کلے جونس
5 اکتوبر 2015
کیا ترقی پسند مسلمان اور ملحد واقعی باہمی تعاون اور تعامل سے کام کرنے کے طریقے تلاش کر سکتے ہیں؟ میرے کچھ ملحد ساتھی مجھ سے عدم اتفاق کر سکتے ہیں، لیکن مجھے ایسا ہی لگتا ہے۔ یقینا ہم اس بات پر اختلاف کر سکتے ہیں کہ ایک خدا موجود ہے یا نہیں یا حیات بعد الممات حق ہے یا نہیں، لیکن بات جب اس دنیا اور انسانوں کو درپیش مسائل کی آتی ہے تو بہت سے معاملوں میں ہمارے درمیان اتفاق ہے۔
ہمارے اتفاق کا دائرہ چھوٹا اور محدود نہیں ہے۔ بلکہ وہ توانائی کے ایسے ذرائع ہیں جن سے انتہائی اہم تبدیلی میں فائدہ اٹھایا جا سکتا ہے۔
لہٰذا، کن باتوں پر ہمارا اتفاق ہے؟ ملائیت، توہین رسالت کے قوانین، اور قدیم ترین اخلاقیات کی مخالفت کے باوجود، ہم انسانی حقوق، ضمیر کی آزادی، مذہب اور ریاستی امور کی علیحدگی، تعلیم اور رحمت و محبت کو فروغ دیتے ہیں۔
آپ اس بات کا اندازہ لگا سکتے ہیں کہ سعودی عرب اور مصر میں ملحد بلاگرز کو سزا دیے جانے پر، عراق اور پاکستان میں مسلم اور اقلیتی عیسائی فرقوں پر ظلم و ستم ڈھائے جانے پر اور تشدد کے جواز میں قرآن کا حوالہ پیش کرنے والے ‘اسلامی انتہاپسندوں’کے اقدام پر مجھے کیسا محسوس ہوتا ہے۔
جب تیو وان گوگھ کا بے دردی کے ساتھ قتل کیا گیا تھا تو ہمیں حیرانی ہوئی۔ جب کریگ ہکس نے گولی مار کر تین مسلم طلباء کو ہلاک کر دیا تو ہم شرمندہ تھے۔
تاہم، ہم جن باتوں سے باز رہتے ہیں وہ، ایک انتہاپسند کو اس گروپ کا نمائندہ مان کر دوسرے گروپ کا خاکہ پیش کرنے کے لیے قدم بڑھانا ہے۔ بہت سے ملحد اور ترقی پسند مسلمان اس بات کو تسلیم کرتے ہیں کہ اگر چہ ثقافتی سیاق و سباق اور سماجی پہلوؤں کو تسلیم کرنا برائیوں سے ہمیں معذور نہیں کرتا ہے ، لیکن یقینی طور پر ہمیں انہیں بہتر طریقہ سے سمجھنے میں مدد ملتی ہے۔
میں بل مہر، ایان علی اور سیم کی باتوں سے جزوی طور پر اتفاق کر سکتا ہوں، جبکہ، میں نفرت کے سخت ترین بینر تلے مسلمانوں کو اکٹھا کرنے کے لیے اپنے موقف میں مطلوب تبدیلی نہیں پیدا کر سکتا۔ یہ محض میرے قلب و باطن کی رقت پر مبنی اچھے عمل کی بات نہیں ہے؛ بلکہ یہ میری عقل کی بات ہے جو مجھے اس خطاء فاحش کی اجازت نہیں دیتی ہے۔
ڈینیل ڈینّیٹ نے جیسے 'بریکنگ دی اسپیل' کا نام دیا ہے میں اس سے مکمل طور پر اتفاق رکھتا ہوں۔
تنقیدی تجزیہ، فکر انگیز تنقید، محتاط تحقیق اور ایمانداری پر مبنی ریسرچ؛ یہ چند ایسی تدابیر ہیں جن کے ذریعہ ان کو بدنام کرنے، ان کی مزاحمت کرنے اور ان پر تسلط قائم کرنے کی ہماری خواہشات کا سد باب کیا جا سکتا ہے۔
کچھ مسلمان اسے "جہاد بالقلم" کا نام دیتے ہیں۔
اور یہ ہمارے اپنے حقیر اور کمتر محرکات کا سد باب کرتے ہوئے اس بات پر ذہنی طور پر چوکس رہنا ہے کہ ہم ملحد اور مسلمان باہمی تعاون اور تعامل سے کام لے سکتے ہیں۔
اور میرا یقین کریں کہ اس موقف پر ہمارے درمیان اس امر پر بہت زیادہ اختلاف ہے جس کی ہم تائید و حمایت کر رہے ہیں۔ اس دنیا کے مذہبی پیشوا اور ملا ہمارے مختلف گروہوں کے درمیان موجود طاقت اور معنویت کا اندازہ نہیں کر سکتے۔
رابرٹ اسپینسر اور پمیلا جیلّر کو ہماری ان صلاحیتوں کا ادراک نہیں ہے جس کا استعمال ہم تحریر کا رخ بدلنے اور مسلم خوف و ہراس اور ملحد بد اعتمادی کی مقبول داستان کو تبدیل کرنے کے لیے کر سکتے ہیں۔
لیکن اس کے لیے ہمیں زبان کھولنے اور غیر منصفانہ حملوں کے خلاف ایک دوسرے کا دفاع کرنے، اور اپنے اختلافات کو درگذر کرنے کی ضرورت ہے۔
لہٰذا جب آپ کا کوئی مسلمان دوست یہ کہے کہ؛
"کہ تمام ملحد بد اخلاق اور جھوٹے ہیں"۔
تو آپ اس کے زہر آلود بیان کو چیلنج کر سکتے ہیں۔
میں بھی آپ کے لئے ایسا ہی کروں گا۔
مین کسی دن مسلمانوں اور ملحدوں کے درمیان ایسی مضبوط اتحاد دیکھنے کی امید کھتا ہوں جو بھوکوں کو کھانا کھلائے، غریبوں کو کپڑے پہنائے، اور بیواؤں اور یتیموں کا خیال رکھے۔ جب مسلم اور ملحد گروپ ایک ساتھ کافی کے لئے بیٹھیں گےاوردنیا کو یہ دکھانے کے لئے حیرت انگیز طریقے نکالیں گے کہ اگرچہ، ہمارے معتقدات مختلف ہیں، لیکن ہم ہمارے درمیان واقع تقسیم کے حصار کو توڑ سکتے ہیں۔
Source: blogs.tribune.com.pk/story/29363/why-progressive-muslims-and-atheists-should-work-together
URL for English article:
https://newageislam.com/islamic-society/progressive-muslims-atheists-work-together/d/104806
URL for this article: https://newageislam.com/urdu-section/progressive-muslims-atheists-work-together/d/104870