مولوی ممتاز علی کی مائیہ
ناز تصنیف ‘‘حقوق نسواں’’
اور عورتوں کے آرام کے لئے
کمانا پڑتا ہے اس لئے مرد عورتوں کے قوام یا کارگزار یا مہتمم ہیں چونکہ دنیا میں کوئی
امیر ہے۔ کوئی غریب کوئی فیاض طبع کوئی بخیل ۔ اس لئے خدا ئے تعالیٰ نے فرمایا کہ اللہ
نے ایک کو ایک پر فضیلت دی ہے۔ پس تم جیسی استطاعت یا حیثیت یا معیشت رکھتے ہو اسی
کے مطابق عورت کی کارگزاری وخدمت کرو۔ حاکمی محکومی کا کچھ ذکر اس آیت میں نہیں ہے
اور اگر ہے تو معنی متبادر سےعورتوں کی فضیلت اور مردوں کا ان کا خدمت گزار و کارگزار
ہونا ثابت ہوتا ہے۔
دوسری نقلی دلیل اس پر امر
پر مبنی ہے کہ قرآن مجید نے دوعورتوں کی شہادت ایک مرد کی شہادت کے برابر اور عورت
کا حصہ ترکہ مرد کے نصف حصہ کے برابر قرار دیا ہے۔ مگر اس سے بھی مردوں کی کوئی اصلی
یا فطری فضیلت ثابت نہیں ہوتی ۔چنانچہ اس اعتراض کے جواب کےلئے متعدد امور قابل غور
ہیں اولا عورتوں کو جس تمدنی حالت میں رکھا گیا ہے اس حالت نے ان کو ایسا جاہل اور
نامعاملہ فہم اور ناتجربہ کار بنادیا ہے کہ اگر ہر قسم کے معاملات ومقدمات میں مرد
اور عورت کی شہادت کا وزن بالکل یکساں رکھا جاتا یا اب بھی رکھا جائے تو اہم معاملات
میں سخت ابتری پڑنے کا اندیشہ ہے۔
جس آیت کے روسے ایک مرد کی
شہادت دو عورتوں کی شہادت کے مساوی قرار دی گئی ہے وہ آیت تمسک قرضہ سے تعلق رکھتی
ہے ۔ ظاہر ہے کہ تحریر تمسکات ودستاویز ات
حساب کتاب مطلوبہ عدالت یا محکمہ قضاۃ ایسے معاملات ہیں جو عام طور پر عورت کے لئے
غیر معمولی قسم کے کام ہیں اوربوجہ کمی تعلیم وقلت تجربہ وعدم واقفیت ایسے معاملات
ہیں جو عورت کی حالت کے مناسب نہیں نہ ان کو عورت عرضہ دراز تک یاد رکھ سکتی ہیں۔ مردوں
کو چونکہ اس قسم کی معاملہ فہمی کی عادت ہوتی ہے وہ ایسے معاملات کو بخوبی یادرکھ سکتے
ہیں ۔ اس واسطے ایک عورت کی بجائے دو عورتیں شہادت کےلئے ضروری ٹھہریں تاکہ اگر ایک
عورت صورت معاملہ بھول جائے تو دوسری عورت اس کو یاد کراسکے۔ چنانچہ قرآن مجید میں
جہاں شہادت مذکورہ بالا کاذکر آیا ہے وہاں یہ علت اس حکم کی بیان کی گئی ہے۔ چنانچہ
فر مایا ہے کہ ( ان تضل احداہما فتذکراحد ا بما لاخریٰ) دوعورتیں ہونی چاہئیں کہ اگر
ایک بھول جائے تو دوسری عورت اس کو یاد کراسکے ۔ جب قرآن مجید نے خود اس تفریق کی
یہ وجہ قرار نہیں دی کہ عورت بلحاظ خلقت مرد سے نصف درجہ رکیتو ہے تو بیچارے فقہا کس
گنتی میں ہیں جو محض اپنے ذہن نارسا سے ایسے وجوہ فاسد ہ اختراع کر کے نصف دنیا کی
حق تلفی کریں۔
ثانیا قرآن مجید کا یہ حکم
جس میں اس قسم کی شہادت کا ذکر ہے ایک اختیاری حکم ہے جس کی تعمیل ہر مسلمان پر ضروری
او رلازمی قرار نہیں دی گئی ۔پس ایک ارشادی حکم کے ذیل میں ایک امر کا محض ضمنی طور
پر مذکورہ ہونا خود اپنی وقعت کھونے یا کم کرنے کے لئے کافی وافی ہے۔
ثالثا ہم نے جو وجہ اول میں
بیان کیا کہ دوعورتوں کی شہادت کوایک مردکی شہادت کے مساوی قرار دینا بلحاظ نوعیت معاملہ
