مولوی ممتاز علی کی مائیہ
ناز تصنیف ‘‘حقوق النسواں ’’
سورہ نساں جس میں عورتوں کی
نسبت زیادہ تر احکام ہیں اور اس طرح شروع ہوتی ہے۔ اے لوگوں اپنے پروردگار سے ڈرو جس
نے تم کو ایک قسم کی جان سے پیدا کیا اور اسی سے تمہارا جوڑا پیدا کیا ۔ یا ایہا الناس
التقوا بکم الذی خلقکم من نفس واحد ۃ وخلق منہا وز جہاں اس سورۃ میں ورثا اور یتیموں
او ر عورتوں کے حقوق بیان کئے گئے ہیں اور ان کے حق میں بے انصافی کو منع کیا ہے اس
لئے اوّل ہی فرمایا کہ سب مرد اور عورتیں ایک سی جان اور ایک سی خواہشیں رکھتی ہیں
جس طرح تم کو حق تلفی سے رنج پہنچتا ہے کیو نکہ تم سب ایک طرح کی جان رکھتے ہو۔ اس
لئے ان کے حق میں بے انصافی کرنے سے اللہ سے ڈرو ۔ پھر اسی سورہ میں باوجود اس کے کہ
عورت کے جملہ مصارف شوہر کے ذمہ ہیں اس کو ترکہ پدری میں مرد کے نصف حصہ کی برابر اور
حص ہدیا جیسا کہ اوپر مذکور ہوا بلکہ بعض صورتوں میں مرد اور عورت کا حصہ بالکل برابر
کردیا مثلاً اگر میت اولاد اور والدین چھوڑے تو اس صورت میں میت کے والدین کو چھٹا
حصہ ملے گا یعنی اس کی ماں اور باپ مساوی حصہ
پائیں گے علی ہذا القیاس جب میت کے نہ والدین ہوں نہ اولاد بلکہ صرف بھائی بہن تو بھائی
بہن کے لئے بھی مساوی حصہ مقرر کیا گیا ہے۔
پھر عورتوں کے لئے حق مہر
جدا مقرر کیا گیا ہے اور بحالت طلاق ا س تمام مہر میں سے خواہ کتنا کیوں نہ ہو مرد
کو ایک حبہ تک واپس لینے کی اجازت نہیں دی گئی ۔ عرب میں ایک نہایت خراب دستور تھا
کہ جب عورت منکوحہ سے نفرت ہوجاتی تھی تو اس کے ساتھ سخت کج ادائی کرتے تھے لاچار وہ
دق ہوکر مہر واپس کر کے طلاق لے لیتی تھی ۔خدائے تعالیٰ نے اس رسم قبیح کو اس طرح منع
فرمایا کہ عورتوں کو تنگ مت کرو اس نیت سے کہ جو تم نے ان کو دیا ہے اس میں سے کچھ
واپس لو ۔پھر ان کے ساتھ حسن سلوک کی یوں تاکید فرمائی ہے کہ عورتوں کے ساتھ نیک معاشرت
کرو۔ اور اگر تم کو وہ بری لگیں تب بھی یہ سمجھنا چاہئے کہ ممکن ہے کہ تم کو ایک شے
بری لگے اور اللہ اس میں تمہارے لیے بھلائی کرے ۔پھر مرد اور عورت میں مساوات اس طرح
ظاہر فرمائی کہ مردوں کو اپنی کمائی کا حصہ ہے اور عورتوں کو اپنی کمائی کا حصہ ہے
یعنی دونوں برابر ہیں ایک کو دوسرے پر ترجیح نہیں ہے ہر ایک کے لئے اپنے اپنے اعمال
ہیں۔ پھر عورتوں کے حق خلع کو یوں بیان فرمایا اگر کوئی عورت اپنے شوہر کی بدمزاجی
سے ڈرے توکچھ ہر ج نہیں کہ وہ آپس میں صلح کرلیں اور اگر وہ علیحدہ ہوجائیں تو ہر
ایک کو اللہ اپنی فراخ دستی سے غنی کردے گا۔
پھر شوہر وزوجہ میں ناموافقت
ہونے کی صورت میں مصالحت عمل میں لانے کے لئے بھی وہی طریق مساوات قائم رکھ کر فرمایا
اگر میاں بیوی میں نا اتفاقی کا اندیشہ ہو تو وہ
ثالث فیصلہ کے لئے مقرر کرو ایک ثالث شوہر کے کنبہ میں سے اور دوسرا ثالث بیوی
کے کنبہ میں سے ۔غرض جہاں تک قرآن مجید کی آیات پر غور کی جاتی ہےعورتوں کے حقوق
کی مردوں کے حقوق کے ساتھ مساوات ثابت ہوتی ہے۔
مردوں او رعورتوں میں خلقی
فرق جو ہے وہ صرف اعتقاد بقا نوع سے تعلق رکھتا ہے ۔ اور کیس قوۃ دماغی کا انحصار اس
