Dr. Quaisar Shamim, Editor, http://www.istelahat.com
نیو ایج اسلام نیوز ڈیسک
1 دسمبر، 2012
اردو میں حالات حاضرہ،شعر و ادب اور اسلام کے فروغ و اشاعت
کے لئے وقف سینکڑوں ویب سائٹ ہیں جو اردو داں
طبقے کی ادبی، سماجی و مذ ہبی ذوق کی پذیرائی کرتی ہیں ۔ زیا دہ تر ویب سائٹ اسلامی
لٹریچر پیش کرتے ہیں جن میں کوئی تخلیقی رویہ نظر نہیں ٓا تا۔ اردو میں ایسے ویب سائٹ کی
کمی ہے جو بدلتے ہوئے حالات و اردو
داں طبقے کی نئی ضروریات کے مطابق لسانی و
ادبی مسائل کا حل پیش کرے۔
ان لسانی و ادبی ضروریا ت و مسائل میں سے ایک ہے ترجمے کے لئے مسلمہ و مجو زہ اصطلاحا
ت کی
دستیابی۔ ترجمہ ایک فن ہے اور بعض ماہرین لسا نیات نے اسے تخلیقی فن کا بھی
درجہ دیا ہے کیونکہ ترجمہ نگار متن کی عبا
رت کو محض ایک زبا ن سے دوسری زبان میں منتقل
نہیں کرتا بلکہ اسکے معنی مرکزی خیال اور مجموعی تا ثر کو اس تخلیقی فنکاری سے دوسری زبان میں منتقل کرتا ہے کہ قاری متن کے تمام
تاثرات ، ثقافتی و تہذیبی سیاق و سباق سے واقف
اور محظوظ ہو تا ہے۔
اردو میں تکنیکی
، ادبی و نئے عالمی تناضر میں وجود میں
ٓا نے والے مذہبی اصطلاحات کے لئے مسلمہ متبادل دستیا ب نہیں ہیں اور نہ
ہی اس میدان میں اردو کے سرکاری و غیر سر کاری اداروں کی طرف سے کوئی منظم و سنجیدہ کوشش ہوئی
ہے۔ ہندوستان کی قومی اردو کونسل کی طرف سے
بھی اس پروجکٹ پر ابھی کام ہو نا باقی ہے۔
فی الحال ابھی وہ اسی مخمصے میں الجھی ہوئی ہے کہ
ت سے لکھوں توتا کہ لکھو ں
ط سے طوطا
اور اسکے لئے اسنے املا کمیٹی
تشکیل دی اور اسپر لاکھوں روپئے خرچ کئے گئے۔
بہر حال یہ امرباعث مسرت ہےکہ
اردو کے ایک ادیب و دانشور ڈاکٹر قیصر شمیم
نے اس کام کا بیڑہ اٹھایا ہے۔ انہوں نے اصطلاحات
ڈاٹ کام کے نام سے ایک ویب سائٹ جاری کیا ہے جو ترجمہ نگاروں کی اصطلاحاتی دشواریوں کا ازالہ
کرےگا اور اس سے اردو میں ترجمے کا فن نئے جہات سے ہمکنار ہوگا۔
ترجمہ محض ایک جسم کو دوسرا
لباس پہنا دینے کا نام نہیں ہے بلکہ ایک جسم کے مقابلے میں بالکل ویسا ہی جسم تراش
کر اسے دوسرے لباس میں اس طرح لے آنا ہے کہ دونوں قالبوں میں ایک ہی روح ہو۔ یہاں لباس،
جسم اور روح سے مراد ترجمے کی زبان، اصل عبارت کا مرکزی خیال اور وہ تاثر ہے جو پڑھنے
کے بعد دل و دماغ میں قائم ہوتا ہے۔ لیکن ترجمہ کرتے وقت ایک زبان کی بعض ایسی اصطلاحات ہوتی ہیں جو نہ صرف
ایک خاص تہذیب کے پیش کردہ تصور کا اظہار کرتی ہیں بلکہ ان کے ساتھ ساتھ ان سے وابستہ
دیگر اصطلاحات کے پورے جال سے واقفیت ضروری ہوتی ہے۔ اس تہذیب اور معاشرے میں زندگی بسر کرنے والاان