ہے نہ بلحاظ کمی و زیادتی درجہ زکورو اناث اس کے ثبوت میں یہ بھی پیش ہوسکتا ہے کہ
تمسک مذکورہ کے علاوہ دیگر معاملات میں جو فہم عورت کے لئے غیر معمولی نہیں ہیں مثلاً
معاملات ‘نکاح’ طلاق ۔ حدو وقصاص وغیرہ میں جہاں کہیں قرآن مجید میں شہادت کے باب
میں احکام آئے ہیں وہاں اس قسم کی تفریق درجہ نہیں کی گئی ۔
رابعا بلکہ اسی اعتراض کے
متعلق ایک امر ایسا ہے جس سےشہادت کے باب میں مردوں پر عورت کی فضیلت ثابت ہوئی مثلاً صحیح بخاری میں عقبہ بن حارث
کا ایک قصہ لکھا ہے کہ اس نے کسی لڑکی سے نکاح کرلیا تھا ۔ ایک عورت نے آکر اس کی
اطلاع دی کہ یہ نکاح کس طرح جائز ہوسکتا ہے جب کہ میں نے اس لڑکی اور لڑکے کے دونوں
کو دودھ پلایا ہے ۔عقبہ نے کہا کہ تو نے آج تک کبھی مجھ سے یہ ذکر نہیں کیا کہ میں
نے تجھے دودھ پلایا ہے پس میں کس طرح اس بات کو تسلیم کروں۔ اس کے بعد اس نے اپنی سسرال والوں سے بھی اس بات کا استفسار کیا۔
انہوں نے بھی یہ بیا کیاکہ جہاں تک ہمیں معلوم ہے اس عورت نے اس لڑکی کو کبھی دودھ
نہیں پلایا ۔ آخر عقبہ جناب رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور
حال عرض کیا ۔ آپ نے صرف اس ایک عورت کی شہادت پر نکاح فسخ کرکے شوہر وزوجہ میں تفریق
کرادی۔
اب بتادیں ہمارے خود بین فقہا
کہ آیا کسی معاملہ میں اکیلے مرد کی شہادت بھی انفصال مقدمات کے لئے کافی ووانی تسلیم
کرنی پڑی ہے۔
خامساً اس باب میں یہ بھی
ظن غالب ہے کہ ایک مرد کی شہادت کی بجائے دوعورتوں کی شہادت شاید صرف اس وجہ سے ٹھہرائی
گئی ہے کہ عورت بعض اوقات اپنی جسمانی معذوریوں کے سبب حاضری عدت کے قابل نہیں ہو تی۔
ایسی حالت میں دوعورتوں کے ہونے سے یہ فائدہ ہے کہ ایک کے معذور ہونے پر دوسری عورت
شہادت دے سکتی ہے عورت کو اس قسم کا حق حاصل ہونا یعنی اپنی شہادت دوسرے سے دلوادینا
بھی اس معاملہ کا ایک ایسا پہلو ہے جس سے فی الحال عورت کے حقوق کی برتری مردوں پر
ثابت ہوتی ہے ۔ نہ کہ ان کے حقوق کی منقصت۔
تقسیم تر کہ میں مرد او رعورت
کے غیر مساوی حصے مقرر کرنے سے مردوں کی فضیلت
مطلق ثابت نہیں ہوتی۔ عورت کے جملہ اخراجات
ومعیشت کا بار مردوں کے سرپر ڈالا گیا ہے ۔ اور عورتوں کو سہل تر کام خانہ داری کا
سپرد کیا گیا ہے۔
پس جب کہ مرد کو اپنے اور
اپنی بیوی کے گذارہ کے بہم پنچا نے اور آئند ہ اولاد کے لئے بھی کل سامان معاش حاصل
کرنے کا اہم فرض سپردکیا گیا تھا تو یہ کب مناسب تھا کہ بلا ضرورت عورت کو جو اپنے
والدین کے ہاں سے نکاح کے وقت بہت جہیز بھی پالیتی ہے اور معقول رقم مہر کا علیحدہ
حق رکھتی ہے اور شوہر سے نان نفقہ کی الگ مستحق رہتی ہے تر کہ کی تقسیم میں بھی مرد
کے برابر کر کے عورت کا پلہ بے حدوزنی کیا جاتا کیسا صاف اور صریح ثبوت ہے اس امر کا کہ اللہ تعالیٰ کو حقیقت
میں عورتوں کی زیادہ مراعات منظور ہے ورنہ کیا وجہ ہوسکتی ہے اس بات کی کہ اپنے شوہر
کے ہمراہ جملہ اخراجات میں شریک رہ کر وہ ترکہ پدری میں علیحدہ جائیداد حاصل کرے او
رمہر کی جدا حقدار ہو۔ (جاری)
بشکریہ روزنانہ صحافت ،ممبئی
URL: