مولوی ممتاز علی کی مائیہ
ناز تصنیف ‘‘حقوق نسواں’’
چنانچہ جہاں عورت کے پیدا
کرنے اور تشریح نکاح کا ذکر کیا گیا ہے وہاں خدائے تعالیٰ نے فرمایا ہے: ومن آیا تہ
ان خلق لکم من انفسکم ازواجاً لتسکنوا الیھا
و جعل بینکم مودۃ ورحمۃ (سورہ روم) یعنی ہم نے تماارے دلوں میں عورتوں کی محبت ڈالی
تاکہ تم ان سے تسکین حاصل کرو ۔پس اگر یہی امر حصول اغراض نکاح میں داخل نہ رکھا جائے
تو نکاح صرف ایک ذریعہ شہوت رانی کا باقی رہ جاتا ہے۔ علاوہ ازیں اللہ تعالیٰ نے دوسری
جگہ فرمایا کہ لن تستطیعواان تعدلو ابین النسا ولو حرصتم ۔یعنی تم عورتوں میں ہر گز
عدل نہ رکھ سکو گے خواہ تم اس بات کی حرص بھی کرو ۔ اصول تفسیر کے بموجب ضروری ہے کہ
حتی الا مکان قرآن مجید کی ایک مقام کی تفسیر دوسرے مقام سے کی جائے اور عدل کا جو
مدلول آیت اوّل میں قرار دیا جائے وہی آیت مابعد میں قائم رکھا جائے۔ اب اگر پہلی
آیت میں عدل سے مراد وہ امر ہے جو ہمارے مخالفین سمجھتے ہیں اور وہ قابل عمل درآمد
ہے تو دوسری آیت میں خدائے تعالیٰ نے کیوں فرمایا کہ تم عدل ہر گز نہ کرسکوگے۔ خدائے
تعالیٰ تو فرماتا ہے کہ تم سے ہر گز عدل نہیں ہوسکے گا۔اور قائلین تعداد ازدواج فرماتے
ہیں کہ نہیں ہم عدل کرسکتے ہیں ۔ اس جرأت و بے باکی کو خیال کرنا چاہئے اب رہا یہ
سوال کہ جب خدائے تعالیٰ خود جانتا تھا کہ انسان سے عدل نہیں ہوسکے گا اور فرما بھی
دیا کہ تم ہر گز عدل نہ کرسکو گے تب عدل کی شرط سے چار نکاحوں کی اجازت دینے کے کیا
معنی ۔ کیااس صورت میں یہ اجازت لغونہ ٹھہرے گی؟ اس کے جواب میں اول تو ہم یہ کہتے
ہیں کہ قرآن مجید کے جو معنی ہیں وہ تو سیدھے سادھے ہیں اور وہ ہم نے بتلادئے ۔اب
یہ سوال خدا سے کرو کہ لغو اجازت سے کیا فائدہ مدنظر تھا۔ مگر جہاں تک ہم خدائے تعالیٰ
کے کلام کو سمجھنے کی طاقت رکھتے ہیں ہم اس کے سمجھنے میں بھی کوئی دقت نہیں پاتے۔
جس طریقہ سے اللہ تعالیٰ نے تعدد ازدواج کی ممانعت فرمائی ہے وہ تعلیق محال بالمحال
ہے۔ اس طریق سے گفتگو کرنے سے ممانعت کی تاکید زیادہ سخت کردی جاتی ہے۔ کسی بو الہوس
کوکہا جائے کہ اگر عنقامل سکتا ہے تو تجھے کیمیابھی مل جائے گی۔ اس سے یہ نتیجہ نکال
لینا کہ یہ شخص عنقا کے وجود پر یقین اور اس
کے ملنے کے امید رکھتا ہے اور جن روز عنقا ملے گا اسی روز کیمیا بھی ہاتھ آئے گی۔
محض نادانی ہے۔ تعلیق محال بالمحال کی نہایت عمدہ مثال خدائے تعالیٰ کے ایک اور قول
میں ہے جہاں فرمایا۔ ان الذین کذبو ا بایتنا و استکبرو عنہا لاتقضو لہم ابواب السما
و لا یدخلون الجنۃ حتیٰ یلج الجمل فی سم الخیاط (سورہ اعراف)یعنی جب تک سوئی کے ناکہ
میں سے اونٹ نہ نکل جائے گا کوئی کافر بہشت میں نہ جائے گا اس سے یہ سمجھنا کہ واقعی
ایک وقت ایسا بھی آئے گا کہ اس وقت اونٹ سوئی کے ناکہ میں سے گذر جائے گا۔خلاف منشا
قائل تفسیر کرنی ہے۔ چنانچہ ایک شاعر نے قصدا شاعرانہ غرض سے اس فرضی خیال کو واقعی
تسلیم کر کے ایک نہایت لطیف مضمون باندھا ہے وہ کہتا ہے کہ انچہ برمن مے رود گر بر
