مولوی ممتاز علی کی مائیہ
ناز تصنیف ‘‘حقوق نسواں’’
قرآن مجید کا خاص طرز ہے
کہ جس خطاب میں وہ مرد او ر عورتوں کو شامل و داخل سمجھتا ہے ۔اکثر اوقات اس کو صر
ف بصیغہ مذکر تغلیباً استعمال کرتا ہے۔ قرآن کی پہلی آیات ہی کو دیکھو جہاں فرمایا
ہے۔ ھدی اللمتّقین الذین یو منون بالغیب ویقمون الصلوٰۃ (الخ) اس آیت میں متقین اور
اس کے بعد صیغہائے فعل بصورت مذکر ہیں ۔ حالانکہ یہ مقصود ہر گز نہیں کہ قرآن مجید
اور اس کے تمام صیغہائے فعل بصورت مذکر ہیں ۔ حالانکہ یہ مقصود ہر گز نہیں کہ قرآن
مجید اور اس کے بعد تمام صیغہائے فعل بصورت
مذکر ہیں ۔ حالانکہ یہ مقصود ہر گز نہیں کہ قرآن مجید ان پرہیز گار مردوں کے واسطے
ہدایت ہے جو غیب پرایمان لاتے ہیں اور نماز پڑھتے ہیں ۔بلکہ ان میں عورت بھی داخل ہیں۔قرآن
سیکڑوں جگہ قرآن مجید میں اقیمو الصلوٰۃ آتو الز کوٰۃ کا بصیغہ مذکر آیا ہے ۔ کیا
یہ سمجھنا صحیح ہے کہ نماز اور زکوٰۃ کا حکم صرف مردوں کے لئے ہے او ر عورتیں اس سے
معاف ہیں۔ ہرگز نہیں ۔ اعلیٰ بذا القیاس روزہ، رمضان کی نسبت حکم ہے کہ ‘من شہد منکم
الشہر فلیصمہ ’ جس کے لغوی معنے ہیں کہ تم مردوں میں سے جو چاند دیکھے اس کا روزہ رکھنا
چاہئے ۔ اگر اس حکم میں عورت کو داخل نہ سمجھیں تو کوئی حکم فرضیت روزہ کا عورت کے
لئے قرآن مجید میں سے نکلے گا ۔پس ایسے مقامات پر مذکو کا صیغہ خاص مردوں کے لئے استعمال
نہیں کیا گیا بلکہ تغلیباً استعمال کیا گیا ہے۔ اردو میں بھی اس طرح کا استعمال کثرت
سے ہوتا ہے ۔مثلاً کہتے ہیں کہ برا کرنے والے کا انجام برا ہوتا ہے ۔ اس کے یہ معنی
نہیں کہ براکرنے والی (عورت) کا انجام برا نہیں ہوتا۔ عرب میں زوج کے معنے جوڑے کے
ہیں۔ عورت مرد کی زوج اور مرد عورت کا زو ج کہلاتا ہے ۔اس لفظ کا اس قسم کا استعمال
بھی نہایت خوبصورتی سے حقوق زوجین کے مساوات ظاہر کرتا ہے ۔پس آیت کے معنی یہ ہیں
کہ جن لوگوں کے نیک اعمال ہوں گے وہ بہشت میں جائیں گے ۔ ان کو وہاں پاک جوڑے ملیں
گے ۔ یعنی مردوں کو عورتیں اور عورتوں کو مرد۔
اس معنی پر شاید یہ تعجب ہوگا
کہ مردوں کو تو حوران بہشتی ملیں گی مگر عورتوں کو کیا ملے گا۔ یہ تعجب صرف اس سبب
سے پیدا ہوتا ہےکہ مردوں نے اپنی سفاہت او ردنائت نفس کی وجہ سے بعض مقامات قرآن مجید
کے ایک خاص معنے اپنے ذہن میں قرار دےلئے ہیں اور ان کو صحیح فرض کرلیا ہے۔ اب اگر
