نیو ایج اسلام کے لئے مولانا وحید الدین خان
10 اپریل، 2015
20 مارچ 2015 کو نیو یارک کے وال اسٹریٹ جرنل نے ایک صومالیائی مفکر ایان ہرسی علی کا ایک مضمون شائع کیا جس کا عنوان تھا: ‘‘اسلام کو اصلاح کی ضرورت کیوں’’۔ اس مضمون میں موصوف نے اسلام کے نام پر انجام دی جانے والی پر تشدد کاروائیوں کو موضوع بحث بنایا ہے۔ اس میں انہوں نے یہ دعوی کیا ہے کہ اسلام کے نام پر انجام دی جانے والی پر تشدد کاروائیوں کی اسلامی تعلیمات میں سند حاصل ہے۔
لیکن اگر اس مضمون کا مطالعہ پوری گہرائی و گیرائی کے ساتھ کیا جائے تو قاری اس نتیجے پر پہنچتا ہے کہ موصوف اس مسئلے کے دو مختلف پہلوؤں کے درمیان کسی غلط فہمی کا شکار ہیں، جو کہ حسب ذیل ہیں :-
‘‘اسلامی تعلیمات اور مسلمانوں کے معمولات’’ کوئی بھی مذہبی مفکر اس بات کو کھلے دل کے ساتھ قبول کرے گا کہ اسلام کی بنیاد دو مستند ماخذ و و مصادر پر ہے، اور وہ قرآن اور سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہیں۔ لہٰذا، اگر مسلمانوں کے بارے میں فیصلہ مسلمانوں کے معمولات کے بجائے اسلامی مصادر و ماخذ کی روشنی کیا جائے تو یہ زیادہ بہتر ہو گا۔ اگر چند مسلمان تشدد میں مصروف ہیں تو یہ یقینی طور پر اسلامی تعلیمات کی وجہ سے نہیں ہے۔
موصوف نے مسلمانوں کی تقسیم مکی اور مدنی دو طبقوں میں کی ہے۔ اور مسلمانوں کی یہ تقسیم بھی غلط ہے۔ در حقیقت دونوں ادوار کے مسلمان ایک ہی ہیں اور ان کے درمیان کوئی فرق نہیں ہے۔ فرق صرف اتنا ہے کہ جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم مکہ میں تھے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر اسلام کے بنیادی اصول و معتقدات سے متعلق آیات کا نزول ہوا، لیکن جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ ہجرت کرنے پر مجبور ہو گئے تو انہیں ایک نئی صورت حال کا سامنا کرنا بڑا اور وہ مکہ کے لوگوں کا بے سبب ہی آپ پر فوجی حملہ کرنا تھا۔ یہ ایک مجبور کن صورتحال تھی اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس دفاعی جنگ کرنے کے علاوہ اور کوئی چارہ نہیں بچا تھا۔ اور اس جارحیت کی وجہ سے چند جنگیں نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور مکہ والوں کے درمیان چھڑ گئیں۔ تاہم، ان میں سے کسی بھی جنگ نے جن کی تعداد بہت کم تھی ایک مکمل جنگ کی صورت اختیار نہیں کی۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اپنے اخلاق حسنہ کے ذریعہ دشمنی کو کم سے کم تر کرنے میں کامیاب رہے اور اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ یہ لڑائیاں محض جھڑپیں بن کر رہ گئی۔
موصوف نے اپنے مضمون میں یہ دعوی کیا ہے کہ اسلام امن کا مذہب نہیں ہے۔ اس بیان کی اسلامی مصادر و ماخذ میں کوئی سند نہیں ہے۔ اسلام کا ہدف کسی سیاسی نظام حکومت کا قیام نہیں ہے۔ اصل میں، اسلام کا مقصد خدا کے منصوبہ تخلیق سے لوگوں کو آگاہ کرنا ہے۔ اور یہی حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم سمیت تمام انبیاء کا واحد مشن تھا۔ اور اس مشن کو صرف ایک پرامن صورتحال میں ہی پورا کیا جا سکتا ہے۔ اسی وجہ سے، قرآن کا فرمان ہے کہ اسلام میں "امن بہتر ہے"۔ (4:128)
جو لوگ اسلام کے نام پر سیاسی حکمرانی قائم کرنا چاہتے ہیں وہ بیسویں صدی کے بعض مسلمانوں کے جانب سے پیش کردہ اسلام کی سیاسی تشریح کا شکار ار ہو کر گمراہی کا راستہ اختیار کر چکے ہیں۔ اسلام کی یہ تشریح اپنے آپ میں غلط ہے۔ جو بھی قرآن کا معروضی مطالعہ کرتا ہے اسے یہ معلوم ہو گا کہ قرآن مجید میں ایک بھی آیت ایسی موجود نہیں ہے جو مسلمانوں کو زمین پر سیاسی حکمرانی قائم کرنے کا حکم دیتی ہو قرآن مسلمانوں کو اسلامی تعلیمات پر عمل کرنےکا حکم دیتا ہے، تاہم، سیاسی ترجمانوں نے غلط طریقے سے اسلام کو ایک قابل نفاذ موضوع کے طور پر پیش کیا ہے۔
اسلام کی سیاسی ترجمانی کیا ہے؟ قرآن کی غیر سیاسی تعلیمات کو ایک سیاسی معنی دینا ہی اسلام کی سیاسی ترجمانی ہے۔ مثال کے طور پر قرآن مجید اہل ایمان کو انصاف کے اصول پر عمل کرنے کا حکم دیتا۔ (5:8)۔یہ حکم فعل لازم کی شکل میں وارد ہوا ہے، لیکن سیاسی ترجمانوں نے اسے فعل متعدی کی شکل میں تبدیل کر دیا اور اس کا یہ مطلب اخذ یا ہے کہ مسلمانوں کو معاشرے میں عدل و انصاف قائم کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔ یہ اسلام کی غلط تشریح کی ایک مثال ہے۔
یہ صحیح ہے کہ پر تشدد کاروائیوں میں مصروف مسلمان ان جنگوں کا حوالہ پیش کرتے ہیں جن میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ میں دوران قیام شرکت کی تھی۔ لیکن پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کے مدنی ادوار کا حوالہ پیش کر کے تشدد میں ملوث مسلمانوں کے اعمال کو 'گھوڑے کے سامنے ٹوکری رکھنے' تشبیہ دیا جا سکتا ہے۔ اس لیے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی بھی پر تشدد طریقہ کار سے اپنے مشن کی شروعاوت نہیں کی۔ آپ نے اپنے مشن کا آغاز پرامن طریقے سے اسلامی تعلیمات کی تبلیغ و اشاعت سے کیا ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے مشن کے بعد کے ادوار میں جب مخالفین نے کھلے طور پر دشمنی کا مظاہرہ شروع کر دیا تب اس جارحانہ صورت حال میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے محدود سطح پر دفاعی راستہ اختیار کیا۔ اور ساتھ ہی ساتھ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مذاکرات کا بھی آغاز کیا اور بلآخر آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے مخالفین کے ساتھ ایک امن معاہدے کو حتمی شکل دینے میں کامیاب بھی ہوئے جسے صلح حدیبیہ کا نام دیا گیا ۔ اس معاہدے کے بعد جنگ کا دور ختم ہو گیا۔ اس کے بعد نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے صرف عربی قبائل ہی نہیں بلکہ عرب کے ملحقہ ممالک کو امن کا پیغام بھیجا۔ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنا مذہبی رہنما ماننے والے تمام افراد کو یہ تسلیم کرنا ہوگا کہ وہ مابعد صلح حدیبیہ کے دور میں زندگی گزار رہے ہیں۔
اسلام کے حوالے سے موضوع بحث بننے والے دیگر مسائل میں ارتداد اور توہین رسالت سے متعلق قوانین کا بھی مسئلہ ہے۔ لیکن ان قوانین کا قرآن میں کہیں کوئی حوالہ موجود نہیں ہے۔ ان قوانین کو بعد کے ادوار کے مسلمانوں نے مرتب کیا تھا اسی لیے انہیں اسلام میں بدعات و اختراعات قرار دیکر مسترد کر دیا جانا چاہیے۔
آخر میں، میں یہ کہوں گا کہ امت مسلمہ انحراف کا شکار ہے لیکن اسلام کے اصل مصادر و ماخذ صحیح و سالم برقرار ہیں اور ان میں کسی بھی تبدیلی کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ لہذا، مذہب اسلام نہیں بلکہ امت مسلمہ کو اصلاح کی ضرورت ہے۔
مولانا وحید الدین خان ایک اسلامی اسکالر اور سینٹر فار پیس اینڈ اسپریچویلٹی انٹرنیشنل کے بانی ہیں۔
URL for English article: https://newageislam.com/debating-islam/phenomenon-community,-phenomenon-islam/d/102388
URL for this article:
https://newageislam.com/urdu-section/phenomenon-community,-phenomenon-islam-/d/102435