پڑھ اس طرح کا لفظ سامنے آتے ہی تمام تفصیلات جان لیتا ہے کیوں
کہ وہ اسی تہذیب میں زندہ ہے جہاں اس اصطلاح نے جنم لیا ہے ۔ لیکن کسی دوسری تہذیب
سے تعلق رکھنے والے کے لئے یہ مشکل برقرا رہتی ہے۔ ترجمہ کی ان ہی دشوراریوں کو دور کرنے کے لئے ایک نئی ویب سائیٹ www.istelahat.com منظر عام پر آئی ہے جو ایسے لوگوں کے لئے خاص مدد
کرتی ہے جو انگریزی اور اردو دونوں زبان میں
درسترس رکھتے ہیں مگر لکھتے وقت یا ترجمہ کرتے وقت، کسی نئے یا غیر ملکی تصور کو اردو
میں بیان کرنے میں دقّت محسوس کرتے ہیں۔
اس ویب سائٹ کو ڈاکٹر قیصر شمیم نے شروع کیا ہے جو سکریٹری ، سینٹرل وقف بورڈ کے عہدہ
پر رہ چکے ہیں۔ ڈاکٹر قیصر شمیم کا
کہنا ہے کہ ، “اُردو میں اصلاحات کی کمی کا شکوہ عام ہے۔ جو اصطلاحات وضع کی گئیں یا
اب بھی بر صغیر میں اور یورپ و امریکہ کی نئی اُردو بستیوں میں وضع کی جا رہی ہیں ان
تک ہر ایک کی رسائی مشکل ہے۔ ان کے درمیان یکسانیت بھی ایک بڑا مسئلہ ہے۔ بہت سے لوگ
انگریزی اور اُردو دونوں زبانوں میں مہارت رکھتے ہیں مگر لکھتے وقت یا ترجمہ
کرتے وقت کسی نئے غیر ملکی تصور کو اُردو میں بیان کرنے میں دقت محسوس کرتے ہیں۔ انگریزی
زبان کی مسلسل یورش کی وجہ سے بعض اوقات اس کا متبادل سامنے کا اُردو لفظ بھی یاد نہیں
آتا۔ اس پر مستزاد ہیں نئےتصورات کو پیش کرنے والی انگریزی کی اصطلاحات کے لئے اُردو
کی اصطلاحات وضع کرنا۔ یہ کام ایک مشترکہ کوشش کا مطالبہ کرتا ہے۔ ان دقتوں کے پیش
نظر میں نے اس ویب سائیٹ کو تیار کیا ہے
۔”
آزادی سے قبل کی سمٹی ہوئی
اردو دنیا میں اصطلاحات کی معیاربندی کا کام نسبتاً آسان تھا ۔ آزادی کے بعد ہندوستان
اور پاکستان میں اصطلاح سازی کا کام ایک دوسرے سے لاتعلق رہا ۔ ان کے درمیان تطابق
پیدا کرنے کی کوئی اجتماعی کوشش نہیں ہوسکی ۔ اب تو اردو کی نئی بستیاں کرّہ ارض کے
دور دراز خطوں میں آباد ہیں ۔اب اصطلاح سازی کا کام عالمی معیار بندی کا مطالبہ کرتا
ہے ۔ ڈاکٹر قیصر شمیم کا کہنا ہے کہ اس سائیٹ کو تیار کرتے وقت بر صغیر میں اب تک ہونے
والے تمام کام کو سامنے رکھ کر ان میں یکسانیت پیدا کرنے کی کوشش کی گئی ہے ۔ نئی مجوزہ
اصطلاحات کے سلسلے میں بھی اس کا لحاظ رکھا گیا ہے ۔
تہذیبی یورش اور انگریزی زبان
کے تسلط نے افکار و تصورات کو اس طرح مسخ کردیا ہے کہ اس کا اثر جملوں کی ساخت اور
الفاظ کے استعمال پر بھی پڑا ہے ۔ انگریزی میں سوچنے اور اردو میں بولنے یا لکھنے کی
وجہ سے زبان کا کینڈا بگڑ رہا ہے ۔انگریزی الفاظ کی مسلسل یورش کی وجہ سے اس کا متبادل
سامنے کا اردو لفظ یاد نہیں آتا ۔ طشتری ، قلفی ، رکابی ، جالی ، کرسی ، پھاٹک ، بستر
وغیرہ جسے الفاظ بھی عدم استعمال کے سبب معدوم ہوگئے ہیں۔ جو الفاظ عام استعمال میں ہیں وہ بھی اوقات متبادل
کے طور پر یا دنہیں آتے ۔ پھر یہ کہ نئے تصورات کو پیش کرنے والی انگریزی کی اصطلاحات
کے لیے اردو کی اصطلاحات وضع کرنا بہت مشکل کام ہے اور یہ کام مشتر کہ کوشش کا مطالبہ
کرتا ہے ۔
یہ ویب سائٹ ڈاکٹر قیصر شمیم صاحب نے شروع کی ہے جو اصطلاح
سازی ، زبان کو نئے تقاضوں سے ہم آہنگ کرنے کا کام ہے۔ یہ کام ایک بڑے سماجی عمل کا
حصہّ ہے ۔ اس عمل میں بعض اوقات ایک ہی مفہوم کو ادا کرنے کے لیے کئی کئی اصطلاحات
وضع ہوجاتی ہیں ۔ لیکن یہ انتشار زبان کی نمو پدزیر ی کا ثبوت بھی ہے ۔ کثرت استعمال سے ان میں سے کوئی اصطلاح فطری طور
پر مروج ہوجاتی ہے او راسے قبول عام کی سند مل جاتی ہے ۔ ظاہر ہے کہ مروج ہونے والی
اصطلاح زبان کی خراد پر چڑھ کر ہی زبان کا حصہ بنتی ہے ۔ یہ اس سے بہتر ہے کہ جابرانہ
طریقہ پر کوئی اصطلاح علمی دنیا میں نافذ کی جائے ۔ البتہ اس عمل میں قواعد اور روز
مرہ کو بچانے کی کوشش کرنا چاہئے ۔
آزادی سے قبل کی سمٹی ہوئی
اردو دنیا میں اصطلاحات کی معیاربندی کا کام نسبتاً آسان تھا ۔ آزادی کے بعد ہندوستان
اور پاکستان میں اصطلاح سازی کا کام ایک دوسرے سے لاتعلق رہا ۔ ان کے درمیان تطابق
پیدا کرنے کی کوئی اجتماعی کوشش نہیں ہوسکی ۔ اب تو اردو کی نئی بستیاں کرّہ ارض کے
دور دراز خطوں میں آباد ہیں ۔اب اصطلاح سازی کا کام عالمی معیار بندی کا مطالبہ کرتا
ہے ۔ اس لیے اس سائیٹ کو تیار کرتے وقت بر صغیر میں اب تک ہونے والے تمام کام کو سامنے
رکھ کر ان میں یکسانیت پیدا کرنے کی کوشش کی گئی ہے ۔ نئی مجوزہ اصطلاحات کے سلسلے
میں بھی اس کا لحاظ رکھا گیا ہے ۔
اس سائیٹ پر مسلّمہ اور مجوزہ
دونوں طرح کی اصطلاحات پیش کی جارہی ہیں۔ مسلّمہ وہ ہیں جو پہلے سے استعمال میں ہیں۔
مجوّزہ وہ ہیں جو نئی وضع کی گئی ہیں اور جن کے لیے قبول عام کی سنددر کا ر ہے۔ اسی
لیے اس سائیٹ کو مکالماتی بنایا گیا ہے ۔ آپ کی رائے اور آپ کے ذریعہ پیش کردہ اصطلاحات
پر غور کیا جائے گا اور حتی الامکان ان کو قارئین کی خدمت میں پیش کیا جائے گا ۔ بحث
و مباحثہ اور اجتماعی غور وفکر سے جو شکل بر آمد ہوگی وہ یقیناً بہتر ہوگی ۔
ترجمہ کاری کی اہمیت کا احساس بین
الاقوامی طور پر بڑھ رہاہے ۔ انسانی تاریخ کے ہر دور میں ایک قوم کے علمی ذخیرہ سے دوسری اقوام
نے ترجمہ کے ذریعہ فیض حاصل کیا ہے۔ مسلمانوں نے یونان اور سلطنت رومہ کا علمی سرمایہ
ترجمے کے ذریعے عربی میں منتقل کیااور اس سے
فائدہ اٹھایا۔ مغربی یورپ کی اقوام