چہ وہ دوسرے صحیح معنے کے اختیار کرنے پر آمادگی ظاہر کرتے ہیں او راپنے ذہن کا معافی
مشہورہ سے خالی کردینابتلاتے ہیں،مگر ان معافی مشہورہ کا بے معلوم اثر ان کے دل پر باقی رہتا ہے اور اثر
کسی دوسرے معنے کو چسپا ں نہیں ہونے دیتا ۔سب لوگوں کے دلوں میں یہ بات جمی ہوئی ہے
کہ قیامت کے دن مردوں کوحوران بہشتی ملیں گی ۔ اب ہم کہتے ہیں کہ یہ خیال غلط ہے اس
کو دل سے دور کر دواور جو معنے ہم بتلاتے ہیں وہ سنو ۔ وہ کہتے ہیں کہ اچھا ہم نے اپنے
ذہن سے وہ معافی تو دور کرلئے ۔اب بتلاؤ کہ مردوں کو تو حوران بہشتی ملیں گی ۔عورتوں
کو کیا ملے گا؟حالانکہ مردوں کو حوران بہشتی کا بمعانی معروف ملنا ہی تو ذہن سے خارج
کرنا تھا ۔ اب اسی کو تسلیم کرکے اعتراض کیا جاتا ہے جو سخت غلطی ہے ۔ قرآن مجید میں
ایک آیت ایسی نہیں ملتی جس سے معلوم ہوا کہ حوران بہشتی کوئی جداگانہ مخلوق ہے جو
مردوں کے لیے تیار کی گئی ہے۔ عربی زبان میں ہر سیاہ چشم گوری عورت کو حور کہتے ہیں
۔قرآن مجید سے ثابت ہے کہ قیامت کے روز سب آدمی جو ان اور یکساں عمر کے پیدا کئے
جائیں گے ۔ مردوں کی نسبت زیادہ صراحت نہیں کی گئی ہے لیکن عورتوں کی نسبت ارشاد ہوا
ہے کہ ہم نے ان کو ایک اٹھان پر ‘‘قال اللہ انشا ناھن انشا افجعلناھن ابکاراًعرباً
اگر اباًلا صحاب الیمین الواقعہ’’اٹھایا ہے اور ان کو کنواریاں کردیا۔ اپنے شوہر وں
کی ہم عمر اور پیار دلانے والیاں ۔ انہیں عورتوں کو کبھی بہ لفظ سیاہ چشم (حور) اور
کبھی بہ لفظ شرمگیں (قاصرات الطرف) کبھی بہ لفظ اچھی بیبیاں ) خیرات (او رکبھی بہ لفظ
بیویاں (ازدواج ) قرآن مجید میں بیان کیا ہے اور سیاق قرآن او رچند احادیث کے مضمون
سے بعض صحابہ و تابعین مثلاً حضرت ابن عباس او رمجاہد اس طرف کئےگئے ہیں کہ آیات
‘‘بعضھم خلقا بمعنی نسا الدنیا انشٔن خلقا آخر ابکار ا قاًلا الشعبی وزادلم یمسھن
منذالنشٔن خلقا قال ابن عباس من الا دمیات اللاتی متن ابکارا ۔ تفسیر کبیر و مثیر ساکن
الا غرام الی رضا دارالسلام ’’ قرآن میں جن الفاظ سے حوریں ایک جدا مخلوق سمجھی جاتی
ہیں، وہاں دنیا کی عورتیں ہی مراد ہیں ۔ اور اس بات کے کہنے سے کوئی ان کے پاس نہیں
پھٹکا یہ مراد ہے کہ جب سے وہ دبارہ پیدا ہوئیں ۔ تب سے ان کے پاس کوئی نہیں پھٹکا
۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ جن خوبصورت عورتوں
کے ملنے کا ذکر ہے و دنیا کی ہی بیبیاں ہیں جو اس عالم قدس میں بدل کر حسین اور پیار