فرق پر ہے۔ اس فرق کا اور نیز اس امر کا کہ عورتیں خلقۃ کمزور ہیں صرف یہ مقتضا ہے
کہ عورت بچے جنے اور ان کی پرورش کرے اور مرد تمام امورات شاقہ کے متحمل ہوں اس فرق
بین کے علاوہ بعض حذاق نے مرد عورت کے قویٰ دماغی میں بھی ایک نازک فرق محسوس کرنے
کا دعویٰ کیا ہے۔ یعنی یہ کہ مردوں میں ادراک کلیات کا ماہ فطرتا زیادہ ہے او ر عورتوں
میں ادراک کلیات کی قابلیت بہت کم ہے ان کاذہن صرف ادراک جزئیات کے لئے مناسب ہے۔ مگر
اول تو یہ تفریق صرف فرضی وہمی معلوم ہوتی ہے جس کا کوئی قطعی ثبوت نہیں ہے۔ دوم اگر
یہ فرق حقیقت میں قابل محسوس ہوسکنے کے ہے
تو ان کی حالت موجودہ تربیت وحالت تمدنی سے اس کی بخوبی تو جیہ ممکن ہے۔ سوم اگر یہ
فرق حقیقت میں قابل محسو س ہوسکنے کے ہے تو ان کی حالت موجودہ تربیت و حالت تمدنی سے
اس کی بخوبی توجیہ ممکن ہے ۔سوم اگر یہ فرق واقعی قوی دماغی میں ہے تو اس کی وجہ سے
عورتوں میں ایک ایسا صف پایا جاتا ہے جس کا مقابلہ مردوں سے اس صف میں نہیں ہوسکتا
۔یعنی ادراک جزئیات کے لئے قویٰ کے مناسب ہونے سے ان میں انتقال ذہن اس سرعت سے ہوتا
ہے کہ مردوں میں ممکن نہیں ہے بلکہ اس کے ساتھ ہر امر کے کنبہ کو نہایت برق نکاہی سے
پالینا ۔ نہایت لطیف باتوں کو اشارہ میں سمجھ جانا اور ایک امر کو چھوڑ کر دوسری طرف
اور دوسرے امر کو چھوڑ کر تیسری طرف نہایت آسانی سے ذہن کو منتقل کرلینا یہ اوصاف
جس اتم واکمل درجہ کے عورت میں پائے جاتے ہیں وہ مردوں میں نہیں پائے جاتے ممکن ہے
اگر ادراک جزئیات کی نسبت ادراک کلیات کے لئے عورتوں کے دماغ زیادہ موزوں ہوتے تو وہ
بے حد تنوع جو بے شمار امور خانہ داری میں پایا جاتا ہے انہیں خانہ داری کے قابل نہ
رکھتا۔
مختصر یہ کہ قویٰ عقلی میں
عورتیں کس طرح مردوں سے کم نہیں ہیں اور کوئی علمی مسئلہ آج تک ایسا ثابت نہیں ہوا
کہ وہاں تک مردوں کے ذہن کی رسائی ہوتی ہو او رعورتوں کی نہ ہوتی ہو۔ بلکہ جہاں تک
ہمارا اور ہمارے چند احباب کا تجربہ لڑکیوں کی تعلیم کے باب میں ہے اس سے معلوم ہوتا
ہے کہ بہ نسبت لڑکوں کے لڑکیاں زیادہ ذہین اور طباع اور روشن ضمیر ہوتی ہیں۔ جن لڑکیوں
نے مدرسہ میں تعلیم نہیں پائی اور اپنے گھر وں میں نوشت و خواند سیکھی ہے ان کا سننے
سے ہمیں بے انتہا تعجب ہوا۔ اکثر صورتوں میں یہ ہی سنا کہ ان کو کوئی باقاعدہ تعلیم
نہیں ہوئی نہ کوئی خاص شخص ان کی تعلیم کے لئے مخصوص ہوا بلکہ دوچار حرف بہن سے دو
چار حرف بھائی سے دوچار حروف والدہ سے اٹھتے بیٹھتے سیکھتی رہیں بھائی بہنوں کو لکھتے
دیکھ کر خود ان کو نقل کرنے لگیں ۔رفتہ رفتہ خودہی اس قدر لکھنا پڑھنا آگیا کہ کئی
کئی سال تک کے لئے بھائیوں کی تعلیم کی خاصی معلمہ بن گئیں ۔ ہم نے کبھی کسی لڑکے کو
اس طرح کی ادھوری تعلیم سے کوئی فائدہ حاصل کرتے نہیں دیکھا جس والدین یا بھائی کو
یکساں عمر کا لڑکا اور لڑکی پڑھانے کا اتفاق ہوا ہوگا۔ اسے صاف روشن ہوگیا ہوگا کہ
لڑکے عموماً عقل کے بھدے او رکم تیز ہوتے ہیں اور لڑکیوں کے ہمراہ ہمیشہ پھسڈی رہتے
ہیں ۔ (جاری)
بشکریہ :۔ روز نامہ صحافت
،ممبئی
URL: https://newageislam.com/urdu-section/false-authority-men-women-part-9/d/2091