ڈاکٹر راحت مظاہری
26مئی، 2012
یہ کیسی المناک او رتکلیف
دہ بات ہے کہ مغربی ممالک میں کی گئی اس نئی تحقیق ‘‘کہ بہنیں گھر میں خوشیاں لاتی
ہیں جب کہ لڑکےماں باپ اور سرپرستوں کیلئے نئی نئی آفات کھڑی کرتےہیں’’نیز ز مانہ
قدیم کی مشہور کہاوت کہ ‘‘لڑکی گھنی چھاؤں اور خوشی کی علامت ہے’’ کے بعد بھی جنس
صنف نازک پر ظلم و بربریت کا سلسلہ ہمارے اس ترقی یافتہ دور میں بھی زمانہ جاہلیت کے
نارو اسلوک سے کم نہیں بلکہ روز افزوں ہے، جیسا کہ آئے دن ہمارے قومی اخبارات اور
ذرائع ابلاغ کی شہ سرخیاں اس کی مبینہ گواہ ہیں کہ چند روز پہلے مغربی اتر پردیش کے
تاریخی و انقلابی شہر میرٹھ کے پاس قصبہ کٹھور کے نواح میں واقع فتح پور نارائن میں
چار درندہ صفت نوجوان ایک دوشیزہ کو اس وقت اپنی ہوس کا شکار بنانے کیلئے یرغمال بنا
کر لے گئے جب وہ غربت کی وجہ سے اپنے گھر میں ہینڈ پمپ نہ ہونے کے سبب چچا کے گھر سے
پانی کی بالٹی لے کر اپنے گھر واپس لوٹ رہی تھی جب کہ دونوں گھروں کے بیچ کا فاصلہ
بھی کوئی بہت زیادہ نہیں بلکہ کم ہی تھا اور اس معصوم کو وہ چاروں اپنے ساتھیوں میں
سے ایک گھر لے گئے جہاں جاکر انہوں نے جان سے مارنے کی دھونس و دھمکی دے کر اس کی عزت
کو تار تار کر ڈالا، اتنا ہی نہیں اس کے بعد بھی انہوں نے اس کوراز کے افشا پر جان
سے مارنے کی دھمکی دے کر اس کی آواز دبانے کی کوشش کی مگرلڑکی اپنی عصمت دری کے بعد
ذہنی وجسمانی طور پر اتنی بے قابو اور نیم جان ہوچکی تھی کہ وہ اس راز کو لاکھ چھپانے
کی کوشش بھی کرتی تب بھی اس کو نہیں چھپانے کی سکت خود میں پاسکتی تھی۔
کیونکہ اس کو اپنی بے بسی
او ربدنصیبی پر پھوٹ پھوٹ کر زار وقطار رونا آرہا تھا، اسی کے ساتھ راجدھانی دہلی
کے شمالی مشرقی تھانہ کھجوری کے تحت ایک 40سالہ بردبار، بیٹی داماد والی عورت کی مشتبہ
حالات میں خود سوزی کی خبر جس کے بارے میں
پولس نے تفتیش کے بعد یہ بیان جاری کیا ہے
کہ دھندے میں دھکیلنے کا الزام ہے، یعنی اس کا 45سالہ ادھیڑ عمر شوہر اپنی شریف بیوی
پر یہ دباؤ بنانا چاہتا تھا کہ وہ اس غلط پیشے کے جال میں پھنس کر شوہر کو اپنی ناجائز
کمائی سے دولت مند ی کے محل میں بسادے، جب عورت نے اپنے شوہر کی بات ماننے سے برملا انکار کردیا تو شوہر نے اس کو انکار کی پاداش
میں خود سوزی کی آگ میں کود جانے پر مجبور کردیا جس کے نیتجے میں اس اللہ کی بندی
نے یہ تو منظور کرلیا کہ وہ عزت کے ساتھ اپنی جان ،جان آفریں کے سپرد کردے مگر طوائف
کے دھندے کی ذلّت بھری زندگی کے بجائے اس نے عزت کی موت کو ترجیح دی اور اللہ کو پیاری
ہوگئی ،خدا اس کو مغفرت کرے، اس کے علاوہ راجدھانی دہلی کی پوش کالونی راجوری گارڈن میں کپڑے دھونے کی تھپکی
سے ایک میڈ(خادمہ)کی اس وقت اپنی مالکن کے
ذریعہ گردن توڑنے کی خبر جس وقت میڈیا نے اپنی سابقہ پٹائیوں کی وجہ سے بے بس ہونے
او رپاؤں میں شدید چوٹ موجود ہونے کے سبب اپنی مالکن سے کپڑے دھونے کے لئے معذرت کی
تو مالکن نےاپنی سابقہ خونخواری کا مظاہرہ
کرتے ہوئے اس کی گردن پر اس زور سے تھپکی ماری کہ اس بے چاری غریب کی گردن ہی
ٹوٹ گئی ۔
جس کے نتیجے میں اس کو صفدر
جنگ ہسپتال جانا پڑا، اس کے علاوہ آپ کے علم میں دہلی کے آل انڈیا اسپتال میں مہینوں
لاوارثی کی شکل میں تڑپ تڑپ کر جان دینے والی فلک جس کے لئے ڈاکٹر وں نے ایڑی چوٹی
کے زور لگا دیئے مگر وہ اسپتال میں بھرتی ہی ایسے نازک حالات میں کی گئی تھی جب اس
کے تاب وتواں بالکل جواب دے چکے تھے، سوال یہ ہے کہ وہ جنس جو کہ بنیادی طور پر ایک مرد کے لئے بیٹی ، بہن، ماں اور کہیں شریک حیات