دلانے والیاں کردی جائیں گی او رپاک زندگی کے ساتھ اپنے پیارے شوہروں کے ہمراہ ایسی
جاودانی حالت میں رہیں گی ان میں پھر تغیر وتبدل نہ ہوگا ۔ سورۂ رعد میں خدا تعالیٰ
نے فرمایا ہے کہ اہل جنت بہشت جاو دانی میں
داخل ہوں گےاو را س جگہ ان کے باپ او ران کی بیبیاں او ران کی آل و اولاد بھی جو نیکو
کار تھی ہوگی۔ پھر سورہ طور میں فرمایا کہ
جو لوگ ایماندار ہیں ان کی اولاد بھی ایماندار ہے ان کو ہم ان کی اولاد کے ساتھ ملادیں
گے ۔ پھر سورہ زخرف میں فرمایا ہے کہ اپنی بیبیوں کے ساتھ جنت میں داخل ہو اور اس کی
سیر کرو۔ غرض اسی قسم کی اور بہت سی آیات قرآنی ہیں جن سے پایا جاتا ہے کہ اس روحانی
پر لطف زندگی میں اہل جنت اپنے پیارے عزیز واقارب کو اپنے ساتھ پائیں گے۔
ان تمام بیانات و تشریحات
سے بخوبی ثابت ہوا کہ نہ مردوں کی ساخت دماغی میں کوئی ایسی بات ہے کہ اس کی رو سے
وہ کسی خاص مسئلہ عقلی سمجھنے کی استعداد رکھتے ہیں او ر عورتیں اس کے سمجھنے سے قاصر
ہیں ۔ نہ قرآن مجید نے مردوں کوکوئی ایسی منزلت دی ہے کہ ان کو عورتوں کا حاکم (۱) سردار سمجھا جائے جہاں تک
احکام شرعی پر غور کی گئی ہے مردوں او ر عورتوں
میں مساوات حقوق ثابت ہوتی ہے۔
(۱)بعض
احادیث میں آیا ہے کہ اگر خدا انسان کو انسان کے لئے سجدہ کرنے کا حکم دیتا تو بیوی
کو حکم دیتا کے شوہر کو سجدہ کرے۔ ایسی احادیث میں شوہر کے درجہ کی عظمت بیان کی گئی
ہے ۔ مرد عورت تمیز سے بحث نہیں ہے۔ بعض رشتے اور بھی ایسے ہیں جن کو خدا نے بزرگی
دی ہے۔ مثلاً باپ کا درجہ ،بیٹے اور بیٹی سب پر باپ کا بے حد ادب اور تعظیم لازم ہے
۔ حالانکہ بیٹا اور باپ دونوں مرد ہیں اور کوئی ذاتی فرق نہیں رکھتے ۔ اسی طرح شوہر
بوجہ رشتہ شوہرہی بیوی سے ادب و تعظیم کا مستحق ہے۔ ایسی احادیث سے نہ مردوں کی فضیلت
ثابت ہوتی ہے جومرد ثابت کرناچاہتے ہیں اور نہ ان احادیث سے ہم انکار کرکے یہ کہنا
چاہتے ہیں کہ عورتوں کو شوہروں کی تعظیم و اطاعت نہیں چاہئے ۔ یہ معنی لکر جال علہین
درجہ کے ہیں ۔ رجال سے عام طور پر مطلق مرد مراد نہیں بلکہ رجال سے شوہر مراد ہیں کیو
نکہ یہ آیت شوہر وزوجہ کے حقوق کے متعلق ہے نہ مطلق مرد او رمطلق عورت کے متعلق فافہم۔(جاری)
بشکریہ روزنانہ صحافت ،ممبئی
URL: https://newageislam.com/urdu-section/false-authority-men-women-part-8/d/2087