پروفیسر اختر الواسع
1857میں سیاسی بساط الٹ جانے کے بعد ہمارے بزرگوں نے دور غلامی میں
یہ فیصلہ کیا تھا کہ ہم سیاسی آزادی کھودینے کے باوجود اپنی تعلیمی آزادی کو کسی قیمت
پر نہیں گنوائیں گے اور اسی لئے 30مئی 1866کو دیوبند میں چھتہ والی مسجد میں انار کے
درخت کے نیچے ایک طالب علم اور ایک استاد سے اس ادارے کی بنیاد رکھی گئی جسے ہم ازہر
ہند دارالعلوم دیوبند کے نام سے جانتے ہیں۔ اس سعی محمود کا آغاز جن دو افراد سے ہو
ا وہ دونوں ہی محمود تھے۔ استاد ملا محمود اور شاگرد محمود حسن( جو بعد میں شیخ الہند
مولانا محمود حسن کے نام سے مشہور ہوئے)یہ اپنی تعلیمی آزادی اور خود مختاری کو انگریزیں
کے اثر سے آزاد رکھنے کاپہلا کامیاب عملی نمونہ تھا ۔لیکن اب جب کہ صورت حال بدل گئی
ہے اور آزاد ہندوستان میں جہاں مسلمان اب نہ حاکم ہیں نہ محکوم بلکہ اقتدار میں برابر
کے شریک ہیں اور اس ملک کی تعمیر وترقی میں ان کی توانائیاں اور وسائل بھی پوری طرح
صرف ہوتے ہیں۔ اس لئے آزادی کے بعد سے پہلے ہی سے ریاستی سطحوں پر کئی مدرسہ بورڈ قائم
ہیں اور یقیناً ان کی کارکردگی اور نتائج توقعات کے مطابق نہیں ہیں لیکن یہ ان لوگوں
کی کمی ہے جن کے ہاتھ میں ان کا نظم نسق ہے۔ اس میں خود ہماری ملی سطح پر بے حسی ،عمدہ
دلچسپی او رلا پرواہی کو بھ دخل ہے۔ ہم یہ بھول جاتے ہیں کہ مریضوں کا علاج ہوتا ہے،
پوسٹ مارٹم نہیں ۔ حکومت ہندنے مرکزی مدرسہ بورڈ کا جو تخیل اور تجویز پیش کی ہے اس
کو لے کر بعض اہل مدارس جن میں ہمارے کچھ محترم اکابرین بھی شامل ہیں، شدومد سے مخالفت
کررہے ہیں ۔ہمیں ان کی نیک نیتی پرکوئی شبہ نہیں ۔ لیکن خوگرمدح کو اگر تھوڑے سے گلہ
کی اجازت دی جائے تو ان کی خدمت میں یہ ضرور عرض کرناچاہیں گے کہ سرکاری وسائل سےہمارے
مکاتیب ومدارس ،ان سے وابستہ اساتذہ ،غیر تدریسی عملہ اگر چا ہیں تو انہیں کیوں نہ
بہرہ مند ہونے دیا جائے۔ مرکزی مدرسہ بورڈ ایکٹ میں آپ کو یقیناً یہ حق اور اختیار
ہوناچاہئے کہ آپ مجوزہ مرکزی مدرسہ بورڈ سے الحاق کریں یا نہ کریں اور صرف یہی نہیں
بلکہ اگر الحاق شدہ ادارے اپنے تجربہ کی بنیاد پر بعد میں مرکزی مدرسہ بورڈ سے ترک
تعلق بھی کرنا چاہیں تو اس کی انہیں بھرپور اجازت ہونی چاہئے ۔ اس ایکٹ میں یہ بات
بھی پوری وضاحت اور صراحت کے ساتھ شامل ہونی چاہئے کہ مکاتیب ومدارس کی خود مختاری
،ان کا انتظامی ڈھانچہ انہی لوگوں کے ہاتھ میں رہے گا جو ان کو قائم کرے۔ مزید برآں
نصاب تعلیم میں علوم اسلامیہ کا تناسب ،معیار، مقدار ،ترجیحات او رانتخابات کا مکمل
حق بھی ذمہ داران مکاتیب ومدارس ہی کو حاصل ہوگا۔ جہاں تک علوم جدیدہ کی نصاب میں شمولیت
کا سوال ہے تو مکاتیب ومدارس کے طلبہ وطالبات کی ذہنی ساخت ، علمی ضروریات اور نظام
الاوقات کو سامنے رکھ کر ماہرین تعلیم سے اس کو تیار کرایا جائے۔یہ بات بھی اس ایکٹ
میں صاف ہوجانی چاہئے کہ سرکار مرکزی مدرسہ بورڈ سے ملحقہ مکاتیب ومدارس سے صرف اتنے
ہی پیسوں کا حساب مانگیں گے جتنا کہ وہ (سرکار) ان کو بطور گرانٹ دے گی۔
اگر سرکار ایسی تمام گنجائشیں
پوری وضاحت وصراحت کے ساتھ مجوزہ مرکزی مدرسہ بورڈ کے ایکٹ میں نکالنے کو تیار ہوں
تو پھر مخالفت کا کوئی جواز باقی نہیں رہتا۔
جدید تعلیمی نظام پر بھی اگر
غور کریں تو ہم دیکھ سکتے ہیں کہ ثانوی تعلیم کی سطح پر اس ملک میں تین بورڈ کا م کررہے
ہیں۔ سینٹر بورڈ آف سیکنڈری ایجوکیشن (سی بی ایس سی) ،مختلف ریاستوں کے انٹر میڈیٹ
بورڈ اور انڈین اسکول سرٹیفیکٹ اکزامینشن (آئی ۔سی۔ایس۔ ای) ۔سوال یہ ہے کہ اسی طرز
پر ہمارے مکاتب ومدارس کیوں نہیں کام کرسکتے ہیں۔ جو ادارے آزاد رہ کر کام کرنا چاہتے
ہیں انہیں اس کا پورا حق ہے۔ لیکن جو الحاق چاہتے ہوں ان کے لئے بھی پوری گنجائش اور
آزادی ہونی چاہئے ۔ اس ملک کے تعلیمی بجٹ سے صرف آر ایس ایس اور اس کی ذیلی تنظیمیں
مختلف ناموں سے فائدہ اٹھائیں اور بقیہ لوگ اپنوں کی مخالفت کی بنا پر ان سے محروم
رہیں، یہ بات سمجھ میں آنے والی نہیں ہے اور خاص طور پر اس وقت جب ان مخالفین میں کچھ
ایسے لوگ شامل ہیں جو سروشکشا ابھیان کے فنڈ سے خود مستفید ہورہے ہوں۔
آج قدیم وجدید کی بحث میں
الجھنے کا وقت نہیں ۔ کیوں کہ یہ دلیل کم نظری ہے اور ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم مشرق
سے بیزار او رمغرب سے گریزاں ہوئے بغیر فطرت کے تمام صالح تقاضوں کو پورا کرنے کی کوشش
کریں اور اس کے لئے ضروری ہے کہ تمام تحفظات ذہنی اور تعصبات سے اوپر اٹھ کر اپنے شاندار ماضی کی باز یافت کریں جس میں ہمیں
دنیا کی امامت کا شرف حاصل تھا۔
URL: https://newageislam.com/urdu-section/time-be-confused-with-debate/d/2029