نے عربی سے اس علمی سرمایہ کو اپنی زبانوں
میں ترجمہ کیا۔ آج سماجی و سائنسی علوم کا
بیشتر علمی سرمایہ انگریزی اور دیگر یورپی زبانوں میں موجود ہے۔ دنیا بھر میں تقریباََ
ہر بڑی زبان میں ترجمہ کرنے کے لیے سوفٹ وئیر موجود ہیں ۔ ان سوفٹ وئیرزکے ذریعے کسی
نہ کسی حدتک ترجمے میں مدد تو مل سکتی مگر ترجمہ نہیں ہوسکتا۔ کمپیوٹر کی ترجمہ کاری
اس لیے بھی ناکام ثابت ہوئی کہ زبان دو اور دو چار کی طرح کوئی حسابی فارمولہ بہرحال
نہیں ہے۔ بہر حال ان سوفٹ وئیرز کا وجود اس
بات کی غمازی کرتاہے کہ دنیا بھر میں ترجمے کی اہمیت اجاگر ہورہی ہے۔
اپنی اس قدر اہمیت و افادیت
کے باوجود ترجمہ کاری کا فن بڑی نزاکت،دقتِ نظر اور باریک بینی کا متقاضی ہے،یہ کام
میکانیکی انداز میں نہیں کیا جاسکتا۔ترجمہ کاری کے دوران مترجم کو دونوں زبانوں کی
اصطلاحات (Terms)سے واسطہ پڑتا ہے ۔والٹئیرنے کہا تھا ”اگر مجھ سے گفتگو کرنا چاہتے
ہو تو پہلے اپنی اصطلاحات کی تعریف کرو۔“اصطلاحات کی وضاحت کے بغیر خاص سیاق و سباق
کے حامل مواد کا ترجمہ گمراہ کن ثابت ہوتا ہے۔ ہر اصطلا ح اپنا مخصوص تہذیبی پس منظر
رکھتی ہے ۔سادہ ترجمہ کاری اس پس منظر کو منتقل نہیں کرسکتی لہٰذا اس طرح نامکمل اور
غلط ترجمہ ہونے کے امکانات بڑھ جاتے ہیں ۔
ایسے میں ہمارے لیے بھی ضروری ہے
کہ ہم ترجمے کے فن کو پوری مہارت اور اس کی نزاکتوں کو سامنے رکھتے ہوئے استعمال کریں
اور اس علمی سرمایہ کو جو دیگر زبانوں میں موجود ہے اردو میں منتقل کیا جائے ۔ یہ وہی
راستہ ہے جس پرچل کر جاپان، چین اور کوریا اقوام عالم سے صنعت و تجارت میں آگے بڑھ
چکے ہیں اور اب ایران ترجمہ کاری پر بھرپور توجہ دے کر نت نئی علمی تبدیلیوں سے اپنے
آپ کو آگاہ رکھے ہوئے ہے۔ دنیا بھر میں تقریباََ ہر بڑی زبان میں ترجمہ کرنے کے لیے
سوفٹ وئیر موجود ہیں ۔ ان سوفٹ وئیرزکے ذریعے کسی نہ کسی حدتک ترجمے میں مدد تو مل
سکتی مگر ترجمہ نہیں ہوسکتا۔ کمپیوٹر کی ترجمہ کاری اس لیے بھی ناکام ثابت ہوئی کہ
زبان دو اور دو چار کی طرح کوئی حسابی فارمولہ بہرحال نہیں ہے۔ بہر حال ان سوفٹ وئیرز کا وجود اس بات کی غمازی
کرتاہے کہ دنیا بھر میں ترجمے کی اہمیت اجاگر ہورہی ہے۔
اپنی اس قدر اہمیت و افادیت کے
باوجود ترجمہ کاری کا فن بڑی نزاکت،دقتِ نظر اور باریک بینی کا متقاضی ہے،یہ کام میکانیکی
انداز میں نہیں کیا جاسکتا۔ترجمہ کاری کے دوران مترجم کو دونوں زبانوں کی اصطلاحات
(Terms)سے واسطہ پڑتا ہے ۔والٹئیرنے کہا تھا ”اگر مجھ سے گفتگو کرنا چاہتے
ہو تو پہلے اپنی اصطلاحات کی تعریف کرو۔“اصطلاحات کی وضاحت کے بغیر خاص سیاق و سباق
کے حامل مواد کا ترجمہ گمراہ کن ثابت ہوتا ہے۔ ہر اصطلا ح اپنا مخصوص تہذیبی پس منظر
رکھتی ہے ۔سادہ ترجمہ کاری اس پس منظر کو منتقل نہیں کرسکتی لہٰذا اس طرح نامکمل اور
غلط ترجمہ ہونے کے امکانات بڑھ جاتے ہیں ۔
سادہ ترجمہ اس وقت اور بھی
مشکل ہوجاتا ہے جب کسی جملے کی ایک سے زیادہ تشریحات ممکن ہوں ۔ اصطلاحات کی بہت بڑی
تعدا د ایسی ہے جو بظاہر یکساں نظر آنے کے باوجود ہر تہذیب و زبان میں مختلف معانی
کی حامل ہوتی ہے ۔ایسی اصطلاحات کے معانی ہر زبان کے تہذیبی پس منظر سے واضح ہوتے ہیںمثلاََ
انصاف کا لفظ تقریبَاہر زبان میں موجودہے مگر اسلامی اور مغربی تہذیب میں انصاف کا
تصورمختلف معانی رکھتا ہے۔ اسلامی تہذیب میں قاتل کی سزا معاف کی جاسکتی ہے اگر مقتول
کے ورثاءاس کی اجازت دیں مگر مغربی تصو ر عدل کے تحت قاتل کو ہر حال میں سزا دی جائے
گی خواہ اسے مقتول کے ورثاءمعاف ہی کیوں نہ کردیں ۔ اس طرح اسلامی تہذیب کی حامل زبانوں
مثلاََ عربی ،فارسی اور اردو وغیرہ میں انصاف کا مطلب ہوگا ایک مجرم کو رہا کردینا(بعد
از معافی ورثائ) اور مغربی تہذیب و قوانین کا پس منظر رکھنے والی زبانوں میں انصاف
کامطلب ہوگا متعلقہ مجرم کو پھانسی یا عمر قیدکی سزا ۔ آگے بڑھیں تو صورت حال اور واضح
ہوجائے گی ۔ اسلامی اثرات کی حامل زبان میں شریک حیات / شریکہ حیات منتخب کرنے کی آزادی
کا مطلب ہوگاکہ ہر لڑکے یا لڑکی کو اپنی پسند کے / پسندکی مسلمان یا اہل کتاب لڑکے
یا لڑکی سے شادی کرنے کی آزادی مگر یورپ کے تہذیبی پس منظر میں اس آزادی کا مطلب ہے
ہر لڑکی اور لڑکے کواپنی صنف مخالف سے شادی کی اجازت کے ساتھ ساتھ اپنے ہم نس سے بھی
شادی کی آزادی ۔ ان مثالوں سے واضح ہوا کہ ہر اصطلاح کے معانی صرف اس کے تہذیبی پس
منظرکو سامنے رکھ کر ہی سمجھے جاسکتے ہیںورنہ سادہ ترجمے کے نتیجے میں قارئین کے گمراہ
ہونے کے امکانات زیادہ ہیں۔
بعض ایسی اصطلاحات ہوتی ہیں
جو نہ صرف ایک خاص تہذیب کے پیش کردہ تصور کا اظہار کرتی ہیںبلکہ ان کے ساتھ ساتھ ان
سے وابستہ دیگر اصطلاحات کے پورے جال سے واقفیت ضروری ہوتی ہے مثلاََ عدّت محض ایک
لفظ ہے مگر یہ ایک لفظ اپنی پشت پر اپنے آپ سے جڑے ہوئے کئی تصورات رکھتا ہے مثلاََنطفہ
، نکاح،طلاق ، نان نفقہ اور حیاءوغیرہ۔ اس طرح کے الفاظ کا سادہ ترجمہ ناممکن ہے ۔
اسلامی تہذیب اور معاشرے میں زندگی بسر کرنے والاان پڑھ کسان بھی عدّت کا لفظ سامنے
آتے ہی تمام تفصیلات جان لیتا ہے کیوں کہ وہاسی تہذیب میں زندہ ہے جہاں اس اصطلاح نے
جنم لیا ہے ۔اس کے مقابلے میں مغربی تہذیب کی حامل کسی زبان کے پروفیسر کو بھی اس تصور
