New Age Islam
Tue Oct 08 2024, 01:40 PM

Urdu Section ( 17 Oct 2012, NewAgeIslam.Com)

Comment | Comment

Sir Syed Ahmad Khan’s Scientific Way of Thinking سرسید احمد خاں کا سائنسی اندازِ فکر

ڈاکٹر محمد اقتدار حسین فاروقی (علیگ)

16اکتوبر، 2012

اٹھارویں صدی کے اوآخر سے لے کر انیسویں صدی کے اختتام کا دور ہندوستان کی تاریخ کا بدترین اور تاریک ترین دور کہا جاسکتا ہے ۔ کیونکہ اس دور میں سارا ہندوستانی سماج غضب کی مایوسی کا شکار تھا۔ عجب افراتفری کا عالم تھا ۔ آزادی کے متوالوں کے حوصلے پست ہوچکے تھے ۔ برطانوی سامراج کی گرفت مضبوط سے مضبوط تر ہوتی چلی جارہی تھی۔ عوام پر ظلم و زیادتی کے واقعات عام ہوگئے تھے ۔ سارا معاشرہ بکھرتا دکھائی پڑتا تھا۔ غلامی ، افلاس ، ناکامی، ناامیدی اور نامرادی عوام کا مقدر بن گئی تھی۔ سماج کا ایک بڑا طبقہ علم سے بے بہرہ تھا اور پرانی قدروں اور مردہ رسوم میں اپنے عروج پر تھی۔ خوش قسمتی سے اس نازک دور میں دو بہت اہم اور ہمہ گیر شخصیتیں ہندوستانی معاشرہ میں ابھریں جنہوں نے سوتے ہوئے اور غافل ہندوؤں او ر مسلمانوں کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا ۔ اس میں ایک ہستی تھی راجہ رام موہن رائے کی اور دوسری سرسیداحمد خاں کی ذات گرامی۔ راجہ رام موہن رائے نے 1772عیسوی میں بنگال کے ایک برہمن گھرانے میں جنم لیا ۔ انہوں نے کم عمریں میں یہ محسوس کیا کہ ہندوستان کا مسئلہ تعلیم کی کمی اور سائنسی رویہ کے فقدان کا ہے۔ انہیں یقین کامل ہوگیا کہ اگر عوام اپنے فرسودہ رسم و رواج او رپرانی تعلیم کو چھوڑکر نئی سائنسی تعلیم کی طرف متوجہ ہوں تو وہ واقعی ایک آزاد قوم کی حیثیت سے زندہ رہنے کا حق مانگ سکتے ہیں ۔ چنانچہ انہوں نے ہندوؤں میں انگریزی اور سائنسی تعلیم حاصل کرنے کی وکالت کی۔ شروع میں ان کے بے پناہ مخالفت کی گئی اور الزام عائد کیا گیا کہ وہ ہندوستانی قدروں کو برباد کرنا چاہتے ہیں ۔ لیکن یہ مخالفتیں زیادہ دن تک ٹک نہ سکیں اور نہ وہ اپنے کچھ ساتھیوں کی مدد سے 1816میں کلکتہ میں ایک ہندو کالج قائم کرنے میں کامیاب ہوگئے جس میں انگریزی اور سائنس کی تعلیم دی جانے لگی۔ عام ہندو نئی تعلیم کی جانب متوجہ ہونے لگے۔

 راجہ رام موہن رائے کا مشن کامیابی کے دور میں آیا ہی تھا کہ سرسید کی ہمہ جہت شخصیت بھی ہندوستان کے مسلم معاشرہ میں ابھر کر سامنے آئی ۔ انہوں نے اپنی آنکھوں سے مسلمانوں کی تباہی ، پستی اور بربادی دیکھی تھی۔ جناب موہن رائے کی طرح ان کو بھی ایک احساس ہوا کہ مسلمانوں کو قعر مذلت سے نکالنے کا ایک ہی طریقہ ہے اور وہ یہ کہ ان کو نئے سائنسی رجحانات سے باخبر کیا جائے اور انگریزی تعلیم کی طرف راغب کیا جائے ۔ اس مقصد کے حصول کے لئے انہوں نے جو کچھ کیا وہ آج ہندوستان کی تاریخ کا ایک درخشاں باب ہے۔ سرسید کے سائنسی انداز فکر اور ہندوستانی مسلمانوں کے اعمال و افکار پر ان کے اثرات کا ایک جائزہ لینا آج وقت کی اہم ضرورت ہے۔

