پروفیسر یاسین شیخ
ایک اور تکلیف دہ ہفتہ ختم ہوا۔ عزت اور توقیر کے معیارات میں اتنی تبدیلی آچکی ہے کہ اب جسم وجاں کا رشتہ برقرار رہ جائے تو اسی پر خوشیاں منائی جاتی ہیں۔ تیس سال پہلے جب ہمارے ملک میں بم دھماکےہونا شروع ہوئے تو ہم روس کا ہدف بنے ہوئے تھے۔ بچے بچے کو یہ سبق پڑھا یا جارہا تھا کہ ہمارے دکھوں کا مداواافغانستان سے روس کا انخلاہے۔ اسی تسلسل میں زندگیاں گزارتے ہوئے جب بم دھماکے خود کش حملوں میں تبدیل ہونے لگے تو ہم اس میں یہ احساس پیدا کیا جانے لگا کہ ہمارے دکھوں کا مداوا افغانستان سے امریکی فوجوں کا انخلا ہے۔ افغانستان کے گرداب میں پھنس کر کبھی روس اور کبھی امریکہ کو ناکوں چنے چبوانے والوں نے کچھ کیا ہو یا نہ کیا ہو، یہ ضرور کیا کہ پاکستان میں بے سکونی اور عدم تحفظ کو اوربڑھادیا۔ ہاتھیوں سے گنا چھیننے کےشوق پروان چڑھا کر ہمیں یہ بھولنے پر آمادہ کردیا گیا کہ جو دوسروں کے گھروں میں دوسروں کی دخل اندازی سے محفوظ نہیں رہتے۔
یہ حقیقت ہے کہ افغانستان ہمارا پڑوسی ہے اور یہ بھی حقیقت ہے کہ وہاں کی حکومتوں نے ہمارے مفادات اور وجود کو اہمیت نہیں دی جبکہ ہم چند مسلح جنگجوؤں کی کارستانیوں کو پاکستان کی حمایت تصور کرتے رہے۔ اس نوعیت کی کارروائیاں ان کے مزاجوں کا حصہ ہیں اور ایک دوسرے کے خلاف بھی ایسے ہی لشکر کشی کرتے رہے ہیں۔خانہ جنگی ان کی اپنی قبائلی روایات کو فوقیت حاصل رہی ہے۔ہمیں ان سے مراسم میں احتیاط برتنی چاہئے تھی لیکن کیا کیا جائے کہ ہر کسی سے اس بنیاد پردوستی کی کہ وہ مسلمان ہے اور ہر کسی سے اس بنیاد پر دشمنی کہ وہ مسلمان نہیں ہے،اس سوچ سے بہ یک جنبش قلم گلو خلاصی ممکن نہیں۔ یوٹرن لینا ایک اور سنگین غلطی ثابت ہوگا ۔رفتہ رفتہ ایک کار آمد سوچ کر فروغ دینا چاہئے جو ہم نہیں کرسکے۔ بہکے ہوئے نوجوانوں کی آنکھیں کھولنا اور نئی نسلوں کو نئے راستوں پر ڈالنا مشکل ضرور ہے لیکن ناممکن نہیں ہے۔ڈراموں ،کھیلوں ،کہانیوں ، فلموں اوراظہاریوں کے ساتھ ساتھ درسی کتابوں میں بھی موضوعات تلاش کرنے ہوں گے۔اس مقصد ک ے لئے مقامی زبانوں کو ذریعہ اظہار بنایا جائے مقامی کیریکٹر تراشے جائیں ۔جب غیر ریاستی عناصر بچوں کو دوسروں کی جان لینے اور اپنی جان دینے پر آمادہ کرسکتے ہیں تو ریاستی عناصر یہ کام کیوں نہیں کرسکتے کہ آنے والی نسلوں کو اپنی اور دوسروں کی زندگیوں سے محبت ہو، جو کچھ ہمارے گردوپیش ہورہا ہے وہ سب کچھ اچانک نہیں ہوا۔اس کی تخم ریزی ہوتی رہی، آبیاری کیلئے حالات سازگاری رکھے گئے اور اب ہم وہ فصل کاٹ رہے ہیں جو ہمارے وجود کیلئے سوالیہ نشان بنتی جارہی ہے ۔ہمیں زمین کو ہموار کرنے کیلئے ایک طویل اور صبر آزما دور سے گزرنا ہوگا ۔وہ لوگ جو اس جنت ارضی کو فساد کے ذریعہ تباہ کررہے ہیں۔ وہ منظم ہیں ان کا مقابلہ کرنے کے لئے انہیں بھی منظم ہونا ہوگا جو امن اور سکون کے داعی ہیں۔
بحیثیت قوم ہمیں یہ ادراک ہوناچاہئے کہ ریاست کے خلاف دہشت گردی پر قابو پانے کیلئے مستحکم حکومت کا ہونا ضروری ہے۔ ریاست کی رٹ حکومت کی پالیسیوں یا اقدامات سے اختلاف ہے وہ اس کے اظہار کے لئے ایسے راستے تلاش کریں جو ریاست اور نظام کی کمزوری کا سبب نہ بنیں ۔وہ ادارے جنہیں دہشت گردی کے خلاف ہر اول دستے کا کردار ادا کرنا ہے اپناوزن کسی سیاسی یا مذہبی جماعت کے پلڑے میں نہ ڈالیں ۔اگر کسی کے کچھ تحفظات ہیں تو انہیں اسی فورم پر لایا جائے جو اس کا مجاز ہے۔ کاناپھوسی کرنے اور آئندہ کی امید رکھنے والوں کو تھپکیاں دےکر سامنے لانے سے غلط فہمیاں بڑھتی ہیں ان میں کمی نہیں آتی۔