شتر رفتے زغم ۔میز وندے کافراں درجنت الماد اعلم یعنی جو غم مجھ پر گذرتا ہے وہ اگر
اونٹ پر گذرے تو کافر بہشت میں پہنچ جائیں۔ مطلب شاعر کا یہ ہے کہ اس غم سے اونٹ اس
قدر لاغر ہوجائے کہ سوئی کے ناکہ میں اس کا نکلنا ممکن ہوجائے۔ اور چونکہ کافروں کا
بہشت میں داخل ہونا اسی شرط کے ساتھ مشروط تھا اس لئے وہ بھی بہشت میں داخل ہوجائیں۔
جواز تعداد ازداج کی نسبت جو خداوند تعالیٰ کا قول ہے وہ بھی اس قسم کا ہے جس کا منشا
اظہار اس امر کا ہے کہ تعداد ازدواج میں سخت اندیشہ عدم قیام عدل کا ہے۔ہاں اگر کوئی
ایسا بشر ہے جسےعدل نہ کرسکنے کا اندیشہ نہ ہوتو وہ جتنی چاہے بیویاں کرلے۔ دودو تین
تین چار چار بلکہ یہاں یہ بھی مقصود نہیں کہ عدل کے کرسکنے کی حالت میں چار تک کی ہی
اجازت ہے۔ بلکہ یہ ایک طریقہ وہ اسلوب کلام ہے کہ جتنی چاہے کرلو ۔دو کرو تین کرو چار
کرو۔ کیو نکہ حقیقت میں اس سے کوئی اجازت کسی عدد خاص کی دینی منظور ہی نہیں ہے۔ اس
قول سے تعددازدواج کا جواز ثابت کرنا ویسا ہی شاعرانہ خیال کا رتبہ رکھے گا جیسا اوپر
کے شعر میں کافروں کا بہشت میں جانا۔
اصول فقہ و اصول تفسیر کے
بموجب اس آیت پر ایک اور قابل بحث پیش آتی ہے جس کی طرف شاید اب تک پوری تو جہ نہیں
کی گئی۔ ہماری رائے میں اس آیت سے مطلق نکاح کی نسبت کوئی حکم نکالنا سخت غلطی ہے۔
بلکہ اس آیت سے صرف ایک خاص صورت کے نکاح کا حکم نکلتا ہے۔
عرب کے لوگوں میں ایک نہایت
مذموم اور بے رحمی کی رسم زمانہ جاہلیت میں جاری تھی کہ وہ یتیم و لاوارث لڑکیوں کو
پال لیتےتھے اور جب وہ بڑی ہوجاتی تھیں تب ان سے نکاح کرلیتے تھے چونکہ ان کا کوئی
والی وارث نہ ہوتا تھا اس لئے وہ ان یتیموں کا مال لے کر جاتے تھے اور ان لاوارثوں
سے نکاح کرنے کی اصل غرض ان کا مال ہضم کرنا ہوتا تھا۔ جیسا آج کل بھی بہت شخصیاص
طوائف سے نکاح صرف اس غرض سے کرتے ہیں کہ عمدہ مالیت کا زیور ان کے ہاتھ آجائے اور
بعض اشخاص باوجود نیک بیوی کی موجودگی کے اس تاک میں لگے رہتے ہیں کہ کوئی مالدار بیوی
نکاح میں آجائے ۔ اس آیت میں خدائے تعالیٰ نے اس یتیم بے کس لڑکیوں پر ظلم کرنا منع
فرمایا اور کہا کہ ان کے حق میں انصاف کرو اور پھر یہ فرمایا کہ اگر تم کو اپنی قوت انصاف پر بھروسہ نہ ہو۔ اور یہ اندیشہ
ہو کہ ایسی بے کس یتیموں سے نکاح ہوگا تو ضرور ہم سے بے انصافی سرزد ہوگی تو ہر گز
ایسی لڑکیوں کو نکاح میں مت لاؤبلکہ او رعورتوں سے جن کے والی وارث موجود ہوں جو تم
سے ان کے سلوک کی نسبت باز پرس کر سکیں نکاح کرلو ۔ لیکن ان کے ہمراہ بھی عدل کی شرط
ہے کیو نکہ وہ اصل اصول نکاح ہے اگر تم عدل کرسکتے ہوتو چار تک نکا ح کرلو اگر عدل
نہیں کرسکتے تو صرف ایک نکاح کرو۔
اب اس آیت سے صاف ظاہر ہے
کہ اس آیت سے عام نکاح کے متعلق کوئی حکم دینا مقصود شارع نہ تھا بلکہ جو لوگ لاوارث
لڑکیوں پر ظلم کرتے تھے صرف ان کے نکاح کے باب میں یہ آیت و ارد ہوتی ہے۔ (جاری)
بشکریہ روزنانہ صحافت ،ممبئی
https://newageislam.com/urdu-section/false-authority-men-women-part-7-a/d/2082