حقو ق النسواں مولوی ممتاز
علی کی تصنیف ہے۔ یہ کتاب 1898میں لکھی گئی تھی۔
مولوی ممتاز علی علی گڑھ یونیورسٹی کے بانی سرسید احمد خاں کے ہمعصر تھے۔ حقوق النسواں
اسلام میں عورتوں کے حقو ق پہلی مستند تصنیف ہے۔ مولوی ممتاز علی نے نہایت مدلل طریقے
سے قرآنی آیات اور مستند احادیث کی مدد سے
یہ ثابت کیا ہے کہ مردوں کی عورتوں پرنام نہاد برتری اور فضیلت اسلام یا قرآن کا تصور
نہیں ، بلکہ مفسرین کےذہنی رویہ کا نتیجہ ہے ، جو مرد انہ اشاونیت (Chauvanism)کے شکار تھے۔ اس کتاب
کی اشاعت نے آج سے 111سال پہلے ایک نئی بحث کا دروازہ کھول دیا تھا۔ کچھ نے اس کتاب
کی سخت مخالفت کی لیکن بہت سے علما نے اس تصنیف کا خیر مقدم کیا اورکچھ نے خاموشی ہی
میں بہتری سمجھی روز نامہ ‘‘صحافت’’ ممبئی اسے اس لئے سلسلہ وار شائع کررہا ہے کہ ایک
صدی بعد بھی یہ تصنیف اور اس کے مضامین آج کے حالات سے مطابقت رکھتے ہیں، اس لئے بالکل
نئے معلوم ہوتے ہیں۔ امید کی یہ مضامین بغور پڑھے جائیں گے اور اس عظیم الشان تصنیف
کا شایان شان خیر مقدم کیا جائے گا۔۔۔۔۔ایڈیٹر
6۔ کرتوں او رصدریوں کے گریباں بند ہونے چاہئیں اور ان کے ایسے گلو
بند ہوں جن سے گردن چھپی رہے ۔
7۔ کمر بند کا لٹکتا نظر آنا سخت بے تمیزی او ربے حیائی ہے۔
8۔ کمر بند میں کنجیوں کا گھچایا بٹوا ہونا اور کنجیوں اور بٹوے کی
ہر ضرورت پرکمر بند کی طرف ہاتھ لے جانا سخت گنوار پن ہے۔
9۔ بجائے پھڈی اور گھیتلی جوتی کے جن کا دیہات وقصباب میں عام رواج
ہے سلیم شاہی جوتی یا انگریزی گر گابی مع موزہ پہننا زیادہ آرام کی بات ہے۔
10۔ جو صاحب ہماری رائے سے اتفاق رکھتے ہوں جس شہر میں جتنے ہوں وہ
اپنی ایک خاص جمعیت بغرض اصلاح حالت مستو رات اہل اسلام ہند بنائیں ۔ اور ان کی مجالس
میں ان کے ہمراہ ان کی بیوبیاں بھی شامل ہوا کریں جو حسب مرضی ان صاحبان کے لباس شرعی
میں ملبوس ہوں یا کسی اسے لباس میں جووہ اس موقع کےلئے قرار دیں ۔ یہ فی الحال سب سے
اعلیٰ درجہ کی اصلاح متصور ہوگی۔
11۔ اس سے اتر کر ایک اوسط درجہ کی اصلاح ہونی چاہئے ۔ وہ یہ ہوگی کہ
مرد بضرورت دوستی صحت مستورات کو نقاب یا برقع پہنا کر اپنے ہمراہ ہوا خوری کےلئے باہر
ہے جانے کا دستور قائم کریں اور خرید فروخت کے ایسے معاملات میں بھی جو خاص عورتوں
کی پسند کے بموجب ہوتے ہیں اور خدمتگار وں کو بیسوی پھیرے کرنے پڑتے ہیں مستورات کو
برقع اوڑھ کر اپنے کسی عزیز کے ہمراہ بازار جانے میں کچھ عیب نہیں ہونا چاہئے ۔ یہ
امر خاص کو عورتوں کو اپنے لباس کے لئے پارچہ خرید کرنے میں جس کےلئے بار بار بے شمار
تھان گھرپر لاکر دکھانے پڑتے ہیں ونیز دیگر ضروری اشیا خانہ داری کی خرید میں بہت مفید
ہوگا ۔
12۔ موقعہ بیماری پر جب عورت کے کسی حصہ جسم کا طبیب کو دکھانا ضرور
ہوتو صرف اس قدر حصہ کا جس کے ملاحظہ کی اشد ضرورت ہو مناسب طریق سے روارکھا جائے جیسا
کہ تمام کتب فقہ سے اس امر کا جواز ثابت ہے۔
13۔خدمت گار وں او ردوکانداروں کے ہمراہ برقع اوڑھ کر گفتگو کرنا معیوب
نہ سمجھا جائے ۔گو شریعت نے باستثنا ئے چہرہ کل جسم کو چھپا کر جملہ غیر محرم اشخاص
کے روبرو ہونے کی اجازت دی ہےلیکن ہم فی الحال بلحاظ مصلحت زمانہ اس وسیع دائرہ کو
سی قدر تنگ کرنا مناسب سمجھتے ہیں ۔ذیل میں ہم ان رشتہ داروں کی فہرست دیتے ہیں جن
سے بلحاظ یگا نگت وعزیز داری پردہ کرنے میں سخت ہرج اور تکلیف ہے اور یہ امر باعث قطع
محبت و کمی ہمدردی ہوتا ہے ان رشتہ داروں میں کوئی پردہ سوائے شرعی پردہ کے جس کی تفصیل
اوپر گذری نہیں ہو ناچاہئے ۔
الف: کسی عورت کاپردہ اپنے
چچا زاد بھائی ۔ یا پھوپھی زاد بھائی ۔ یا ماموں زاد بھائی یا خالہ زاد بھائی سے نہیں
ہوناچاہئے۔
ب: کسی عورت کا پردہ اپنے
حقیقی خسر یا چچیا خسر یا چھپھیا خسر یا خلیا خسر سے نہیں ہونا چاہئے ۔یعنی شوہر کے
باپ یا شوہر کے چچا یا شوہر کے پھوپھا یا شوہر کے ماموں یا شوہر کے خالوں کے روبرو
ہونے میں بالکل عیب متصور نہیں ہونا چاہئے ۔
ج: کسی عورت کا پردہ اپنے
شوہر کے حقیقی بھائی یا چچاز اد بھائی یا پھوپھی زاد بھائی یا خالہ زاد بھائی یا ماموزاد
بھائی سے نہیں ہوناچاہئے ۔
د: ساس اور ساس کی بہنوئی
کا پردہ داماد سے نہیں ہونا چاہئے ۔
ر: سالی کا پردہ بہنوئی نہیں
ہونا چاہئے ۔
نکاح:
جب کہ عورتوں کے حقوق کا مردوں
کے حقوق کے برابر ہونا اور ان کی تعلیم کی ضرورت او ر احکام پردہ کابیان ہوچکا تو مناسب
ہے کہ اب ہم نکاح کے متعلق چند ضروری امور بیان کریں ۔ نکاح مرد اور عورت کی زندگی
میں ایک بڑا بھاری انقلاب ہے اور متاہلانہ زندگی بالکل ایک عجیب نئی قسم کی زندگی ہے
جس کی نسبت کسی طرح کا قیاس اس قسم کی زندگی کا تجربہ کئے بغیر حاصل نہیں ہوسکتا ۔
عورت اور مرد کے پیدا ہونے کی جو علت غائی ہے اس کا حصول نکا ح سے ہوتا ہے۔ سب جانتے
ہیں کہ وہ علت غائی حفظ نوع ہے۔ انسان کے سوا جس قد آور حیوانات ہیں ان میں بھی نر
او رمادہ کا پیدا کیا جانا بقائے نسل کے لئے
ہے مگر ان میں اور انسان میں جس کا عقل وتمیز سے مشرف کیا گیا ہے ایک یہ فرق عظیم ہےکہ
دیگر حیوانا ت کے بچے پیدا ہوکر ایسے بے بس اور والدین کی مدد کے محتاج اور محض بے
بس اور حیوانات سے بھی کم عقل ہوتا ہے ۔ انسان کے بچے کی پرورش محال ہوتی اگر نوع انسان
میں سے ہر ایک مرد کسی نہ کسی عورت کو مدت العمر کے لئے اپنے لئے مخصوص نہ کرلیتا اور
نیز تا وقت یہ کہ وہ مخصوص کردہ شدہ عورت اس مرد کےلئے حقیقی غمخوار او رمونس غمگسار
اور شریک غم وراحت نہ بن جاتی کسی مرد کا کسی عورت کو اس طرح دوام کےلئے علی الاعلان
مخصوص کرنا عرف شرع میں نکاح کہلاتا ہے مرد اورعورت میں حقیقی انس وشفقت کا ہونا اور
باہم ایک دوسرے کا غمخوار وغمگسار بننا اصلی مقصدنکاح یعنی حفظ نوع انسان کی تکمیل
کیلئے اس قدر ضروری ہے کہ وہ بچائے لوازم مقصد اصلی متصور ہوتے ہیں ۔ ایک بقائے نسل
انسان ۔(جاری)
بشکریہ روز نامہ صحافت ، ممبئی
URL: https://newageislam.com/urdu-section/false-authority-men-women-part-28/d/2184