کو سمجھنے کے لیے کئی صفحات درکار ہوں گے۔
ترجمے کے وقت جو مسائل سامنے
آتے ہیں انہیں دو حصوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے یعنی ادبی شاہکاروں کے ترجمے سے متعلق
مسائل جس میں نثر اور شاعری دونوں شامل ہیں۔ دوسرے وہ مسائل جو علمی یا ٹیکنیکل مضامین
کا ترجمہ کرتے وقت درپیش ہوتے ہیں۔ اول الذکر میں مرکزی خیال، مجموعی ثاثیر، خیال کی
شدّت ، تخیّل کی پرواز، الفاظ کی نشست و برخاست، صوتی آہنگ، بحری تناسب اور ہیئت وغیرہ
کو ساتھ لے کر چلنا پڑتا ہے۔ جب کہ مسائل کی دوسری قسم میں مرکزی خیال، مجموعی تاثر،
سیاق و سباق اور اصطلاحات پر ہماری خاص توجہ ہوتی ہے، ہر اعتبار سے ترجمے میں مرکزی
خیال کو بڑی اہمیت حاصل ہے۔ یعنی جس چیز کو ہم مواد کے طور پر استعمال کر رہے ہیں اس
کے ذریعے مصنّف کیا کہنا چاہتا ہے اُسے گرفت میں لینے کے لیے ترجمے والی زبان پر عبور
حاصل ہونا چاہیے۔
دوسری اہم چیز ترجمے میں مجموعی
تاثیر کو پیش کرنا ہے اس کے لیے ضروری ہے کہ ہم دونوں زبانوں کی ساختوں اور ان کی ادبیات
سے پوری طرح واقف ہوں، زبانوں کے مزاج کو پہچانتے ہوں، ان کے اشاروں، کنایوں اور استعاروں
کو سمجھتے ہوں۔ جسے مواد کے طور پر استعمال کیا جا رہا ہے، اس کی جزیات سے پوری طرح
باخبر ہوں۔ صحیح تاثر پیش کرتے وقت ایک بڑی دشواری اس وقت سامنے آتی ہے جب ہم یہ محسوس
کرتے ہیں کہ جس زبان میں ترجمہ کیا جا رہا ہے۔ اس کا دامن، سرمایہ الفاظ، خیال اور
معنی مطالب کے اعتبار سے ، اس زبان کے مقابلے میں جس کا ترجمہ کیا جا رہا ہے تنگ ہے۔
اس کمی کو زبان کے مزاج کے مطابق الفاظ مستعار لے کر یا اختراع کر کے ہم کام چلا سکتے
ہیں۔ تیسری بنیادی چیز ’’ شدّت ہے ‘‘ یعنی جس شدّت کے ساتھ مصنّف یا شاعر نے اپنے خیالات
پیش کیے ہیں۔ تقریباً وہی بات ترجمے میں بھی آنی چاہیے۔ اگر ترجمے میں ہم ایسا کرنے
سے قاصر رہے ہیں تو بلاشبہ وہ صحت مند ترجمہ نہیں ہوگا۔ اس کے لیے ہمیں الفاظ کا اس
طرح انتخاب کرنا چاہیے کہ ترجمے کے الفاظ کے معنی و مطالب اپنے استعمال کی وجہ سے اس
طرح قید ہو جائیں کہ وہ الفاظ ویسا ہی مفہوم ادا کریں جیسا کہ ہم چاہتے ہیں۔ تشبیہات
و استعارات کا بھی مناسب ترجمہ ہونا چاہیے تاکہ ’’شدت‘‘کو صحیح غذا ملتی رہے
اس سائیٹ پر مسلّمہ اور مجوزہ
دونوں طرح کی اصطلاحات پیش کی گئی ہیں۔ اس ویب سائیٹ کی ایک خاص بات یہ بھی ہے کہ نئی وضع کی گئی اصطلاحات کو قبول
عام کی سند حاصل کرنے کے لئے سائیٹ کو مکالماتی
بنایا گیا ہے ۔ ڈاکٹر قیصر شمیم کا کہنا ہے
کہ ، بحث و مباحثہ اور اجتماعی غور وفکر سے
جو شکل بر آمد ہوگی وہ یقیناً بہتر ہوگی ۔
URL: