کہ آپ ایک نیک مقصد کےلئے جارہے ہیں وبا آپ کو نقصان نہیں پہنچا سکتی ۔ مگر حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے واپسی کا فیصلہ کیا ۔ اعتراض کرنے والے نے کہا یَاْ عُمَر تَحْرَبْ مِنْ تَقْدِیْر اَللہ ( تم اللہ کی تقدیر سے بھاگ رہے ہو؟)اعتراض معقول تھا حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے جواب دیا ، یا ابو عبیدہ میں اللہ کی تقدیر سے اللہ ہی کی تقدیر کی طرف جارہا ہوں یہ اللہ کی تقدیر ہے کہ ‘‘وبا’’ زدہ جگہ میں جاؤگے تو متعدی بیماری لگے گی اُس سے دور جاؤ گے تو محفوظ رہوگے۔ یہ دونوں قانون اللہ کے بنائے ہوئے ہیں ۔ عبدالخالق صاحب امید ہے یہ کافی ہوگا۔
مئی 2015 بشکریہ : ماہنامہ صوت الحق ، کراچی
URL: https://newageislam.com/urdu-section/accusing-fate,-muslims-stopped-working/d/103130