اندرون خانہ سازشیں اس ملک میں حکومت کو گرانے اور سیاسی قائدین کو رسوا کرنے کا تیر ہدف نسخہ رہی ہیں۔ اس مرحلہ پر اس نسخہ کے استعمال سے پرہیز کیا جائے تاکہ حکومت ریاستی رٹ کی بحالی کے لئے یکسوئی سے کام کرسکے۔ قومی مفادات اور ملک کی سلامتی جیسے اہم اور جذباتی امور کو چند ٹھیکیدار وں کے حوالہ نہ کیا جائے۔ عوام کے نمائندے موجود ہیں انہیں فیصلہ کرنے دیا جائے ۔ان دہشت گردی کے خاتمہ اور دہشت گردوں کی بیخ کنی کے لئے دباؤ ڈالا جائے۔ کسی کی بحالی اور کسی کی معزولی کے لئے جلوس نکالنے والی قوتیں آگے آئیں ۔عوامی قوت اور اجتماعات سے دہشت گردوں کی حوصلہ افزائی کرنے والوں کی نشاندہی کی جائے اور سیاسی معاشرتی مصلحتوں کی بنا پر مفاہت جیسی منافقت سے گریز کیا جائے ۔نمبر اسکور کرنے اور دوسروں پر سبقت لے جانے کی دوڑ یں کسی اور وقت کے لئے اٹھارکھیں۔ملک ان دنوں ایسی عیاشیوں کا متحمل نہیں ہوسکتا۔
ان دنوں پے درپے سیکورٹی فورسیز پر حملوں اور جی ایچ کیو پر قبضہ کرنے والوں کی ہلاکتیں بڑی کامیابیاں ہیں لیکن اتنی بڑی بھی نہیں کہ پوری زندگی انہی حسین تصورات میں گزاری جاسکے۔ اب آئندہ کے سخت مراحل درپیش ہیں۔ یہ درست ہے کہ فوج کے عزائم بلند ، ادارے مضبوط سوچ میں استحکام ہےلیکن جب وہ دہشت گردوں کی کمین گاہوں کو تباہ کرنے کا فریضہ سرانجام دے رہی ہوتو عو ام کے تمام طبقات کو اس کی پشت پناہی کرنی ہوگی۔یہ پشت پناہی ان تمام عناصر کے ذریعے ممکن ہے جو یا حکومت میں شامل ہیں یا آئندہ بننے والی حکومتوں کے امیدوار ہیں۔ ان سب کو ایک ساتھ رکھنے کی حکمت عملی اختیار کی جائے۔ ملک کے کسی حصے کو سوات اور مالا کنڈی کی طرح زیادہ دیر تک کسی تنظیم یا گروہ کے رحم وکرم پر چھوڑ نے کی حماقت نہ کی جائے۔ ذرائع ابلاغ ج ومملکت کاچوتھا ستون ہونے کے دعویدار ہیں۔ انہیں بھی کئی قومی ذمہ داریوں کی ادائیگی کرنی ہوگی۔ وہ صرف دہشت گردی کی مذمت ہی پر اکتفانہ کریں بلکہ دہشت گردوں کی مذمت کوبھی اپناموضوع بنائیں۔ ایک ایسے ماحول میں جب ہمارے نہتے شہری، عورتیں ،بوڑھے اور بچے لقمہ اجل بن رہے ہوں ،ہمارے سیکورٹی اداروں کے جوانوں کو نشانہ بنایا جارہا ہو، فوجیوں کو حون میں نہلایا جارہا ہواور قاتلوں کی شناخت بھی ہورہی ہوتو ہماری اور غیروں کی جنگ کے مباحثے بند کردیننے چاہئیں ۔اس نوعیت کی ذہنی مشقیں سترہ کروڑ عوام کو مخمصے میں مبتلا کرتی ہیں۔ مذاکرات کے ذریعے تنازعات طے ہوتے رہے ہیں لیکن یہاں کوئی باسرعرفات یا نیلس منڈیلا نہیں جس سے گفتگو کی جاسکے۔ ریاست کے خلاف ہتھیار اٹھانے والے انتشار شدہ گروہوں کے کردار قابل مذمت ہے اسے قابل مذمت ہی ظاہر کرنا چاہئے۔
قرائن بتارہے ہیں کہ دہشت گردی کی تازہ لہر کے جواب میں بڑی کارروائی ہونے جارہی ہے ۔دہشت گرد اور ان کے حمایتی بھی پوری طرح آگاہ ہیں۔ حکومت متاثرہ علاقو ں کے لوگوں کی منتقلی کے دوران اس امر پر بھی نظر رکھے کہ شرپسند معصوم شہریوں کے بھیس میں ادھر ادھر منتقل نہ ہوجائیں ۔چاروں صوبائی حکومتیں چوکس رہیں،آنے جانے والوں پرنظر رکھنا کوئی زیادہ مشکل کام نہیں ہے۔ قوم کو اصل موضوع سے ہٹا کر فروعی معاملات میں الجھا نے والوں کو خاموش رہنے پر مجبور کیا جائے۔ معاملے کو سیاسی اور علاقائی حوالہ سے نہیں بلکہ خالصتاً پاکستانی اور سیاسی سوچ کے ساتھ حل کیا جائے۔ حکومت نئے محاذ کھولنے سے گریز کرے تاکہ یکسوئی سے پاکستان کی سالمیت کی جنگ کو کامیاب کرایا جاسکے۔
URL for this article: