پروفیسر طاہر محمود
مسلمان والدین کی صلب سے جنمے ،ایمان پر زندگی بھر سختی سے قائم رہنے اور فرائض وواجبات حتی المقدور ادار کرتے رہنے والے جدید تعلیم یافتہ راسخ العقیدہ مسلمانوں کے ‘‘ اسلام سے خارج’’ ہونے کا فرمان سنانا ہمارے کچھ مذہبی کارکنان کا محبوب مشغلہ ہے ۔ یہ فرامین کفرو الحاد کے بیّن ثبوت کی بنیاد پر نہیں ، قدیم فقہی مسائل پر اختلاف نظر کے باعث جاری ہوتے ہیں اور صاحب مسدس الطاف حسین حالی کے اس درد دل کو تازہ کرتے ہیں کہ:
‘‘سلف لکھ گئے جو قیاس اور گماں سے
صحیفے ہیں اتر ے ہوئے آسماں سے’’
ان کا شکار بننے والے کسی غریب نے زندگی زبان وقلم سے اپنے مقدس دین کا دفاع کرنے میں گزاری ہویا اپنے ہم مذہبوں کے حقوق کے تحفظ کی جدوجہد میں صرف کی ہو، فرمان جاری کرنے والوں کی نظر میں اس کی کوئی وقعت نہیں ۔گستاخی معاف ! مگر اپنی خیرالامت کی اس روایت کی دنیا کےکسی اور مذہبی معاشرہ میں مثال نہیں ملتی۔
ہمیں اسلامی قانون پڑھتے پڑھاتے ، اس پر لکھتے لکھاتے آدھی صدی گزر چکی ہے ۔ ویسے تو شرعی مسائل کی گونج ہم نے پالنے ہی میں سنی تھی اور بڑے ہوتے ہوتے ان سے خاصی واقفیت ہوچکی تھی ، لیکن اسلامی قانون کا باضابطہ مطالعہ ہم نے اب سے پچاس برس پہلے 1959میں شروع کیا تھا، جب لکھنؤ یو نیورسٹی میں قانون کی ابتدائی کلاس میں ہمارا داخلہ کروایا گیا اور ہمیں مسلم لا پر غیر مسلم استاد وں کے متعصّبانہ انداز فکر کا تجربہ ہوا۔جب سے اب تک کی نصف صدی ہم نے اس قانون کو گہرائی سے پڑھنے میں گزاری ہے۔ خدا غریق رحمت فرمائے ہمارے مرحوم والدین کو جنہوں نے بچپن سے ہی ہمیں عربی ،فارسی اور اردو بھی پڑھائی تھی ،جس کی بدولت ہمیں یہ قانون اس کے اصل مآخذ سے پڑھنا نصیب ہو ا۔ آگے چل کر ہم نے مغرب کی دانش گاہوں میں مسلم ممالک کی عائلی اصلاحات پر تحقیق کرنے کے بعد ان کی عملی صورت کا بہ چشم خود مشاہدہ کرنے کے لئے عالم اسلام کی سیر کی اور قاہرہ پہنچ کر جامعہ ازہر کے استاد ان وقت کی جوتیاں سیدھی کیں، اسلامی قانون پر مشرق ومغرب میں ہونے والے متعدد عالمی مذاکرات میں شرکت کی اور جدّہ اور مکّہ معظّمہ کی فقہ اکیڈموں کے اجلاسوں میں حاضر ہوئے ۔ جب ہماری چشم حیرت نے یہ دیکھا کہ اصل اسلامی قانون تو بے حد عظیم اور بے مثال ہے اور وہ ہر گز نہیں ہے، جودرسی کتابوں میں لکھا ہوا ہے یا جس پر ناواقف عوام کا عمل ہے، جس کےباعث دنیا اسے اچھی نظر سے نہیں دیکھتی تو دل میں ایک تڑپ پیدا ہوئی اور خدا کا نام لے کر ہم نے اصل اسلامی قانون کو اجاگر کرنے اور اس سے متعلق پھیلی ہوئی شدید غلط فہمی کو دور کرنے کا بیڑا اٹھا یا تاکہ دنیا کو عظیم اسلامی قوانین کی حقانیت کی کماحقہ قدر کرنے کی توفیق ہو۔
اپنے ملک کے عوامی رجحانات اور خالصتاً دینی سمجھے جانے والے معاملات میں مسلم معاشرہ کی حددرجہ جذباتیت نے ہمیں مسلسل ظفر مرادآبادی کے الفاظ میں کشمکش میں مبتلا رکھا:
‘‘مصلحت کوش بصیرت کہے خاموش رہوں
راست گوئی کا تقاضا کرے ایماں مجھ سے’’
لیکن بہ توفیق خداوندی راست گوئی کا تقاضا ئے ایمانی ہر قسم کی مصلحت کوشی پر ہمیشہ ہی بھاری رہا۔ راہ میں نشیب وفراز آئے ،ہمت افزائی بھی ہوئی اور حوصلہ شکنی بھی، ایک طرف کچھ بزرگوں کے منظور نظر بنے تو دوسری طرف :
‘‘قوم کا کام کیا قوم سے گالی کھائی’’
روایت کا شکار ہوئے ،مگر اپنی مادر علمی کے عظیم بانی سرسید علیہ الرحمہ سے متعلق اکبر الہ آبادی کا ارشاد پڑھ رکھا تھا کہ:
‘‘صد مے اٹھائے ، رنج سہمے گالیاں سنیں،
لیکن نہ چھوڑا قوم کے خادم نے اپنا کام’’
ظاہر ہے کہ ‘‘خاک کو آسماں سے کیا نسبت ’’ والا معاملہ تھا کہ ہم تو سرسید اعظم کی جوتیوں میں لگی خاک کا ایک ذرّہ بھی نہیں ،پھر بھی ہم نے زندگی بھر گالیاں کھا کر بھی صبر وشکر سے اپنا کام کرتے رہنے والے اس محسن قوم کی سنت پر عمل کرنے کی ٹھانی اور بے بنیاد بہتان طرازیوں کے طوفان میں بھی ‘‘شکوہ ظلمت شب’’ کرنے کی بجائے خاموشی سے اپنے حصہ کی شمع جلاتے رہے۔
ہمارے ‘‘اسلام سے خارج’’ ہونے کا تازہ ترین فرمان بمبئی کے ایک مفتی صاحب نے جو مسلم پرسنل لا بورڈ کے رکن ہیں ، زور شور سے ٹی وی کے ایک پروگرام میں جاری فرمایا، جس میں ہم لا کمیشن آف انڈیا کی ایک حالیہ رپورٹ کی وضاحت کے لئے شریک ہوئے تھے، جسے دینی حلقوں میں ایک انگریزی اخبار کی غلط بیانی کی بنیاد پر ‘‘اسلام کے خلاف شرارت انگیز سازش’’ بتایا جارہا تھا۔موصوف کے نزدیک ہم نے اس رپورٹ میں یہ کہہ کر ‘‘کفر’’ کا ارتکاب کیا تھا کہ شادی شدہ غیر مسلموں کو قبول اسلام کا ڈھونگ رچا کر دوسری شادی کرنے کی اجازت دینا اسلام کی روح کے خلاف ہے کیونکہ اسلام میں تعداد ازدواج کی اجازت بیویوں کے درمیان انصاف کی شرط کے ساتھ دی گئی ہے ، جس کی اس صورت میں کوئی گنجائش نہیں باقی رہتی ۔ رپورٹ ایسے معاملات کی تک محدود تھی اور اس میں صراحت کی گئی تھی کہ پیدائشی مسلمانوں میں تعداد ازدواج کی صورت استثنائی ہونے کی حقیقت اور پرسنل لا سے متعلق ان کی جذباتیت کے پیش نظر کمیشن ان کے لئے اس بارے میں کوئی سفارش کرنا ضروری یا مناسب نہیں خیال کرنا ۔