غلام غوث صدیقی
3 جنوری 2024
فلسطین اور اسرائیل کے مابین
جاری تنازع میں نکبہ ایک بڑا تاریخی سانحہ رہا ہے ۔ فلسطینی عوام کی پرتشدد نقل مکانی
اور بے دخلی کے ساتھ ساتھ ان کے معاشرے، ثقافت، شناخت، سیاسی حقوق اور قومی امنگوں
کی تباہی کا نام نکبہ ہے ۔ تاریخی رپورٹس کے مطابق ، ۱۹۴۸ ء
میں ساڑھے سات لاکھ سے زائد فلسطینیوں کو اپنے گھروں سے نکلنے پر مجبور کیا گیا ۔اگر
کسی سے اس کا گھر چھین لیا جائے تو اس کے درد کا کیا احساس ہوگا ، اس بات کا اندازہ
لگانا انسانیت کو سمجھنے والے انسان کے لیے مشکل نہیں ۔ اس عظیم سانحہ کو لوگ نکبہ
کے نام سے یاد کرتے ہیں اور ہر سال ۱۵
مئی کو فلسطین عوام تنازع کے مظلوم فلسطینیوں کی یاد میں
یوم نکبہ مناتے ہیں ۔ اس دن وہ اپنے ہاتھوں میں چابیاں لیے رہتے ہیں ۔ان کی یہ چابیاں
کچھ سادہ ہوتی ہیں ، کچھ وزنی ہوتی ہیں اور کچھ زنگ آلود ہوتی ہیں۔ یہ چابیاں صرف
دھات کے ٹکڑے نہیں بلکہ فلسطینیوں کی مظلومیت کا نشان بن کر انسانیت کی کراہتی چیخ
سنا رہی ہے کہ اسے برسوں سے ظلم و تشدد کا سامنا ہے اور پھر دنیا سے عدل و انصاف کی
گوہار لگا رہی ہے۔یہ چابیاں انسانی آزادی کا نعرہ لگانے والو ں کو عقل سلیم کا دروازہ
کھٹکھٹانے کا موقع دے رہی ہے کہ دیکھو فلسطینی انسان کس طرح اپنی سرزمین سے بے گھر
ہو کر وقت کے ظالم پنجوں سے آزادی کی تمنا کر رہا ہے اور ابھی تک اسے اس کی سرزمین
واپس نہیں ملی بلکہ اسے اپنی ہی سرزمین پر مسلسل اسرائیلی حملوں کا شکار ہونا پڑ رہا
ہے ۔
ہر سال یوم نکبہ کو فلسطینی عوام
اپنے ہاتھوں میں چابیاں لیکر سڑکوں پر نکلتے ہیں۔ یہ چابیاں ان کے گھروں کی ہیں جہاں
سے ۷۵
سال پہلے انہیں نکال دیا گیا تھا اور پھر اس کے بعد وہ اپنے
ان گھروں کو لوٹ کر جا نہ سکے ۔تب سے وہ ان چابیوں کی حفاظت نسل در نسل کرتے چلے آ
رہے ہیں ۔
جب میڈیا کے کارکنان فلسطینی
عوام سے یوم نکبہ کو انٹرویو لیتے ہیں تو عام طور پر وہ یہ بیان دیتے ہیں کہ انہوں
نے ان چابیوں کو اپنے پاس اس امید کے ساتھ رکھا ہے کہ ایک دن وہ اپنے گھروں کو واپس
ہوں گے ۔یہ چابیاں ان کے گھروں کی نشانی ہے ۔وہ مزید کہتے ہیں کہ انہیں اس سے کوئی
فرق نہیں پڑتا کہ ان کے گھر ابھی تک محفوظ ہیں یا تباہ و بربادہو چکے ہیں ۔وہ کہتے
ہیں کہ انہیں اس امید پر قائم رہنے اور اپنے گھروں کو لوٹنے کا حق ہے کیونکہ انہیں
یہ حق بین الاقوامی قانون سے ملا ہوا ہے اور بین الاقوامی قانون اپنے اس وعدے کی مخالفت
