New Age Islam
Tue Dec 03 2024, 09:56 AM

Urdu Section ( 8 Oct 2009, NewAgeIslam.Com)

Comment | Comment

Sir Syed Ahmad Khan – A Thinker of Recognizing The Futuristic Pulse سرسید احمد خانؒ-مستقبل کے نبض شناس مفکر

ڈاکٹر غطریف شہباز ندوی

17اکتوبر کو سرسید ڈے بڑے تزک واحتشام سےمنایا جاتا ہے، یہ دن جہاں سرسید احمد خاں ؒ کے شخصی اوصاف اور قومی وملی خدمات کی یاددلاتا ہے وہیں موجودہ حالات میں ان کے افکار وخیالات کی قدر وقیمت کی یاد دہانی بھی کراتا ہے ۔بڑے لوگوں کو یاد کرنے اور ان کی زندگی کے واقعات اور خدمات کے اعادہ سے قوموں کو یہ فائدہ ہوتا ہے کہ اس کے ذریعہ وہ اپنے ماضی کی ایک جھلک دیکھ لیتی ہیں ، اس کی روشنی میں وہ اپنے حال کا جائزہ اور مستقبل کی منصوبہ سازی کرسکتی ہیں۔سرسید جس زمانے میں تھے اس وقت سے لیکر آج تک مختلف وجوہات کے تحت ہدف تنقید بنتے رہے ہیں بلکہ بعض لوگ تو ان کی اصلاح کوششوں کے ڈانڈے مغرب کے ذریعہ عالم اسلام کے سیکولر ائز یشن کی مہم سے ملادے رہے ہیں۔ اس سب کے علی الرغم حقیقت یہ ہے کہ سرسید انیسویں صدی کی ان چند شخصیات میں سے ہیں جن کے اثرات برصغیر پر بہت گہرے پڑے ہیں۔

جس دور میں سرسید پیدا ہوئے وہ آج کے دور کی طرح پر آشوب اور مسلمانوں کے لیے نہایت مشکلات سے بھرا تھا۔ غیر ملکی تسلط سے استخلاص وطن کیا پہلی عمومی تحریک جسے انگریز ‘‘غدر’’ کہتے ہیں ناکام ہوچکی تھی، اور انگریز نے اس کا اصل سبب مسلمانوں کو قرار دیکر سارا نزلہ انہیں پرگرایا تھا، زمین دارہ ختم ہونے کے بعد ان کی اقتصادی کمر بھی ٹوٹ گئی ۔ ہر اعتبار سے ان کے لیے ایک شدید بحرانی دور تھا ایسے میں حالات کے رخ کو سمجھ کر سرسید انگریزو ں سے مصالحت کی طرف قدم بڑھائے ، اور اسباب الثورۃ الھند یۃ (اسباب بغاوت ہند) لکھ کر ان کے غصہ کو کم کرنے کی کوشش کی۔ انہوں نے جو تعلیمی اسٹریٹیجی اپنائی تھی وہ یہ تھی کہ مسلمان اپنی تمام ترتوجہ صرف تعلیم پر مرکوز کریں، لیکن ان کا تصور تعلیم محدود وار تنگ نہ تھا، نہ سرکاری تعلیمی پالیسی کی نقل تھا، بلکہ اس کا دائرہ نہایت وسیع تھا، جس کو انہوں نے یوں واضح کیا تھا:

‘‘ہمیشہ سے تعلیم کا یہ مقصد رہا ہے کہ انسان میں ایک ملکہ اور اس کی عقل او رذہن میں ایک جدت پیدا ہوتا کہ جوامورپیش آئے ان کے سمجھنے کی ،برائی بھلائی جاننے کی اور عجائب قدرت الہٰی پر غور وفکر کرنے کی اسے طاقت ہو۔ اس کے اخلاق درست ہوں، معاملات معاش کو نہایت صلاحیت سے انجام دے اور امور معاد پرغور کرے۔ گورنمنٹ کا یہ کہنا کہ ہم اس قدر تربیت سے علاقہ نہیں ہے بلکہ ہم اس قدر تعلیم کے خواہاں ہیں جو امور معاش سے علاقہ رکھتی ہے اور جو منحصر ہے صرف جغرافیہ ،حساب اور ہند سہ پر نہایت بے جا ہے۔ (حیات جاوید :85)

اس سے بھی زیادہ وضاحت کے ساتھ انہوں نے کہا تھا:

‘‘میری تمنا ہےکہ میری ملت کے ہر شخص کے ایک ہاتھ میں ادب وفلسفہ ہوتو دوسرے ہاتھ میں سائنس وٹیکنالوجی اور ان سب سے بڑھ کر یہ کہ اس کے سرپر کلمہ طیبہ کا تاج ہو’’۔

یہ بات اور ہے کہ ان کے تصور تعلیم کی عملی تطبیق میں ان کے جانشین متوقع کردارادانہ کرسکے اور مجموعی طور پر مسلم یونیورسٹی سے نکلنے والی نسلوں میں اسلام او رمسلمانوں کی نشاۃ ثانیہ کا خواب دیکھنے والے کم اور اپنے طرز فکر اور طرز زندگی میں مغربیت کے دل دادہ اور سوٹو ں بوٹوں کے عادی زیادہ ہوئے۔ سرسید احمد خاں کی زندگی سب سے نمایاں پہلو ان کا اخلاص اور ملی جذبہ تھا وہ زندگی کے ایک بڑے عرصہ تک سرکاری ملازم رہے ،خاندانی طور پر بھی وہ صاحب حیثیت تھے کہ ان کے آبا واجداد انگریز کو گورنمنٹ سے بھی پہلے مغل دربار میں بلند عہدوں پر فائز رہتے چلے آرہے تھے۔وہ اپنی خدمات کے باعث حکومت برطانیہ کا اعتماد بھی انہیں حاصل تھا۔ اگر وہ چاہتے  تو شاہانہ زندگی گزارتے ،مگر انہوں نے ‘‘غدر’’ کے بعد مسلمانوں کی کسمپرسی دیکھی تھی او رمزاحمتی تحریکوں کی ناکامی کامشاہدہ کیا تھا اور اسی لئے اسباب ‘بغاوت ہند’لکھ کر انہو ں نے یہ کوشش کی تھی کہ انگریز مسلمانوں کو اپنا دشمن نمبر ایک نہ سمجھیں بلکہ ان اسباب و وجوہات پر غور کریں اور ان شکایات کا ازالہ کریں جن کی وجہ سے لوگوں میں بغاوت کی لہر اٹھی ۔طویل مشاہدہ اور تجربہ کے بعد وہ اسی نتیجہ پر  پہنچے تھے کہ ملی مسائل کے حل کے سلسلہ میں ‘‘تعلیم ’’ ایک قابل ترجیح اور مؤثر ہتھیار بن سکتا ہے، اس کے بعد انہوں نے اس لائن پر کام کرنا شروع کردیا۔مرض کی ان کی تشخیص او رجو علاج انہوں نے تجویز کیا ہے اس سے اختلاف کیا گیا ہے، تاہم مرورزمانہ کے ساتھ سرسید کے فکری اور عملی طریقہ کار کی افادیت اور معنویت اب عالم آشکار ہوتی جارہی کہے۔ اور اگر کسی کو اس مسلہف میں ان سے اختلاف بھی ہوتب بھی ان کا اخلاص اور استقامت اور قومی وملی ہمدردی شبہ سے بالاتر ہے۔

سرسید ؒ ایک حیثیت سماجی، ملی اور قومی مصلح کی ہے، اور موجودہ دور میں ان کا یہ پہلو روشنی کامینار ثابت ہوسکتا ہے ، اس ضمن میں اردو زبان وادب کے نئے  اسلوب کی طرح ڈالنا، اور آثار الصنا دید لکھ کر مستند تاریخ نویسی کی قدیم اسلامی روایت کو زند کرنا اور سانمٹیفک سوسائٹی کے ذریعہ ثقافتی اور سالہ تہذیب الاخلاق کے ذریعہ اصلاح معاشرہ کی سرگرمیاں انجام دینا ان کے ملی  اور اصلاحی کا رنامہ ہیں ۔خطبات احمد یہ لکھ کر ولیم میور جیسے مستشرقین کا جواب دینا ان کی ذات نبویﷺسے شدید محبت کی علامت ہے۔ پھر انہوں نے تعلیم کو اصلاح ملت کا نسخہ کیمیا تصور کیا اور اپنے فکر کوعام کرنے کے لئے پورے اخلاص اور دل سوزی کے ساتھ اس محاذ پر لگ گئے۔ مسلمانوں کو قومی وملکی سیاست کے دام فریب سے بچانے کی بھی مسلسل کوششیں کیں۔ان کےیہ کارنامے آج بھی نشانات راہ کا کام دے رہے ہیں۔ 1875میں محمڈن اینگلو کالج کی بنیاد رکھی گئی ۔ جو 1921میں علی گڑھ مسلم یونیوسٹی کی صورت میں ڈھل گیا۔ اور جس ملی ضرورت کی تکمیل کا خواب انہوں نے دیکھا تھا علی گڑھ کی عظیم دانش گاہ کی صورت میں اس کی تعبیر نکل آئی۔جہاں سےبہتری نسلیں علم ودانش سے آراستہ ہوکر نکلیں اور انہوں نے ملت کی بیش بہا خدمات انجام دیں۔اور آج پورے برصغیر میں مسلم یونیورسٹی علی گڑھ ہی فکر ،تعلیم وثقافت کے میدان میں مسلمانوں کی واحد امید ہے۔ سرسید احمد خاں نے اپنی تعلیمی پالیسی مذہب اور سیکولرزم کے امتزاج پر رکھی تھی ، اس کا سبب روایتی فای تھی جس میں وہ پلے بڑھے پھر اپنے تفکر ،اخلاقی وروحانی وجدان سے کام لیکر انہوں نے ایک نیا مذہبی شعور دریافت کیا۔ ان کا بڑا کارنامہ یہ ہے کہ علمی سطح پر جدید علم کلام کی ضرورت کا احساس سب سے پہلے انہیں کو ہوا تھا اظہار انہوں نے اپنے لیکچر میں یوں کیا تھا:

‘‘ہمارے بزرگوں کو نہایت آسانی تھی کہ مسجدوں اور خانقاہوں کے حجروں میں بیٹھے بیٹھے مسائل کو قیاسی دلائل سے اور عقلی اعتراضات کو براہین سے توڑ تے رہیں اور ان کو تسلیم نہ کریں، مگر اس زمانے میں نئی صورت پیدا ہوئی ہے، جو اس زمانے کے فلسفہ وحکمت کی تحقیقات سے بالکل علیحدہ ہے ، اب مسائل طبعی تجربے سے ثابت کیے جاتے ہیں اور وہ ہم کو دکھلادیے جاتے ہیں یہ مسائل ایسے نہیں ہیں جو قیاسی دلائل سے اٹھادیے جائیں۔( لیکچر بمقام  لاہور فروری 1884مجموعہ خطبات صفحہ 2۔8)

سرسید کی ایک حیثیت دینی مصلح ومجتہد کی بھی ہے،اس بارے میں یہ کہا جاسکتا ہے کہ انہوں نے بعض بولڈ قدم بھی اٹھائے ، اور جامد اسلامی فکر کو سوچنے کے کچھ نئے زاویے دیے ۔ اس سلسلہ میں انجیل کی شرح بتیان الکلام اور اس کے ذریعہ اسلام اور عیسائیت کے ما بین خلیج کو کم سے کم کرنے کی کوشش ایک نئی جدت تھی، اور اب بین المذاہب ڈائیلاگ کی شکل میں یہ چیز بہت عام ہوتی جارہی ہے۔جہاد،غلامی اور پرسنل لا وغیرہ پر ان کے تصورات اجتہادی بھی ہیں اور معاصر دنیا میں (Ralivant) بھی ۔ سرسید نے اپنی تفسیر قرآن اور دوسری تحریرو ں کے ذریعہ اسلامیات کے میدان میں عقلی اور سائٹفک طرز تحریر کی بنیاد ڈالی ۔ اور سرسید کے بعد آنے والے مفسروں اور مصنفوں نے اس کا اثر قبول کیا اور ا ن کی خوشہ چینی کی۔ اور اردو ادب میں نثر کے بانی بھی سرسید ہیں۔ جس کو تمام ناقد اور مؤرخین ادب تسلیم کرتے ہیں۔ یہاں پر یہ کہنا بے محل نہ ہوگا کہ سرسید اپنی ان فکری مساعی میں جتنے مخلص تھے، اس طرح کی کوششوں کے لیے غالباً اتنے زیادہ تیار نہ تھے، قرآن وحدیث پر عبور حاصل کرنے کے ساتھ ہی جدید فکر کو گہرائی کے ساتھ سمجھنا اور کسی مرعوبیت کا شکار نہ ہونا اجتہاد کی شرط اولین ہے۔ اس پہلو سے سرسید زیادہ مضبوط دکھائی نہیں دیتے۔ اپنی اسی کمزور ی کے باعث سرسید احمد خاں روح، فرشتہ، جنت دوزخ اور معجزہ وغیرہ کی تعبیر میں کہیں پر بداحتیاطی کا شکار ہوگئے ،کہیں ان سے فاش غلطیاں ہوئیں اور بعض مقامات پر تو وہ صاف صاف اعتزال کی طرف نکل گئے ۔لیکن قرآن کی نئی شرح وتوضیح اور اسلامی فکر وعقیدہ کی نئی تعبیر او رنئے علم کلام کی ضرورت کا جو احساس سرسید نے پہلی بار دلایا وہ خود اپنے آپ میں ایک بڑا کارنامہ ہے اور غالباً یہی وجہ ہے کہ حکیم مشرق علامہ اقبال نے ان کی بڑی تعریف وتوصیف کی ہے او ران کے بارے میں یہ رائے دہی ہے: غالباً وہ (سرسید) دور جدید کے پہلے مسلمان ہیں جس نے آنے والے زمانے کے ایجابی مزاج کی ایک جھلک دیکھ لی تھی’’لیکن ان کی حقیقی عظمت اس میں ہے کہ وہ پہلے ہندوستانی مسلمان ہیں جس نے اسلام کی نئی تعبیر کی ضرورت کو محسوس کیا اور اسی کے لیے سعی کی۔

اسلام کی صحیح اسپرٹ اور روح کی روشنی میں عصر حاضر اور اس کی ضرورتوں کا جس شخص نے صحیح طور پر ادراک کیا تھا اور سرسیدؒ ہیں۔ جو مذہبی دنیا میں ایک بدنام اور مظلوم مصلح ہیں۔ میرا اس سلسلہ میں جو تھوڑا بہت مطالعہ ہے اس کی رو سے میں سمجھتا ہوں کہ سرسید پر دوطرفہ ظلم ہوا ہے۔ ایک ظلم تو روایتی علما کے طبقہ نے کیا اور وہ آج تک کیے جارہے ہیں کہ سرسید کو منکر حدیث اور نیچری اور نہ جانے کیا کیا کہتے ہیں۔ دوسرا ظلم خود علی گڑھ نے کیا کہ سرسید تحریک کو یونیورسٹی میں منحصر کردیا۔یونیورسٹی تو چل رہی ہے اور اس کی مفید خدمات سے ملت مستفید ہورہی ہیں ۔ لیکن تحریک سرسید ختم ہو کر رہ گئی کیونکہ سرسید تحریک مسلم یونیورسٹی کو چلانے اور سالہ تہذیب الا خلاق وغیرہ کو جیسے تیسے جاری رکھنے کا نام نہ تھی یہ تحریک اس سے کہیں زیادہ وسعت رکھتی تھی تعلیم اس کا مرکز ی عنوان ضرور تھی مگر سرسید چاہتے تھے کہ قوم میں سائنسی طرز تفکر پیدا ہوا، مذہب کی اصل روح بیدار ہو جو کہ محض ایک کلچر بن کر رہ گیا ہے،مثبت اورتعمیری سوچ فروغ پائے، تحقیق کا ذوق پیدا ہو۔ و ہ عمل ،احتجاج او رمطالبوں کی ہنگامہ خیز سیاست سے قوم کو دور رکھنا چاہتے تھے۔ میرا طالب علما نہ احساس ہے کہ سرسیدؒ کے مشن کا ایک حصہ بے شک پورا ہوا،مگر اس مشن کے زیادہ وسیع اور اہم حصہ کو وارثین سرسید نے لپیٹ کر رکھدیا ۔ اب سرسید کو سرسید ڈے کی تقریب میں یاد کرلیا جاتا ہے باقی اللہ اللہ خیر صلا۔ سرسید تحریک کو تنگ نظر علما اور کچھ سیاست زدہ افراد نے ہائی جیک کرلیا اور اس تحریک کا تیاپانچہ کر کے رکھ دیا ،یہی وجہ ہے کہ مسلم لیگ کی فرقہ وارانہ سیاست میں علی گڑھ کےکے طلبہ نے بھی خاصا رول ادا کیا ۔ اس دراز نفسی کا خلاصہ یہ ہے کہ سرسید نے فکر اسلامی کے ارتقا میں جو کردار ادا کیا ہے۔ اس کے بعض مندرجات سے تو یقیناً اختلاف کیا جاسکتا ہے ، لیکن ان کی تفسیر ،بائبل کی تشریح ،ان کے مکاتیب اور خطبات کی روشنی میں سرسید کی فکر معاصردنیا پر مسائل کے حل کے سلسلہ میں اہم کردار کرسکتی ہے اور وہ آج بھی اتنی ہی Ralivantہے جتنی ان کے زمانے میں تھی۔

Ghitteef1@yahoo.com

URL: https://newageislam.com/urdu-section/sir-syed-ahmad-khan-–/d/1868


Loading..

Loading..