ہندوستان میں ہندوں کی بہ نسبت مسلمانوں میں عصری تعلیم کی کمی کی ایک وجہ یہ بھی ہوسکتی ہے کہ راجہ رام موہن رائے کا مشن سرسید کے مشن سے پچاس سال قبل شروع کیا گیا تھا۔ سرسید احمد خاں نے یکم اکتوبر 1817کو دہلی کے ایک معزز گھرانے میں جنم لیا۔ یہ وہ دور تھا جب ہندوستان میں مسلمانوں کی حالت عبرت انگیز تھی۔ وہ ایک طرف مایوسی کا شکار تھے تو دوسری جانب نئے علوم سے قطعاً نا واقف ۔ یہی نہیں بلکہ ذہنی پستی کا یہ حال تھا کہ وہ کسی نئی فکر او رنئے سائنسی خیال اور ایجاد و دریافت کو غیر مذہبی اور شیطانی کام تصور کرنے لگے تھے ۔ انگریزی تعلیم حاصل کرنا ان کے نزدیک ایک ایسا گناہ تھا جو معاف نہیں کیا جاسکتا تھا 1835میں جب لارڈ میکا لے کی اسکیم کے تحت یہ قرار پایا کہ ہندوستانیوں کو یورپین سائنس اور یورپین زبان کی تعلیم دینے کا انتظام کیا جائے تو مسلمانوں میں اس کی شدید مخالفت کی گئی او رکلکتہ میں آٹھ ہزار علماء اور رؤساکے دستخطوں سے ایک درخواست گورنمنٹ میں گذاری گئی کہ حکومت کا یہ قدم ان کے مذہب اعتقاد ات کے خلاف ہے۔ اس درخواست میں انگریزی تعلیم کو صرف غیر ضروری ہی نہیں بلکہ سماجی اور ذہنی اعتبار سے نقصان دہ بتایا گیا۔

 سرسید نے جب ہوش سنبھالا تو ایک طرف مسلمانوں کی معاشی زبوحالی دیکھی تو دوسری طرف ان کا نئے علوم کے لئے منفی اور غیر منطقی رویہ پایا۔ انہیں یہ یقین ہوچلا کہ مسلمانوں کو ہندوستانی سماج میں ایک باوقار اور باعزت مقام دلانے کا ایک ہی راستہ ہے اور وہ یہ کہ ان کو نئی سائنسی دنیا سے روشناس کیا جائے ۔ نئے علوم سے واقف کرایا جائے۔ کتنے عبرت کا مقام تھا کہ جس قوم کے لئے اس کے پیغمبر کی یہ تعلیم اور نصیحت موجود تھی کہ علم حاصل کرو خواہ اس کے حصول کے لئے چین جانا پڑے وہ قوم چین تو کیا خود اپنے ملک میں موجود نئے سائنسی علم سے منھ چراتی تھی۔ بہر حال سرسید نے مسلمانوں میں سائنسی مزاج پیدا کرنے کے اور سائنسی علم کو عام کرنے کا بیڑا اٹھا ہی لیا اور عین حدیث رسول کی پیروی کرتے ہوئے علم حاصل کرنے اور نئے علمی کارناموں سے واقفیت حاصل کرنے کی غرض سے انگلینڈ کا سفر اختیار کیا اور وہ بھی اپنا گھر بار رہن رکھ کر ۔ کئی ماہ تک وہاں درس گاہوں او رلائبریریوں کی تفصیلات جمع کیں۔ آکسفورڈ اور کیمبرج یونیورسٹیوں کا دورہ کیا۔ صنعت و حرف کے میدان میں ہوئی ترقیوں کا جائزہ لیا او رنئی سائنسی تعلیم کے مختلف پہلوؤں پر ماہروں سے گفت و شنید کی۔ اس دوران انگلینڈ میں لوگوں کا رہن سہن اور سائنسی تعلیم کی لیاقت دیکھ کر بہت متاثر ہوئے ۔وہیں سے لکھے گئے اپنے ایک خط میں تحریر کیا کہ کاش میری قوم کے بچے ایسے ہی علم حاصل کرتے او رملک کو وہی سب کچھ دیتے جو یہاں لوگو ں کو میسر ہے ۔ ایک دوسرے خط میں لکھا کہ ’’ جو قومیں حصول علم میں پیچھے رہ جاتی ہیں ذلت خواری ان کا مقدر بن جاتی ہے‘‘۔ انگلینڈ سے واپس آکر سرسید نے اپنے خیالات کے اظہار کے لئے رسالہ ’’ تہذیب الاخلاق‘‘ جاری کیا اور تحقیقی اور تعلیمی کاموں میں مصروف ہوگئے۔ مختلف اسکیمیں بنائیں جن کا مقصد نئے سائنسی علوم کو نوجوانوں تک پہنچانا تھا۔ یورپین علوم کی اہمیت جتانے کے لئے ضروری تھا کہ کچھ اہم علمی اور تاریخی کتابوں کا انگریزی سے اردو میں ترجمہ کر کے انہیں شائع کیا جائے۔ اس مقصد کی خاطر سرسید نے ایک مضمون بعنوان ’’ التماس بخدمت ساکنان ہندوستان درباب ترقی تعلیم اہل ہند‘‘۔ شائع کیا جس میں یہ تجویز رکھی کہ سائنسی علوم عام کرنے کی غرض سے ایک تنظیم قائم کی جائے جس کا مقصد اردو میں سائنسی لٹریچر شائع کرنا ہو۔ چنانچہ 1863میں سائنٹفک سوسائٹی کے نام سے ایک تنظیم کا قیام عمل میں آیا، سرسید اسکے اعزازی سکریٹری مقرر ہوئے۔ شمالی ہندوستان میں یہ سوسائٹی اپنے قسم کی پہلی جماعت تھی جس نے پورے ملک میں سائنس کی اہمیت کا احساس لوگوں کو دلایا۔ اس سوسائٹی کے زیر اہتمام چند ہی سالوں میں کئی مفید کتابیں اردو میں ترجمہ ہوکر شائع ہوئیں جس سے ملت مغربی علوم سے روشناس ہوئی اور ان علوم کی بابت عام ذہنوں میں جو غلط تاثرات وہ بڑی حد تک دور ہوگئے ۔

 سوسائٹی کے تحت ایک ہفتہ وار گزٹ 1866سے شائع ہونا شروع ہوا۔ اس گزٹ میں انگریزی اور اردو دونوں ہی زبانوں میں کالم لکھے جاتے۔ ان کالموں میں عوام کو نقصان دہ تعصّبات سے دور رہنے کی اپیلیں شائع ہوتیں اور مسلمانوں کو نئی دنیا کے چیلنج کا سامنا کرنے کی تلقین دی جاتی ۔ سائنٹفک سوسائٹی کے قیام کے فوراً بعد ہی سرسید کی مخالفت کی ایک منظم مہم سارے ملک میں شروع کردی گئی۔ اخبارات اور رسالوں میں ان کے خلاف مضامین شائع ہونے لگے جن میں ان کو مرتد ، ملحد ، قوم کا عیب جو ، مسلمان باجی، اسلام کا دشمن اور زندیق جیسے ناموں سے نوازا گیا۔ سرسید ان بہتان تراشیوں سے چنداں مایوس نہ ہوئے بلکہ ان مخالفتوں کے بعد عزائم میں کچھ زیادہ ہی قوت محسوس کرنے لگے ۔ اور ایک کالج کے قیام کی اسکیم کو عملی جامہ پہنانے کی تیاری میں مصروف ہوگئے۔ اکبر الہٰ آبادی یہ کہنے پر مجبور ہوگئے۔

وہ بھلا کس کی بات مانے ہیں بھائی سید تو کچھ دیوانے ہیں سرسید مسلمانوں کو سائنس سے روشناس کرنے کا جذبہ اور ان کو باوقار مقام دلانے کا عزم ایک جنونی کیفیت اختیار کرچکا تھا۔

بالآخر انہوں نے 1875میں ایک مدرسہ کی بنیاد علی گڑھ میں ہی دی۔ مدرسہ کی شکل میں نئی تعلیم کی یہ کرن بہت سے اندھیروں پر چھا گئی ۔ لیکن بھلا ہو ان لوگوں کا جنہوں نے سرسید کے عمل کو ایک دین دشمن سازش قرار دیتے ہوئے حکم نامے ( فتاوے) جاری کئے گئے اور فرمایا گیا کہ ۔۔۔ اس مدرسے کو مسمار کیا جائے اور اس کے بنانے والے نیز انکی مدد کرنے والوں کو خارج از اسلام سمجھا جائے۔ یہ بھی فرمایا گیا کہ ۔۔۔سرسیدجیسے شخص کے قائم کردہ مدرسہ کی اعانت جائز نہیں ۔۔۔ سرسید پر ان حکم ناموں کا چنداں اثر نہ ہوا اور آخر کار یہ مدرسہ 1877میں کالج بنا جس کا اصل مقصد مسلمانوں میں سائنس کی تعلیم کو فروغ دینا تھا لیکن جس کے دروازے سارے ہندوستانیوں کے لئے کھلے تھے۔ سرسید کی نظر یہ سے ہندوستان جیسی دلہن کا حسن اسی وقت قائم رہ سکتا تھا جب کہ اس کی دونوں آنکھیں یعنی ہندو او رمسلمان، نور سے بھری ہوں ، علی گڑھ کا یہ کالج مولانا آزاد کی سرپرستی میں ہندوستانی مسلمانوں کی کاوشوں سے 1920میں یونیورسٹی بنا اور ساری دنیا میں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے نام سے موسوم ہوا ۔ آج ہندوستانی معاشرہ میں اس کی اہمیت سبب کو تسلیم ہے۔ سر سید احمد خاں نے بہتان تراشیوں اور ملازمتوں سے دل برداستہ ہوکر اپنے مشن کو ترک کردیا ہوتا اور علی گڑھ کالج کا قیام عمل میں نہ آیا ہوتا تو آج اس ملک کے مسلمان کتنے خسارہ میں رہتے ۔ ہم سائنسی علم سے کتنا دور ہوتے اور ’’ علم الانسان مالم یعلم‘‘ کے مفہوم سے کتنا ناواقف ہوتے۔

16اکتوبر ، 2012   بشکریہ : روز نامہ ، جدید میل ، نئی دہلی

URL: https://newageislam.com/urdu-section/sir-syed-ahmad-khan’s-scientific/d/9015

Loading..

Loading..