اگرچہ اپنی ذاتی حیثیت میں ہماری حتمی رائے یہی ہے کہ تعدد ازدواج ہو یا طلاق ثلاثہ خود مسلم معاشرہ میں بھی اس کا غلط استعمال ہورہا ہے ،مگر ہم نے اس رائے کو لا کمیشن کی رپورٹ میں شامل کرنے یا اپنی کسی سرکاری حیثیت میں کبھی بھی اس درد دل کا اظہار کرنے کا جوکھم لینے سے ہمیشہ اجتناب کیا ہے۔ پھر بھی سنی سنائی باتوں کی بنیاد پر اور ہم سے کسی قسم کیا تصدیق طلب فرمائے بغیر (جس کے لئے ہم ہر وقت بسر وچشم حاضر ہیں)ہم پر ہر قسم کے بہتان بلا تکلف لگائے جاتے ہیں، بلکہ ہماری طرف سے ازخود خاطر خواہ وضاحت پیش کردیے جانے کے بعد بھی یہ سلسلہ برابر جاری رہتا ہے۔ اسلامی تعلیمات میں پڑھا تو ہم نے ہمیشہ یہی ہے کہ سنی سنائی باتوں پر آنکھ بند کر کے بھروسہ مت کرو، افواہوں پر تصدیق کئے بغیر دھیان مت دو، بدگمانی مت کرو، پیٹھ پیچھے غیبت نہ کرو، بہتان سازی سے بچو وغیرہ ،مگر اب اکثر سو چتے ہیں کہ یہ کیسی تعلیمات ہیں، جو تعدد ازدواج اور طلاق ثلاثہ کی قربان گاہ پر اتنی آسانی سے بھینٹ چڑھ جاتی ہیں۔
کچھ دنوں پہلے ہمارے ایک دوست نے ای۔میل سے ہمیں اردو میں مطبوعہ ایک ہینڈ بل بھیجا تھا جس میں ‘‘کیا آپ کے لئے ممکن ہے کہ ....’’کے عنوان سے عوام الناس کو کچھ نہایت مفید اور معنی خیز مشورے دیے گئے ہیں۔ آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کی ‘‘تحریک اصلاح معاشرہ’’کی طرف سے جاری کردہ اس ہینڈ بل میں قارئین کو اس طرح کی ہدایات دی گئی ہیں کہ ‘‘ اگر آپ کسی کو عزت نہیں دے سکتے ہیں تو بے عزت بھی مت کیجئے ، اگر آپ دلوں کو جوڑ نہیں سکتے تو توڑ نے کا ذریعہ بھی مت بنئے ’’،وغیرہ وغیرہ ۔ہینڈ بل کی اختتامی سطور یہ ہیں کہ ‘‘اگر آپ قوم وملت کے لئے کچھ نہیں کرسکتے تو کم ا ز کم اتنا کیجئے کہ کوئی دوسرا اگر قوم وملت کی بھلائی کے لئے چھوٹا سے چھوٹا کام بھی کررہا ہوتو اس کو اللہ کے واسطے کرنے دیجئے ،اس میں خامیاں نکال کر لوگوں میں بدگمانی مت پھیلائیے اور اس کام کو کرنے والے کا دل مت دکھائیے’’۔ان ہدایات کی اصابت اور افادیت سے بھلا کسے انکار ہوسکتا ہے، مگر ہم خاکم بدہن یہ عرض کرنے کی جرأت کریں گے کہ یہ ہدایات عوام کو دینے والے خواص خود بھی اس پرعمل کر کے عوام کے سامنے اپنا اسوۂ حسنہ پیش فرمائیں تو یہ ملت پر ان کا احسان ہوگا، کیونکہ تلقین و ہدایت کے الفاظ میں وہ اثر کبھی نہیں ہوا کرتا جو ہادیان کرام کے خود اپنے عمل میں ہوتا ہے۔
syedtahirmahmood@hotmail.com
URL for this article:
https://newageislam.com/urdu-section/faith-asks-calls-towards-righteousness/d/1676