ڈاکٹر مشتاق احمد
کسی دہشت گردی کے خلاف اگر حکومت کوئی خاص مہم چلاتی ہے اور قانون کے دائرے میں رہ کر دہشت گردی کو ختم کرنے کے لیے کڑی سے کڑی سزا مقرر کرتی ہے تو کوئی بھی ذمہ دار شہری حکومت کے اس قدم کا خیر مقدم کرے گا۔لیکن اگر کوئی حکومت دہشت گردی کے نام پر امن پسند شہری کو غیر قانونی طور پرکسی انتہا پسندی میں ملوث بتا اس کے قتل کی سازش کرتی ہے تو ہندوستانی آئین کے مطابق اس حکومت کا قائم رہنا ہندوستان کی جمہوریت پر سوالیہ نشان ہے۔ گجرات کی نریندر مودی حکومت کے معاملے میں اب تک عدلیہ اور جانچ کی خصوصی ٹیموں کے ذریعہ جو رپورٹیں سامنے آئی ہیں اس سے یہ ثابت ہوچکا ہے کہ گودرا حادثے کے بعد گجرات میں جو فسادات ہوا اس کے بعد وہاں کی حکومت ایک سوچی سمجھی اسکیم کے تحت اقلیت طبقے کے نوجوانوں کو دہشت گرد ثابت کرنے کے لئے ان کا فرضی انکاؤنٹر کراتی رہی ہے ۔یہ بات وہاں کے کئی اعلیٰ پولس حکام بھی کہہ چکے ہیں کہ اس وقت گجرات کے چیف سکریٹری کے حکم پر اس طرح فرضی انکاؤنٹر وں کو انجام دیا گیا۔یہ بات کسی سے چھپی ہوئی نہیں ہے کہ فساد کے وقت بھی گجرات کی پولس کو مودی حکومت کی کھلی چھوٹ تھی کہ وہ مسلمانوں کے علاقے میں قہر برپا کرے جیسا کہ کانگریس کے ایک سابق ممبر پارلیامنٹ احسان جعفری نے دنگے کے تحت بار بار پولس اعلیٰ افسروں اور وزیر اعلیٰ نریندر مودی سے فون پراپنی جان کی حفاظت کی گزارش کی تھی لیکن انجام کیا ہوا۔ان کی جان کی حفاظت کے ساتھ ساتھ ان کے گھر میں پناہ لینے والے پندرہ دیگر خاندان کے لوگوں کو بھی جلا کرمار ڈالا گیا۔اسی طرح ایک آئی پی ایس ایچ اے سید کو اپنی جان بچانے کیلئے گھر چھوڑ کر اپنی پہچان مٹا کر چھپنا پڑا۔ اس طرح کے درجنوں ثبوت ہیں جن کی بنیاد پر یہ کہا جاسکتا ہے کہ گجرات فساد مودی حکومت کے اشارے پر ہی ہوا تھا خود مودی حکومت میں رہنے والے کئی وزرا ء نے بپی بعد میں بغاوت کی اور انہوں نے بھی اس حقیقت کااعتراف و انکشاف کیا کہ فساد کو بھیانک روپ دینے میں نریندر مودی کا پورا ہاتھ تھا۔ اس وقت مرکزی حکومت میں بھاجپا کے کئی لیڈر بالخصوص اٹل بہاری واجپئی بحیثیت وزیر اعظم نے بھی کہا تھا کہ مودی نے ’’راج دھرم کا پالن نہیں کیا‘‘ ۔ سچائی بھی یہی ہے کہ اگر حکومت کی منظوری نہیں ہوتی یا فسادیوں کو پولس کا تعاون نہیں ہوتا تو گجرات میں اتنا بڑا مسلم نسل کش فساد انجام نہیں پایا۔
جہاں تک سوال ہے فساد کے بعد مسلم طبقے کے معصوم ، بے گناہ لوگوں کو لشکر طیبہ اور حزب المجاہدین جیسی دہشت گرد تنظیموں میں شامل ہونے کے الزام میں جیل بھیجنے اور ان کو فرضی انکاؤنٹر کے ذریعے قتل کرنے کا تو 2002سے 2008تک 26ایسے فرضی انکاؤنٹر ہوئے جن میں اب تک کی جانچ کے مطابق مرنے والے لوگوں کا کسی بھی طرح سے کسی دہشت گرد تنظیم سے کوئی واسطہ نہیں تھا۔ یہی وجہ ہے کہ سپریم کورٹ کے حکم نامے پر گجرات میں خصوصی جانچ ٹیم (ایس آئی ٹی) بنائی گئی ۔ گجرات کی اعلیٰ پولس آفیسر گیتا چودھری کی جانچ کے بعد سی بی آئی کے سابق ڈائریکٹر آر کے راگھون کی صدارت میں ایک جانچ ٹیم بنائی گئی تھی۔ راگھون کی خصوصی ٹیم نے اپنی رپورٹ میں یہ ثابت کیا تھا کہ 2002کے فساد میں مودی اور ان کے معاونین ملوث تھے ۔ حال میں سہراب الدین اور ان کی بیوی کوثربی کا معاملہ بھی اجاگر ہوا ہے کہ ان کو فرضی انکاؤنٹر میں ہی مارا گیا تھا۔ یاد رہے کہ 26نومبر 2006کو گجرات پولس نے ایک فرضی انکاؤنٹر میں مار ڈالا تھا اور اس کے دودنوں کے بعد ہی اس کی بیوی کوثربی کو بھی مار ڈالا گیا تھا۔ سہراب الدین معاملے میں ایس آئی ٹی نے جو چارج شیٹ 16جولائی 2007اور اپنی رپورٹ 10دسمبر 2007میں یہ انکشاف کیا تھا کہ سہراب الدین فرضی انکاؤنٹر حکومت کے اشارے پر ہوا تھا اور اس میں گجرات کے تین بڑے پولس آفیسر ڈی جی بنجارہ ، آر کے پانڈیان اور ایم این دینش شامل تھے ۔ ادھر عشرت جہاں کے معاملے میں بھی میٹروپولیٹن مجسٹریٹ ایس پی تمانگ نے اپنی رپورٹ میں بتایا ہے کہ یہ انکاؤنٹر فرضی تھا اور اس میں مرنے والے لوگ بے گناہ تھے۔ واضح ہو کہ 15جون 2004کو ممبئی کی عشرت جہاں، جاوید شیخ، امجد علی رعنا اور ذیشان جوہر کو گجرات پولس کی کرائم برانچ نے مار ڈالا تھا اور ان لوگوں کو لشکر طیبہ سے جڑا ہوا بتایا تھا لیکن اب یہ حقیقت سامنے آئی ہے کہ ان لوگوں کو گجرات پولس نے ممبئی کے مختلف جگہوں سے جبراً اٹھا کر لائی تھی اور انکاؤنٹر کیا تھا ۔سماجی کارکن تیستا شیتلواڑ نے اس وقت بھی اس انکاؤنٹر کو فرضی قرار دیا تھا اور اس کی جانچ کا مطالبہ کیا تھا ۔ اب ملک کی عدالت اورمرکزی حکومت کے سامنے یہ ایک بڑا سوال ہے کہ ملک کی ایک ریاست کا وزیر اعلیٰ جو ملک کے آئین کی حفاظت کرنے کا حلف لیتا ہے وہ شخص ایک محافظ کا نہیں بلکہ ایک قاتل کا رول ادا کررہا ہے آخر یہ کب تک ہوتا رہے گا۔
دراصل گجرات فساد کے بعد مرکز کی واجپئی حکومت اور گجرات کی مودی حکومت ملک کے عوام کے سامنے بے نقاب ہوچکی تھی اور یہ بات صاف ہوچکی ہے کہ گجرات کا فساد ایک سازش تھا۔ اپنی فضیحت کو دور کرنے کے لیے ہی گجرات حکومت نے ملک میں مسلمانوں کے خلاف ایک ماحول بنانے کی سازش کی تھی جس میں اس وقت کی مرکزی حکومت کی حمایت تھی ۔ یہی وجہ ہے کہ آئے دن فرضی انکاؤنٹر ،بم رکھنے کا معاملہ اور طرح طرح کے ایسے معاملے سامنے آنے لگے جس سے ملک میں مسلمانوں کے کردار کو داغدار بنانے کا کام کیا گیا۔ لیکن سلام کیجئے اس ملک کے اکثریت طبقے کے سیکولر ذہن لوگوں کو جنہوں نے اس سازش کو سمجھا اور ملک کے مفاد میں مرکز سے این ڈی اے کی حکومت کو بے دخل کردیا۔مہاراشٹر پولس نے سادھوی پرگیہ کو گرفتار کر کے یہ بھی ثابت کردیا کہ مسلمانوں کو بدنام کرنے والے کون لوگ تھے اور مہاراشٹر کے ناندیڑ ضلع میں ٹوپی ،داڑھی اور مسلم لباس پکڑے جانے والے کون تھے اس کا بھی انکشاف ہوچکا ہے اس لیے سچ سمانے آچکا ہے کہ دہشت گردی کے نام پر جو لوگ پکڑے جارہے ہیں یا مارے جارہے ہیں وہ سب کے سب گنہ گار یا دہشت گرد نہیں ہیں۔گجرات سرکار اپنے ظلم کو لاکھ چھپائے لیکن یہ حقیقت سامنے آچکی ہے کہ نریندر مودی کی حکومت کی اقلیت دشمنی ملک کی سالمیت کے لیے بڑا خطرہ کی خاموشی بھی جمہوریت کی روح کو مجروح کررہی ہے۔اب ایک اہم سوال یہ ہے کہ عدالتی فیصلے اور خصوصی جانچ ٹیموں کی رپورٹوں کے باوجود گجرات حکومت کب تک آئین کے خلاف ورزی کرتی رہے گی اور معصوم مسلمانوں کا قتل کب تک ہوتا رہے گا:
کب نظر میں آئے گی بے داغ سبز ے کی بہار
خون کے دھبے دھلیں گے کتنی برساتوں کے بعد
(مضمون نگار ملت کالج (بی جی) میتھلا یونیورسٹی دربھنگہ کے پرنسپل ہیں)
URL for this article:
https://newageislam.com/urdu-section/when-spring-spotless-vegetables-be/d/1857