نہیں کرے گی ۔کب بین الاقوامی قانون اپنا یہ وعدہ پورا کرے گی ، یہ الگ ایک سوال ہے
۔
اس نکبہ کی چنگاری اس وقت
شروع ہوئی جب اسرائيل نے برٹش مینڈیٹری فلسطین سے ۱۴ مئی
۱۹۴۸ کو
آزادی کا اعلان کیا۔اس اعلان کے دوسرے دن سے ہی عرب اسرائیل جنگ شروع ہوئی جو ۱۵ دنوں
تک جاری رہی ، جس کے دوران ساڑھے سات لاکھ سے زائد فلسطینیوں کو ان کے گھروں سے نکال
کر ظلم وستم کی مسلسل آندھیوں کا سامنا کرنے پر مجبور کر دیا گیا ۔یہ وہی بے گھر ہونے
کا واقعہ ہے جسے نکبہ کے نام سے جانا جاتا ہے اور فلسطینی عوام ہر سال ۱۵ مئی
کو اسے مظاہرے کے روپ میں مناتے ہیں ، جس میں ان کے گھروں کی چابیوں کا بہت نمایاں
کردار ہوتا ہے ۔
اسرائیل نے فلسطین کے جن علاقوں
کو قبضہ کیا انہیں اسرائیل کا حصہ قرار دیا، لیکن وہاں کے فلسطینی عوام کہتے ہیں کہ
اسرائیلی فوجیوں اور صیہونی ملیشا نے انہیں اپنے گھر وں سے نکلنے پر مجبور کیا اور
انہیں کبھی واپس آنے نہیں دیا گیا ۔اس کے برعکس اسرائیلی حکام فلسطینیوں کی اس آواز
کو دبانے کے لیے کہتے ہیں کہ ’’ عرب ممالک نے ہی فلسطینیوں سے کہا کہ وہ اپنی زمینیں
اور گھر بار چھوڑ دیں تاکہ نوزائیدہ ریاست پر جب وہ حملہ آور ہوں تو انھیں جنگ کے نتائج
بھگتنا نہ پڑیں۔‘‘
اقوام متحدہ تقریبا ۶۰ لاکھ
فلسطینی پناہ گزینوں کے حق کو تسلیم کرتا ہے ، جن میں سے اکثر اردن، غزہ، مغربی کنارے،
شام، لبنان اور مشرقی یروشلم کے کیمپوں میں اپنے گھروں سے دور مظلوم زندگی گزارنے پر
مجبور ہیں۔تاریخی دستاویز بتاتے ہیں کہ جب فلسطینی شہریوں کو اپنے گھروں سے نکلنے پر
مجبور کیا گیا تو اس وقت ان کے دلوں میں انسانی فطرت کے مطابق اپنے گھروں سے دور ہونے
کا بہت رنج و الم تھا ، جب وہ اپنے گھروں سے اپنی جان بچانے کے لیے نکلے تو جو کچھ
لے کر گھروں سے نکل سکتے تھے وہ لے کر نکلے جن میں ان کے گھروں کی چابیاں بھی شامل
تھیں۔شاید انہوں نے یہ سوچ کر اپنے گھروں میں تالا لگایا تھا کہ جب جنگ و تشدد ختم
ہوگا تو وہ اپنے گھروں میں واپس آ کر دوبارہ زندگی گزاریں گے مگر ایسا کبھی نہ ہوسکا
۔
-------------
URL:
New Age Islam, Islam Online, Islamic Website, African Muslim News, Arab World News, South Asia News, Indian Muslim News, World Muslim News, Women in Islam, Islamic Feminism, Arab Women, Women In Arab, Islamophobia in America, Muslim Women in West, Islam Women and Feminism