ہونے کی ذمہ داری قدرتی طو ر پر نبھانے کے لئے ہمہ وقت ایک پاؤں پر کھڑی رہتی ہے اس
کے تئیں ہماری یہ نیچ سوچ کب تک اپنا کام کرتی رہے گی؟ہوسکتا ہے کہ مذکورہ حادثات کو
آپ ہم ہندوستانی یا ایشیائی باشندوں کی کم عقلی ،کم فہمی ، بے بصیرتی اور جہالت سے
تعبیر کریں مگر اس حماّم میں تو یورپ کے لوگ ہم سے زیادہ برہنہ او رمادر زاد ننگے نظر
آتے ہیں، جیسا کہ 18اپریل 2012کے نوبھارت ٹائمس (ہندی) نے صفحہ نمبر 12پر ،اٹلی کے
سابق وزیر اعظم برُلا اسکونی کے بارے میں یہ انکشاف کیا ہے کہ ایک ماڈل کے بیان کے
مطابق وزیر اعظم برُلا اسکونی کی بنگ بنگ پارٹی میں شامل دو ماڈل جو کہ ان کے سامنے
عیسائی خواتین کے مذہبی لباس میں ڈانس کرنے کےلئے شریک ہوئی تھیں، موصوف نےان کی عریاں
رقص کا لُطف لیا جس سے وہ کافی محفوط ہوئے۔
دنیا جانتی ہے کہ ہے کہ اہل
مغرب خود کو دنیا کے پیش حقوق نسواں اور انسانیت کے بڑے علم بردار کے طور پر نمایا
کرتے ہیں ، لیکن یہ بھی ایک تلخ حقیقت ہے کہ جتنا رسوا انسانیت اور خصوصاً عورت کو
ان نام نہاد محافظین انسانیت نے کیا ہے اتنی جرأت ان سے پہلے کسی نے نہ کبھی کی ہوگی
اور نہ ہی شایدآگے کرسکے،نیز یہ خبر بھی شاید دل دہلانے کے لئے کسی دھماکہ سے کم نہ
ہو کہ مغربی بنگال کے ضلع بردوان میں ایک شخص
نے اپنی حاملہ بیوی اور اس کے ساتھ تین بیٹیوں کو اس لئے موت کے گھاٹ اتار دیا
کہ مبادا پیدا ہونے والا چوتھا بچہ بھی لڑکی کی شکل میں نہ ہو، اسی تنگ نظری ،شادیوں میں
داماد کی طرف سے منہ مانگی رقم، برھتی جہیز کی لعنت ،سماج میں عورت کی دُرگت واستحصال
،عذاب الہٰی سے بے خوفی اور روز قیامت وَ اِذَالْمودَۃْ سُئِلَتْ( انفطار)یعنی وہ وقت
بھی یاد رکھنے کےلائق ہے جس وقت کہ روز قیامت ایک معصوم ،بے گناہ بچی سے اس کے قتل
کے بارے میں سوال کیا جائے گا کہ تو کس جرم کی پاداش میں قتل کی گئی تھی؟ حالانکہ احادیث
میں ہے کہ عورت کے لئے بہت مبارک ہے کہ پہلی اولاد اس کی لڑکی ہو، تم لوگ لڑکیوں کو
برامت سمجھو کہ میں بیٹیوں کا باپ ہوں ، جس کسی کے لڑکی پیدا ہوتی ہو تو اللہ فرماتا
ہے کہ اے لڑکی تو زمین پر اتر میں تیرے باپ کی مدد کروں گا، جس کو چند بیٹیاں ملیں
اس نے ٹھیک پرورش کی تو وہ بیٹیاں اس کےلئے جہنم سے ڈھال بن جائیں گی، اس سے ناواقفیت
وبے خبری کہ قتل جنین کا سلسلہ گورنمنٹ کے ہزار ہا اعلانات و اخبارات میں کروڑو ں روپے
اشتہارات پر پانی کی طرح بہا نے کے بعد بھی رکنے کے بجائے شیطان کی آنت کی طرح درازسے
دراز تر ہوتا جارہا ہے، جیسا کہ لڑکوں اور
لڑکیوں کی شرح نمو کے اعداد وشمار سے ظاہر ہے کہ 2001کی مردم شماری میں ایک ہزار لڑکوں
کے مقابلے لڑکیوں کی تعداد 932.1تھی اور اس وقت جبکہ ملک ہندوستان کی کل مردم شماری
1,027,015,247 تھی جن میں مرد531,277,028 اور عورتیں 495,738,169 تھیں اور تازہ ترین
مردم شماری 2011کے مطابق جب کہ ملک کی کل آبادی 1210,2ملین ظاہر کی گئی تو مردوں کی آبادی 623.7 ہے اور عورتیں
586.5ملین ہیں ،تو ظاہر ہے کہ مردوں کے بے نسبت 37لاکھ خواتین کی ایک متعدد بہ تعداد
قابل تشویش وسوہان روح ہے، جس کا تدارک پورے
دیش یا انسانیت کے لئے ناقابل تلافی وتدارک نقصان ہے اور اس کی بھرپائی ہم خالص دودھ
کے مقام پر نقلی دودھ یا دیسی گھی کی جگہ ڈالڈ ے یا تازہ ترین تحقیق کے مطابق اصلی
گوشت کی جگہ مصنوعی گوشت سے ہر گز نہیں کرسکتے ۔
26مئی 2012 بشکریہ : روز نامہ
صحافت ، دہلی
URL: https://newageislam.com/urdu-section/continuous-cruelty-women-/d/7455